ذہین افراد کم دوست کیوں بناتے ہیں؟

شاہد شاہنواز

لائبریرین
سائنسدانوں سے کیا دشمنی ہے جو انہیں فطین کی لسٹ سے خارج کر دیا؟ اصل فطین تو یہی لوگ ہیں۔
میں اصل اور نقل فطین کی بات نہیں کرتا۔ تخلیق کاروں کی مثال دی تھی اور اتفاق سے کتاب میں بھی سائنسدانوں کا تذکرہ موجود نہ تھا جس سے میں نے ذہین اور فطین کے بارے میں پڑھا تھا، اس لیے میں بھی نہ کرسکا۔ مجھے یاد آتا ہے کہ غالبا یہ 2003ء کے آس پاس کا ذکر ہے۔ بہرحال، سائنسدان، انجینئر اور ڈاکٹر بھی فطین ہوسکتے ہیں اگروہ تحقیق کے ساتھ ساتھ تخلیق پر بھی توجہ دیتے ہوں۔ مثال کے طور پر پاکستان میں کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں ہم سائنسدان کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں لیکن کیا انہوں نے کوئی ایک چیز بھی ایجاد کی یا کوئی ایسا نظریہ پیش کیا جس سے سائنس کی دنیا فائدہ اٹھا سکتی ہو۔ اس کے باوجود ہم ان کے فطین ہونے یا نہ ہونے کو اس بات سے مشروط نہیں سمجھتے۔ اس کا تعلق کوشش اور حصول سے ہے اور فطین لوگ ضروری نہیں کہ ہمیشہ ہی کچھ نہ کچھ حاصل کرتے رہیں۔ حصول کا عمل کم یا زیادہ ہوسکتا ہے جو تدبیر و تقدیر کا معاملہ ہے، جو بھی مناسب سمجھا جائے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اس اعتبار سے تو ہر فرد ذہین ہے اگر وہ فاتر العقل نہیں ہے۔ کیوں کہ ہر فرد میں کسی نہ کسی درجہ میں یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے۔
بے شک۔ ذہین تو ہر شخص ہے کیونکہ سب کا ذہن کام کرتا ہے اور یہ خدا کی عطا ہوتی ہے لیکن یہ صلاحیت کسی میں کم اور کسی میں زیادہ ہوتی ہے اور ہم کند ذہن، اوسط، ذہین اور فطین کی تعریفوں کے ضمن میں اس کا تذکرہ پہلے ہی کرچکے۔ عام مشاہدہ یہ ہے کہ چاہے کوئی شخص کتنا ہی کند ذہن کیوں نہ ہو، بہرحال وہ ایک جانور سے بہتر ہوگا کیونکہ سوجھ بوجھ کی جو صلاحیتیں انسان کو ودیعت کی گئی ہیں، کسی جانور کو حاصل نہیں۔
 

اے خان

محفلین
اففف 6 پیج بھر بھی گئے۔ذہین سب ہی ہیں مگر عارف صاحب زیادہ ہیں نا ان کے پاس دو دماغ ہیں۔
دو دماغ سے مجھے یاد آیا میں نے سنا ہے۔۔۔ ایک ایسا جانور بھی ہوتا جس کے دو دماغ ہوتے ہیں۔ کسی کو معلوم ہے اس بارے میں ۔۔ تو کیا وہ جانور بھی ذہین ہوگا؟
کیا اس جانور کا نام تو بندر ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اس تحقیق کی رو سے تو آسان سا فارمولا ہے پھر
جسکے دوست زیادہ وہ بے وقوف بقول تحقیق کے میں نہیں کہہ رہا اور جسکے کم وہ ذہین ۔ یہ تو کھلا تضاد ہے ۔۔
تحقیق میں زیادہ دوست بنانے والوں کو بے وقوف بھی نہیں کہا گیا۔ دوست زیادہ بنانا اچھی بات ہے اور دوستوں کی کمی اس بات کا اظہار ہے کہ آپ دوست بنانے میں الجھن کا شکار رہتے ہیں اور اس بات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں کہ کس کس کی رائے آپ کی رائے سے زیادہ تر مطابقت رکھتی ہے یا کون آپ کی باتوں کو برداشت کرسکتا ہے اور کون نہیں کرسکتا۔ جبکہ اگر غور کیا جائے تو دوستی میں یہ ضروری بھی نہیں کہ آپ ہر ایک کا کردار پرکھتے پھریں کہ کون آپ سے مطابقت رکھتا ہے اور کون نہیں رکھتا۔ بہتر تو یہ بات ہے کہ دوست بنانے میں لوگوں کے نیک اور صالح ہونے کو نظر میں رکھا جائے۔ یہ دیکھا جائے کہ کس کے اخلاق اچھے ہیں اور کس کا کردار آپ سے بہتر ہے اور اگر کسی کا کردار خود سے بہتر نہ لگے تو اس کی اصلاح کے لیے بھی اس سے دوستی کی جاسکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر وقت آپ کی رائے ہی درست ہو۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ آپ جس کی اصلاح کرنے نکلے ہوں وہ آپ سے بڑا مصلح بن کر سامنے آجائے اور آپ کو یہ بات بتائے کہ جس بات کو آپ اس کی خامی سمجھ رہے تھے، دراصل یہ اس کی خوبی تھی۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
کیا اس جانور کا نام تو بندر ہے۔
دو دماغ والا کوئی جانور دریافت نہیں ہوا، جبکہ پہلے
stegosaurus
کے بارے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس کے دو دماغ ہیں لیکن بعد میں یہ بات غلط ثابت ہوئی۔ یہ بات ریفرنس ڈاٹ کام پر لکھی ہے۔
بل نے کورا (Quora) پر لکھا کہ:
The brain is an enlarged ganglion at the front of the spinal cord. Some types of worms, including the leech, have an additional enlarged ganglion at the other end of the spinal cord, which is sometimes called a "tail brain". There were once speculations that some types of dinosaur also had a similar "tail brain", but those are now discounted.
یعنی کچھ کیڑے "دُم میں موجود دماغ" بھی رکھتے ہیں اور مندرجہ بالا ڈائنو سار کا ذکر بھی انہوں نے کیا ہے لیکن اب وہ معدوم ہوچکا ہے۔ لیکن اس کے بارے میں ریفرنس ڈاٹ کام نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ یہ بات بعد میں غلط ثابت ہوئی تھی۔ اب یہ دُم کے اندر کا دماغ کیا ہے، اس پر تحقیق بعد میں سہی، پہلے یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ دو سر والے بعض جانور جو پیدا ہوجاتے ہیں، مثلا دو سر والا سانپ، ان کے دماغ بھی دو ہوتے ہیں، لیکن ایسا تو دو ایک ساتھ جڑے ہوئے انسانی بچوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ کیا ان کے بارے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ دراصل ایک ہی انسان ہے اور اس کے دماغ دو ہیں؟ یقینا نہیں۔ کیونکہ وہ دو مکمل طور پر الگ انسان ہوتے ہیں۔ بس کچھ اعضاء جڑ جاتے ہیں اور بعض اوقات اعضاء کی کمی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح وہ دو سر والا سانپ بھی دراصل دو الگ الگ سانپ ہوتے ہیں، جہاں تک میرا اندازہ ہے۔ (اندازے اور حقیقت پر تحقیق و تفتیش ضروری ہے) ۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اففف 6 پیج بھر بھی گئے۔ذہین سب ہی ہیں مگر عارف صاحب زیادہ ہیں نا ان کے پاس دو دماغ ہیں۔
دو دماغ سے مجھے یاد آیا میں نے سنا ہے۔۔۔ ایک ایسا جانور بھی ہوتا جس کے دو دماغ ہوتے ہیں۔ کسی کو معلوم ہے اس بارے میں ۔۔ تو کیا وہ جانور بھی ذہین ہوگا؟
انسان کے بارے کہا جاتا ہے کہ اس کے تین دماغ یا دماغ نما ہیں، ایک سر میں موجود، ایک حرام مغز اور تیسرا جو آنتوں سے کام لیتا ہے
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
بیرونی دنیا کا ٹھیک سے مشاہدہ کیئے بغیر اندر کا وجدان بیدار نہیں ہوتا۔جو لوگ پیدائشی طور پر یا بچپن سے ہی اندھے، بہرے ہوتے ہیں وہ بھی جب تک بیرونی دنیا کا مختلف طرائق سے صحیح مشاہدہ نہ کر لیں، ذہین و فطین نہیں بن سکتے۔

بیرونی دنیا کا مشاہدہ اندر کے وجدان کو جگانے کے لیے ضروری نہیں ہے۔ اس کی مثال یوں لیجئے کہ مجھے نظر آتا ہے۔ میرے لیے ایک گیند گول ہے کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ وہ گول ہوتی ہے۔ اب ایک شخص جسے نظر نہیں آتا، وہ گول کو کیسے سمجھے؟ اسے پڑھانے کے مختلف طریقے ہیں، جیسے الفاظ کو ابھار کر اس کے ہاتھوں سے محسوس کروایا جاتا ہے۔ گیند ہاتھوں میں دے دی جاتی ہے تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ گول کا یہ مطلب ہے۔ اسی طرح ایک شخص بہرا یا گونگا ہے تو اسے اشاروں کی زبان سکھائی جاتی ہے جس سے وہ اپنا مدعا بیان بھی کرسکتا ہے اور دوسروں کی بات بھی سمجھ سکتا ہے۔ یہ الگ بات کہ ہم میں سے ہر ایک وہ زبان نہیں جانتا لیکن ہم میں سے ہر شخص اردو یا جرمن بھی تو نہیں جانتا۔ کیا اس کی وجہ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ زبان جاننا اور نہ جاننا دونوں برابر ہیں؟

محرومی یا معذوری ایک الگ بات ہے لیکن اندر کا وجدان اس سے آزاد چیز ہے۔ جہاں تک میرا اندازہ ہے، معذوری سے اندر کا وجدان متاثر تو ہوسکتا ہے یعنی اس کی کوئی الگ صورت نکل کر سامنے آئے گی جسے ہم عام لوگ جنہیں کوئی معذوری نہ ہو، سمجھنے سے قاصر بھی ہوسکتے ہیں۔

معذوری اندر کے وجدان کو متاثر کرتی ہے یا نہیں، اس پر تحقیق کی ضرورت ضرور ہے لیکن اندر کا وجدان بیدار ہی نہیں ہوتا، یہ نہیں کہا جاسکتا۔

ہیلن کیلر انیس ماہ کی عمر میں معذور ہوئی۔۔۔اور اس کی معذوری انتہائی درجے کی تھی ،لیکن وہ بے حد ذہین تھی۔
سب تو نہیں لیکن کچھ نابینا اور گونگے بہرے لوگ بھی بلا کے ذہین ہوتے ہیں۔

متفق۔ اندھے ، بہرے، گونگے لوگ عموما کم نہیں بلکہ زیادہ ہی ذہین یعنی فطین ہوتے ہیں۔ یہ قدرت کی ایسی عطا ہے جو ان کی معذوری کو معذوری نہیں رہنے دیتی اور اگر اس سے درست طریقے سے کام لیا جائے تو معذوری کا احساس تو دور، خوشی اور مسرت ہی نصیب ٹھہرتی ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
انسان کے بارے کہا جاتا ہے کہ اس کے تین دماغ یا دماغ نما ہیں، ایک سر میں موجود، ایک حرام مغز اور تیسرا جو آنتوں سے کام لیتا ہے
حرام مغز فوری ارادے کے لیے استعمال ہوتا ہے، یعنی جلتی ہوئی استری کی طرف ہاتھ جاتا ہے اور آپ کو اس کا علم نہ ہو تو گرمی محسوس ہوتے ہی جھٹکا سا لگتا ہے اور ہاتھ واپس لوٹ آتا ہے۔ یہ فیصلہ حرام مغز کرتا ہے، دماغ نہیں، لیکن آنتوں سے کام لینے والا دماغ ہم نے کہیں نہیں پڑھا۔
اس کے علاوہ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ ایک انسان کا شعور اور دوسرا لاشعور ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر انسان کی یادداشت چلی جائے تو وہ دراصل کہیں گم نہیں ہوجاتی بلکہ لاشعور میں چلی جاتی ہے اور بعد ازاں اس کی واپسی بھی ممکن ہے۔ (اس پر بھی تحقیق کی گنجائش ہے)۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
بیرونی دنیا کا ٹھیک سے مشاہدہ کیئے بغیر اندر کا وجدان بیدار نہیں ہوتا۔جو لوگ پیدائشی طور پر یا بچپن سے ہی اندھے، بہرے ہوتے ہیں وہ بھی جب تک بیرونی دنیا کا مختلف طرائق سے صحیح مشاہدہ نہ کر لیں، ذہین و فطین نہیں بن سکتے۔

بیرونی دنیا کا مشاہدہ اندر کے وجدان کو جگانے کے لیے ضروری نہیں ہے۔ اس کی مثال یوں لیجئے کہ مجھے نظر آتا ہے۔ میرے لیے ایک گیند گول ہے کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ وہ گول ہوتی ہے۔ اب ایک شخص جسے نظر نہیں آتا، وہ گول کو کیسے سمجھے؟ اسے پڑھانے کے مختلف طریقے ہیں، جیسے الفاظ کو ابھار کر اس کے ہاتھوں سے محسوس کروایا جاتا ہے۔ گیند ہاتھوں میں دے دی جاتی ہے تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ گول کا یہ مطلب ہے۔ اسی طرح ایک شخص بہرا یا گونگا ہے تو اسے اشاروں کی زبان سکھائی جاتی ہے جس سے وہ اپنا مدعا بیان بھی کرسکتا ہے اور دوسروں کی بات بھی سمجھ سکتا ہے۔ یہ الگ بات کہ ہم میں سے ہر ایک وہ زبان نہیں جانتا لیکن ہم میں سے ہر شخص اردو یا جرمن بھی تو نہیں جانتا۔ کیا اس کی وجہ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ زبان جاننا اور نہ جاننا دونوں برابر ہیں؟

محرومی یا معذوری ایک الگ بات ہے لیکن اندر کا وجدان اس سے آزاد چیز ہے۔ جہاں تک میرا اندازہ ہے، معذوری سے اندر کا وجدان متاثر تو ہوسکتا ہے یعنی اس کی کوئی الگ صورت نکل کر سامنے آئے گی جسے ہم عام لوگ جنہیں کوئی معذوری نہ ہو، سمجھنے سے قاصر بھی ہوسکتے ہیں۔

معذوری اندر کے وجدان کو متاثر کرتی ہے یا نہیں، اس پر تحقیق کی ضرورت ضرور ہے لیکن اندر کا وجدان بیدار ہی نہیں ہوتا، یہ نہیں کہا جاسکتا۔



متفق۔ اندھے ، بہرے، گونگے لوگ عموما کم نہیں بلکہ زیادہ ہی ذہین یعنی فطین ہوتے ہیں۔ یہ قدرت کی ایسی عطا ہے جو ان کی معذوری کو معذوری نہیں رہنے دیتی اور اگر اس سے درست طریقے سے کام لیا جائے تو معذوری کا احساس تو دور، خوشی اور مسرت ہی نصیب ٹھہرتی ہے۔
گیند گول دکھائی دینے کا سبب یہ ہے کہ آپ سہ بعدی دنیا میٰں رہنے والی سہ بعدی مخلوق ہیں۔ اس بات کو آپ بطور دلیل نہیں استعمال کر سکتے
 

قیصرانی

لائبریرین
حرام مغز فوری ارادے کے لیے استعمال ہوتا ہے، یعنی جلتی ہوئی استری کی طرف ہاتھ جاتا ہے اور آپ کو اس کا علم نہ ہو تو گرمی محسوس ہوتے ہی جھٹکا سا لگتا ہے اور ہاتھ واپس لوٹ آتا ہے۔ یہ فیصلہ حرام مغز کرتا ہے، دماغ نہیں، لیکن آنتوں سے کام لینے والا دماغ ہم نے کہیں نہیں پڑھا۔
اس کے علاوہ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ ایک انسان کا شعور اور دوسرا لاشعور ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر انسان کی یادداشت چلی جائے تو وہ دراصل کہیں گم نہیں ہوجاتی بلکہ لاشعور میں چلی جاتی ہے اور بعد ازاں اس کی واپسی بھی ممکن ہے۔ (اس پر بھی تحقیق کی گنجائش ہے)۔۔۔
میرا خیال ہے کہ یہ کسی مشہور نیوز سائٹ (بی بی سی، وائس آف جرمنی یا وائس آف امریکہ) پر پڑھا تھا۔ لنک مل گیا تو لگا دوں گا
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اففف 6 پیج بھر بھی گئے۔ذہین سب ہی ہیں مگر عارف صاحب زیادہ ہیں نا ان کے پاس دو دماغ ہیں۔
دو دماغ سے مجھے یاد آیا میں نے سنا ہے۔۔۔ ایک ایسا جانور بھی ہوتا جس کے دو دماغ ہوتے ہیں۔ کسی کو معلوم ہے اس بارے میں ۔۔ تو کیا وہ جانور بھی ذہین ہوگا؟
پودے بھی ذہین ہوتے ہیں ۔
البتہ یہ نہیں پتہ کہ ان کا دماغ کہاں ہوتا ہے ۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
گیند گول دکھائی دینے کا سبب یہ ہے کہ آپ سہ بعدی دنیا میٰں رہنے والی سہ بعدی مخلوق ہیں۔ اس بات کو آپ بطور دلیل نہیں استعمال کر سکتے
سہ بعدی دنیا میں تو شاید رہتے ہیں، لیکن سہ بعدی مخلوق نہیں ہیں۔(سوائے جسمانی ساخت و ضروریات کے ،کیونکہ) ۔
اگر ایسا ہوتا توہمارے حواس ظاہری کے ساتھ ساتھ باطنی حواس نہ ہوتے۔ اور ہم جو ٹائم اینڈ اسپیس (زمان و مکان) کی حد بندیوں کو توڑ سکتے ہیں، یہ حد بندیاں توڑنے کی صلاحیت ہم میں ہرگز موجود نہ ہوتی۔یہاں گیند کی مثال محض سمجھانے کی غرض سے تھی۔ ایسی اور بھی بہت سی مثالیں ہوسکتی ہیں لیکن ہم سہ بعدی کا دھیان نہ رکھیں تو یہاں موجود لوگوں کو شاید ہماری بات اتنی آسانی سے سمجھ میں نہ آسکے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
پودے بھی ذہین ہوتے ہیں ۔
البتہ یہ نہیں پتہ کہ ان کا دماغ کہاں ہوتا ہے ۔
دماغ تو نہیں، البتہ اس لنک سے ہمیں یہ ضرور علم ہوسکتا ہے کہ پودے مختلف باتوں کو کیسے سمجھتے اور ان پر ردِ عمل کیسے ظاہر کرتے ہیں:
Plant perception (physiology) - Wikipedia, the free encyclopedia
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
Quora میں ایک صاحب لکھتے ہیں کہ:
Plants don't really need nervous systems. They can "communicate" within their body via changes in water pressure and certain compounds like hormones, and can "communicate" with other plants in a limited way with chemicals too. Many animals do the same. Human bodies also use hormones for inter-cellular communication, in addition to nerves. .
یعنی پودوں کو اعصابی نظاموں کی فی الحقیقت ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ اپنے اجسام کے اندر ابلاغ کا عمل سرانجام دیتے ہیں جو پانی کے دباؤ اور کچھ مرکبات مثلا ہارمونز کے ذریعے ہوتا ہے اور دیگر پودوں سے بھی وہ اسی طرح ابلاغ کرتے ہیں جو محدود صورت میں کیمیکلز کی بناء پر ہوتا ہے۔ بہت سے جانور بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ انسانی اجسام بھی بین الخلیاتی ابلاغ کے لیے ہارمونز کا استعمال کرتے ہیں جو اعصاب کے علاوہ ہوتا ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
Quora میں ایک صاحب لکھتے ہیں کہ:
Plants don't really need nervous systems. They can "communicate" within their body via changes in water pressure and certain compounds like hormones, and can "communicate" with other plants in a limited way with chemicals too. Many animals do the same. Human bodies also use hormones for inter-cellular communication, in addition to nerves. .
یعنی پودوں کو اعصابی نظاموں کی فی الحقیقت ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ اپنے اجسام کے اندر ابلاغ کا عمل سرانجام دیتے ہیں جو پانی کے دباؤ اور کچھ مرکبات مثلا ہارمونز کے ذریعے ہوتا ہے اور دیگر پودوں سے بھی وہ اسی طرح ابلاغ کرتے ہیں جو محدود صورت میں کیمیکلز کی بناء پر ہوتا ہے۔ بہت سے جانور بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ انسانی اجسام بھی بین الخلیاتی ابلاغ کے لیے ہارمونز کا استعمال کرتے ہیں جو اعصاب کے علاوہ ہوتا ہے۔
یہ بات Matan Shelomiنے لکھی ہے ۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
حرام مغز فوری ارادے کے لیے استعمال ہوتا ہے، یعنی جلتی ہوئی استری کی طرف ہاتھ جاتا ہے اور آپ کو اس کا علم نہ ہو تو گرمی محسوس ہوتے ہی جھٹکا سا لگتا ہے اور ہاتھ واپس لوٹ آتا ہے۔ یہ فیصلہ حرام مغز کرتا ہے، دماغ نہیں، لیکن آنتوں سے کام لینے والا دماغ ہم نے کہیں نہیں پڑھا۔
اس کے علاوہ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ ایک انسان کا شعور اور دوسرا لاشعور ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر انسان کی یادداشت چلی جائے تو وہ دراصل کہیں گم نہیں ہوجاتی بلکہ لاشعور میں چلی جاتی ہے اور بعد ازاں اس کی واپسی بھی ممکن ہے۔ (اس پر بھی تحقیق کی گنجائش ہے)۔۔۔
اصل خبر تو ابھی تک نہیں ملی، مگر اس سے ملتی جلتی خبر یہ ہے
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اسے کہتے ہیں پوری خبر پڑھنا مگر اپنے مطلب کی ہی بات نکالنا، جو میں کر رہا ہوں۔ غور فرمائیے:
سب سے پہلی بات:
یہ نظام جسم میں موجود دیگر نظاموں کی طرح کلی طور پر دماغ سے موصول ہونے والے احکامات کی روشنی میں کام نہیں کرتا ہے بلکہ کسی حد تک خود مختار حیثیت میں کام کرتا ہے۔
۔۔۔ اگر یہ نظام خودکار ہوتا تو دماغ سے موصول ہونے والے احکامات وصول ہی نہ کرتا، لیکن یہ وصول کرتا ہے ، تاہم کسی حد تک خودمختار بھی کہا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ دماغ سر میں موجود ایک مرکزی کنٹرول سسٹم کہا جاسکتا ہے جبکہ یہ نظام اس کے مقابلے پر محض ذیلی اعصابی نظام ہے جسے دماغ کے مقابلے پر کھڑا نہیں کیا جاسکتا۔
اب ایک اور بات:

ماہرین کہتے ہیں کہ موٹاپے کو کنٹرول کرنے کیلئے اگر مرکزی اعصابی نظام کو انسان اپنے قابو مین کر لے تو ایسے میں وہ ذیلی اعصابی نظام اور اس سے جڑے نظام انہضام کو بھی اپنے قابو میں کرسکتا ہے۔
۔۔۔یعنی مرکزی اعصابی نظام زیادہ اہم ہے، ذیلی اعصابی نظام اور اس سے جڑا نظام انہضام اس کا ماتحت ۔۔۔کہاں ماتحت، کہاں دماغ، جو پورے انسانی جسم کا بادشاہ کہا جاتا ہے!!
 

قیصرانی

لائبریرین
اسے کہتے ہیں پوری خبر پڑھنا مگر اپنے مطلب کی ہی بات نکالنا، جو میں کر رہا ہوں۔ غور فرمائیے:
سب سے پہلی بات:
یہ نظام جسم میں موجود دیگر نظاموں کی طرح کلی طور پر دماغ سے موصول ہونے والے احکامات کی روشنی میں کام نہیں کرتا ہے بلکہ کسی حد تک خود مختار حیثیت میں کام کرتا ہے۔
۔۔۔ اگر یہ نظام خودکار ہوتا تو دماغ سے موصول ہونے والے احکامات وصول ہی نہ کرتا، لیکن یہ وصول کرتا ہے ، تاہم کسی حد تک خودمختار بھی کہا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ دماغ سر میں موجود ایک مرکزی کنٹرول سسٹم کہا جاسکتا ہے جبکہ یہ نظام اس کے مقابلے پر محض ذیلی اعصابی نظام ہے جسے دماغ کے مقابلے پر کھڑا نہیں کیا جاسکتا۔
اب ایک اور بات:

ماہرین کہتے ہیں کہ موٹاپے کو کنٹرول کرنے کیلئے اگر مرکزی اعصابی نظام کو انسان اپنے قابو مین کر لے تو ایسے میں وہ ذیلی اعصابی نظام اور اس سے جڑے نظام انہضام کو بھی اپنے قابو میں کرسکتا ہے۔
۔۔۔یعنی مرکزی اعصابی نظام زیادہ اہم ہے، ذیلی اعصابی نظام اور اس سے جڑا نظام انہضام اس کا ماتحت ۔۔۔کہاں ماتحت، کہاں دماغ، جو پورے انسانی جسم کا بادشاہ کہا جاتا ہے!!
پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے محض یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ اصل مضمون کی تلاش جاری ہے اور یہ بات واضح بھی لکھ دی تھی۔ باقی آپ جو مطلب چاہیں، نکال سکتے ہیں۔ اس سے کوئی کسی کو نہیں روک سکتا۔ شکریہ اور والسلام
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے محض یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ اصل مضمون کی تلاش جاری ہے اور یہ بات واضح بھی لکھ دی تھی۔ باقی آپ جو مطلب چاہیں، نکال سکتے ہیں۔ اس سے کوئی کسی کو نہیں روک سکتا۔ شکریہ اور والسلام
فی امان اللہ ۔۔۔ ملے تو ضرور بتائیے گا۔۔۔ ویسے گزشتہ پوسٹ جس کا آ پ نے جواب مرحمت فرمایا ہے، تنگ کرنے کے لیے ہی پوسٹ کی تھی۔ اس خبر کو پڑھ کر کوئی بھی شخص یہ نتائج باآسانی اخذ کرسکتا تھا۔ ہم نے کون سا تیر مارا۔۔۔؟
 
Top