بحث مقصود نہیں لیکن حضرت ابوہریرہؓ کا بلیاں پالنا تو آپ کے علم میں ہوگا۔ یہ کوئی ایسی بات ہوتی تو نبیﷺ ضرور اس سے منع فرماتے۔
مزید برآں سورۃ المائدہ میں حفاظت اور شکار کے لیے رکھے جانے والے کتوں کے شکار کی حلت بیان کی گئی ہے۔ یہ ناجائز ہوتا تو اللہ اس طرح ذکر نہ فرماتے۔
بلی کتے کی طرح نجس نہیں کہ اسکا جھوٹا سات بار دھو کر ہی طہارت پاتا ہے۔ بلی کو اس لیے پاک کر دیا گیا کہ گھروں مسجدوں میں دیوار سے کود کر داخل ہو جاتی ہے۔
سنن ابوداؤد
کتاب: پاکی کا بیان
باب: بلی کے جھوٹے کا بیان
حدیث نمبر: 75
ترجمہ:
کبشۃ بنت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے۔ وہ ابن ابی قتادہ کے عقد میں تھیں۔ وہ کہتی ہیں: ابوقتادہ ؓ اندر داخل ہوئے، میں نے ان کے لیے وضو کا پانی رکھا، اتنے میں بلی آ کر اس میں سے پینے لگی، تو انہوں نے اس کے لیے پانی کا برتن ٹیڑھا کردیا یہاں تک کہ اس نے پی لیا، کبشۃ کہتی ہیں: پھر ابوقتادہ ؓ نے مجھ کو دیکھا کہ میں ان کی طرف (حیرت سے) دیکھ رہی ہوں تو آپ نے کہا: میری بھتیجی! کیا تم تعجب کرتی ہو؟ میں نے کہا: ہاں، ابوقتادہ ؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: یہ نجس نہیں ہے، کیونکہ یہ تمہارے اردگرد گھومنے والوں اور گھومنے والیوں میں سے ہے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الطھارة ٦٩ (٩٢)، سنن النسائی/الطھارة ٥٤ (٦٨)، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٣٢ (٣٦٧)، (تحفة الأشراف: ١٢١٤١)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة ٣(١٣)، مسند احمد (٥/٢٩٦، ٣٠٣، ٣٠٩)، سنن الدارمی/الطھارة ٥٨ (٧٦٣) (حسن صحیح )
وضاحت: ١ ؎: یعنی رات دن گھر میں رہتی ہے اس لئے پاک کردی گئی ہے۔