جاسم محمد
محفلین
راناثناء اللہ کے انکشافات
جاوید چوہدری اتوار 23 مئ 2021
رانا ثناء اللہ ایک جید سیاست دان ہیں‘ یہ 31برسوں سے سیاست میں ہیں‘ میاں شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کے 10برسوں میں پنجاب کے وزیر قانون بھی رہے اور اہم سیاسی واقعات کے عینی شاہد بھی‘ ہم ان کی سیاسی غلطیوں پر تنقید کر سکتے ہیں لیکن جہاں تک ان کی جمہوری جدوجہد کا تعلق ہے تو ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی انھیں کریڈٹ دینا ہو گا۔
شاید یہی وجہ ہے یکم جولائی 2019 کو جب ان پر 15کلو گرام ہیروئن لاہور لے جانے کا الزام لگا تو پوری سیاسی اور صحافتی برادری میں کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں تھا جس نے اس الزام کو سچ سمجھا ہو‘ ہر شخص نے مذمت بھی کی اور رانا ثناء اللہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار بھی کیا۔
رانا ثناء اللہ ماڈل ٹائون سانحے‘ تحریک لبیک پاکستان کے دھرنوں اور ہیروئن اسمگلنگ الزامات میں نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا کا موضوع رہے‘ سانحہ ماڈل ٹائون پر بے تحاشا لکھا اور بولا جا چکا ہے لیکن تحریک لبیک پاکستان کے دھرنوں اور ہیروئن اسمگلنگ الزام پر بے شمار سوالوں کے جواب ابھی تشنہ ہیں چناں چہ میں نے تین دن قبل رانا صاحب سے رابطہ کیا‘ ہماری ملاقات ہوئی اور میں نے ان سے چند سوالات پوچھے‘ میں تاریخ درست کرنے کے لیے یہ جوابات آپ کے سامنے پیش کر رہاں ہوں‘ میں نے ان سے پوچھا’’ کیا یہ سچ ہے تحریک لبیک پاکستان میاں نواز شریف نے بنائی تھی‘‘ رانا صاحب کا جواب تھا‘ میاں نواز شریف یا ن لیگ کا ٹی ایل پی کی تشکیل میں کوئی ہاتھ نہیں تھا‘ اس نے ممتاز قادری کی گرفتاری اور سزائے موت سے جنم لیا تھا۔
علامہ رضوی نے 2017کے وسط میں تحریک لبیک پاکستان بنائی اور الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کرا لی‘ یہ رجسٹریشن کیسے ہوئی؟ ہم نہیں جانتے‘ ہم اگر اس زمانے میں اتنے ’’پاورفل‘‘ ہوتے تو ہم اسے رجسٹرڈ نہ ہونے دیتے ‘کیوں؟ یہ میں آپ کو آگے چل کر بتائوںگا‘ آپ کو یاد ہو گا میاں نواز شریف جولائی 2017میں ڈس کوالی فائی ہو گئے تھے‘ لاہور میں ان کا حلقہ این اے 120 خالی ہو گیا تھا اور ن لیگ نے مرحومہ کلثوم نواز کو وہاں سے الیکشن لڑانے کا فیصلہ کیا تھا۔
ہم جانتے تھے ٹی ایل پی این اے 120 میں ہمارے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا کرے گی اور یہ ہمارے ووٹ توڑے گی لہٰذا ہم اگر اس زمانے میں ’’تگڑے‘‘ ہوتے تو ہم ٹی ایل پی کو رجسٹرڈ ہی نہ ہونے دیتے‘ یہ بہرحال رجسٹرڈ ہوئی‘ اس نے شیخ اظہر رضوی کو اپنا امیدوار بنایا اور 17 ستمبر 2017 کے ضمنی الیکشن میں ٹی ایل پی نے سوا سات ہزار ووٹ لے لیے‘ کلثوم نواز جیت گئیں لیکن ٹی ایل پی ایک سیاسی قوت بن گئی اور اس نے 2018 کے الیکشنز میں پنجاب میں 18 لاکھ 88 ہزار240ووٹ لیے‘‘۔
میں نے ان سے پوچھا‘ آپ پر الزام ہے آپ نے نومبر2017 میں ٹی ایل پی کو اسلام آباد بھجوایا تھا‘‘ رانا صاحب نے کھلے دل سے اعتراف کیا’’یہ اعتراض درست ہے‘‘ تاہم ان کا کہنا تھا قومی اسمبلی نے اکتوبر 2017میں الیکشن ترمیمی بل پاس کیا تھا‘ اس میں امیدوار کے فارم میں تبدیلی کی گئی تھی‘‘ میں نے لقمہ دیا ’’آپ لوگوں نے ختم نبوت کی شق اڑا دی تھی‘‘ رانا صاحب نے جواب دیا ’’اس پر بہت کچھ کہا اور سنا جا چکا ہے ہم پرانی بحث میں نہیں الجھتے‘ میں آپ کو وہ بتاتا ہوں جو ابھی تک آپ کے سامنے نہیں آیا‘ ٹی ایل پی نے الیکشن ترمیمی بل کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔
حکومت پر دباؤ آیا‘ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی بنا دی‘ میرے مذاکرات ہوئے اور ٹی ایل پی نے یہ کمیٹی تسلیم کر لی لیکن یہ اس کے باوجود دھرنا دینا چاہتے تھے‘ ان کا پلان تھا یہ داتا دربار پر جمع ہوں اور قافلے کی شکل میں اسلام آباد جائیں‘ میں نے ان سے بات چیت کی اور یہ طے ہوا‘ یہ لوگ لاہور سے نکلیں گے‘ کسی جگہ توڑ پھوڑ نہیں کریں گے‘ ٹریفک بھی بلاک نہیں ہو گی‘ یہ اسلام آباد پہنچیں گے۔
راجہ ظفر الحق اپنی رپورٹ جاری کریں گے اور یہ لوگ تقریر کر کے اسی شام منتشر ہو جائیں گے‘ میں نے وفاقی حکومت کو بھی مطلع کر دیا اور راجہ ظفر الحق کو بھی اعتماد میں لے لیا‘ ہمیں اوکے کر دیا گیا اور یوں ہم نے ٹی ایل پی کو اسلام آباد جانے کی اجازت دے دی‘ یہ لوگ 6نومبر کو داتا دربار سے روانہ ہوئے اور یہ7نومبر 2017 کو فیض آباد پہنچ گئے‘ ہم نے ٹی ایل پی کے فیض آباد پہنچنے کے بعد راجہ ظفر الحق سے رابطہ کیا تو راجہ صاحب نے رپورٹ دینے سے انکار کر دیا‘ ان کا کہنا تھا‘ یہ ایمان کا مسئلہ ہے‘ مجھے سوچنے سمجھنے کے لیے وقت چاہیے۔
ہم سب کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے‘ میں نے راجہ ظفر الحق کے گھٹنوں تک کو ہاتھ لگایا لیکن راجہ صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے‘ میں نے لقمہ دیا ’’کیا پارٹی نے راجہ صاحب کو اس وجہ سے سینیٹ کا ٹکٹ نہیں دیا‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’اور بھی وجوہات ہیں لیکن یہ بھی ایک وجہ تھی‘‘ یہ رکے اور بولے ’’راجہ صاحب نے آج تک رپورٹ نہیں دی‘‘ میں نے ہنس کر پوچھا ’’کیا آپ اسے بھی ایک ٹائم بم سمجھتے ہیں‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’ہمارے ساتھ ملک میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے‘‘ یہ آگے بڑھے اور بولے ’’ہم پھنس چکے تھے۔
میں نے نئے سرے سے مذاکرات شروع کر دیے اور دو تین سیشنز میں ٹی ایل پی کی قیادت کو دھرنا ختم کرنے کے لیے راضی کر لیا‘ یہ مان گئے لیکن ان کا مطالبہ تھا اگر وفاقی وزیر قانون زاہد حامد استعفیٰ دے دیں تو ہم دھرنا ختم کر کے واپس چلے جائیں گے‘ میں نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے رابطہ کیا‘ انھوں نے وزیرداخلہ احسن اقبال‘ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور وزیر قانون زاہد حامد کو پنجاب ہائوس میں میرے پاس بھجوا دیا۔
میں نے صورت حال تینوں وزراء کے سامنے رکھی‘ احسن اقبال خاموش رہے اور زاہد حامد استعفیٰ دینے پر راضی ہو گئے لیکن خواجہ سعد رفیق نے انکار کر دیا‘ ان کا کہنا تھا ’’ ہم اگر آج بلیک میل ہو گئے تو ہم پھر ہر معاملے میں بلیک میل ہوتے چلے جائیں گے‘ خواجہ سعد رفیق کے انکار کے بعد زاہد حامد نے بھی اپنا فیصلہ واپس لے لیا یوں میں ناکام واپس آ گیا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا خواجہ صاحب نے اس میٹنگ میں آپ پر یہ الزام لگایا تھا آپ نے اپنی وزارت بچانے کے لیے ان لوگوں کو اسلام آباد بھیج دیا‘‘۔
رانا صاحب کا جواب تھا ’’یہ بات درست ہے لیکن میں نے جواب دیا تھا‘ میں صرف وزیرقانون ہوں‘ وزیراعلیٰ نہیں‘ میں نے جو کچھ بھی کیا وزیراعلیٰ کی مرضی سے کیا‘‘ میں نے پوچھا ’’وفاقی حکومت نے 25 نومبر2017 کو دھرنے پر پولیس آپریشن کیا‘ وہ آپریشن ناکام ہو گیا‘ کیا آپ اسے وفاقی حکومت کی غلطی سمجھتے ہیں‘‘ یہ بولے ’’ ہم اس سبکی سے بچ سکتے تھے‘ آپریشن کی ناکامی کے بعد حکومت کا بھرم بھی ٹوٹ گیا اور زاہد حامد کو مستعفی بھی ہونا پڑ گیا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ راجہ ظفر الحق اور خواجہ سعد رفیق کو اس کا ذمے دار سمجھتے ہیں‘‘ رانا صاحب نے جواب دیا ’’میں اس پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتا‘ میں نے اصل حقائق آپ کے سامنے رکھ دیے ہیں باقی فیصلہ آپ خود کر لیں۔
میں ہیروئن اسمگلنگ کیس کی طرف آ گیا‘ میں نے پوچھا ’’کیا رہائی کے بعد آپ کی محمد زبیر کی طرح آرمی چیف یا ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات ہوئی‘‘ ان کا جواب نفی میں تھا تاہم ان کا کہنا تھا’’ میں نے چیف جسٹس آف پاکستان‘ چیف آف آرمی اسٹاف اورانٹرنیشنل پارلیمنٹری یونین (آئی پی یو) کو خط لکھے تھے‘ ملک کے طاقتور اداروں کو محسوس ہوا میں انٹرنیشنل فورم پر ریاستی اداروں کے خلاف بات کروں گاچناںچہ مجھ سے رابطہ کیا گیا‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ سے کس نے رابطہ کیا‘‘ رانا صاحب کا جواب تھا’’میرا ایک عزیز ڈی پی او ہے۔
اس سے رابطہ کیا گیا اور یہ ایک آفیسر کو میرے پاس لے کر آیا‘‘ میں نے پوچھا ’’اور آفیسر نے آپ سے کیا کہا‘‘ رانا صاحب نے جواب دیا ’’وہ آفیسر مجھ سے آرمی چیف کے نام خط لے گیا‘ اس کا کہنا تھا آپ کا خط فوجی قیادت تک بھی پہنچ جائے گا اور ہم آپ کو جواب سے بھی مطلع کر یں گے‘‘ میں نے پوچھا ’’اور کیا آپ کو جواب ملا‘‘ یہ بولے ’’آج سوا سال ہو چکا ہے‘ مجھے کوئی جواب نہیں ملا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا یہ واحد رابطہ تھا‘‘ وہ بولے ’’نہیں‘ ایک رابطہ لاہور میں بھی ہوا تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’یہ کس سے ہوا تھا؟‘‘ یہ بولے ’’میں سردست یہ نہیں بتانا چاہتا‘‘ ۔
میں نے پوچھا ’’آپ نے آرمی چیف کو خط میں کیا لکھا تھا‘‘ یہ بولے ’’میں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی تفصیل بتائی تھی‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کس کو ذمے دار سمجھتے ہیں‘‘ یہ بولے ’’حکومت کو‘ وزیراعظم نے خود کہا تھا‘ میں رانا ثناء اللہ کو مونچھوں سے پکڑ کر جیل میں ڈالوں گا لیکن یہ بھی سچ ہے حکومت نے ریاستی ادارے کو استعمال کیا تھا اور ریاستی اداروں کو حکومت کے سیاسی معاملات میں استعمال نہیں ہونا چاہیے‘‘میں نے آخری سوال پوچھا ’’کیا آپ کو اپنے خطوط کا جواب ملا‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’مجھے انٹرنیشنل پارلیمنٹری یونین نے جواب دے دیا لیکن میرے اپنے کسی ادارے نے مجھے جواب کے قابل نہیں سمجھا‘ مجھے چیف جسٹس نے بلایا اور نہ ہی مجھے آرمی چیف سے کوئی جواب ملا‘‘۔
جاوید چوہدری اتوار 23 مئ 2021
رانا ثناء اللہ ایک جید سیاست دان ہیں‘ یہ 31برسوں سے سیاست میں ہیں‘ میاں شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کے 10برسوں میں پنجاب کے وزیر قانون بھی رہے اور اہم سیاسی واقعات کے عینی شاہد بھی‘ ہم ان کی سیاسی غلطیوں پر تنقید کر سکتے ہیں لیکن جہاں تک ان کی جمہوری جدوجہد کا تعلق ہے تو ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی انھیں کریڈٹ دینا ہو گا۔
شاید یہی وجہ ہے یکم جولائی 2019 کو جب ان پر 15کلو گرام ہیروئن لاہور لے جانے کا الزام لگا تو پوری سیاسی اور صحافتی برادری میں کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں تھا جس نے اس الزام کو سچ سمجھا ہو‘ ہر شخص نے مذمت بھی کی اور رانا ثناء اللہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار بھی کیا۔
رانا ثناء اللہ ماڈل ٹائون سانحے‘ تحریک لبیک پاکستان کے دھرنوں اور ہیروئن اسمگلنگ الزامات میں نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا کا موضوع رہے‘ سانحہ ماڈل ٹائون پر بے تحاشا لکھا اور بولا جا چکا ہے لیکن تحریک لبیک پاکستان کے دھرنوں اور ہیروئن اسمگلنگ الزام پر بے شمار سوالوں کے جواب ابھی تشنہ ہیں چناں چہ میں نے تین دن قبل رانا صاحب سے رابطہ کیا‘ ہماری ملاقات ہوئی اور میں نے ان سے چند سوالات پوچھے‘ میں تاریخ درست کرنے کے لیے یہ جوابات آپ کے سامنے پیش کر رہاں ہوں‘ میں نے ان سے پوچھا’’ کیا یہ سچ ہے تحریک لبیک پاکستان میاں نواز شریف نے بنائی تھی‘‘ رانا صاحب کا جواب تھا‘ میاں نواز شریف یا ن لیگ کا ٹی ایل پی کی تشکیل میں کوئی ہاتھ نہیں تھا‘ اس نے ممتاز قادری کی گرفتاری اور سزائے موت سے جنم لیا تھا۔
علامہ رضوی نے 2017کے وسط میں تحریک لبیک پاکستان بنائی اور الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کرا لی‘ یہ رجسٹریشن کیسے ہوئی؟ ہم نہیں جانتے‘ ہم اگر اس زمانے میں اتنے ’’پاورفل‘‘ ہوتے تو ہم اسے رجسٹرڈ نہ ہونے دیتے ‘کیوں؟ یہ میں آپ کو آگے چل کر بتائوںگا‘ آپ کو یاد ہو گا میاں نواز شریف جولائی 2017میں ڈس کوالی فائی ہو گئے تھے‘ لاہور میں ان کا حلقہ این اے 120 خالی ہو گیا تھا اور ن لیگ نے مرحومہ کلثوم نواز کو وہاں سے الیکشن لڑانے کا فیصلہ کیا تھا۔
ہم جانتے تھے ٹی ایل پی این اے 120 میں ہمارے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا کرے گی اور یہ ہمارے ووٹ توڑے گی لہٰذا ہم اگر اس زمانے میں ’’تگڑے‘‘ ہوتے تو ہم ٹی ایل پی کو رجسٹرڈ ہی نہ ہونے دیتے‘ یہ بہرحال رجسٹرڈ ہوئی‘ اس نے شیخ اظہر رضوی کو اپنا امیدوار بنایا اور 17 ستمبر 2017 کے ضمنی الیکشن میں ٹی ایل پی نے سوا سات ہزار ووٹ لے لیے‘ کلثوم نواز جیت گئیں لیکن ٹی ایل پی ایک سیاسی قوت بن گئی اور اس نے 2018 کے الیکشنز میں پنجاب میں 18 لاکھ 88 ہزار240ووٹ لیے‘‘۔
میں نے ان سے پوچھا‘ آپ پر الزام ہے آپ نے نومبر2017 میں ٹی ایل پی کو اسلام آباد بھجوایا تھا‘‘ رانا صاحب نے کھلے دل سے اعتراف کیا’’یہ اعتراض درست ہے‘‘ تاہم ان کا کہنا تھا قومی اسمبلی نے اکتوبر 2017میں الیکشن ترمیمی بل پاس کیا تھا‘ اس میں امیدوار کے فارم میں تبدیلی کی گئی تھی‘‘ میں نے لقمہ دیا ’’آپ لوگوں نے ختم نبوت کی شق اڑا دی تھی‘‘ رانا صاحب نے جواب دیا ’’اس پر بہت کچھ کہا اور سنا جا چکا ہے ہم پرانی بحث میں نہیں الجھتے‘ میں آپ کو وہ بتاتا ہوں جو ابھی تک آپ کے سامنے نہیں آیا‘ ٹی ایل پی نے الیکشن ترمیمی بل کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔
حکومت پر دباؤ آیا‘ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی بنا دی‘ میرے مذاکرات ہوئے اور ٹی ایل پی نے یہ کمیٹی تسلیم کر لی لیکن یہ اس کے باوجود دھرنا دینا چاہتے تھے‘ ان کا پلان تھا یہ داتا دربار پر جمع ہوں اور قافلے کی شکل میں اسلام آباد جائیں‘ میں نے ان سے بات چیت کی اور یہ طے ہوا‘ یہ لوگ لاہور سے نکلیں گے‘ کسی جگہ توڑ پھوڑ نہیں کریں گے‘ ٹریفک بھی بلاک نہیں ہو گی‘ یہ اسلام آباد پہنچیں گے۔
راجہ ظفر الحق اپنی رپورٹ جاری کریں گے اور یہ لوگ تقریر کر کے اسی شام منتشر ہو جائیں گے‘ میں نے وفاقی حکومت کو بھی مطلع کر دیا اور راجہ ظفر الحق کو بھی اعتماد میں لے لیا‘ ہمیں اوکے کر دیا گیا اور یوں ہم نے ٹی ایل پی کو اسلام آباد جانے کی اجازت دے دی‘ یہ لوگ 6نومبر کو داتا دربار سے روانہ ہوئے اور یہ7نومبر 2017 کو فیض آباد پہنچ گئے‘ ہم نے ٹی ایل پی کے فیض آباد پہنچنے کے بعد راجہ ظفر الحق سے رابطہ کیا تو راجہ صاحب نے رپورٹ دینے سے انکار کر دیا‘ ان کا کہنا تھا‘ یہ ایمان کا مسئلہ ہے‘ مجھے سوچنے سمجھنے کے لیے وقت چاہیے۔
ہم سب کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے‘ میں نے راجہ ظفر الحق کے گھٹنوں تک کو ہاتھ لگایا لیکن راجہ صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے‘ میں نے لقمہ دیا ’’کیا پارٹی نے راجہ صاحب کو اس وجہ سے سینیٹ کا ٹکٹ نہیں دیا‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’اور بھی وجوہات ہیں لیکن یہ بھی ایک وجہ تھی‘‘ یہ رکے اور بولے ’’راجہ صاحب نے آج تک رپورٹ نہیں دی‘‘ میں نے ہنس کر پوچھا ’’کیا آپ اسے بھی ایک ٹائم بم سمجھتے ہیں‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’ہمارے ساتھ ملک میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے‘‘ یہ آگے بڑھے اور بولے ’’ہم پھنس چکے تھے۔
میں نے نئے سرے سے مذاکرات شروع کر دیے اور دو تین سیشنز میں ٹی ایل پی کی قیادت کو دھرنا ختم کرنے کے لیے راضی کر لیا‘ یہ مان گئے لیکن ان کا مطالبہ تھا اگر وفاقی وزیر قانون زاہد حامد استعفیٰ دے دیں تو ہم دھرنا ختم کر کے واپس چلے جائیں گے‘ میں نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے رابطہ کیا‘ انھوں نے وزیرداخلہ احسن اقبال‘ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور وزیر قانون زاہد حامد کو پنجاب ہائوس میں میرے پاس بھجوا دیا۔
میں نے صورت حال تینوں وزراء کے سامنے رکھی‘ احسن اقبال خاموش رہے اور زاہد حامد استعفیٰ دینے پر راضی ہو گئے لیکن خواجہ سعد رفیق نے انکار کر دیا‘ ان کا کہنا تھا ’’ ہم اگر آج بلیک میل ہو گئے تو ہم پھر ہر معاملے میں بلیک میل ہوتے چلے جائیں گے‘ خواجہ سعد رفیق کے انکار کے بعد زاہد حامد نے بھی اپنا فیصلہ واپس لے لیا یوں میں ناکام واپس آ گیا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا خواجہ صاحب نے اس میٹنگ میں آپ پر یہ الزام لگایا تھا آپ نے اپنی وزارت بچانے کے لیے ان لوگوں کو اسلام آباد بھیج دیا‘‘۔
رانا صاحب کا جواب تھا ’’یہ بات درست ہے لیکن میں نے جواب دیا تھا‘ میں صرف وزیرقانون ہوں‘ وزیراعلیٰ نہیں‘ میں نے جو کچھ بھی کیا وزیراعلیٰ کی مرضی سے کیا‘‘ میں نے پوچھا ’’وفاقی حکومت نے 25 نومبر2017 کو دھرنے پر پولیس آپریشن کیا‘ وہ آپریشن ناکام ہو گیا‘ کیا آپ اسے وفاقی حکومت کی غلطی سمجھتے ہیں‘‘ یہ بولے ’’ ہم اس سبکی سے بچ سکتے تھے‘ آپریشن کی ناکامی کے بعد حکومت کا بھرم بھی ٹوٹ گیا اور زاہد حامد کو مستعفی بھی ہونا پڑ گیا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ راجہ ظفر الحق اور خواجہ سعد رفیق کو اس کا ذمے دار سمجھتے ہیں‘‘ رانا صاحب نے جواب دیا ’’میں اس پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتا‘ میں نے اصل حقائق آپ کے سامنے رکھ دیے ہیں باقی فیصلہ آپ خود کر لیں۔
میں ہیروئن اسمگلنگ کیس کی طرف آ گیا‘ میں نے پوچھا ’’کیا رہائی کے بعد آپ کی محمد زبیر کی طرح آرمی چیف یا ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات ہوئی‘‘ ان کا جواب نفی میں تھا تاہم ان کا کہنا تھا’’ میں نے چیف جسٹس آف پاکستان‘ چیف آف آرمی اسٹاف اورانٹرنیشنل پارلیمنٹری یونین (آئی پی یو) کو خط لکھے تھے‘ ملک کے طاقتور اداروں کو محسوس ہوا میں انٹرنیشنل فورم پر ریاستی اداروں کے خلاف بات کروں گاچناںچہ مجھ سے رابطہ کیا گیا‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ سے کس نے رابطہ کیا‘‘ رانا صاحب کا جواب تھا’’میرا ایک عزیز ڈی پی او ہے۔
اس سے رابطہ کیا گیا اور یہ ایک آفیسر کو میرے پاس لے کر آیا‘‘ میں نے پوچھا ’’اور آفیسر نے آپ سے کیا کہا‘‘ رانا صاحب نے جواب دیا ’’وہ آفیسر مجھ سے آرمی چیف کے نام خط لے گیا‘ اس کا کہنا تھا آپ کا خط فوجی قیادت تک بھی پہنچ جائے گا اور ہم آپ کو جواب سے بھی مطلع کر یں گے‘‘ میں نے پوچھا ’’اور کیا آپ کو جواب ملا‘‘ یہ بولے ’’آج سوا سال ہو چکا ہے‘ مجھے کوئی جواب نہیں ملا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا یہ واحد رابطہ تھا‘‘ وہ بولے ’’نہیں‘ ایک رابطہ لاہور میں بھی ہوا تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’یہ کس سے ہوا تھا؟‘‘ یہ بولے ’’میں سردست یہ نہیں بتانا چاہتا‘‘ ۔
میں نے پوچھا ’’آپ نے آرمی چیف کو خط میں کیا لکھا تھا‘‘ یہ بولے ’’میں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی تفصیل بتائی تھی‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کس کو ذمے دار سمجھتے ہیں‘‘ یہ بولے ’’حکومت کو‘ وزیراعظم نے خود کہا تھا‘ میں رانا ثناء اللہ کو مونچھوں سے پکڑ کر جیل میں ڈالوں گا لیکن یہ بھی سچ ہے حکومت نے ریاستی ادارے کو استعمال کیا تھا اور ریاستی اداروں کو حکومت کے سیاسی معاملات میں استعمال نہیں ہونا چاہیے‘‘میں نے آخری سوال پوچھا ’’کیا آپ کو اپنے خطوط کا جواب ملا‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’مجھے انٹرنیشنل پارلیمنٹری یونین نے جواب دے دیا لیکن میرے اپنے کسی ادارے نے مجھے جواب کے قابل نہیں سمجھا‘ مجھے چیف جسٹس نے بلایا اور نہ ہی مجھے آرمی چیف سے کوئی جواب ملا‘‘۔