روحانی اقوال

ساقی۔

محفلین
ایک بار حضرت سلمان علیہ السلام نے سارے پرندوں کو حکم دیا کہ وہ دربار میں حاضر ہوں۔ اور سب اپنا اپنا کمال جو وہ رکھتے ہیں بیان کریں*۔
چناچہ سارے پرندے حاضر ہو گئے اور سب نے اپنا اپنا کمال بیان کرنا شروع کیا۔ ہدہد کی باری آئی تو وہ کہنے لگا۔ "حضور! مجھ میں یہ کمال ہے کہ میں آسمان کی بلندیوں پر بہت اونچا اڑُتا ہوں۔
اور اتنی دور سے بھی زمین کے اندر کی تمام چیزوں کو دیکھ لیتا ہوں* اور بتا سکتا ہوں کہ زمین کے کس حصے میں پانی ہے اور کس حصے میں نہیں "۔
ہدہد کا بیان سن کر کوا بولا "اے اللہ کے پیغببر ! ہدہد جھوٹ بولتا ہے۔ اگر اس کی نظر اتنی ہی تیز ہے تو جب یہ جال میں پڑے ہوئے دانے کو دیکھ کر لپکتے ہوئے جال میں پھنس جاتا ہے۔ اس وقت جال اسے نظر کیوں نہیں آتا۔
اگر یہ سچا ہوتا تو یہ جال میں نہ پھنستا۔ "حضرت سلیمان علیہ اسلام نے ہدہد سے پوچھا "کوے کے اس اعتراض کا تمہارے پاس کیا جواب ہے " ہدہد نے عرض کیا۔ "یانبی اللہ! نظر تو میری واقعی اتنی ہی تیز ہے جتنی میں نے بتائی مگر جال میں پھنستے وقت میرى نظر پر
قضا اور تقدیرکا پردہ پڑ جاتا ہے "۔

-قصص الانبيأ
 

قیصرانی

لائبریرین
ایک بار حضرت سلمان علیہ السلام نے سارے پرندوں کو حکم دیا کہ وہ دربار میں حاضر ہوں۔ اور سب اپنا اپنا کمال جو وہ رکھتے ہیں بیان کریں*۔
چناچہ سارے پرندے حاضر ہو گئے اور سب نے اپنا اپنا کمال بیان کرنا شروع کیا۔ ہدہد کی باری آئی تو وہ کہنے لگا۔ "حضور! مجھ میں یہ کمال ہے کہ میں آسمان کی بلندیوں پر بہت اونچا اڑُتا ہوں۔
اور اتنی دور سے بھی زمین کے اندر کی تمام چیزوں کو دیکھ لیتا ہوں* اور بتا سکتا ہوں کہ زمین کے کس حصے میں پانی ہے اور کس حصے میں نہیں "۔
ہدہد کا بیان سن کر کوا بولا "اے اللہ کے پیغببر ! ہدہد جھوٹ بولتا ہے۔ اگر اس کی نظر اتنی ہی تیز ہے تو جب یہ جال میں پڑے ہوئے دانے کو دیکھ کر لپکتے ہوئے جال میں پھنس جاتا ہے۔ اس وقت جال اسے نظر کیوں نہیں آتا۔
اگر یہ سچا ہوتا تو یہ جال میں نہ پھنستا۔ "حضرت سلیمان علیہ اسلام نے ہدہد سے پوچھا "کوے کے اس اعتراض کا تمہارے پاس کیا جواب ہے " ہدہد نے عرض کیا۔ "یانبی اللہ! نظر تو میری واقعی اتنی ہی تیز ہے جتنی میں نے بتائی مگر جال میں پھنستے وقت میرى نظر پر
قضا اور تقدیرکا پردہ پڑ جاتا ہے "۔

-قصص الانبيأ
حکایاتِ گلستاں، بوستاں یا شاید حکایات رومی میں یہ پڑھا تھا لیکن وہاں عقاب کا تذکرہ تھا
 
فیس بک کا حوالہ ہی اس کو مشکوک بنانے کو کافی ہے :)
دراصل نقل کے لیئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہدہد زیادہ بلندی پر اڑتا نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ عقاب دانہ نہیں کھاتا ہے بلکہ گوشت از قسم سانپ، چوہا، مرغی کابچہ یا حشرات الارض میں سے زندہ چیزوں پرلپکتا ہے اور اس کو پنجوں میں لیکر اڑ جاتا ہے۔
اس حکایت میں عقل اور قیاس یہ کہتی ہے کہ کبوتر کا تذکر ہے اور میں نے بھی کبوتر کا ہی پڑھا تھا کیونکہ کبوتر آسمان کی بلندیوں پر اڑتا ہے۔
 
ﺷﮩﺮ ﺍﻭﺭ ﮔﺮﺩﻭ ﻧﻮﺍﺡ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﮐﺎ ﻋﺎﻟﻢ ﺗﮭﺎ۔ ﮔﺮﻡ ﻟﻮ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﻮ ﺟﮭﻠﺴﺎﺋﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﭘﯿﺎﺱ ﺳﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﺟﺎﻥ ﻟﺒﻮﮞ ﭘﺮ ﺁﺋﯽ ﭼﺎﻫﺘﯽ ﻫﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﺎ ﮔﮭﻮﮌﺍ ﺑﮭﯽ ﻣﺰﯾﺪ ﭼﻠﻨﮯ ﮐﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﺩﺳﺘﮏ ﺩﮮ ﮈﺍﻟﯽ . ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺩﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻭﺟﯿﮧ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺑﺎﻫﺮ ﻧﮑﻼ ﺟﺲ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﺎ ﮔﻤﺎﮞ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﺗﮭﺎ . ﺍﺳﮑﯽ ﺳﺮﻣﮕﯿﮟ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺮﯼ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ . ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﺍﻭﺭ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﺎﺛﺮﺍﺕ ﮐﭽﮫ ﻋﺠﯿﺐ ﺳﮯ ﻫﻮﺋﮯ . ﻟﯿﮑﻦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻫﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺗﺎﺛﺮﺍﺕ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﭼﮭﭙﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﺭﻫﮯ .

" ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ " ﻣﺴﺎﻓﺮ ﻧﮯ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﺎ ﺁﻏﺎﺯ ﮐﯿﺎ . ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﻫﻠﮑﯽ ﺳﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﺍﺑﮭﺮﯼ . " ﻭﻋﻠﯿﮑﻢ ﺍﻟﺴﻼﻡ ! ﺁﭖ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﻫﻮﺗﮯ ﻫﯿﮟ . ﺁﺋﯿﮯ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺁﺭﺍﻡ ﮐﯿﺠﺌﮯ . ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎ ﭘﯽ ﻟﯿﺠﺌﮯ " ﻣﺴﺎﻓﺮ ﺍﺱ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺳﮯ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﻫﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻻ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﻫﻮﮞ . ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻓﯽ ﭘﯿﺎﺱ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮ ﺭﻫﺎ ﻫﻮﮞ . ﻣﯿﺮﺍ ﭘﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﮐﺎ ﺫﺧﯿﺮﻩ ﺧﺘﻢ ﻫﻮ ﭼﮑﺎ ﻫﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺁﭘﮑﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﺩﺳﺘﮏ ﺩﯼ . ﻭﺟﮩﯿﮧ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺍﺱ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮐﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﻟﮯ ﺁﯾﺎ . ﺍﭘﻨﮯ ﻏﻼﻡ ﮐﻮ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮐﮯ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﮐﻮ ﮐﮭﻼﻧﮯ ﭘﻼﻧﮯ ﮐﯽ ﻫﺪﺍﯾﺎﺕ ﺩﮮ ﮐﺮ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮐﺎ ﻫﺎﺗﮫ ﻣﻨﻪ ﺩﻫﻼﯾﺎ ، ﺍﭘﻨﮯ ﻫﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺳﮑﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﻧﻮﺍﻉ ﻭ ﺍﻗﺴﺎﻡ ﮐﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭼﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺻﺮﺍﺭ ﮐﺮ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﮭﻼﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺌﮯ . ﺟﺐ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺍﺱ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺮﺗﻦ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺗﺎ ، ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺧﺠﺎﻟﺖ ﺳﯽ ﭼﮭﺎﻧﮯ ﻟﮕﺘﯽ . ﺟﺐ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎ ﭼﮑﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻣﺎﻧﮕﯽ .

ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺍﺳﮑﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﭼﮭﮯ ﺳﻔﺮ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺸﺎﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺧﻮﺩ ﺍﺳﮯ ﺑﺎﻫﺮ ﺗﮏ ﭼﮭﻮﮌﻧﮯ ﺁﯾﺎ . ﺟﺐ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﻫﻮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺗﮭﯿﻼ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﻮ ﺍﺳﮑﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﺮ ﺑﻨﺪﮬﮯ ﺍﺳﮑﮯ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﺗﮭﺎ . ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﯿﺰﺑﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﺳﺘﻔﻬﺎﻣﯿﻪ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻭﻩ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺳﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﻮﻻ ، " ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﻧﻪ ﻫﻮ ﻣﺴﺎﻓﺮ ! ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺭﺍﮎ ، ﭘﺎﻧﯽ ، ﻟﺒﺎﺱ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﻧﻘﺪﯼ ﻫﮯ . ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﺁﺋﮯ ﮔﯽ . ﻫﻤﺎﺭﯼ ﺧﻮﺍﻫﺶ ﻫﮯ ﮐﮧ ﻫﻢ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺘﺮ ﻣﯿﺰﺑﺎﻧﯽ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ "

ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮐﺎ ﺳﺮ ﮐﺴﯽ ﺍﻧﺠﺎﻧﯽ ﺳﯽ ﺷﺮﻣﺴﺎﺭ ﯼ ﺳﮯ ﺟﮭﮏ ﮔﯿﺎ . ﮐﭽﮫ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﻩ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﯿﺰﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ ، " ﺍﮮ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ! ﺁﭖ ﺷﺎﯾﺪ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﺋﮯ ، ﻭﮔﺮﻧﮧ ﺁﭖ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺗﻨﺎ ﺣﺴﻦِ ﺳﻠﻮﮎ ﻧﮧ ﮐﺮﺗﮯ " ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺍﻓﺴﺮﺩﮦ ﺳﯽ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﺁﺋﯽ . " ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﺗﻢ ﭘﺮ ﭘﮩﻠﯽ ﻧﻈﺮ ﮈﺍﻟﯽ ﺗﮭﯽ . ﺗﻢ ﺍﺑﻦ ﻧﻌﻤﯿﺮ ﻫﻮ ۔ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﺑﺎ ﮐﮯ ﻗﺎﺗﻠﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﺁﺧﺮﯼ ﺳﺎﻧﺲ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﻮﻝ ﭘﺎﺅﮞ ﮔﺎ "

ﻣﺴﺎﻓﺮ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﻮ ﺷﺸﺪﺭ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ۔۔ ﭘﮭﺮ ﻗﻮﺕِ ﮔﻮﯾﺎﺋﯽ ﺳﻤﯿﭧ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ " ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺗﻨﯽ ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﯿﻮﮞ " ؟ ﻭﺟﯿﮩﮧ ﻭ ﺑﺎﻭﻗﺎﺭ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﻣﺘﺎﻧﺖ ﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ " ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻫﻢ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﻓﺮﻕ ﻫﮯ ، ﺟﺐ ﻫﻢ ﮐﺮﺑﻼ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﮐﯿﺴﯽ ﻣﯿﺰﺑﺎﻧﯽ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﻫﻮ ، ﺁﺝ ﺟﺐ ﺗﻢ ﻫﻤﺎﺭﮮ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﻫﻢ ﮐﯿﺴﯽ ﻣﯿﺰﺑﺎﻧﯽ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﻫﯿﮟ "

ﻣﺴﺎﻓﺮ ﺷﺮﻣﺴﺎﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﻧﺪﺍﻣﺖ ﺳﮯ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻗﺎﺑﻞ ﻧﻪ ﺭﻫﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﯿﺰﺑﺎﻥ ﭘﺮ ﺁﺧﺮﯼ ﻧﻈﺮ ﮈﺍﻟﮯ ﺑﻨﺎ ﻫﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﺭﻭﺍﻧﻪ ﻫﻮ ﮔﯿﺎ .

ﺷﮩﺮِ ﻣﺪﯾﻨﻪ ﮐﮯ ﺩﺭﻭ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﮐﮯ ﭘﻮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﯿﻦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﮐﮯ ﻧﻮﺭ ﻧﻈﺮ ﮐﮯ ﻇﺮﻑ ﭘﺮ ﻋﺶ ﻋﺶ ﮐﺮ ﺍﭨﮭﮯ ، ﮔﺮﺩﺵِ ﺩﻭﺭﺍﮞ ﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﺳﺎﮐﺖ ﻫﻮ ﮔﺌﯽ ﮐﮧ ﮐﺮﺑﻼ ﺳﮯ ﺷﺎﻡ ﺗﮏ ﻗﺪﻡ ﻗﺪﻡ ﻣﺼﯿﺒﺖ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻋﻠﯽ ﺍﻭﺳﻂ ﺑﻦ ﺣﺴﯿﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﺍﻣﺎﻡ ﺯﯾﻦ ﺍﻟﻌﺎﺑﺪﯾﻦ ﺭﺣﻤﺘﻪ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﯿﻪ ﻧﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﮐﮧ مہمان نوازی کیا ہوتی ہے"

ﺷﮭﺪﺍﺋﮯ ﮐﺮﺑﻼ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯿﺮﺍﻥِ ﮐﺮﺑﻼ ﮐﯽ ﺍﺳﺘﻘﺎﻣﺖ ﭘﺮ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﺳﻼﻡ
 
پیچیدہ تخلیق
مرید نے مرشد کو اچھے موڈ میں دیکھا تو با ادب ھو کر گویا ھوا ! میرے مرشد مجھے عرقِ حیات کے متعلق تو کچھ بتائیے ،کیا اسی کو آبِ حیات کہتے ھیں؟ اور اس پانی کا چشمہ پھوٹتا کہاں سے ھے ؟؟؟
مرش۔۔د نے گہری نظر سے مرید کی طرف دیکھا اور سوچ میں ڈوب گیا،جب کافی دیر گزر گئ تو مرید کو یوں لگا جیسے اس نے اپنے مرشد کو ناراض کر دیا ھے،، وہ پھر ڈرتے ڈرتے بولا، حضرت جی اگر میرے سوال سے آپ کو کوفت ھوئی ھے تو میں معافی کا طلبگار ھوں
ایک لمبی ' "ھوںںں" کے بعد مرشد نے نرمی سے بولا، نہیں میں ناراض تو نہیں ھوا مگر فکرمند ضرور ھوں ،،میں نے جب یہ سوال اپنے مرشد سے کیا تھا تو ھمارے درمیان 12 سال کی طویل جدائی پڑ گئ تھی ، میں سوچ یہ رھا تھا کہ پتہ نہیں میں تمہاری یہ طویل جدائی برداشت کر سکوں گا بھی یا نہیں، اس دوران اگر میری اجل آگئ تو کہیں تمہاری محنت ضائع نہ ھو جائے ۔
بیٹا یہ عرقِ حیات یا آبِ حیات ، یہ الفاط میں نہیں سمجھایا جا سکتا، سمجھاؤ تو سمجھ نہیں آتا ! اس لئے میرا مرشد تو آب حیات کے چشمے کےکنارے کھڑا کر کے ،اس میں انگلی ڈبو کر دکھایا کرتا تھا کہ یہ ھے عرقِ حیات !! میں نے یہ سوال اپنے مرشد سے ان کی جوانی میں پوچھ لیا تھا ، تم نے بہت دیر کر دی ھے،، خیر اللہ بہتر کرے گا، میں تمہیں ایک پودا دکھاتا ھوں ، اس پودے کے پھول کا عرق تم نے ایک چھوٹی شیشی میں بھرنا ھے اور جب یہ شیشی بھر جائے تب میرے پاس واپس آنا ھے، یہ عرق ھی ھماری آنکھوں میں عرقِ حیات کو دیکھنے کی صلاحیت پیدا کرے گا !! یاد رکھنا ایک پھول سے صرف ایک قطرہ رس نکلتا ھے ، اور اگر شیشی فوراً بند نہ کرو تو فوراً اڑ بھی جاتا ھے، اور یہ پودا جنگل میں کہیں کہیں ملتا ھے ! اس کے بعد مرشد نے ایک درمیانے سائز کی شیشی اپنے مرید کو پکڑائی اور اسے ڈھیر ساری دعاؤں کے ساتھ رخصت کر دیا !
مرید بہت پرجوش تھا، آبِ حیات کا معمہ بس حل ھونے کو تھا ، اور اسے آبِ حیات کو دیکھنے اور چھونے کا موقع ملے گا، مگر ایک تو اس پودے کو ڈھونڈنا ایک جوکھم تھا تو ایک پودے کے ساتھ ایک پھول اور ایک پھول میں ایک قطرہ ، الغرض اسے بارہ سال لگ گئے بوتل بھرنے میں، جس دن اس کی بوتل بھری وہ دن اس کے لئے ایک نئی زندگی کی نوید تھا، ایک طرف وہ پھولے نہیں سما رھا تھا تو دوسری طرف اسے بار بار یہ خیال ستا رھا تھا کہ اگر اس دوران مرشد اللہ کو پیارے ھوگئے تو اس کی محنت ضائع چلی جائے گی کیونکہ آبِ حیات کا چشمہ تو صرف مرشد کو ھی پتہ تھا !!
وہ خیالات میں غلطاں و پیچاں کبھی چلتا تو کبھی دوڑتا، اپنے مرشد کے ٹھکانے کی طرف رواں دواں تھا، مرشد کے ڈیرے پہ نظر پڑنا تھا کہ وہ بیتاب ھو کر دور سے ھی چلایا ، میرے مرشد،اے میرے مرشد، دیکھیے میں اپنی تپسیا میں کامیاب رھا، میں بوتل بھر لایا ھوں ، اس کی آواز پر مرشد اپنے کٹیا سے باہر نکلا ، بارہ سالوں نے اس کی کمر دھری کر دی تھی مگر وہ بھی مرید کی کامیابی پر خوش نظر آتا تھا !!
اپنے مرشد پر نظر پڑنا تھا کہ مرید بے اختیار دوڑ پڑا اور یہی بے احتیاطی اسے مہنگی پڑی، ٹیڑھے میڑھے رستے پر قدم کا سٹکنا تھا کہ مرید لڑکھڑایا اور عرق سے بھری شیشی اس کے ھاتھ سے چھوٹ کر ٹھاہ سے پتھر پر لگی اور چور چور ھو گئ، عرق کے کچھ چھینٹے مرشد کے پاؤں پر پڑے باقی کو جھٹ زمین نگل گئ ۔
بے اختیار مرید کی چیخ نکل گئ ، میرے مرشد میری محنت ،میرے بارہ سال کی مشقت مٹی بن گئ، میرے مرشد میں تباہ ھو گیا، مرشد اپنے مرید کو چھوڑ کر اندر گیا اور ایک اور چھوٹی سی شیشی لایا جس میں اس نے روتے سسکتے مرید کے آنسو بھرنا شروع کر دیئے ، اور وہ شیشی بھر لی !! اب مرید رو رھا تھا تو مرشد ھنس رھا تھا، میرے مرشد میری زندگی برباد ھو گئ اور آپ مسکرا رھے ھیں ؟ مرید نے تعجب سے پوچھا !!
مرشد اسے اندر لے گیا اور بکری کے دودھ کا پیالہ پینے کو دیا ، پھر اس نے اس چھوٹی شیشی کو کھولا جس میں مرید کے آنسو بھرے ھوئے تھے، اور اپنی انگلی کو ان سے گیلا کر کے کہا کہ یہ ھے " عرقِِ حیات " یا " آبِ حیات " یا مقصدِ حیات !! اور پھر آنسوؤں میں ڈبڈباتی اس کی آنکھوں کو چھو کر کہا یہ ھیں آبِ حیات کے چشمے !!
یاد رکھو ! اللہ نے انسان کو ان آنسوؤں کے لئے پیدا کیا ھے ، ان میں ھی زندگی چھپی ھوئی ھے، کچھ اس کی محبت میں زارو قطار روتے ھیں جیسے انبیاء، اور کچھ اپنے عملوں کے بھرے مٹکے جب اپنی ذرا سی غلطی سےگرتے اور ٹوتے اور اپنی محنتیں ضائع ھوتے دیکھتے ھیں تو تیری طرح بلبلاتے ھیں ، جس طرح پانی نکلنے اور نکالنے کے مختلف طریقے ھیں اسی طرح انسانوں میں بھی ان کی طبائع کے تحت ان آنسوؤں کا سامان کیا گیا ھے ۔
یاد رکھو آسمان پر بھرنے والے بہت سارے ھیں مگر شیشی کسی کی نہیں ٹوتتی، آسمان والوں کے مٹکے ھر دم بھرے رھتے ھیں، وھاں مٹکے ٹوٹنے کے اسباب نہیں رکھے گئے ، ان کے رونے میں تسبیح ھے، پچھتاوہ نہیں ھے ! ھمیں اسی مقصد سے بنایا گیا ھے، پھر اس دنیا کے ٹیڑھے میڑھے رستوں پر ہاتھ میں تقوے کی بوتل دے کر دوڑایا جاتا ھے، اور جب ذرا سی بے احتیاطی سے تقوے کی وہ سالوں کی محنت کسی گناہ میں ڈوب جاتی ھے اور ھم پچھتاتے ھیں اور زار و قطار روتے ھیں تو اللہ فرشتوں کو اسی طرح ھمارے آنسو سمیٹنے پر لگا دیتا ہے جس طرح آج میں نے تیرے آنسو شیشی میں جمع کئے ھیں !!
یہ وہ پانی ھے جس سے جہنم کی آگ بھی ڈرتی ھے،، اللہ کے رسول علیہ السلام نے حشر کا نقشہ کھینچا ھے کہ جہنم کی آگ فرشتوں کے قابو میں نہیں آ رھی ھوگی، اور میدانِ حشر میں باغیوں کی طرف پھنکاریں مارتی ھوئی لپکے گی، فرشتے اپنی بے بسی کا اظہار کریں گے تو اللہ پاک جبرائیل سے فرمائیں گے کہ وہ پانی لاؤ، اور پھر جبرائیل اس پانی کے چھنٹے مارتے جائیں گے اور آگ پیچھے سمٹتی جائے گی یہاں تک کہ اپنی حد میں چلی جائے گی، صحابہ رض نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول علیہ السلام وہ کونسا پانی ھو گا؟ آپ نے فرمایا اللہ کے شوق میں اللہ کے خوف سے رونے والوں کے آنسو ھوں گے جو اللہ نے آگ پر حرام کر رکھے ھیں !!
اسی رونے کی طرف امیر خسر رحمۃ اللہ علیہ اشارے کرتے ہوئے فرماتے ہیں

بہت ھی کٹھن ڈگر پنگھٹ کی !
کیسے بھر لاؤں میں جھٹ پٹ مٹکی ؟

یہی وہ آبِ حیات ھے جس کی بشارت انسان کو دی گئ ھے کہ اس کے چشمے اس کی اپنی ذات کے اندر ھیں !!

تن تیرا رب سَچے دا حجرہ ، پا اندر ول جھاکی !!
نہ کر مِنت خواجہ خضر، تیرے اندر آبِ حیاتی !

اسی کی طرف میاں محمد بخش صاحب رحمۃ اللہ علیہ اشارہ کرتے ھیں !

سب سیاں رَل پانی چلیاں تے کوئی کوئی مُڑسی بھر کے !
جنہاں بھریا ، بھر سِر تے دھریا، قدم رکھن جَر جَر کے !

اے اللہ آنکھوں سے بھی میں اندھا ھوں، ان مادی آنکھوں سے تو نظر نہیں آتا، اور رستہ بھی پھسلواں ھے، دوسری جانب ھر بندہ اس پھسلنے والے رستے پر سہارا دینے کی بجائے دھکے دینے والا ھے، جب کہ صرف تیری ذات ھاتھ پکڑنے والی ھے !!

ھم کو بھی وضو کر لینے دو،ھم نے بھی زیارت کرنی ھے !
مرشد ان بہتی آنکھوں کو ولیوں کا ٹھکانہ کہتے ھیں !
محمود احمد غزنوی تلمیذ سید زبیر نایاب الف عین الف نظامی محمد وارث
یعنی تمام روحیں اصل میں ان سہیلیوں کی طرح ھیں جو کنوئیں سے پانی بھرنے جاتی ھیں، مگر ان میں سے کوئی کوئی بھر کر واپس آئے گی بہت ساریوں کے گھڑے رستے میں ٹوٹ جاتے ھیں، لیکن جو بھر کر سر پر رکھ لیتی ھیں ان کے قدم رکھنے کا انداز بتاتا ھے کہ ان کا گھڑا بھرا ھوا ھے ! وہ بہت ٹھہر ٹھہر کر قدم رکھتی ھیں ! یہ مضمون اللہ پاک نے سورہ الفرقان میں اپنے بندوں کی تعریف کرتے ھوئے بیان کیا ھے، "و عباد الرحمن الذین یمشون علی الارضِ ھوناً" ، رحمان کے بندے زمین پر بہت تھم تھم کر یعنی پروقار چال چلتے ھیں، ان کی چال بتاتی ھے کہ گھڑا بھرا ھوا ھے !

میاں صاحب دوسری جگہ فرماتے ھیں !

لوئے لوئے بھر لے کُڑیئے جے تدھ بھانڈا بھرنا !
شام پئ۔۔ی بِن شام محمد گھر جاندی نے ڈرنا !!

یہ بھرے گھڑے تڑوانے والوں کا ذکر اللہ پاک نے قرآن حکیم بھی بار بار کیا ھے،
"اے ایمان والوں تمہارے ازواج اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ھیں، ان سے خبردار رھو !" ( التغابن )
میاں صاحب فرماتے ھیں !
اکھیوں انا تے تِلکَن رستہ کیوں کر رھے سنبھالا ؟
دھکے دیون والے بُہتے تُو ہتھ پکڑن والا !

اے اللہ آنکھوں سے بھی میں اندھا ھوں، ان مادی آنکھوں سے تو نظر نہیں آتا، اور رستہ بھی پھسلن والا ھے، دوسری جانب ھر بندہ اس پھسلن رستے پر سہارا دینے کی بجائے دھکے دینے والا ھے، جب کہ صرف تیری ذات ھاتھ پکڑنے والی ھے !!
 
1779943_840988839264102_526563717_n.jpg
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اللہ نے احسن التقویم بنایا ہے تو کچھ سوچ کر ہی بنایا ہے۔ جسم کے اعضاء پر نہیں بلکہ اعمال پر زور ہونا چاہئے :)
آپ کی بات بھی درست لیکن یہاں ذہن میں پیدا ہونے والے ان خیالات کی بات کی گئی ہے جو بظاہر اعضاء کے لیے کیے گئے ہیں لیکن جن کی جڑوں میں درست نیّتوں سے کیے گئے اعمال ہی کا لہو کارفرما ہوتا ہے۔
میں نے اسی حقیقت کو اپنے ایک شعر میں ڈھالا ہے۔
آرزوؤں کے لہو کا تھاصلا
جنتیں کھو کر یہ سنگ ِ در ملا

یہ میرا ایک تخیل ہے بس ۔ صاحبِ دھاگا روحانی بابا کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
 
اصل میں جو اصل بات ہے وہ آپ کے سَر کے اوپر سے گزر گئی ہے خیر کوئی بات نہیں۔
لقد خلقنا الانسان کے بعد شائد اس طرف نظر نہیں پڑی ثم رددنہ اسفل السافلین (یعنی وہ حیوانیت کے گڑھے میں جاگرا ہے)
 
ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ ﻋﺎﻟﻢ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻧﺴﺎﻥ
ﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﺷﺖ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ
ﺍﯾﺴﺎ ﻟﻮﺗﮭﮍﺍ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﺳﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺳﮑﯽ
ﻭﺳﻌﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯﻩ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ۔ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﻝ ﮐﮩﺘﮯ
ﮨﯿﮟ ۔ ﮐﯿﺎ ﭼﯿﺰ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺩﻝ ؟ ﺳﺎﺭﯼ
ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﺁﺑﺎﺩ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺩﻝ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ۔
ﻧﻔﺮﺗﯿﮟ ، ﻣﺤﺒﺘﯿﮟ ، ﺧﻮﺍﮨﺸﯿﮟ ،
ﺣﺴﺮﺗﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﯿﺪﯾﮟ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ
ﺍﺱ ﺍﯾﮏ ﺩﻝ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮨﮯ ۔ ﮐﺒﮭﯽ
ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﮍﭖ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻧﻔﺮﺕ ﻣﯿﮟ
ﺳﻠﮓ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ۔ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﻣﯿﺪ ﮐﯽ
ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺳﮯ ﭼﻤﮏ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺎﯾﻮﺳﯽ ﮐﯽ ﻇﻠﻤﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮈﻭﺑﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ۔
ﯾﮧ ﺩﻝ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ
ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﺍﻧﺘﻘﺎﻡ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ ۔ ﮨﺮ
ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻝ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ
ﮨﺮ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺻﻔﺎﺕ ﺍﻟﮓ ﺍﻟﮓ ﮨﯿﮟ ۔
ﮐﺌﯽ ﺩﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﺳﮯ ﺁﺑﺎﺩ ﮨﯿﮟ
ﺗﻮ ﮐﺌﯽ ﺍﺳﮑﯽ ﯾﺎﺩ ﺳﮯ ﻏﺎﻓﻞ ۔
ﮐﺌﯽ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﻧﻮﺭ ﺳﮯ ﻣﻨﻮﺭ ﮨﯿﮟ
ﺗﻮ ﮐﺌﯽ ﮐﻔﺮ، ﺷﺮﮎ ﺍﻭﺭ ﻧﻔﺎﻕ ﮐﯽ
ﺗﺎﺭﯾﮑﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮈﻭﺑﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ۔
ﮐﭽﮫ ﺩﻝ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﻭ
ﻧﻔﺮﺕ ﭘﺮ ﻏﺎﻟﺐ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺳﺐ
ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﯾﮧ ﭘﺮﺍﻣﯿﺪ
ﺩﻝ ﻧﺎ ﺍﻣﯿﺪﯼ ﭘﮧ ﺣﺎﻭﯼ ﮨﯿﮟ ۔ ﮐﭽﮫ
ﺩﻝ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺻﺮﻑ ﻧﻔﺮﺕ
ﮐﺮﻧﺎ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮨﺮ ﺳﻮ
ﻧﻔﺮﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﯿﺞ ﺑﻮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﻔﺮﺕ
ﮐﮯ ﮐﺎﻧﭩﮯ ﺑﮑﮭﯿﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔
ﯾﮧ ﺩﻝ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﮩﺖ ﻣﺸﮩﻮﺭ
ﺍﻭﺭ ﻧﺎﻣﻮﺭ ﮨﮯ ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﺒﺤﺎﻧﻪ
ﻭﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﺘﻨﯽ
ﻣﺤﺒﺘﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﮐﺮ ﺩﯼ ﮨﯿﮟ ، ﺍﻟﻠﮧ
ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ، ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ
ﻣﺤﺒﻮﺏ ﷺ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ، ﺍﺳﮑﮯ
ﺗﻤﺎﻡ ﺭﺳﻮﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ،
ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ، ﺍﻭﻻﺩ ﮐﯽ
ﻣﺤﺒﺖ ، ﺑﮩﻦ ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﯽ
ﻣﺤﺒﺖ ، ﺩﻭﺳﺖ ﻭ ﺍﺣﺒﺎﺏ ﮐﯽ
ﻣﺤﺒﺖ ، ﻣﯿﺎﮞ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﯽ ﺑﺎﮨﻤﯽ
ﻣﺤﺒﺖ ، ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﯽ
ﻣﺤﺒﺖ ، ﺩﯾﻨﯽ ﻭ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﺑﮩﻦ
ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ، ﺍﺳﺎﺗﺬﮦ
ﮐﺮﺍﻡ ﻭ ﻣﺮﺷﺪﯾﻦ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ،
ﺑﻨﯽﺀ ﺁﺩﻡ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ، ﺗﻤﺎﻡ
ﻣﺨﻠﻮﻗﺎﺕ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﻝ ﻭ
ﺩﻭﻟﺖ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ، ﯾﮧ ﺳﺐ
ﻣﺤﺒﺘﯿﮟ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﺍﻣﺘﺤﺎﮞ ﮨﯿﮟ ،
ﺁﺯﻣﺎﺋﺶ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮐﮯ
ﺩﺍﺋﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ
ﺑﻨﺎﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ
ﮐﺮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﯾﮏ ﺷﺮﻁ ﭘﺮ ﮐﮧ
ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﷺ ﮐﯽ
ﻣﺤﺒﺖ ﮨﺮ ﻣﺤﺒﺖ ﭘﮧ ﻏﺎﻟﺐ ﮨﻮﻧﯽ
ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﺲ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
ﮨﺮ ﻭﮦ ﻣﺤﺒﺖ ﺟﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ
ﻣﺤﺒﻮﺏ ﷺ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﮐﺮ ﺩﮮ ﻭﮦ
ﻧﻔﺴﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﺎﺯﯼ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ ۔
ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﻭﮦ ﻣﺤﺒﺖ ﺟﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻭﺭ
ﺍﺳﮑﮯ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﷺ ﺳﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﮐﺮﺩﮮ
ﻭﮦ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﻣﺤﺒﺖ
ﮨﮯ۔
ﺩﻝ ﺩﺭﯾﺎ ﺳﻤﻨﺪﺭﻭﮞ ﮈﻭﻧﮕﮯ ﮐﻮﻥ ﺩﻻﮞ ﺩﯾﺎﮞ ﺟﺎﻧﮯ ﮬﻮ
ﻭﭼﮯ ﺑﯿﮍﮮ ﻭﭼﮯ ﮨﯽ ﺟﮭﯿﮍﮮ ﻭﭼﮯ ﻭﻧﺠﮫ ﻣﻮﮨﺎﻧﮯ ﮬﻮ
ﭼﻮﺩﮦ ﻃﺒﻖ ﺩﻟﮯ ﺩﮮ ﺍﻧﺪﺭ ﻭﺍﻧﮓ ﺗﻤﺒﻮ ﻭﻧﺞ ﺗﺎﻧﮯ ﮬﻮ
ﺟﮩﮍﺍ ﺩﻝ ﺩﺍ ﻣﺤﺮﻡ ﮨﻮﻭﮮ ﺑﺎﮬﻮﺳﻮ ﺍﻭﮦ ﺭﺏ ﭘﭽﮭﺎﻧﮯ ﮬﻮ
 
بے چاری عورت ذات
ﻋﻮﺭﺕ ﺑﯿﭽﺎﺭﯼ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﭨﮭﮯ ،ﺳﺤﺮﯼ ﺑﻨﺎﮮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ
ﮐﮭﺎﮮ ﭘﮭﺮ ﺭﻭﺯﮦ ﺭﮐﮭﮯ ﺩﻭﭘﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭘﮑﺎﮮ ﭘﮭﺮ ﭼﺎﺭ ﺑﺠﮯ
ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﺍﻭﺭ ﺳﺴﺮﺍﻝ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﺖ
ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ،ﭘﮑﻮﮌﮮ ،ﺩﮨﯽ ﺑﮭﻠﮯ ، ﭼﮭﻮﻟﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺎ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ
ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﺩﮬﮍﮐﺎ ﮐﮧ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺷﻮﮨﺮ ، ﺑﺎﭖ ﯾﺎ ﺳﺴﺮ ﮐﻮ ﭘﺴﻨﺪ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ، ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎ ﻏﺼﮧ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮﮮ ﭘﮭﺮ ﺍﺫﺍﻥ
ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﭘﮑﻮﮌﮮ ﭨﻠﺘﯽ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺎﮞ ﮐﻮ ﺑﺎﺳﯽ ﭘﮑﻮﮌﮮ ﭘﺴﻨﺪ
ﻧﮩﯿﮟ ﺳﺐ ﺭﻭﺯﮦ ﮐﮭﻮﻝ ﻟﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ ﭼﭙﮑﮯ ﺳﮯ ﺁﮐﺮ ﺭﻭﺯﮦ ﮐﮭﻮﻝ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﻮﺭﯼ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ ﮐﮭﻼﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﺑﺖ ﭘﻼﻧﮯ ﮐﯽ
ﺧﺎﻃﺮ ﻣﺪﺍﺭﺍﺕ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ،ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ ﺍﯾﺴﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﺟﺲ
ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺳﮑﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﮐﺮ ﺩﮮ ﺑﻠﮑﮧ ﭘﮑﻮﮌﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﺑﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ
ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮨﯽ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ ، ﺷﻮﮨﺮ ،ﺑﮭﺎﺋﯽ ، ﺍﺑﺎ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﭨﯽ
ﺳﺎﻟﻦ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﻥ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺧﺘﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺗﺮﺍﻭﯾﺢ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
ﺍﺻﻞ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﮯ ، ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺗﻤﺎﻡ ﺩﺳﺘﺮﺧﻮﺍﮞ ﺳﻤﯿﻨﭧ
ﮐﺮ ﺍﮔﻠﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﮐﮯ
ﺁﺩﮬﯽ ﺭﺍﺕ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭ ﮨﺎﮞ ﺍﺳﮯ ﺻﺒﺢ دو ﺑﺠﮯ ﺍﭨﮭﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮨﮯ
ﺍﻻﺭﻡ ﯾﺎﺩ ﺳﮯ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﻭﺭﻧﮧ ﺍﮔﺮ ﺁﻧﮑﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﺎ
ﺑﻐﯿﺮ ﺳﺤﺮﯼ ﮐﺎ ﺭﻭﺯﮦ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﺍﺳﮯ ﮔﮭﺮﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﻏﺼﮧ
ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﮔﺎ۔
ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺭﺷﺘﮧ ﮨﮯ ﻣﺎﮞ، ﺑﮩﻦ، ﺑﯿﻮﯼ ﯾﺎ ﺑﯿﭩﯽ ﺍﻥ ﮐﺎ
ﺑﮭﯽ ﺭﻣﻀﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﻧﺴﺎﻥ
ﮨﯿﮟ
 

الف نظامی

لائبریرین
بے چاری عورت ذات
ﻋﻮﺭﺕ ﺑﯿﭽﺎﺭﯼ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﭨﮭﮯ ،ﺳﺤﺮﯼ ﺑﻨﺎﮮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ
ﮐﮭﺎﮮ ﭘﮭﺮ ﺭﻭﺯﮦ ﺭﮐﮭﮯ ﺩﻭﭘﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭘﮑﺎﮮ ﭘﮭﺮ ﭼﺎﺭ ﺑﺠﮯ
ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﺍﻭﺭ ﺳﺴﺮﺍﻝ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﺖ
ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ،ﭘﮑﻮﮌﮮ ،ﺩﮨﯽ ﺑﮭﻠﮯ ، ﭼﮭﻮﻟﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺎ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ
ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﺩﮬﮍﮐﺎ ﮐﮧ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺷﻮﮨﺮ ، ﺑﺎﭖ ﯾﺎ ﺳﺴﺮ ﮐﻮ ﭘﺴﻨﺪ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ، ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎ ﻏﺼﮧ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮﮮ ﭘﮭﺮ ﺍﺫﺍﻥ
ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﭘﮑﻮﮌﮮ ﭨﻠﺘﯽ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺎﮞ ﮐﻮ ﺑﺎﺳﯽ ﭘﮑﻮﮌﮮ ﭘﺴﻨﺪ
ﻧﮩﯿﮟ ﺳﺐ ﺭﻭﺯﮦ ﮐﮭﻮﻝ ﻟﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ ﭼﭙﮑﮯ ﺳﮯ ﺁﮐﺮ ﺭﻭﺯﮦ ﮐﮭﻮﻝ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﻮﺭﯼ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ ﮐﮭﻼﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﺑﺖ ﭘﻼﻧﮯ ﮐﯽ
ﺧﺎﻃﺮ ﻣﺪﺍﺭﺍﺕ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ،ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ ﺍﯾﺴﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﺟﺲ
ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺳﮑﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﮐﺮ ﺩﮮ ﺑﻠﮑﮧ ﭘﮑﻮﮌﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﺑﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ
ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮨﯽ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ ، ﺷﻮﮨﺮ ،ﺑﮭﺎﺋﯽ ، ﺍﺑﺎ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﭨﯽ
ﺳﺎﻟﻦ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﻥ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺧﺘﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺗﺮﺍﻭﯾﺢ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
ﺍﺻﻞ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﮯ ، ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺗﻤﺎﻡ ﺩﺳﺘﺮﺧﻮﺍﮞ ﺳﻤﯿﻨﭧ
ﮐﺮ ﺍﮔﻠﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﮐﮯ
ﺁﺩﮬﯽ ﺭﺍﺕ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭ ﮨﺎﮞ ﺍﺳﮯ ﺻﺒﺢ دو ﺑﺠﮯ ﺍﭨﮭﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮨﮯ
ﺍﻻﺭﻡ ﯾﺎﺩ ﺳﮯ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﻭﺭﻧﮧ ﺍﮔﺮ ﺁﻧﮑﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﺎ
ﺑﻐﯿﺮ ﺳﺤﺮﯼ ﮐﺎ ﺭﻭﺯﮦ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﺍﺳﮯ ﮔﮭﺮﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﻏﺼﮧ
ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﮔﺎ۔
ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺭﺷﺘﮧ ﮨﮯ ﻣﺎﮞ، ﺑﮩﻦ، ﺑﯿﻮﯼ ﯾﺎ ﺑﯿﭩﯽ ﺍﻥ ﮐﺎ
ﺑﮭﯽ ﺭﻣﻀﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﻧﺴﺎﻥ
ﮨﯿﮟ
یہ متن آپ نے کس سافٹ وئیر میں لکھا یا کاپی کیا ہے کہ اس کا فانٹ تبدیل ہی نہیں ہورہا۔

فا نڈ اینڈ ری پلیس کے ذریعے درست کیا یہ متن۔

عورت بیچاری سب سے پہلے اٹھے ،سحری بنائے سب سے آخر میں کھائے پھر روزہ رکھے دوپہر میں بچوں کے لئے پکائے پھر چار بجے سے اپنے شوہر اور سسرال والوں کے لئے افطاری بنانے کے لئے جت جاتی ہے ،پکوڑے ،دہی بھلے ، چھولے اور نا جانے کیا کیا اور پھر بھی یہی دھڑکا کہ پتا نہیں شوہر ، باپ یا سسر کو پسند آتے ہیں یا نہیں ، شوہر کا غصہ افطاری سے پہلے برداشت کرے پھر اذان کے وقت تک پکوڑے تلتی رہے کہ میاں کو باسی پکوڑے پسند نہیں سب روزہ کھول لیں تو وہ چپکے سے آکر روزہ کھول لیتی ہے اور تمام گھر والوں کو پوری افطاری کھلانے اور شربت پلانے کی خاطر مدارات کرتی رہتی ہے ،اور کوئی افطاری ایسی نہیں ہوتی جس میں کوئی اسکی تعریف کر دے بلکہ پکوڑوں اور شربت میں تو ہمیشہ شکایت ہی ملتی ہے ، شوہر ،بھائی ، ابا افطاری میں روٹی سالن کھا کر دن کا کھانا ختم نہیں کرتے ہیں بلکہ تراویح کے بعد اصل کھانا کھایا جانا ہے ، پھر یہ عورت تمام دسترخواں سمیٹ کر اگلے کھانے کی تیاری کرنے لگتی ہے سارے گھر کا کام ختم کرکے آدھی رات ہو جاتی ہے اور ہاں اسے صبح دو بجے اٹھنا بھی تو ہے الارم یاد سے رکھنا ہوگا ورنہ اگر آنکھ نہیں کھلی اور گھر والوں کا بغیر سحری کا روزہ ہو گیا تو سارا دن اسے گھروالوں کا غصہ برداشت کرنا ہوگا۔
گھر کی خواتین جو بھی رشتہ ہے ماں، بہن، بیوی یا بیٹی ان کا بھی رمضان میں خیال رکھیں کیونکہ وہ بھی آپ کی طرح انسان ہیں
 
آخری تدوین:
یہ متن آپ نے کس سافٹ وئیر میں لکھا یا کاپی کیا ہے کہ اس کا فانٹ تبدیل ہی نہیں ہورہا۔

فا نڈ اینڈ ری پلیس کے ذریعے درست کیا یہ متن۔

عورت بیچاری سب سے پہلے اٹھے ،سحری بنائے سب سے آخر میں کھائے پھر روزہ رکھے دوپہر میں بچوں کے لئے پکائے پھر چار بجے سے اپنے شوہر اور سسرال والوں کے لئے افطاری بنانے کے لئے جت جاتی ہے ،پکوڑے ،دہی بھلے ، چھولے اور نا جانے کیا کیا اور پھر بھی یہی دھڑکا کہ پتا نہیں شوہر ، باپ یا سسر کو پسند آتے ہیں یا نہیں ، شوہر کا غصہ افطاری سے پہلے برداشت کرے پھر اذان کے وقت تک پکوڑے تلتی رہے کہ میاں کو باسی پکوڑے پسند نہیں سب روزہ کھول لیں تو وہ چپکے سے آکر روزہ کھول لیتی ہے اور تمام گھر والوں کو پوری افطاری کھلانے اور شربت پلانے کی خاطر مدارات کرتی رہتی ہے ،اور کوئی افطاری ایسی نہیں ہوتی جس میں کوئی اسکی تعریف کر دے بلکہ پکوڑوں اور شربت میں تو ہمیشہ شکایت ہی ملتی ہے ، شوہر ،بھائی ، ابا افطاری میں روٹی سالن کھا کر دن کا کھانا ختم نہیں کرتے ہیں بلکہ تراویح کے بعد اصل کھانا کھایا جانا ہے ، پھر یہ عورت تمام دسترخواں سمیٹ کر اگلے کھانے کی تیاری کرنے لگتی ہے سارے گھر کا کام ختم کرکے آدھی رات ہو جاتی ہے اور ہاں اسے صبح دو بجے اٹھنا بھی تو ہے الارم یاد سے رکھنا ہوگا ورنہ اگر آنکھ نہیں کھلی اور گھر والوں کا بغیر سحری کا روزہ ہو گیا تو سارا دن اسے گھروالوں کا غصہ برداشت کرنا ہوگا۔
گھر کی خواتین جو بھی رشتہ ہے ماں، بہن، بیوی یا بیٹی ان کا بھی رمضان میں خیال رکھیں کیونکہ وہ بھی آپ کی طرح انسان ہیں
اس سوفٹ ویئر کا انگریزی میں نام لکھ دیں تاکہ میں بھی ڈاؤن لود کرسکوں
 
Top