محدثہ

محفلین
فارسی اور اردو میں عربی کی نہج پر ’’مادہ‘‘ کا کوئی تصور نہیں، اور حروفِ اصلی کا اطلاق بھی یکساں انداز میں نہیں ہوتا بلکہ ہمیں اہلِ لغت کا تتبع کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً : مصدر جُستن (ڈھونڈنا) اور مضارع جُویَد میں صرف جیم مشترک ہے؛ مصدر خَرِیدن اور مضارع خَرَد میں خ، ر ؛ اردو کے مصدر جانا اور اس کے فعل ماضی گیا میں کوئی حرف مشترک نہیں۔
واضح رہے کہ : خَرَد (مذکورہ بالا) اور خِرَد (عقل) میں حروف بالکل یکساں ہیں تاہم یہ دو الگ الگ لفظ ہیں جن میں کوئی معنوی تعلق نہیں۔ اسی طرح خَر (فعل امر: تو خرید) اور خَر (گدھا) میں پورا لفظ متماثل ہونے کے باوجود معنوی لحاظ سے یہ دو الگ الگ لفظ ہیں۔
بہت شکریہ۔
مجھے فارسی اگر سیکھنا ہو تو کدھر کا رخ کیا جائے؟
اردو اور عربی کے متعلق بھی یہی سوال ہے۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
استاد محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب! (دامت برکاتکم العالیۃ)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے علم و فیوض سے ہمیں تاحیات استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ایک درخواست ہے۔۔
شعریت کیا ہوتی ہے؟ اس بارے میں اگر وضاحت اور تفصیل کے ساتھ رہنمائی فرمادیں تو نوازش ہوگی۔
ہندوستان کے مشہور نقاد شمس الرحمٰن فاروقی کی کتاب "شعر، غیر شعر اور نثر" کا مطالعہ فرمالیں۔
شعریت کیا ہوتی ہے؟
اس سوال کا تشفی بخش جواب ٓپ کو مل جائے گا۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
استاد محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب! (دامت برکاتکم العالیۃ)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے علم و فیوض سے ہمیں تاحیات استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ایک درخواست ہے۔۔
شعریت کیا ہوتی ہے؟ اس بارے میں اگر وضاحت اور تفصیل کے ساتھ رہنمائی فرمادیں تو نوازش ہوگی۔
افلاطون کی مشہورِزمانہ کتاب Poetics کے بعنوان شعریات اُردو میں متعدد تراجم موجود ہیں جن میں سے ایک خود شمس الرحمٰن فاروقی نے کیا ہے۔
علاوہ ازیں نصیر ترابی کی کتاب شعریات بھی آپ کے مسئلے کا حل پیش کر سکتی ہے۔
کتاب: شعریات
مصنف: نصیر ترابی
ناشر: پیراماؤنٹ پبلشنگ انٹر پرائز
صفحات: 215
قیمت: 345 روپے
سنِ اشاعت:2012
سب سے پہلے یہ وضاحت کر دی جائے کہ معروف شاعر نصیر ترابی کی مرتب کردہ یہ کتاب محض عروض یا صنائع بدائع کے مباحث پر مبنی حدائق البلاغت جیسی کوئی تصنیف نہیں ہے بلکہ یہاں شعریات کا مفہوم بنیادی طور پر وہی ہے جو صدیوں پہلے ارسطو نے بوطیقا میں استعمال کیاتھا۔
سنسکرت، لاطینی اور کلاسیکی یونانی جیسی حنوط شدہ زبانوں کے صرفی و نحوی اصول و ضوابط چونکہ منجمد اور متحّجر ہو کر ایک حتمی شکل اختیار کر لیتے ہیں جن میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں ہوتا اس لیے اُن کا تجزیہ بھی آسان ہوتا ہے اور تدریس بھی۔ لیکن زندہ زبانوں کی صورتِ حال بہت مختلف ہے۔ اِن پر ایک طرف تو سیاسی، تجارتی اور معاشی سطح پر بین الاقوامی زبانیں اپنا اثر ڈالتی ہیں اور دوسری جانب روزمرہ استعمال کے میدان میں علاقائی بولیاں اِن پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
یہ سوال لسانیاتی سے زیادہ سیاسی نوعیت کا ہے کہ ایک قومی زبان کو کس حد تک اِن بین الاقوامی اور علاقائی دھاروں کے رحم و کرم پر چھوڑا جاسکتا ہے۔
اہلِ فرانس نے اپنی زبان کو شُدھ رکھنے کی خاطر قومی سطح کی کمیٹیاں تشکیل دے رکھی ہیں جو فرینچ زبان میں داخل ہونے والے نامناسب الفاظ و محاورات کی چھانٹی کرتی رہتی ہیں۔
لیکن انگریزی والوں نے اپنی زبان کو دنیا بھر کی زبانوں اور ثقافتوں سے استفادہ کرنے کی چھوٹ دے رکھی ہے چنانچہ آج امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جزائر غرب الہند کی انگریزی اپنے مشترکہ خزینہء الفاظ کے ساتھ ساتھ مخصوص علاقائی لفظالی سے بھی مالا مال ہے۔ اور پاک و ہند میں استعمال ہونے والی انگریزی کو بھی ’انڈین انگلش‘ کے علیحدہ زُمرے میں تسلیم کر لیا گیا ہے۔
اس پس منظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں پنپنے والی اُردو بھی ایک خود رو پودے کی طرح اپنے برگ و بار نکال رہی ہے اور اصولاً اُس کی نشو نما کے بارے میں کسی طرح کی پریشانی کا کوئی جواز نہیں ہے لیکن عملاً صورتِ حال اس سے بہت مختلف ہے۔
کوئی بھی زبان جب اپنے ارتقاء کی اس منزل پہ پہنچ جاتی ہے جہاں اس کا ایک معیاری محاورہ متیعن ہو جاتا ہے تو پھر علاقائی دھارے اور عالمی اثرات اسکا کچھ نہیں بگاڑ سکتے بلکہ اس میں تنوع اور رنگا رنگی پیدا کرتے ہیں، جیسا کہ انگریزی کی مثال میں ہم نے دیکھا ہے لیکن گیسوئے اُردو تو ابھی منت پذیرِ شانہ ہے چنانچہ اس پر آرائش و زیبائش کے لئے پھُول پتیاں لگانا ایسا ہی ہے جیسے بال دھوئے بغیر اُن پر خوشبو چھڑک دی جائے یا گندے بالوں میں خوبصورت ریشمی ربن ڈال دیا جائے۔
اُردو کے بالوں میں کنگھی کرنے کی کوشش تو سترھویں صدی ہی سی جاری ہے۔ لیکن اصلاحِ زبان کا بِیڑا روائیتی طور پر وہی لوگ اُٹھاتے رہے ہیں جو شعر کو لسانی معائب سے پاک رکھنا چاہتے ہیں۔ انسیویں صدی میں واحد استثناء غالباً انشااللہ خان انشا ہیں جن کی دریائے لطافت میں دلی کے گلی کوچوں کی بولی ٹھولی کا تجزیہ بھی کیا گیا ہے اور عام آدمی کی بول چال کو حرفِ مطبوعہ کے مقابل لا کھڑا کیا گیا ہے۔
نصیر ترابی کی شعریات اصلاحِ زبان کی اُنہی کوششوں کے سلسلے کی کڑی ہے جو نمودِ اُردو سے لیکر آج تک مختلف شکلوں میں جاری رہی ہیں۔ لیکن ماضی کے مصلحین کا مسئلہ اگر یہ تھا کہ گلی محلّے کی زبان کے اردوئے معلّیٰ پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، تو آج کا مصلحِ زبان واویلا کر رہا ہے کہ ایف ایم ریڈیو، ٹی وی چینلوں اور ڈائجسٹ ٹائپ کے رسالوں نے اردو کی شکل بگاڑ کے رکھ دی ہے۔ چنانچہ نئی نسل کی توجہ صحتِ زبان کی طرف دلانا اشد ضروری ہے۔
نصیر ترابی کی تصنیف، شعر کی تعریف سے شروع ہوتی ہے۔ وہ شعر کہنے کےلیے پانچ عناصر کو ضروری قرار دیتے ہیں،
1 ) موزونیء طبع
2 ) شعری مطالعہ
3 ) زبان آشنائی
4 ) خیال بندی
5 ) مشقِ سخن
اسکے بعد وہ شاعر کی چار قسمیں گنواتے ہیں
1 ) بڑا شاعر
2 ) اہم شاعر
3) خوشگوار شاعر
4 ) محض شاعر
اُردو میں بڑے شاعر اُن کے نذدیک صرف پانچ ہیں:
میر، غالب، انیس، اقبال اور جوش۔
جبکہ اہم شاعروں میں وہ آٹھ نام گِنواتے ہیں:
یگانہ، فراق، فیض، راشد، میراجی، عزیز حامد مدنی، ناصر کاظمی اور مجید امجد۔
شعر و ادب کے ناقدین اس فہرست کو کاملاً مسترد کر سکتے ہیں یا اسکی ترتیب بدل کر اس میں ترمیم و اضافہ کر سکتے ہیں۔ لیکن زبان و بیان کے ایک مبتدی اور شعر و سخن کے ایک نو آموز طالبِ علم کے لیے اس طرح کی واضح درجہ بندی اور دو ٹوک تقسیم بڑی حوصلہ بخش اور کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔
کتاب کے دیگر اباب میں بھی مروجہ اصنافِ سخن، متروکہ اصناف، درست املا، تلفظ، تذکیرو ثانیت، واحد جمع، ُمنافات، مشابہ الفاظ، سابقے لاحقے، غلط العام الفاظ اور نافذہ اصطلاحات کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے اور نصیر ترابی نے اپنے مخصوص خوشگوار اور چُلبلے انداز میں ان خشک قواعدی موضوعات کو بھی اتنا دلچسپ بنا دیا ہے کہ گرامر سے بیزار کسی شخص کو بھی یہ کتاب تھما دی جائے تو ختم کئے بغیر اُٹھ نہیں سکے گا۔
کتاب میں جا بجا مشاہیرِ اردو کی تصنیفات سے انتہائی بر محل اقتباسات درج کیے گئے ہیں جن سے کتاب کی افادیت مزید بڑھ گئی ہے۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
مجھے پوری طرح تو معلوم نہیں، کہ یہ اصطلاح ابھی نئی ہے۔ تاہم میرا اندازہ ہے کہ:
شعریت سے مراد ہے وہ اوصاف جو شعر کو نثر اور کلامِ منظوم سے ممتاز کریں۔واللہ اعلم۔

شِعْرِیات {شِع (کسرہ ش مجہول) + رِیات} (عربی)
اسم نکرہ
[ترمیم]معانی
1. شاعری کا علم، اجزائے شعری، ہئیت شاعری۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
استاد محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب! (دامت برکاتکم العالیۃ)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے علم و فیوض سے ہمیں تاحیات استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ایک درخواست ہے۔۔
شعریت کیا ہوتی ہے؟ اس بارے میں اگر وضاحت اور تفصیل کے ساتھ رہنمائی فرمادیں تو نوازش ہوگی۔
شعریات . [ ش َ ع َ ری یا ] (ع اِ) ج ِ شَعَری ّ. (ناظم الاطباء). رجوع به شَعَری ّ شود. || جوجه های کرکس . (از اقرب الموارد).
 
شِعْرِیات {شِع (کسرہ ش مجہول) + رِیات} (عربی)
اسم نکرہ
[ترمیم]معانی
1. شاعری کا علم، اجزائے شعری، ہئیت شاعری۔

شعریات . [ ش َ ع َ ری یا ] (ع اِ) ج ِ شَعَری ّ. (ناظم الاطباء). رجوع به شَعَری ّ شود. || جوجه های کرکس . (از اقرب الموارد).

لسانی حوالے سے جناب فارقلیط رحمانی کے ارشادات بالکل بجا ہیں۔
تاہم جناب محمد اسامہ سَرسَری کا مقصود یہاں ’’شعریت‘‘ بطور اصطلاح ہے، اور میں نے اسی حوالے سے اپنی کم مایگی کا اعتراف کیا ہے۔
بہت آداب۔
 
مزمل شیخ بسمل صاحب!
2۔ حرف روی کی جامع اور مانع تعریف کیا ہے؟

روی کی جامع اور مانع تعریف کے لئے اچھا خاصہ وقت لیا جس کے لیے معذرت۔ کچھ مصروفیات اور مزاجی سستی اور کاہلی اور کبھی غفلت آڑے آتی رہی۔ آج سوچا کہ اسامہ بھائی کے اس قرض کو بھی چکا دیا جائے۔ واضح رہے کہ علم قافیہ ایک خشک علم ہے، پھر ہر عالم نے اپنے تجربات اور مشاہدات اور اپنے علم کے مطابق اس میں مختلف موضوعات میں ایک سے زائد آراء قائم کی ہیں، میرا تجربہ ہے کہ اگر کوئی انسان صرف حرفِ روی کے تمام پہلو سمجھ لے تو وہ علمِ قافیہ کا مکمل عالم بن سکتا ہے اس کے بعد تمام محاسن اور معائب کھل کر خود ہی سامنے آجاتے ہیں۔ تو بسم اللہ۔
حرف روی فضلائے عروض کے نزدیک
جان لینا بہتر ہے کہ متقدمین اور آئمہ نے حرفِ روی کی کوئی جامع تعریف نہیں کی ہر عالم نے حرف روی کے بیان میں اس کی تعریف کو بہت مختصر رکھا ہے، یہ شاید انکی اپنی ہی تشفی کی خاطر ہے بظاہر اور کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔

محقق طوسی جو عجمی عروض پر سند ہیں، معیارالاشعار میں روی کی تعریف صرف اتنی لکھتے ہیں:
”اما حرف روی حرفی است مکرر کہ بنائے قافیہ بروی است و ہر قصیدہ کہ بقافیہ منسوب باشد نسبتش بحرف روی کنند، مثلاً قصیدہ را کہ ضرب و سلب قافیہ باشد بائی خوانند، و قصیدہ را کہ حمل و رحل قافیہ باشد لامی خوانند“

کشن پرشاد بہادر نے مخزن القوافی میں صرف اتنا لکھا ہے:
”روی وہ حرف ہے جس کے بغیر قافیہ نہ ہوسکے، مدارِ قافیہ اسی حرف پر ہوتا ہے“

میر انشااللہ خان نے بھی ایک حرف کی تکرار کو حرف روی کہا ہے جو بیت کے آخر میں آتا ہے۔

یاس عظیم آبادی نے چراغ سخن میں لکھا ہے:
”روی قافیہ کے حرفِ آخر و اصلی کو کہتے ہیں یا وہ جو بمنزلہ حرف آخر کے ہو۔“

نجم الغنی نجمیؔ رامپوری نے بحرالفصاحت میں لکھا ہے:
روی اس حرفِ آخر کو کہتے ہیں جو مصرع یا بیت کے آخر میں واقع ہو، یہ حرف مکرر آتا ہے۔ قافیہ کی بنیاد اس پر ہے۔ اکثر اصلی ہوتا ہے اور بعض اوقات زائد کو بھی اصلی کے حکم میں لے لیتے ہیں۔

مرزا عسکری نے آئینۂ بلاغت میں لکھا ہے:
”قافیہ کی بنیاد روی پر ہے، بغیر اس کے قافیہ کا کوئی وجود نہیں، اسے قافیہ کی اصل اور اساس سمجھنا چاہئے۔
اس کی دو قسمیں ہیں۔
۱۔ روی مقید: روی ساکن ہے جو مصرع یا بیت کے آخر میں مکرر آئے۔
۲۔ روی مطلق: اسے کہتے ہیں جب روی کے بعد کوئی حرف ہو اور روی متحرک ہو۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد سب نے مثالیں لکھی ہیں جن کا فی الوقت محل نہیں۔
اب ہم حرف روی کو شاعری کی رو سے سمجھتے ہیں۔ تاکہ جو کچھ ان کتابوں نے اختصار سے لکھا ہے وہ ہمیں تفصیلی طور پر سمجھ آجائے۔ میں نے حرف روی کی تعریف کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے

حرف روی کیا ہے؟
۱۔ لفظ کا سب سے آخری حرف جو اصلی بھی ہو اور بنا کسی تغیر کے ہر شعر کے آخر میں آئے (یاد رہے کے زائد حروف ردیف میں شمار ہونگے۔ کیونکہ اس میں ردیف اصطلاحی کی تعریف صادق آتی ہے)۔ لفظ میں اصلی حروف کی پہچان بھی بہر حال مبتدیان کے لئے کوئی آسان نہیں، اس لئے میں نے اصلی اور زائد حروف کو سمجھنے کے لئے عبارت کو آسان اور قابل فہم بنانے کی پوری کوشش کی ہے۔
قافیہ میں اصلی حروف صرف وہ ہیں جو ”مصدرِ قافیہ“ میں آتے ہیں یعنی مصدرِ قافیہ اصلی حروف پر مشتمل ہوتا ہے اور زوائد سے پاک ہوتا ہے۔ کسی بھی لفظ کا مصدرِ قافیہ لفظ کا کم سے کم اور چھوٹے سے چھوٹا حصہ ہوتا ہے اور اس میں سے کسی حرف کو حذف کرنے سے لفظ بے معانی ہوجائے گا۔ مثلاً: نشانی، نشانوں، نشانیاں وغیرہ کا مصدرِ قافیہ ”نشان“ ہے۔ اب اس مصدر سے اگر مزید کوئی حرف کم کیا گیا تو لفظ بے معانی ہو جائے گا، اور لفظ ”نشان“ کے آگے کے جو بھی حروف ہیں وہ زائد ہیں، حرفِ روی مصدرِ قافیہ کا آخری حرف ہوتا ہے جو یہاں نون ہے۔ یا دوسری مثال میں دیکھیں مثلاً: دوستی، دوستیاں، دوستوں، دوستاں وغیرہ۔ اس میں بھی ظاہر ہے کہ مصدرِقافیہ لفظ کا سب سے چھوٹا حصہ ہوگا۔ اب ایک ایک حرف کرکے حذف کریں تو ایک وقت آئے گا جب صرف ”دوست“ رہ جائے گا۔ کیونکہ اس کے بعد کچھ بھی حذف کرنے سے لفظ یا تو بے معانی ہو جائے گا یا پھر کسی اور لفظ میں تبدیل ہوجائے گا، ہمیں نہ تو لفظ بے معانی کرنا ہے، نہ اس کے معانی کو بدلنا ہی مقصود ہے۔ اس لئے یہاں ہمارا مصدرِ قافیہ صرف ”دوست“ ہے اور حرفِ روی اسی طرح مصدرِ قافیہ کا سب سے آخری حرف یعنی ”ت“ ہے۔ حرف روی نون کے ساتھ میرؔ :
نکلے چشمہ جو کوئی جوش زناں پانی کا
یاد دہ ہے وہ کسو چشم کی گریانی کا
حرف روی الف کے ساتھ حسرتؔ موہانی:
کیا کہیے آرزو ئے دلِ مبتلا ہے کیا
جب یہ خبر بھی ہو کہ وہ رنگیں ادا ہے کیا​

”ادا“ اور ”مبتلا“ دونوں مصادرِ قافیہ ہیں اور الف حرفِ روی۔
  • ایسے الفاظ جن کے مصدرِ قافیہ میں آخری حرف ہائے مختفی ہو ان میں حرفِ روی ہائے مختفی سے ماقبل حرف ہوتا ہے۔ جیسے: غنچہ میں ”چ“، آشفتہ، سوختہ، گزشتہ وغیرہ میں ”ت“ اور تشنہ، افسانہ، فسانہ، نشانہ، خانہ وغیرہ میں ”نون“ حرفِ روی ہے۔ حرف روی ”ز“ کے ساتھ غالبؔ:
شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیز اندازہ تھا
تا محیطِ بادہ صورت خانۂ خمیازہ تھا​
  • فعل جیسے: لکھنا، پڑھنا، کھاتا، پیتا، سوتا، دیکھا، جانا، بوجھا وغیرہ میں پہلے نکتے والا اصول کارفرما ہے، یعنی حروف کو حذف کریں یہاں تک کہ لفظ کا سب سے چھوٹا حصہ با معانی باقی رہے اور اس کے بعد مزید کسی حرف کو حذف کرنے کی گنجائش نہ ہو۔ اس کا ایک آسان اور عام سا اصول سمجھا دیتا ہوں، جب بھی قافیہ کوئی فعل ہو تو اس فعل کا صیغۂ امر بنا دیجئے، صیغۂ امر مصدرِ قافیہ ہے۔ اس میں جو بھی آخری حرف ہو اسے بنا سوچے سمجھے روی کہہ دیجئے۔ مثلاً: ”پینا“ سے ”پی“ (ی حرف روی)، ”سوتا“ سے ”سو“ (واؤ حرف روی)، دیکھا اور بوجھا سے دیکھ اور بوجھ (کھ اور جھ حرف روی) علٰی ہٰذالقیاس۔ حرفِ روی لام کے ساتھ امیر مینائی:
کیا قصد جب کچھ کہوں اُن کو جل کر
دبی بات ہونٹوں میں منہ سے نکل کر
کسی اسم عام اور فعل دونوں میں حرفِ روی کی صورت ایک جیسی ہو تو ان دونوں کا خلط بھی عام ہے۔ میرؔ:
مر رہتے جو گل بن تو سارا یہ خلل جاتا
نکلا ہی نہ جی ورنہ کانٹا سانکل جاتا
خلل اور نکل دونوں میں حرفِ روی اصلی حرف لام واقع ہوا ہے۔ اور دونوں کا خلط روا ہے۔
حرف روی ”ر“ کے ساتھ داغؔ:
راہ دیکھیں گے نہ دنیا سے گذرنے والے
ہم تو جاتے ہیں، ٹھہر جائیں ٹھہرنے والے​
مجھے شاید یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ گذرنے اور ٹھہرنے وغیرہ میں گذر اور ٹھہر مصادر ہیں باقی حروف زائد ہیں۔ اس لئے حرفِ روی ”ر“ ہے اور ”نے والے“ ردیف کا حصہ ہے۔
اسی طرح حرف روی ”ر“ کے ساتھ میرؔ:
مشہور ہیں دنوں کی مرے بے قراریاں
جاتی ہیں لامکاں کو دل شب کی زاریاں
ر حرف روی اور باقی زائد حروف ”یاں“ ردیف کا حصہ ہیں۔
ان ساری مثالوں سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ قافیہ میں حرفِ روی اصل ہے۔ اور حرفِ روی کا تعین مطلعے میں ہی کر لیا جاتا ہے، غزل میں مطلعے کے بعد جو اشعار آتے ہیں ان میں حرف روی کا کوئی اعتبار نہیں، اور جو حرف روی مطلعے میں طے ہو گیا اسے پوری غزل میں یا نظم میں برقرار رکھنا ضروری ہے اور اسے نبھانا بھی ہوگا۔ اب جبکہ یہ واضح ہے کہ حرف روی قافیہ میں اصل ہے، تو یہ بھی ثابت ہوا کہ ایسی نظم جس میں حرفِ روی نہ ہو اس نظم کو سخت معیوب مانا جائے گا اور اس قافیہ کا کوئی وجود نہ ہوگا۔
بغیر حرف روی کے وصی شاہ:
سمندر میں اُترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
اتر میں ”ر“ روی ہے، اور پڑھ میں ”ڑھ“۔ روی مکرر نہیں ہے، ”تا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں“ ردیف ہے، اور قافیہ موجود ہی نہیں۔ اس لئے یہ شعر سخت معیوب اور شاعر کی علوم سے ناواقفیت کا روشن ثبوت ہے۔

نوشی گیلانی:
کُچھ بھی کر گزرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
برف کے پگھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے​
گزر اور پگھل۔ روی کا اختلاف۔ اس لئے یہاں بھی قافیہ کا کوئی وجود نہیں۔

پروین شاکر:
چہرہ میرا تھا، نگاہیں اُس کی
خامشی میں بھی وہ باتیں اُس کی
نگاہ اور بات۔ روی کا اختلاف ہے۔ اس لئے یہاں بھی کوئی قافیہ نہیں ہے۔ اسے اصطلاح میں ”ایطائے جلی“ کہا جاتا ہے۔

میرے خیال میں اتنی مثالیں اس موضوع کے لئے کافی اور تشفی بخش ہیں جو میں نے کھول کھول کر اور واضح طور پر بیان کردیا ہے۔ حرفِ روی کو لفظی ساخت کی بنا پر سمجھنا گو کہ ایک تفصیل طلب کام تھا لیکن میں نے اسے اپنی جانب میں بہت وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ہے، اب بھی اگر کوئی سوال ہو تو ضرور اظہار فرمائیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ میں اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوا۔

۲۔ پہلا نکتہ تو میں نے حرفِ روی کو مصدرِ قافیہ کے اعتبار سے بیان کردیا ہے اور اس کو آپ نے مثالوں کے ساتھ سمجھ لیا اور یہ بھی سمجھ لیا کہ لفظی اعتبار سے حرفِ روی کیا چیز ہے۔
روی کی دوسری صورت وہ ہے جس میں حرفِ اصلی کی بجائے حرفِ زائد کو حرفِ روی کا قائم مقام بنایا جاتا ہے، اور اس زائد حرف کو بھی حرفِ روی مان لیا جاتا ہے۔ تفصیل اس کی اس طرح ہے کہ مطلع میں اگر کسی مصرعے میں ایک قافیہ اپنے اصلی حرفِ روی کے ساتھ موجود ہے تو دوسرے مصرعے کے قافیہ میں کسی حرفِ زائد کو حرفِ روی شمار کرلیا جاتا ہے۔ اور اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ قافیہ میں کشادگی پیدا ہوجاتی ہے۔ مثلاً مطلعے میں ایک مصرعے میں لفظ ”مداوا“ قافیہ کیا، دوسرے مصرعے میں لفظ ”مچلنا“ کو قافیہ کردیا، گو کہ مچلنا میں حرفِ روی لام ہے اور باقی حروف زائد ہیں، لیکن ہم نے لفظ ”مداوا“ کے اصلی الف کا سہارا لے کر مچلنا کے زائد الف کو روی بنایا ہے۔ اسی طرح مطلعے میں ایک قافیہ ”دین“ رکھا، اور دوسرا ”زرین“ تو بھی درست ہے۔ گو کہ زرین میں اصل حرفِ روی ”ر“ ہے۔ مگر دین کے اصلی نون کا سہارا لے کر ہم نے زرین کے زائد نون کو حرفِ روی کے حکم میں لے لیا۔ لیکن واضح رہے کہ اگر دونوں مصرعوں میں زائد حرف کو حرفِ روی ٹھہرا لیا تو قافیہ شائگان یعنی ایطائے جلی ہو جائے گا، اور اگر دونوں مصرعوں میں اصل حرف کو حرفِ روی ٹھہرایا تو قافیہ درست رہے گا لیکن بعد کے تمام اشعار میں اصل حرفِ روی والے قوافی ہی لانے کی پابندی فرض ہوگی۔ اس کے برعکس اگر مطلعے میں ایک اصل اور ایک زائد حرفِ روی لائے تو آگے کے تمام اشعار میں یہ اختیار ہے کہ جہاں چاہیں اصل حرفِ روی لائیں، جہاں چاہیں زائد لائیں۔ ایک اصل اور ایک زائد روی کی مثال فرازؔ:
یہی بہت ہے کہ محفل میں ہم نشِیں کوئی ہے
کہ شب ڈھلے تو سحر تک کوئی نہیں کوئی ہے

یہ ہست و بود، یہ بود و نبود، وہم ہے سب
جہاں جہاں بھی کوئی تھا، وہیں وہیں کوئی ہے
مطلعے میں غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ”نشین“ کا نون اصل حرفِ روی ہے، جبکہ ”نہیں“ میں حرفِ روی ”ہ“ ہے، لیکن نشین کے نون کا سہارا لیکر نہیں کے نون کو حرفِ روی بنایا۔ اس کے خلاف اگر مطلعے میں ایک مصرعے میں ”نہیں“ اور دوسرے میں ”وہیں“ قافیہ ہوتا تو حرفِ روی ”ہ“ ٹھہرتا، اور اس ”ہ“ کا نبھانا فرض ہوجاتا جس سے قافیہ بھی تنگ ہوجاتا، لیکن اس حیلے سے فائدہ یہ ہے کہ اب اصلی اور زائد ہر دو طرح کے قوافی لائے جاسکتے ہیں۔ ایک اور مثال دیکھیں:
ہے عجب حال یہ زمانے کا
یاد بھی طور ہے بھُلانے کا
کاش ہم کو بھی ہو نصیب کبھی
عیش دفتر میں گنگنانے کا​

یہاں حرفِ روی نون ہے، حالانکہ بھلانا میں نون زائد ہے، لیکن ”زمانے“ کے اصلی نون کے سہارے سے بھلانے کے نون کو حرفِ روی کرکے قافیہ میں کشادگی پیدا کی گئی ہے۔ ورنہ اگر بھلانے کے ساتھ ”سلانے“ یا ”رلانے“ ہوتا تو قافیہ تنگ ہو جاتا، اور حرفِ روی لام ہوجاتا۔ اور اس کی پابندی بھی ضروری تھی۔ اگلے شعر میں قافیہ ”گنگنانے“ اسی حیلے کا فیضان ہے۔

طالبِ دعا:
مزمل شیخ بسملؔ
 
آخری تدوین:
ارے واہ مزمل شیخ بسمل صاحب! واہ کیا بات ہے۔
بہت بہت شکریہ جناب۔
جزاکم اللہ خیرا۔۔۔ ۔ اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔
آپ نے گویا مجھے یہ چودہ اگست کا تحفہ دیا ہے۔:)

چلیں ایسا ہی سمجھ لیں۔ لیکن یہ تحفہ نہیں ادھار تھا۔ جو ہم نے واپس کردیا ہے۔ :) :) :)
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
لسانی حوالے سے جناب فارقلیط رحمانی کے ارشادات بالکل بجا ہیں۔
تاہم جناب محمد اسامہ سَرسَری کا مقصود یہاں ’’شعریت‘‘ بطور اصطلاح ہے، اور میں نے اسی حوالے سے اپنی کم مایگی کا اعتراف کیا ہے۔
بہت آداب۔
حضورِ والا!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
واضح ہو کہ اس ناچیز، حقیر، فقیر سراپا تقصیر نے آنجناب کے کسی بھی فرمان سے سرِ مو انحراف نہیں کیا ہے۔
اور نہ ہی آنجناب کے کسی فرمان کی اہمیت گھٹانے کی کوشش کی ہے۔
اور اس بات سے بھی انکار نہیں کہ محمد اُسامہ سرسری صاحب کا مقصودیہاں ’’شعریت‘‘ بطور اصطلاح ہے،
یہ تو اتفاق تھا کہ چند روز قبل ہی ہم شعریت ہی کے موضوع پر ہم انٹرنیٹ پرتلاش وتحقیق کی منزلوں سے
گزر چکے تھے، لہٰذا یہ سوچ کر کہ اس میں سے کچھ شاید اُن کے بھی کام آجائے، جو کچھ ہم پا چکے تھے
موصوف کی نذر کردیا۔ ان معروضات میں سے بیشتر معلومات انٹر نیٹ ہی کی ہیں ہمارا اپنا کچھ نہیں۔
اور ہاں آنجناب سے زیادہ مجھے اپنی کم مایگی کا اعتراف ہے۔
 
آداب عرض ہے جناب فارقلیط رحمانی صاحب۔
ابھی کچھ مصروفیت ہے، یار دوست تعزیت کے لئے آ رہے ہیں۔ آپ کے مہیا کردہ لنکس کا تفصیلی مطالعہ کروں گا، ان شاء اللہ، اور اکتسابِ فیض بھی!
دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
آداب عرض ہے جناب فارقلیط رحمانی صاحب۔
ابھی کچھ مصروفیت ہے، یار دوست تعزیت کے لئے آ رہے ہیں۔ آپ کے مہیا کردہ لنکس کا تفصیلی مطالعہ کروں گا، ان شاء اللہ، اور اکتسابِ فیض بھی!
دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔
خدا خیر کر ے۔
تعزیت کس کی؟
اور خدانخواستہ کوئی سانحہ ہوا ہو تو ہمیں بھی مطلع فرمائیں۔کچھ ہم پر بھی کرم فرمائیں۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
جزاکم اللہ خیراً کثیراً
مزمل بھائی آپ کا کس منہ سے شکریہ ادا کریں۔
اگر آپ رہنمائی نہ فرماتے تو ہم اپنے ایک بزرگ سے تعزیت کرنے اور ان کی دلجوئی کر نے کے فریض+ہ سے بھی محروم رہ جاتے۔
بہت بہت شکریہ۔
 
مزمل شیخ بسمل بھائی! براہِ مہربانی مثنوی اور قطعہ کی تعریف آسان انداز میں بتائیے، مجھے شوقِ شاعری میں شامل کرنی ہے۔ جزاکم اللہ خیرا۔
مزمل بھائی! اس کا جواب پہلے دیں۔
پھر یہ بتائیں کہ خماسی سداسی اور سباعی میں سے ہر ایک کے کل کتنے ارکان ہیں۔
 
مزمل شیخ بسمل بھائی! براہِ مہربانی مثنوی اور قطعہ کی تعریف آسان انداز میں بتائیے، مجھے شوقِ شاعری میں شامل کرنی ہے۔ جزاکم اللہ خیرا۔

مختصر اور آسان عرض کروں تو:
مثنوی ایسی نظم یا ایسے اشعار ہیں جس کے دو مصرعے ہم قافیہ ہوں۔ ہر شعر کا اپنا قافیہ ہو اور ہر شعر کا قافیہ دوسرے سے جدا ہو۔

قطعہ سے مراد وہ دو، یا چند اشعار جو ایک مکمل مطلب رکھتے ہوں۔ یعنی بغیر مکمل قطعہ پڑھے ایک شعر کا مطلب سمجھ نہ آسکے، ایسے اشعار قطعہ کہلاتے ہیں۔
قطعہ کا مفہوم آجکل تھوڑا بدل گیا ہے، گو کہ پہلے کچھ اور تھا۔ پہلے قطعہ کی شرط یہ تھی کہ اس میں مطلع نہیں ہوگا، قطعہ غزل کے درمیان یا اس کا حصہ نہیں ہوگا۔ وغیرہ۔ لیکن اب قطعہ غزل کے درمیان بھی ہوتا ہے، اس میں مطلع بھی آ جاتا ہے۔ اور آج قطعہ کو صرف چار مصرعوں تک محدود کردیا گیا ہے جبکہ پہلے ایسی کوئی شرط نہیں تھی۔ سیکڑوں اشعار بھی قطعہ ہوتے تھے۔ مختصر یہ کہ ایک سے زائد ایسے اشعار جو مکمل پابند نظم تو نہ ہوں مگر ایک دوسرے سے ایسا تعلق رکھتے ہوں کے ایک شعر سے مطلب واضح نہ ہوتا ہو، بلکہ آدھی بات ایک شعر میں، اور آدھی دوسرے شعر میں کہی گئی ہو۔ ایسے اشعار قطعہ کہلاتے ہیں۔
 
مزمل بھائی! اس کا جواب پہلے دیں۔
پھر یہ بتائیں کہ خماسی سداسی اور سباعی میں سے ہر ایک کے کل کتنے ارکان ہیں۔

واضح رہے کہ سداسی کوئی رکن نہیں ہے۔
عروض میں خماسی اور سباعی وہ اصلی ارکان ہیں جن پر کوئی زحاف نہ لگا ہو، اور کسی علت پر انکا اثر نہ ہوا ہے۔ ایسے اصلی ارکان کی تعداد دس ہے۔ جن میں دو خماسی یعنی پانچ حروف والے ہیں:
۱۔ فعولن
۲۔ فاعلن۔
آٹھ سباعی یعنی سات حروف والے:
۳۔ مفاعیلن
۴۔ مستفعلن (مجموعی)
۵۔فاعلاتن (مجموعی)
۶۔ مفعولاتُ
۷۔ متفاعلن
۸۔مفاعلتن
۹۔ فاع لاتن (مفروقی)
۱۰۔ مس تفع لن (مفروقی)

اب انہی ارکان سے زحاف اور علت جیسے اوزاروں سے کاٹ پیٹ کر مختلف ارکان بنائے جاتے ہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
واضح رہے کہ سداسی کوئی رکن نہیں ہے۔
عروض میں خماسی اور سباعی وہ اصلی ارکان ہیں جن پر کوئی زحاف نہ لگا ہو، اور کسی علت پر انکا اثر نہ ہوا ہے۔ ایسے اصلی ارکان کی تعداد دس ہے۔ جن میں دو خماسی یعنی پانچ حروف والے ہیں:
۱۔ فعولن
۲۔ فاعلن۔
آٹھ سباعی یعنی سات حروف والے:
۳۔ مفاعیلن
۴۔ مستفعلن (مجموعی)
۵۔فاعلاتن (مجموعی)
۶۔ مفعولاتُ
۷۔ متفاعلن
۸۔مفاعلتن
۹۔ فاع لاتن (مفروقی)
۱۰۔ مس تفع لن (مفروقی)
اب انہی ارکان سے زحاف اور علت جیسے اوزاروں سے کاٹ پیٹ کر مختلف ارکان بنائے جاتے ہیں۔
برادر مزمل ۔ فاعلتن بھی کوئی حصہ ہوتا ہے کیا ؟
شاید کہیں یاد پڑتا ہے۔ نہ جانے کہاں ۔۔۔کوئی وضاحت اگر ہو تو خوب ہو ۔مثلا"
گرم فغاں ہے جرس ، اٹھ کہ گیا قافلہ
وائے وہ رہرو کہ ہے ، منتظرِ راحلہ
فاعلتن فاعلن ۔ فاعلتن فاعلن
 
Top