الف عین
لائبریرین
فکر کے موتی
ذہن میں ہو گھنگھور اندھیرا
کالی کالی خوب گھٹائیں
پھر بے تاب تمناؤں کی
گرج گرج کر چمکے بجلی
چلنے لگے یوں سوچ کی آندھی
زن زن کی آوازیں آئیں
دروازے سے کھڑکی سے بھی
یوں جذبات پگھل اٹھیں کچھ
موسلہ دھار ہوں جوں برساتیں
یادوں کے سارے پرنالے
روتے روتے تھک سے جائیں
اس طوفان کے تھمنے پر
خوب برس کے کھلنے پر
اولتیوں سے گرتی ہیں
چھوٹی چھوٹی سی کچھ بوندیں
فکر کے موتی ننھے منے
بیچ رہے ہیں
رخسار کے تل زلف کے خم بیچ رہے ہیں
کیا خوب تراشے ہیں صنم بیچ رہے ہیں
یا مفت لٹاتے تھے کبھی خونِ جگر کو
یا دیکھئے اب لوح و قلم بیچ رہے ہیں
تزئین کے حامی تھے کبھی سرخیٔ مے سے
اب خود ہی در و بامِ حرم بیچ رہے ہیں
انمول تھے آدرش بنے تھے جو ہمارے
خود کو وہی بے دام و درہم بیچ رہے ہیں
کیا جانئے کیا ہوگیا اربابِ جنوں کو
سب زود و ذکا عقل و فہم بیچ رہے ہیں
شاعر تھے بہت خوب مگر شومیِ قسمت
بیٹھے ہیں چنا جور گرم بیچ رہے ہیں
ذہن میں ہو گھنگھور اندھیرا
کالی کالی خوب گھٹائیں
پھر بے تاب تمناؤں کی
گرج گرج کر چمکے بجلی
چلنے لگے یوں سوچ کی آندھی
زن زن کی آوازیں آئیں
دروازے سے کھڑکی سے بھی
یوں جذبات پگھل اٹھیں کچھ
موسلہ دھار ہوں جوں برساتیں
یادوں کے سارے پرنالے
روتے روتے تھک سے جائیں
اس طوفان کے تھمنے پر
خوب برس کے کھلنے پر
اولتیوں سے گرتی ہیں
چھوٹی چھوٹی سی کچھ بوندیں
فکر کے موتی ننھے منے
بیچ رہے ہیں
رخسار کے تل زلف کے خم بیچ رہے ہیں
کیا خوب تراشے ہیں صنم بیچ رہے ہیں
یا مفت لٹاتے تھے کبھی خونِ جگر کو
یا دیکھئے اب لوح و قلم بیچ رہے ہیں
تزئین کے حامی تھے کبھی سرخیٔ مے سے
اب خود ہی در و بامِ حرم بیچ رہے ہیں
انمول تھے آدرش بنے تھے جو ہمارے
خود کو وہی بے دام و درہم بیچ رہے ہیں
کیا جانئے کیا ہوگیا اربابِ جنوں کو
سب زود و ذکا عقل و فہم بیچ رہے ہیں
شاعر تھے بہت خوب مگر شومیِ قسمت
بیٹھے ہیں چنا جور گرم بیچ رہے ہیں