بیرونی دنیا کا ٹھیک سے مشاہدہ کیئے بغیر اندر کا وجدان بیدار نہیں ہوتا۔جو لوگ پیدائشی طور پر یا بچپن سے ہی اندھے، بہرے ہوتے ہیں وہ بھی جب تک بیرونی دنیا کا مختلف طرائق سے صحیح مشاہدہ نہ کر لیں، ذہین و فطین نہیں بن سکتے۔
بیرونی دنیا کا مشاہدہ اندر کے وجدان کو جگانے کے لیے ضروری نہیں ہے۔ اس کی مثال یوں لیجئے کہ مجھے نظر آتا ہے۔ میرے لیے ایک گیند گول ہے کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ وہ گول ہوتی ہے۔ اب ایک شخص جسے نظر نہیں آتا، وہ گول کو کیسے سمجھے؟ اسے پڑھانے کے مختلف طریقے ہیں، جیسے الفاظ کو ابھار کر اس کے ہاتھوں سے محسوس کروایا جاتا ہے۔ گیند ہاتھوں میں دے دی جاتی ہے تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ گول کا یہ مطلب ہے۔ اسی طرح ایک شخص بہرا یا گونگا ہے تو اسے اشاروں کی زبان سکھائی جاتی ہے جس سے وہ اپنا مدعا بیان بھی کرسکتا ہے اور دوسروں کی بات بھی سمجھ سکتا ہے۔ یہ الگ بات کہ ہم میں سے ہر ایک وہ زبان نہیں جانتا لیکن ہم میں سے ہر شخص اردو یا جرمن بھی تو نہیں جانتا۔ کیا اس کی وجہ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ زبان جاننا اور نہ جاننا دونوں برابر ہیں؟
محرومی یا معذوری ایک الگ بات ہے لیکن اندر کا وجدان اس سے آزاد چیز ہے۔ جہاں تک میرا اندازہ ہے، معذوری سے اندر کا وجدان متاثر تو ہوسکتا ہے یعنی اس کی کوئی الگ صورت نکل کر سامنے آئے گی جسے ہم عام لوگ جنہیں کوئی معذوری نہ ہو، سمجھنے سے قاصر بھی ہوسکتے ہیں۔
معذوری اندر کے وجدان کو متاثر کرتی ہے یا نہیں، اس پر تحقیق کی ضرورت ضرور ہے لیکن اندر کا وجدان بیدار ہی نہیں ہوتا، یہ نہیں کہا جاسکتا۔
متفق۔ اندھے ، بہرے، گونگے لوگ عموما کم نہیں بلکہ زیادہ ہی ذہین یعنی فطین ہوتے ہیں۔ یہ قدرت کی ایسی عطا ہے جو ان کی معذوری کو معذوری نہیں رہنے دیتی اور اگر اس سے درست طریقے سے کام لیا جائے تو معذوری کا احساس تو دور، خوشی اور مسرت ہی نصیب ٹھہرتی ہے۔