اسکین دستیاب رقعات عالمگیری

جاسمن

لائبریرین
Screenshot_2018-07-20_Ruqat_E_alamgier_pdf.png
 

غدیر زھرا

لائبریرین
میں اس فائل کو اوپن نہیں کر پا رہی پہلے تو ڈائریکٹ ویو لیتی تھی اب ایپ بھی ڈاؤنلوڈ کی اور اس کتاب کو ڈاؤنلوڈ کرنے کے باوجود یہ نہیں کھل رہی ۔ میں نے پہلے کبھی ڈراپ باکس استعمال نہیں کیا یا تو طریقہ واضح ہو جائے یا پہلے کی طرح سائٹ سے ویو کرنے کی سہولت مل جائے۔
 

نایاب

لائبریرین
میں اس فائل کو اوپن نہیں کر پا رہی پہلے تو ڈائریکٹ ویو لیتی تھی
شاید یہ فائل ایکسٹینشن کے بنا ہے اس لیئے ڈائریکٹ پریویو ممکن نہیں ہے ۔ آپ کو اسے ڈاون لوڈ کرنا ہوگا ۔ ویسے وقت ملتے ہی کوشش کرتا ہوں ہوں اسے پی ڈی ایف میں کنورٹ کر کے اپ لوڈ کر دوں ۔
بہت دعائیں
 

غدیر زھرا

لائبریرین
10

ابو المظفر محی الدین محمد اورنگ زیب بہادر عالمگیر شاہ غازی کا بیان ولادت سے پادشاہ ہونے تک


خانی خاں نے اپنی تاریخ میں لکّھا ہے:_
"اورنگ زیب ؁ 1028 ہ 1619ء میں پیدا ہوا۔ اس کی تاریخ ولادت "آفتاب عالمتاب" ہے۔ "پادشاہ نامہ" میں تاریخِ ولادت 15/ ذیقعدہ ؁ 1027ہ اور ظفر نامہ میں شبِ یکشںبہ 15 ذیقعدہ 1028 ہ درج ہے۔ وہ دوہودر جو اصل میں دوحد ہے اور جس کی وجہ تسمیہ ہم نے پہلے لکّھی ہے۔ وہ اُجین سے سو 100 میل پر اور بڑودہ سے شمال مشرق میں 70 میل پر واقع ہے) میں پیدا ہوا۔ جو صوبہ احمد آباد اور مالوہ کی سرحد پر ہے۔ ایامِ شاہزادگی میں بلخ، بدخشاں کی تسخیر میں اور قندھار و دکن کی مہمات میں اور مست جنگی ہاتھی سے لڑنے میں جو کام اُس سے ظہور میں آئے۔ وہ ہم نے ظفر نامہ صاحب قرآنی میں مفصّل بیان کر دئے ہیں اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ مگر بعض واقعات کو یہاں لکھنا ضروری ہے۔ جن سے معلوم ہو کہ عالمگیر کیونکر تخت نشین ہوا۔

شاہجہان کی علالت اور حصولِ سلطنت کےلئے داراشکوہ کی جدوجہد

شاہجہان 7/ ذی الحجہ؁ 1067ہ کو دارالخلافہ شاہجہان آباد (دہلی) میں بیمار ہوا۔ مرض کی شدّت سے روز بروز ضعف بڑھتا گیا۔ جس کے سبب سے وہ امورِ مملکت کے نظم و نسق میں مصروف نہ ہوا اور دستور کے موافق غسل خانہ میں بھی نہ آیا۔ اور نہ ہی خاص و عام کو اپنا چہرہ دکھایا۔ خلقِ خدا کو ہر روز اُس کی زیارت کی عادت تھی۔ جب وہ اس سے محروم ہوئے۔ تو ان کو اور خیالات پیدا ہوئے
 

غدیر زھرا

لائبریرین
11

دارا شکوہ اپنے آپ کو ولیعہد جانتا تھا۔ شاہجہان کے پاس سے کبھی جدا نہ ہوتا تھا۔ جب باپ عارضۂ جسمانی کے سبب سے ملک کا کام نہ کر سکا۔ تو سلطنت کا سارا اختیار اس نے خود اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ عقل سے وہ (داراشکوہ) عاری تھا۔ اس لئے اس نے تمام اطراف و حدود میں خبروں کا بھیجنا مسدود کر دیا۔ سرکاری آدمیوں کے خطوط اور نوشتوں کو پکڑ لیتا اور دربار کے وکلاء کو منع کر دیا کہ اطراف و اکناف میں اخبار و حقائق نہ لکھیں۔ ان کو محض تہمت اور جھوٹے الزام پر محبوس و قید کرتا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا۔ کہ اس مملکت کے کل صوبوں و بلاد میں شاہزادوں، امیروں بلکہ اکثر اہلِ دارالخلافہ کو یقین نہ تھا کہ بادشاہ زندہ و سلامت ہے۔ اس لئے ملک میں خلل پڑا۔ ہر گوشہ و کنارہ سے سرکشوں نے اور ہر سرکار و صوبہ میں متحردوں نے فتنہ و فساد کےلئے سر اُٹھایا اور مالگزاری بند کر دی۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک آئی کہ مراد بخش نے گجرات میں خود سری کا علم بلند کیا۔ تخت پر بیٹھا۔ اپنے نام کا خطبہ پڑھوایا اور سکّہ جاری کیا۔ شجاع نے یہی مسلک اختیار کیا۔ پٹنہ پر لشکر کشی کی۔ اور وہاں سے بڑھ کر بنارس میں آیا۔

جب داراشکوہ کے استقلال کو کمال ہوا۔ اسبابِ جاہ کی کثرت سے اس کو تکبر پیدا ہوا۔ وہ سپاہِ موفور کے ساتھ حضور میں رہتا تھا۔ اس علالت میں شاہجہان اس کا بڑا ملاحظہ کرتا تھا۔ قواء جسمانی کے سبب سے شاہجہان کے دماغ میں بھی خلل آ گیا تھا۔ وہ داراشکوہ کی خودسری کو روکتا نہ تھا۔ بلکہ اس کی استرضاء و خاطر داری سے انجاح مطالب و ملتمسات میں کوشش کرتا تھا۔

داراشکوہ کے دل میں عالمگیر کا بڑا رعب بیٹھا ہوا تھا۔ اور اس سے بہت ڈرتا تھا۔ اس نے شاہجہان کو بہلا پھسلا کر ان لشکروں کو طلب کیا۔ جو ولایتِ بیجاپور کی تسخیر کےلئے بطور کمک و امداداً بھیجے گئے تھے۔ یہ مطالبہ اُس وقت ہوا کہ بیجاپور پر یورش ہو رہی تھی۔ اور وہ فتح ہونے کے قریب تھا۔ اس سبب سے
 

غدیر زھرا

لائبریرین
12

اس مہم میں تاخیر ہوئی۔امراءِ عظام میں سے سواء معظم خاں، شاہ نواز خاں، اور نجابت خاں کے کوئی اور افسر اورنگ زیب کا حامی و مددگار نہ تھا۔
اب داراشکوہ نے اپنی صلاح کار اس میں دیکھی، کہ شجاع و مراد بخش کے مقدمۂ سرکشی و بغاوت کو ان کے دفع و استیصال کےلئے شاہی لشکروں کو بھیجنے کا بہانہ بنائے اور شاہجہان کی حین حیات میں اس کی استظہار سے ان دونوں کا کام تمام کرے اور پھر خاطر جمعی سے اپنے سارے لشکر اور کل بادشاہی لشکروں کو لے کر دکن کی طرف مصروف ہو۔ اور عالمگیر کا تعاقب شروع کرے۔ اس مدعا کے حاصل کرنے کےلئے وہ اکبر آباد کو اس سبب سے بہتر جانتا تھا کہ وہ مملکت کے وسط میں واقع تھا۔اور سارے خزانے و ذخیرے وہاں تھے۔ یہ باتیں سوچ کر اس نے شاہجہان کو اکبر آباد جانے کےلئے ترغیبیں دیں اور عین شدّتِ مرض میں، جس میں سکون و آرام کرنا چاہئے تھا۔ سفر کرایا۔

شاہجہان کا انتقال مکانی دہلی سے اکبر آباد میں
شجاع سے لڑنے کےلئے لشکر بھیجنا اور شجاع کا فرار


شاہجہان 20/ محرم ؁ 1068ہ کو شاہجہان آباد سے چلا اور 19/ صفر کو اکبر آباد میں پہنچا۔ یہاں داراشکوہ کھیل کھیلا۔ راجہ جے سنگھ کچواہہ کو امراء نامدار اور شاہی لشکر بیشمار کیساتھ روانہ کیا۔ توپخانہ اور کل اسباب محاربہ تیار کیا۔ اور اپنے بڑے بیٹے کو سپہ سالار مقرر کر کے شجاع سے لڑنے کےلئے اکبر آباد سے روانہ کیا۔ یہ لشکر بنارس سے گزر کر موضع بہادر پور میں آیا۔جو شہر سے ڈھائی کروہ پر گنگا کے کنارہ پر تھا اور شجاع وہاں مقیم تھا اور نوارہ بنگالہ اس کے پاس تھا۔ اس سے ڈیڑھ کروہ کے فاصلہ پر لشکر شاہی اترا اور دست و بُرد کی گھاٹ میں بیٹھا۔ راجہ نے 21/ جمادی الاولٰی کو تبدیلِ منزل اور تغیّر مکان کا بہانہ بنا کے کوچ کا آوازہ بلند کیا اور سحرگاہ جنگ و پیکار کےلئے سوار ہوا۔ اُس وقت شجاع بے پرواہ ہو کر
 

غدیر زھرا

لائبریرین
13

خواب آلود غفلت میں پڑا تھا۔ اس نے نہ صفوفِ رزم آراستہ کئے اور نہ ہی مقدمّاتِ حرب و قتال کی تمہید کی کہ صبح کے وقت لشکرِ شاہی اس کے لشکر پہ ناگہاں خدعہ و غدر کے طور پر حملہ آور ہوا۔ شجاع تھوڑی دیر لڑا۔ جب دیکھا کہ ہاتھ سے کام گیا۔ اور ہاتھ کام سے گیا۔تو خود بھاگ کر نوارہ میں آیا اور کشتی میں سوار ہو کر بھاگ گیا اس کا کل لشکر، خزانہ، توپخانہ، دواب( گھوڑے خچّر وغیرہ) اور کارخانہ تباہ و غارت ہوئے۔ وہ پٹنہ سے گزر کر مونگیر میں گیا۔ جب یہاں بھی لشکرِ شاہی نے اس کا تعاقب کیا۔ تو یہاں چند روز ٹھیر کر بنگالہ کی راہ لی۔ مونگیر سے پٹنہ تک ملک داراشکوہ کی اقطاع میں داخل ہوا۔شجاع کے گرفتار شدہ آدمی داراشکوہ نے اکبر آباد میں بلائے اور ان کی اہانت و تشہیر کر کے ان کے ہاتھ کاٹے۔ جس کے سبب سے بعض آدمی مر گئے۔

داراشکوہ کا لشکر مالوہ میں

جب داراشکوہ نے شجاع کے مقابلہ کےلئے سلیمان شکوہ کو بھیجا تھا۔ تو اس نے یہ سوچا کہ ایک لشکرِ عظیم مالوہ میں بھی بھیجنا چاہئے جو دکن کی راہ میں ہے اور یہ لشکر اُجین میں جو اس ولایت کا حاکم نشین ہے۔مقیم ہو کر اس کے قلعوں اور حدود کی حفاظت کرے اور دریائے نربدا کے اور اس کے گذرگاہوں کی ایسی نگہبانی کرے کہ دکن کی راہ مسدود ہو جائے۔ اس سے غرض یہ تھی۔ کہ عالمگیر اس طرف نہ آنے پائے۔ اس سے خوف کے مارے داراشکوہ کی جان نکلتی تھی۔ یہ تدبیر سوچ کر اس نے شاہجہان سے ایسے سخنانِ غرض آلود، مصلحت نما اور مقدمّاتِ غوایت آمیز فساد افزا کہے کہ شاہجہان نے اس کی اس تجویز کو مان لیا اور راجہ جسونت سنگھ راٹھور کو جو ہندوستان کے منتخب راجاؤں میں تھا۔ مالوہ روانہ کیا۔ امراء ذی شوکت اور بڑا لشکر، خزانۂ وافر اور بڑا توپخانہ ساتھ گیا۔ داراشکوہ یہ بھی چاہتا تھا۔ کہ مراد بخش کو بھی شجاع کی طرح شکست دے۔ تو اس نے شاہجہان
 

غدیر زھرا

لائبریرین
14

کی طبیعت کو اس سے ایسا برگشتہ کیا کہ وہ اس کے استیصال کے درپے ہوا۔ شاہجہان نے قاسم خاں کے ساتھ ایک جدا لشکر ہمراہ کیا۔ اور یہ تجویز کی کہ وہ راجہ جسونت سنگھ کے ساتھ اُجین جائے۔ اور وہاں پہنچکر اگر مصلحت ہو تو گجرات سے مراد بخش کو خارج کرنے کےلئے قاسم خاں متوجہ ہو اور نہیں تو راجہ جسونت سنگھ کے لشکر کا ضمیمہ بنے دونوں متفق ہو کر جو مہمّات پیش آئیں۔ اس کو سرانجام دیں۔

22/ ربیع الاوّل ؁ 1068 ہ کو شاہجہان کے پاس سے یہ لشکر روانہ ہوا۔ داراشکوہ نے باپ سے کہہ سنکر مملکت وسیع مالوہ کو بھی اپنے اقطاع میں لیا اور خواجہ محمد صادق اپنے بخشی دوم کو شائستہ فوج کے ساتھ مالوہ بھیجا۔ تا کہ وہ اس ولایت کا بندوبست کرے اور اس زمین کے زمینداروں کی ایسی استمالتِ قلوب کرے کہ وہ کار و پیکار کے وقت راجہ جسونت سنگھ کے کمکی بنجائیں۔
اب راجہ جسونت سنگھ اور قاسم خاں دونو اُجین پہنچے اور وہاں مقیم ہو کر صوبۂ مالوہ کا انتظام، قلعوں اور حدود کی حفاظت کرنے لگے۔ داراشکوہ اس انتظار میں تھا۔ کہ اگر سلیمان شکوہ اور اس کا لشکر جو شجاع سے لڑنے گیا ہے۔ آ جائے تو اس کو بھی اس ہئیت مجموعی سے اُجین بھیجے کہ دونو لشکر جمع ہو کر اس کی خاطر خواہ کام کریں۔ شجاع و مراد بخش کی سرکشی کے سبب سے اطراف کے آدمیوں نے بھی نافرمانی شروع کی۔ لیکن اورنگ زیب میں حلم، وقار اور عالی حوصلگی ایسی تھی کہ اس نے اپنے باپ کی رضاء جوئی و متابعت کی راہ سے باہر قدم نہیں رکھّا۔ اور سرکشی و نافرمانی کا خیال بھی نہیں کیا۔ داراشکوہ اورنگ زیب کے خلاف شاہجہان کے خاطر نشین ایسے مقدمات ناملائم، غرض آلود و امور غیر واقع وحشت انگیز کرتا تھا کہ رفتہ رفتہ شاہجہان کا مزاج اس سے ایسا منحرف ہو گیا تھا۔ کہ اورنگ زیب کے وکیل عیسیٰ بیگ کو جو شاہجہان کے دربار میں رہتا تھا۔ بغیر کسی جرم کے صادر ہونے کے محبوس کیا۔ اور اسکے مال و متاع کی ضبطی کا حکم دیا۔ مگر کچھ دنوں بعد اس ادا کو اپنے حق میں بُرا سمجھ کر اُسے قید سے رہا کیا اور خلعت دے کر اورنگ زیب کے پاس بھیجدیا۔
 

غدیر زھرا

لائبریرین
15

اورنگ زیب کو داراشکوہ سے کیوں نفرت تھی


اورنگ زیب کو داراشکوہ سے بڑی نفرت اس سبب سے تھی کہ داراشکوہ جس چیز کو تصّوف (ترکِ دنیا) جانتا تھا۔ اورنگ زیب اس کا الحاد سمجھتا تھا۔ داراشکوہ ہندوؤں کے آئین و دین کی طرف مائل تھا۔ برہمنوں، جوگیوں اور سنیاسیوں کے ساتھ صحبت رکھتا تھا۔ ان کو مرشدِ کامل اور عارفِ بحق و اصل سمجھتا تھا۔ اور ان کی کتاب وید کو آسمانی و خطابِ ربّانی جانتا تھا۔اور اس کو مصحفِ قدیم و کتابِ کریم خیال کر کے پڑھتا تھا۔ اور اس نے کمال اعتقاد کے سبب سے اطراف و اکنافِ ملک سے سنیاسی اور برہمن بڑی سعی سے جمع کئے تھے اور وید کا ترجمہ کرتا تھا۔ اور ہمیشہ اسی کام میں اپنے اوقات صرف کرتا تھا۔ اور بجائے اسماء حسناء الٰہی کے پربھو، جس کو ہندو اسمِ اعظم جانتے ہیں۔ ہندی خط میں الماس، یاقوت و زمّرد وغیرہ کے نگینوں پر نقش کرا کے پہنتا اور ان کو متبرّک جانتا، وہ اس کا معتقد تھا کہ ناقصوں کے واسطے تکلیف عبادت ہے اور عارف کامل کو عبادت درکار نہیں۔ اور اس کی دلیل آیۂ کریمہ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ بتلاتا تھا۔ اس لئے اس نے نماز، روزہ اور کل تکالیفِ شرعیہ کو خیر باد کہا۔ اس کے برعکس اورنگ زیب پاک اعتقاد تھا اور ہمیشہ دینِ مبین کی حمایت اور شرع حضرت سیّد المرسلینﷺ کی رعایت پیشِ نظر رکھنا وہ سمجھتا تھا کہ سلطنت و دولت کا مقصد ترویج شرع اسلام ہے نہ کہ شاہی و سروری حاصل کرنا۔ اور ہمیشہ لڑکپن اور جوانی میں اپنے اوقات کو فرائض، سنت و نوافل کی ادا میں صرف کرتا تھا۔ اور حتّٰی المقدور مراسمِ امر معروف و نہی عن المنکر میں کوشش کرتا تھا۔ وہ داراشکوہ کے عقائد کو ردّی اور اس کے اطوار کو باطل جانتا تھا۔ اس سبب سے اس کی حمیّت دینی و مسلمانی کی رگ حرکت میں آتی تھی۔ اور یہ بات سب پر روشن تھی کہ اگر داراشکوہ فرمانروائی و حکمرانی میں مطلق العنان ہو گیا۔ تو اس سے ارکانِ
 

غدیر زھرا

لائبریرین
16

شریعت میں خلل پڑیگا۔ اور صیت اسلام و ایمان کفر کے طنطنہ سے تبدیل ہو جائیگی

عالمگیر اورنگ آباد سے برہان پور میں

جب اورنگ زیب بیجا پور کے محاصرہ میں مصروف تھا۔ تو شاہجہان نے داراشکوہ کے کہنے سے اُس لشکر کو جو تسخیرِ بیجا پور کےلئے مامور تھا بلا لیا تو ناچار اورنگ زیب نے سکندر عادل شاہ بیجا پور سے صلح و صفائی کر کے ایک کروڑ روپے کی پیشکش نقد و جنس کی صورت میں بوعدۂ اقساط قبول کر لی اور اورنگ آباد میں آ گیا۔ جب اورنگ زیب کو معلوم ہوا کہ شاہجہان بیماری کی کوفت سے بے اختیار ہے اور داراشکوہ کی شرارتوں سے ملک میں فتنہ انگیزی ہو رہی ہے۔ تو اس نے یقین جان لیا۔ کہ والد ماجد پر ضعف کا ایسا غلبہ چھا گیا ہے کہ وہ مملکت کے کاموں کو سر انجام نہیں دے سکتا۔ اور حزم و احتیاط کے سبب سے داراشکوہ کے عنانِ اختیارات کو ڈھیلا کر رکّھا ہے اور اس سے محبت کا اظہار کرتا ہے۔ جس سے خوف یہ ہے کہ اگر چند روز اسی طرح گزرے تو ارکانِ سلطنت اور اساسِ خلافت میں ایسا خللِ عظیم پڑیگا۔ کہ پھر اس کا تدارک کسی وجہ سے نہیں ہو سکیگا۔ دین و دولت کا حفظ و ناموس اور امورِ مملکت و ملت کے اختلال کا جبر شاہانہ غیرت و حمیتِ مذہب میں مستور و مخفی ہے۔ اور یہ بھی متحقق ہے کہ اگر داراشکوہ کو مراد کے استیصال سے فرصت مل گئی اور وہ اس مہم سے فارغ ہو گیا۔ اور سلیمان شکوہ اور اس کا لشکر داراشکوہ سے مل گئے تو اس کو ایسی قوت و شوکتِ عظیم حاصل ہو گی۔ کہ وہ دکن کی مہم پر مصروف ہو جائیگا۔ اور چونکہ اس کی طبیعت و جبلّت میں کینہ جوئی و فساد انگیزی داخل ہے۔ اس کے ساتھ حلم و صفائی کچھ فائدہ نہیں دے گی۔ اس لئے اس جاہل بے خرد کے اعمال و افعال ناپسندیدہ پر صبر اور ملک و دولت کی شورش پر اس سے زیادہ تحمّل نہیں کرنا چاہئے۔ اور مناسب ہے کہ مجھ کو اورنگ آباد سے اکبر آباد والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہونا چاہئے۔ باپ کی خدمت میں
 

غدیر زھرا

لائبریرین
17

رہ کر امور ملک کا نظم و نسق اس طرح سر انجام دینا چاہئے کہ سلطنت کے ارکان و قواعد میں فتور واقع نہ ہو اور امور دولت سے داراشکوہ کا ہاتھ کوتاہ کرنا چاہئے۔ دہلی اس تمام فتنہ و فساد کا مصدر ہے اور سلطنت و حکمرانی کے گھوڑے خالی میدان میں دوڑا رہا ہے۔ شاہجہان کو اس کے تسلّط کی قید سے چھڑانا چاہئے۔

مراد بخش کے نام اورنگ زیب کا پیام

اورنگ زیب نے یہ بھی تجویز کیا کہ چونکہ مراد بخش نے اپنی خامی و بے حوصلگی سے اداہائے جاہلانہ کی ہیں۔ اس لئے اس کو اپنے ساتھ لے جا کر باپ سے اسکی تقصیرات کو معاف کرانا چاہئے۔ عالمگیر نامی میں تو فقط یہ لکّھا ہے۔ اور اس کو ہم نے ظفر نامہ میں بیان کر دیا ہے۔ اس عزیمت کی تصحیح کے بعد اورنگ زیب نے سوچا کہ میرا لشکر مالوہ کی راہ سے گزریگا۔ راجہ جسونت سنگھ اور قاسم خاں بڑے لشکروں کے ساتھ اُجین میں موجود ہیں۔ اور احتمال یہ ہے کہ داراشکوہ باپ کے پاس میرے جانے سے راضی نہ ہو گا۔ وہ ان کو اشارہ کریگا۔ کہ راہ میں میرے لشکر کو روکیں اور محاربہ و پیکار سے پیش آئیں۔ اور شاہجہان کے تخت کے قریب بھی داراشکوہ غصّہ و کینہ سے میرے لشکر سے مقابلہ کریگا۔ اس لئے مختصر سپاہ کے ساتھ اس سفر کو اختیار کرنا حزم و احتیاط کے قانون کے خلاف ہے اس لئے حزمِ شاہانہ اس کا مقتضی ہے کہ توقیر لشکر، سامانِ توپخانہ اور کل اسباب فوج آرائی اور لوازمِ نبرد آزمائی کے حاصل کرنے میں کوشش کرنا چاہئے۔ اور ایک لشکر جو اس مہم کےلئے مناسب ہو۔ فراہم کرنا چاہئے۔ اورنگ زیب نے اس پر توجہ کر کے تھوڑے دنوں میں ایک لشکرِ نمایاں و توپخانہ شاہاں تیار کر لیا۔ اور سپاہ کے سرداروں و افسرانِ اعلٰے کو مناصبِ عالیہ اور خطاب ہائے شائستہ عنایت کئے اور تنخواہیں بڑھا دیں۔
غرّہ جمادی الاولٰی ؁ 1060 ہ کو شاہزادہ محمد سلطان کو عنایت خاں کے ہمراہ
 

غدیر زھرا

لائبریرین
18

برسم منقلہ مقدمۂ لشکر بنا کے پہلے برہان پور روانہ کیا۔ پانچویں ماہ مذکور کو اپنا پیش خانہ خاندیس کی طرف روانہ کیا اور پادشاہزادہ محمد معظم کو دکن کی صوبہ داری پر متعین کیا۔ اور شاہزادہ محمد اکبر کو جو ابھی پیدا ہوا تھا۔ دولت آباد کے قلعہ میں اہلِ حرم کے ساتھ بھیجا اور مراد بخش کے نام فرمان بھیجا کہ تم گجرات سے مالوہ کی طرف متوجہ ہو اور جب ہمارا لشکر نربدہ سے پار ہو تو تم اس سے مل جاؤ اور شاہزادہ محمد اعظم کو اپنے ہمراہ لو۔ عالمگیر نے 12/ ماہ مذکور بروز جمعہ اورنگ آباد سے برہان پور کی طرف کوچ کیا۔ ایک منزل چل کر شاہزادہ محمد اعظم کو اورنگ آباد رخصت کیا۔ 25/ ماہ مذکور کو برہان پور میں آیا۔ شاہزادہ محمد سلطان، جو پہلے یہاں آ گیا تھا۔ باپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اورنگ زیب نے یہاں ایک مہینہ توقف کیا۔ اس اثناء میں عیسیٰ بیگ وکیل دربار، جس کو داراشکوہ نے قید کر کے چھوڑ دیا تھا۔ عالمگیر کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ اورنگ زیب نے مزاج پرسی کی۔ ایک درخواست باپ کی خدمت میں بھیجی تھی۔ اس کے جواب کے انتظار میں ایک مہینہ تک برہانپور میں توقف کیا۔ اس کو یہ امید تھی کہ شاید باپ کا عارضہ بالکل زائل ہو جائیگا اور صحتِ کامل ہو جائے گی۔ اور وہ مہمّات سلطنت کا نظم و نسق کرنے لگیگا۔ اس کے ضعف و آزار کے سبب سے فرمانروائی اور کشور ستانی کے دستور العمل میں بہت خلل آ گیا تھا۔ شاہجہان اپنے نفسِ نفیس سے از سرِ نو انتظام کریگا۔ اور داراشکوہ کے دستِ تصّرف و استقلال کو کوتاہ کریگا۔ اتنی مدّت تک وہ خبر مسرت اثر کے انتظار میں رہا کہ دربار سے حصولِ صحت و عافیتِ دائمی کا مژدہ سُنے۔ مگر جو اخبار متواتر آئے وہ اس کے ضد تھے۔ روز بروز مملکت میں فساد و اختلال پھیلتا جاتا تھا۔ اسی حال میں عیسیٰ بیگ جس کا ذکر اوپر ہوا۔ اکبر آباد سے آ گیا۔ اس نے دربار کے اخبار و حقائق، داراشکوہ کی فساد انگیزی، حکمرانی اور جہانداری اور بادشاہ کی بے اختیاری، جس طرح اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ عرض کیا۔ اس کے علاوہ راجہ جسونت سنگھ اُجین میں خاندیس کے ہمسایہ میں لشکر لئے موجود تھا۔
 

جاسمن

لائبریرین
عبدالصمدچیمہ
یہاں آئیے۔
اس کتاب کے اب تک دس سے 18 صفحات ہو سکے ہیں۔
آپ فہرست سے صفحہ نمبر 9 تک اور پھر 19 سے شروع کیجیے۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
دیر سے بلانے پہ معذرت خواہ ہوں۔
 
Top