نعمان رفیق مرزا
محفلین
معزز قارئین، زیرِ نظر تحریر میں نے ماضی میں سوشل میڈیا (فیس بک) پر شائع کی تھی۔ وہاں کی نسبت یہاں زیادہ صاحبِ علم احباب ہیں۔ اس لیے بہتر تنقید میسر آنے کے زیادہ مواقع بھی ہیں۔ تو اسی نظریہ کے پیشِ نظر اسے یہاں بھی شائع کر رہا ہوں۔ براہ مہربانی خیال کیجیے گا کہ یہ دو حصوں میں ہے۔ دوسرا حصہ کچھ سوالات کے نتیجہ میں لکھنا پڑا۔
میری پچھلی تحریر پہ ایک دوست نے 'فضل' کے بارے سوال کیا۔ انھوں نے فضل کو صرف مادیت سے تحویل کیا۔ سوال کچھ اس طرح تھا کہ اگر فضل، فاضل کو واپس مل جاتا ہے، تو فاضل کو بہر صورت صاحبِ حیثیت ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ انھوں نے ایسے بیان کی اور دین سے حوالہ بھی دیا، جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ اوروں پہ کیا گیا فضل، خدا دوگنا چوگنا کر کے فاضل کو واپس لوٹاتا ہے، تواس طرح فاضل کو تو (دنیوی لحاظ سے) دن دوگنی، رات چوگنی ترقی کرنی چاہیے اور امراء میں شامل ہو جانا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ صرف صاحبِ حیثیت آدمی ہی فضل کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ تو پھر یہ جو درویش، فقیر لوگ ملتے ہیں، جو کہ صاحبِ حیثیت نہیں دِکھتے، یہ کس طرح کے فاضل ہوتے ہیں؟ کیا انھیں فضل دوگنا چوگنا ہو کے واپس نہیں ملتا؟
تو بات یوں ہے کہ خدا کے فضل کی تو بہت سی صورتیں ہیں۔ یہ مادی صورت میں تو واپس ملتا ہی ہے، لیکن اکثر اس کا بڑا حصہ "خیر" کی صورت میں بھی ہوتا ہے۔ یہ تو مانگنے والے کی مراد ہے، جس جنس کی چاہ ہو گی، وہ مل جائے گی۔ خدا فضل کو دوگنا چوگنا بھی کرتا ہے، پر ضروری نہیں کہ یہ اضافت مادی ہی ہو۔ بلکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بندے کہ خدا سے، مادیت کی نسبت "خیر" ہی زیادہ ملتی ہے اور یہ بہت زیادہ افضل درجے کا فضل ہے۔ خدا بندے کے کیے فضل کو، شوگر کوٹ کر دیتا ہے اور یہ شوگر کوٹنگ "خیر" کی چاش کی صورت میں ہوتی ہے۔ دیکھیں، آئنسٹاین نے اپنی میس-انرجی ایکویشن میں کہا کہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں اور ان دونوں کا آپس کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ خدا کا فضل بھی ایسا ہی ہے۔ جب یہ فاضل کو واپس آتا ہے، تو اُس کی ضرورت کے مطابق کی چیز اسے ملتی ہے۔ درویش، فقیر لوگوں کو مادیت (میس) سے کچھ زیادہ شغف نہیں ہوتا، سو انھیں "خیر" (انرجی) کی چاش زیادہ مل جاتی ہے۔ جتنی مادی مقدار تھوڑی ہو، تو بندے کو جان لینا چاہیے کہ باقی کی مقدار، خدا نے انرجی میں تبدیل کر کے بھیج دی ہے۔ یہی انرجی حقیقت میں، تصوف ہے، خدا سے قربت کا ذریعہ ہے۔ اس طرح، درویش، فقیر لوگ، دِکھنے میں صاحبِ حیثیت نہ بھی ہوں، لیکن "خیر" اور فضل سے بھر پور ہوتے ہیں۔ تو پتے کی بات یہ ہوئی کہ فضل دوگنا چوگنا ہو کر واپس تو ضرور آتا ہے، بس یہ ہم ہی کوتاہ ہوتے ہیں جو اسے مادیت میں تولتے ہیں اور تصوف والا حصہ نظر انداز کر دیتے ہیں۔حقیقت میں تو دینے والا بہت سخی اور بہت رحمت والا ہے۔
نعمان مرزا (میونخ)
رحمت اور فضل
خدا کی رحمت تو اس شخص پر ہے، جس کی طرف لوگ، مشکل وقت میں، مدد کی آس لگائیں، جسے خدا نے ایسے وسیلہ سے نوازا ہو کہ وہ لوگوں کو آسانی دے سکتا ہو۔ اور ہم سب پر ہی کسی نہ کسی صورت میں، اُس ذات (اللہ تعالیٰ) کی رحمت ہے۔ ہم کسی نہ کسی صورت میں، اوروں کو آسانی دے سکتے ہیں۔ اب یہ ہم پہ ہے کہ ہم اس رحمت کو اپنی اعلٰی ظرفی اور خدا کے احسان کے سہارے، اُس کے فضل میں تبدیل کریں یا اپنی کم ظرفی کے ہاتھوں اس سعادت اور نعمت (فضل) سے محروم ہو جائیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ خدا کے فضل کے معنی کسی کی مشکلات کا اس کے لیے بآسانی آسان ہو جانے کے ہیں۔ تو جو خدا کی رحمت کو، اس کے فضل میں تبدیل کر لے، وہ ناصرف اوروں کے لیے آسانی پیدا کر دیتا ہے، بلکہ اس پہ خود بھی خدا کا فضل ہو جاتا ہے۔ اوروں پہ کیا گیا فضل، اپنے آپ ہی واپس فضل کرنے والے کو لوٹ آتا ہے۔ تو دعا اور کوشش یہ ہونی چاہیے کہ خدا ہمیں آسانیاں تقسیم کرنے والا (فضل کرنے والا) بنائے، تا کہ ہماری اپنی مشکلات بھی ہمارے لیے آساں ہو جائیں۔ اسی رحمت کو فضل میں تبدیل کرنے والے، بعد ازاں مزید احسانِ الٰہی کے کارن مراتب کے زینے طے کرتے ہوئے، "دینے والے" بن جاتے ہیں، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو حکمِ الٰہی سے، اس کی خاص رحمت اور فضل "لینے والوں" میں بانٹتے ہیں۔حصہ دوم - سوال کے جواب میں
میری پچھلی تحریر پہ ایک دوست نے 'فضل' کے بارے سوال کیا۔ انھوں نے فضل کو صرف مادیت سے تحویل کیا۔ سوال کچھ اس طرح تھا کہ اگر فضل، فاضل کو واپس مل جاتا ہے، تو فاضل کو بہر صورت صاحبِ حیثیت ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ انھوں نے ایسے بیان کی اور دین سے حوالہ بھی دیا، جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ اوروں پہ کیا گیا فضل، خدا دوگنا چوگنا کر کے فاضل کو واپس لوٹاتا ہے، تواس طرح فاضل کو تو (دنیوی لحاظ سے) دن دوگنی، رات چوگنی ترقی کرنی چاہیے اور امراء میں شامل ہو جانا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ صرف صاحبِ حیثیت آدمی ہی فضل کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ تو پھر یہ جو درویش، فقیر لوگ ملتے ہیں، جو کہ صاحبِ حیثیت نہیں دِکھتے، یہ کس طرح کے فاضل ہوتے ہیں؟ کیا انھیں فضل دوگنا چوگنا ہو کے واپس نہیں ملتا؟
تو بات یوں ہے کہ خدا کے فضل کی تو بہت سی صورتیں ہیں۔ یہ مادی صورت میں تو واپس ملتا ہی ہے، لیکن اکثر اس کا بڑا حصہ "خیر" کی صورت میں بھی ہوتا ہے۔ یہ تو مانگنے والے کی مراد ہے، جس جنس کی چاہ ہو گی، وہ مل جائے گی۔ خدا فضل کو دوگنا چوگنا بھی کرتا ہے، پر ضروری نہیں کہ یہ اضافت مادی ہی ہو۔ بلکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بندے کہ خدا سے، مادیت کی نسبت "خیر" ہی زیادہ ملتی ہے اور یہ بہت زیادہ افضل درجے کا فضل ہے۔ خدا بندے کے کیے فضل کو، شوگر کوٹ کر دیتا ہے اور یہ شوگر کوٹنگ "خیر" کی چاش کی صورت میں ہوتی ہے۔ دیکھیں، آئنسٹاین نے اپنی میس-انرجی ایکویشن میں کہا کہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں اور ان دونوں کا آپس کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ خدا کا فضل بھی ایسا ہی ہے۔ جب یہ فاضل کو واپس آتا ہے، تو اُس کی ضرورت کے مطابق کی چیز اسے ملتی ہے۔ درویش، فقیر لوگوں کو مادیت (میس) سے کچھ زیادہ شغف نہیں ہوتا، سو انھیں "خیر" (انرجی) کی چاش زیادہ مل جاتی ہے۔ جتنی مادی مقدار تھوڑی ہو، تو بندے کو جان لینا چاہیے کہ باقی کی مقدار، خدا نے انرجی میں تبدیل کر کے بھیج دی ہے۔ یہی انرجی حقیقت میں، تصوف ہے، خدا سے قربت کا ذریعہ ہے۔ اس طرح، درویش، فقیر لوگ، دِکھنے میں صاحبِ حیثیت نہ بھی ہوں، لیکن "خیر" اور فضل سے بھر پور ہوتے ہیں۔ تو پتے کی بات یہ ہوئی کہ فضل دوگنا چوگنا ہو کر واپس تو ضرور آتا ہے، بس یہ ہم ہی کوتاہ ہوتے ہیں جو اسے مادیت میں تولتے ہیں اور تصوف والا حصہ نظر انداز کر دیتے ہیں۔حقیقت میں تو دینے والا بہت سخی اور بہت رحمت والا ہے۔
نعمان مرزا (میونخ)