روحانی اقوال

ثمین زارا

محفلین
آزمائش یا عذاب
حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم سے کسی نے پوچھا کہ جب انسان پر آفات اور مصائب آتے ہیں تو اس بات کا کیسے پتہ چلے گا کہ یہ آزمائش ہے یا عذاب تو قربان جاوں علی المرتضیٰ کی حکمت پر کہ آپ نے فرمایا کہ جو امتحان تم کو اللہ سے دور کردے وہ عذاب ہے اور جو تم کو اللہ سے مزید قریب کردے وہ آزمائش ہے۔
اللہ اللہ ۔ ۔
 

ثمین زارا

محفلین
ایک پینٹر کو ایک کشتی پر رنگ کرنے کا ٹھیکہ ملا۔
کام کے دوران اُسے کشتی میں ایک سوراخ نظر آیا اور اُس نے اِس سوراخ کو بھی مرمت کر دیا۔
پینٹنگ مکمل کر کے شام کو آس نے کشتی کے مالک سے اپنی اُجرت لی اور گھر چلا گیا۔
دو دن بعد کشتی والے نے اُسے پھر بلایا اور ایک خطیر رقم کا چیک دیا۔ پینٹر کے استفسار پر اُس نے بتا یا کہ اگلے دن آس کے بچّےبغیر اُس کے علم میں لائے کشتی لے کر سمندر کی طرف نکل گئے۔ اور پھر جب اُسے خیال آیا کہ کشتی میں تو ایک سُوراخ بھی تھا تو وہ بہت پریشان ہوگیا۔ ۔۔۔۔۔۔
لیکن شام بچّوں کوہنستے مسکراتے آتے دیکھا تو خوشگوار حیرت میں مبتلا ھو گیا۔ اُس نے پینٹر سے کہا کہ یہ رقم تمہارے احسان کا بدل تو نہیں مگر میری جانب سے تمہارے لیئے محبت کا ایک ادنیٰ اظھار ہے۔۔۔۔
آپ کی زندگی میں بھی بہت سےایسے چھوٹے چھوٹے کام آئیں گے جو آپ کے کام نہیں ۔۔۔۔
مگر وہ کام بھی کرتے جائیے۔۔۔۔۔۔
نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی
کسی نہ کسی کی زندگی بچاتی ہے
کسی نہ کسی کی خوشیوں کا باعث بنتی ہے۔

مثبت سوچ اور مثبت کردار ہی کامیابی ہے
مثبت سوچ اور مثبت کردار ہی کامیابی ہے
مثبت سوچ اور مثبت کردار ہی کامیابی ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
دانش مندوں کی صحبت صوفیوں کے لیے مناسب نہیں ہے۔ یہ لوگ ہر وقت تشویش اور تعلق میں رہتے ہیں اور یہ لوگ ناسودہ اور غیر مطمئن لوگ ہیں۔ جو ان کے ساتھ رہے گا وہ بھی ناسودہ رہے گا
خواجہ فضیل عیاض نے ایک مرتبہ گھر کرایہ پر لینے کے لیے خادم کو بھیجا اس سے کہا کوشش کرنا ہمسایہ دانش مند اور اسکالر وغیرہ نہ ہوں
(جوامع الکلم ملفوظات خواجہ سید محمد حسینی بندہ نواز گیسودراز ، صفحہ 142)
 

الف نظامی

لائبریرین
میاں شیر محمد شرقپوری اور طاعون زدہ میت کا غسل اور کفن دفن
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ شرقپور شریف میں پہلی مرتبہ جب طاعون کی وبا پھیلی تھی ، ایک آدمی طاعون سے فوت ہو گیا۔ لوگ وحشت میں آئے۔ اس میت کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ حضرت میاں صاحب علیہ الرحمہ کو اس کی اطلاع ملی تو اپ اپنے ہمراہ میاں محمد الدین صاحب پیر بھائی کو لے کر وہاں تشریف لے گئے اور خود اس کی میت کی چارپائی اٹھائی۔ اگر مسجد میں برائے غسل داخل ہوتے تو مسجد والے اندر داخل نہ ہونے دیتے اور جب باہر کسی کنوئیں پر لے جاتے تو زمیندار لاٹھیاں اٹھا لیتے۔ چناچہ ایک کھیت میں چارپائی رکھ کر وہاں نہلانے والا تختہ منگوایا اور پانی کے مٹکے منگوائے۔ اس میت کی برادری کے لوگ اور رشتہ دار سب دور دور کھڑے تھے۔ قریب اس کے کوئی بھی نہیں آتا تھا۔ میاں محمد الدین پانی ڈالتا جاتا اور آپ میت کو غسل دے رہے تھے۔ بعد غسل اسے کفن دیا گیا۔ پھر تمام لوگوں کے روبرو اسے چارپائی پر رکھا اور میت کی پیشانی پر آپ نے بوسہ دیا اور فرمایا ، اب تو آ جاو۔ خیر پھر لوگ قریب آگئے۔ اس کا جنازہ وغیرہ کر کے لحد میں بھی آپ نے خود اتارا۔ دفن کر کے شرقپور شریف واپس تشریف لے آئے۔
(کتاب خزینہ معرفت ، صفحہ 194 ، مولفہ صوفی محمد ابراہیم)
 

الف نظامی

لائبریرین
صدر الدین ابوالفتح سید محمد حسینی گیسو دراز چشتی قدس اللہ سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ
میں نے اپنے پیرو مرشد کو یہ رباعی بار بار پڑھتے سنا ہے
صوفی شوم و خرقہ کنم فیروزہ
وردے سازم ز درد تو ہر روزہ
زنبیل بدستِ دل دیوانہ دہم
تا از درِ تو درد کند دریوزہ
یعنی ماسوائے اللہ سے دل کو پاک و صاف کر کے اور ایک فیروزی رنگ کا خرقہ پہن کر فقیروں کی صورت بنا کر روز تیری عشق و محبت کا راگ گاتا رہوں اور اس دیوانے دل کے ہاتھ میں ایک جھولی دے دوں کہ تیرے دروازے پر ڈہئی دے کر عشق و محبت کی بھیک مانگتا رہے۔
(فوائدِ حضرت بندہ نواز ؒ ماخوذ از مکتوباتِ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز ، صفحہ 26 )
 

الف نظامی

لائبریرین
صدر الدین ابوالفتح سید محمد حسینی گیسو دراز چشتی قدس اللہ سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ :

عاشق صادق نہ سوائے دوست کے اور کسی کو دیکھتا ہے اور نہ سوائے اسی کے ذکر کے اور کچھ پسند کرتا ہے اس کے منہ سے جب نکلتا ہے تو دوست ہی کا نام نکلتا ہے۔ اسی کے خیال میں مستغرق ہے اور کچھ گفت ہے اور نہ شنید۔ یہ منزل گم شدہ اور بے خود لوگوں کی ہے۔ نہ کچھ اپنا خیال کرو اور نہ رشتہ داروں کا بلکہ ایک لحظہ کے لئے بھی خلق کے ردوقبول پر نظر مت ڈالو ورنہ دیدارِ دوست سے محروم ہو جاو گے۔

(فوائدِ حضرت بندہ نواز ؒ ماخوذ از مکتوباتِ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز ، صفحہ40 )
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا شوق:

پانچویں صدی ہجری کے عظیم بزرگ علامہ جمال الدین عبدالرحمٰن ابن جوزی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہاپنے شوق مطالعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:میری طبیعت کتب کے مطالعہ سے کبھی سیر نہیں ہوئی،جب بھی کسی نئی کتاب پر نظر پڑتی تو لگتا جیسے کوئی خزانہ ہاتھ آگیا ہو۔میں نے مدرسہ نظامیہ کے کتب خانہ میں موجود 6ہزار کتب کا مطالعہ کیا ہے۔مجھے جب بھی کوئی کتاب ملتی فوراً اس کا مطالعہ کرنے لگتا۔اگر میں کہوں کہ میں نے 20 ہزار کتب کا مطالعہ کیا تو بظاہر یہ تعداد زیادہ معلوم ہوگی لیکن یہ میری طلب سے کم ہے۔اس کانتیجہ یہ ہواکہ اس وقت کے طلبہ کی کم ہمتی مجھ پر واضح ہوگی اور مجھے ان کتب کے مطالعہ سے بزرگوں کے اخلاق وحالات،ان کی بلند ہمتیں،مضبوط حافظہ،عبادات کا ذوق اور اعلیٰ علوم کا ایسا خزانہ ملا جوبغیر مطالعہ کے حاصل نہ ہوسکتا تھا۔لہٰذا جو حصول علم دین میں کما حقہ کامیابی پانا چاے وہ کثرت سے مطالعہ کرے بالخصوص بزرگان دین کے حالات زندگی اور ان کی کتب پڑھے کیونکہ ان کی کوئی بھی کتاب فائدے سے خالی نہیں ہے۔ ( صیدالخاطر،-۳۳۸فصل قدماء العلماوھمتھم العالیة،ص،۴۴۸ملخًصابتقدم و تاخر)
 
انسان صحبت سے یا یوں کہہ لیئے کہ گرو یا پیر و مرشد سے بہت کچھ سیکھتا ہے لیکن اس کو اس امر کا ادراک نہیں ہوپاتا ہے کہ کیسے درجہ بہ درجہ انتہائی سست روی سے اس کی استعداد بڑھتی چلی جاتی ہے۔
جیسے آپ اپنی روزمرہ کی زندگی میں جو کھاتے ہیں وہ آپ کے جسم کا حصہ بن جاتی ہے لیکن آپ کو اس بات کا احساس تک نہیں ہو پاتا ہے۔
مثلا آپ سیب کھاتے ہیں تو سیب میں موجود مٹھاس دماغ کا حصہ بن جاتی ہے کیونکہ دماغ میٹھے پر ہی چلتا ہے اسی طرح گوشت یا دالیں یا اور خوراک کھاتے ہیں تو ان میں سے کچھ جسم کے اعصاب کے ٹشوز بنتے ہیں کچھ آنکھوں کے ٹشوز بنتے ہیں اور کچھ جگر دل اور پھیپھڑوں وغیرہ کے خلیات بن جاتے ہیں۔
اسی طرح جب آپ روزانہ اخبار پڑھتے ہیں تو کچھ عرصے بعد آپ کے ذہن سے وہ خبر یا معلومات محو ہوجاتی ہے لیکن اس مطالعے سے آپ کو کچھ نئے الفاظ کا پتہ چلتا ہے یا اگر آپ کے ذخیرہ الفاظ کی صلاحیت پہلے سے زیادہ ہے تو ان کو مختلف طریقوں سے استعمال کی تراکیب آپ کی نظروں کے سامنے سے گزرتی ہیں اسی طرح تاریخ کا علم ہوتا ہے اسی طرح میڈیکل میں انسانی بدن سے متعلق معلومات یا زوالوجی و بوٹونی سائنس اینڈٹیکنالوجی الغرض دنیا جہاں کی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔
اسی طرح ایک آل راونڈر/ہر فن مولا بندے کی صحبت سے اس کے دوست اس کے تلامذہ/سٹوڈنٹس غیر محسوس طریقے سے بہت کچھ سیکھتے ہیں اس کا اندازہ مجھے اس طرح ہوا کہ میرے ایک مہربان ہیں وہ میرے ساتھ عرصہ دس سال سے منسلک ہیں ان کا لہجہ شروع میں جاہلانہ یہاں جاہلانہ سے مراد دیہاتی/پینڈو ٹائپ کا تھا یعنی بہت سٹیٹ فاروڈ قسم کے انسان تھے غصہ آنے پر گالیاں بھی نکالتے تھے لیکن اب کچھ وقت سے میں نے محسوس کیا ہے کہ ان کی ووکیبلری بھی بہت سٹرانگ ہوگئی ہے گالیاں بھی نہیں نکالتے ہیں اور معلومات میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے تو میں نے اندازاہ لگایا ہے کہ صاحب علم لوگوں سے ہم کچھ نہ کچھ سیکھتے رہتے ہیں چاہے ہمیں اس چیز کا احساس ہو چاہے نہ ہو لیکن صحبت اثر کرتی ہے ۔
صحبت طالع ترا طالع کند
صحبت صالح ترا صالح کند
بہادر شاہ ظفر کے دور میں امیر احمد نام کا ایک مشہور خطاط ہوا کرتا تھا جس کو اہل دہلی پنجہ کش یا دست پنجہ کہا کرتے تھے سقوط دہلی میں مارے گئے تھے۔
ان کے بے شمار شاگرد تھے جب پہلی بار ان کے پاس شاگرد آتا تھا تو اس سے ایک خط لکھوا کر اپنے پاس محفوظ کرلیا کرتے تھے اور جب شاگرد طاق ہو کر رخصت ہوتا تھا تو ان کو پتہ ہوتا تھا کہ شاگرد کے دل میں کیا چل رہا ہے یعنی یہی خیالات ہوتے تھے کہ میں نے کچھ بھی نہیں سیکھا تو اس کو کہتے تھے کہ میں املا بولتا ہوں آپ خط لکھو تو شاگرد کا پرانا خط نکال کر بعینہٖ وہی الفاظ لکھوایا کرتے تھے بعد میں دونوں خطوط سامنے رکھ کر کہتے تھے کہ جب آپ کا پہلا دن تھا تو اس وقت آپ کی ہینڈ رائتنگ کیسی تھی اور اب کیسی ہے تو شاگرد دل ہی دل میں بہت شرمندہ ہوتا تھا۔
 
انسانی جسم میں ایک سو آٹھ پاور پوائنٹ/لطائف ہیں صاحب معرفت لوگوں نے ان پاؤر پوائنٹس کو معلوم کیا اور پھر اس فریکوئنسی کو معلوم کیا جس پر وہ فیڈ ہیں۔ چونکہ انسان بہت تحقیق کرنے والا محقق واقع ہوا ہے سو اس نے یہ بھی معلوم کرلیا کہ وہ فریکوئنسز کو کیسے جنریٹ کرسکتا ہے سو اس مقصد کے لیئے اس نے ایسے ساونڈز دریافت کیئے کہ ان ساونڈز اور ان پاؤر پوائنٹس کی فریکوئنسی ایک تھی۔

فی زمانہ ہم لوگ چونکہ فطرت/نیچر سے دور ہیں اس لیئے ہمارے یہ پاؤر پوائنٹس بھی کمزور ہوگئے ہیں جس طرح سیل کمزور ہوجاتا ہے یا اگر وائی فائی کے سگنل کمزور ہوں تو وٹس ایپ پر بات کرتے کرتے دوسری طرف/اینڈ پر آواز کٹ کٹا کر جاتی ہے اور سننے والا یہ نہیں جان پاتا ہے کہ دوسرے اینڈ والا کیا کہہ رہا ہے۔
ایک مرید اسم اعظم کا متلاشی تھا ایک دن اپنے مرشد کے حضور بیٹھا یہی بات کررہا تھا کہ مرشد کے چھوٹے صاحبزادے جو کہ پانچ سال کی عمر کے تھے انہوں نے مرید کی ٹھوڑی کو پکڑ کر کہا کہ اسم اعظم تو آپ خود ہیں ان ساونڈز میں ایک جہان پوشیدہ ہے۔ کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ اس سر/راز/بھید کو عیاں کردوں
خواہم از عشق داستاں بیاں گویم
سرِ یار نہاں عیاں گویم
اگر فساد کا اندیشہ نہ ہوتا تو ان سارے ساؤنڈز کو بیان کرتا۔
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوف فساد خلق سے ناگفتہ رہ گئے
 

سیما علی

لائبریرین

حضرت شمس تبریز رحمتہ اللہ علیہ


بغداد کی حدود سے نکلے ہی تھے کہ اچانک بادشاہ کا بیٹا بیمار پڑ گیا اور دوسرے دن مر گیا. بادشاہ کو گمان گزرا شاید یہ سب واقعہ حضرت شمس تبریز رحمتہ اللہ علیہ سے بدسلوکی کی وجہ سے رونما ہوا ہے۔ بادشاہ نے اپنے مشیران کو حکم دیام، کوئی بھی صورت ہو انہیں بغداد واپس لاو۔حکم پاتے ہی مشیران تیز گھوڑوں پر سوار ہو کر دوڑ پڑے. شاہی قاصدوں نے انھیں جا لیا پھر دست بدست عرض کی حضور واپس بغداد تشریف لے چلیں۔یہ سن کر حضرت شمس رحمتہ اللہ علیہ کے چہرے پر اذیت کا رنگ ابھر آیا کل جس جگہ مجھے ذلیل کیا گیا آج پھر اسی مقام پر جانے کا کہ رہے ہو؟؟؟؟

حضرت شمس رحمتہاللہ علیہ نے انکار کر دیا لیکن شاھی کارندے بہت دیر تک عاجزی کا مظاہرہ کرتے رہے تو آپ کو ان پر رحم آ گیا جب آپ شاھی محل پہنچے وہاں صف ماتم بچھی ہوئی تھی یہ سب کیا ہے آپ نے بادشاہ سے پوچھا،یہ میرے جواں مرگ بیٹے کی میت ہے آپ کے بغداد سے جاتے ہی اچانک بیمار ہوا اور دیکھتے ھی دیکھتے آغوش فنا میں چلا گیا۔میں سمجھتا ھوں آپ کی دل آزاری کے باعث میرا بیٹا اس انجام کو پہنچا. شدت غم سے بادشاہ کی آواز کانپ رہی تھی۔فی الواقع اگر یہی بات ہے تو آپ کے بیٹے کو سزا کیوں ملی؟؟؟ گناہ تو آپ نے کیا تھا. حضرت شمس نے فرمایا۔

ممکن ہے قدرت نے. میرے لیے یہی سزا منتخب کی ھو کہ تمام عمر بیٹے کی جدائی میں تڑپتا رہوں. بادشاہ نے کہا.میری درخواست ھے کہ آپ میرے بیٹے کے حق میں دعائے خیر فرما دیں. بادشاہ نے کہا ھو سکتا ھے آپ کی دعاؤں سے اسے نئی زندگی مل جائے.ایسا ھوتا تو نہیں ھے پھر بھی تمہاری تالیف قلب کے لیے مالک کی بارگاہ میں عرض کیے دیتا ھوں. ایوان شاھی کے ایک کمرے میں ابھی دعا کے الفاظ کی گونج باقی ھی تھی کہ شہزادے کے جسم کو جنبش ہو ئی اور وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور حیرت زدہ نظروں سے چاروں طرف دیکھنے لگا،یہ منظر دیکھ کر بادشاہ حضرت شمس تبریز رحمتہ اللہ علیہ کے قدموں میں گر گیا کہ یہ سب آپ کی دعاؤں کا نتیجہ ھے۔

ھرگز نہیں یہ تو قادر مطلق کی کرم نوازی کا ادنی سا مظاہرہ ہے جو اپنی ذات میں لاشریک ھے اسی کا شکر ادا کرو. آپ رح نے فرمایا.یہی کرامت آپ کے لیے وبال جان بن گئی. لوگوں نے آپکو شعبدے باز کہا اور آپ کے خلاف صف آراء ہوگئے، حضرت شمس تبریز رحمتہ اللہ علیہ کی کھال کھینچ لی گئی اسی حالت میں بغداد سے نکال دیا جب آپ لہو لہان تھے،ولی عہد سلطنت شہزاد محمد کو آپ سے بہت عقیدت تھی جب آپ شہر بدر ھوئے تو شہزاد محمد بھی آپ کے ساتھ ھو لیے.بغداد سے نکل کرہندوستان کا رخ کیا اور طویل مسافت کے بعد ملتان پہنچے اور سکونت اختیار کی۔ ملتان کے لوگوں نے بھی اہل بغداد کی طرح آپ کی مخالفت کی. ایک بار یوں ہوا حضرت شمس ؒ کو گوشت بھوننے کے لیے آگ کی ضرورت پیش آئی آپ نے شہزاد محمد کو آگ لانے کے لیے بھیجا مگر پورے شہر میں سے کسی نے بھی آگ نہ دی ایک سنگدل شخص نے اس وجہ سے شہزادے کو اتنا مارا کہ چہرے پر زخموں کے نشان ابھر آئے.واپس آ کر شہزاد نے پورا واقع سنایا تو آپ ؒ کو جلال آ گیا آپ نہایت غصے کی حالت میں خانقاہ سے نکلے گوشت کا ٹکڑا ہاتھ میں تھا پھر حضرت شمس ؒ نے آسمان پر نظر کر کے سورج کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا؛ تو بھی شمس میں بھی شمس اس گوشت کے ٹکڑے کو بھون دے۔

اتنا کہنا تھا کہ گرمی کی شدت میں اضافہ ہو گیا پھر یہ گرمی اتنی بھڑی کہ اہل ملتان چیخ اٹھے پورا شہر آگ کی بھٹی بن کہ رہ گیا،کچھ باخبر لوگوں نے یہ صورت حال دیکھی تو آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ کیا چند نادانوں کے جرم کی سزا پورے شہر کو دے ڈالیں گے. آپ ؒ نے فرمایایہ نادان نہیں سفاک ہیںآگ جیسی بے قیمت چیز نہیں دے سکتے میرے محبوب کے چہرے کو زخموں سے سجا دیا آخر اس کا جرم کیا تھا. جانتے ھو یہ کون ھے؟؟؟ بغداد کا شہزادہ میری خاطر بھیک مانگنے گیا لیکن اس کو شہر والوں سے زخم ملے. جب تک سارے شہر کے جسم آبلوں سے نہیں بھر جائیں گے مجھے قرار نہیں آے گا۔

خدا کے لیے انہیں معاف کر دیں. ملتان کے دانائے راز حضرات نے سفارش کرتے ہوئے کہا.خیر جب خدا کو درمیان میں لے آئے ہو تو معاف کیے دیتا ھوں. آپ ؒ نے فرمایا .پھر سورج سے مخاطب ہوئے اپنی حرارت کم کر دے معلوم نہیں یہ لوگ روز حشر کی گرمی کیسے برداشت کریں گے. آپ کا یہ فرمانا تھا سورج کی حرارت اعتدال پر آ گئی.لوگ اب بھی ملتان کی گرمی کو اسی واقعے کا نتیجہ سمجھتے ھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
۔۔۔۔ فتح جنگ بدر۔۔۔۔❤✨
غزوہِ بدر اسلام کی سب سے پہلی اور اہم ترین جنگ تھی جو ۔17 رمضان المبارک دو ہجری کو بدر کے مقام پر ۔مسلمانوں اور قریشِ مکہ کے درمیان لڑی گئی۔ اگرچہ اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد قریش سے بہت کم تھی لیکن اس کے باوجود مسلمانوں نے شاندار کامیابی حاصل کی۔
حق و باطل کے درمیان فیصلہ کن معرکہ_!!
"اللّٰہ تعالٰی نے جنگِ بدر کے موقع پر ایسی حالت میں تمہاری مدد کی تھی جب تم بالکل بےسرو سامان تھے،لہذا (صرف) اللّٰہ کا خوف دل میں رکھو تاکہ تم شکر گزار بن سکو۔"
(آل عمران:123)
معرکہ میں انتہائی بےسروسامانی کے باوجود اللّٰہ تعالٰی کی خاص نصرت و امداد سے مسلمانوں کو شاندار فتح نصیب ہوئی۔
نیز مسلمانوں کی تعداد 313 جبکہ قریشِ مکہ ہزار کے قریب تھے اس غزوہ میں 17 مسلمان شہید ہوئے جبکہ قریش کے 70 سردار مارے گئے۔
قرآن مجید میں اسے "یوم الفرقان" (یعنی حق و باطل میں جدائی کرنے والا دن) فرمایا گیا۔
(در منشور،72/4،پ10،الانفال تحت الآیہ:41)
آپﷺ نے فرمایا: بدر والے سب مسلمانوں سے اَفضل ہیں۔
(بخاری:569)
بدر والے صحابہ کرام کی فضیلت
کہ اللّٰہ اللّٰہ
بدری صحابی صحابہ میں افضل ترین
بدری فرشتے فرشتوں میں افضل
اور اللّٰہ پاک نے بدر والوں کے لئے فرما دیا
کہ یہ جنتی ہیں
ان کی بخشیش کے لئے بدر کی قربانیاں کفایت کرگئی ہیں۔
(صحیح مسلم:6401)
 

سیما علی

لائبریرین
قانون سازی اور قانون کی عملداری میں عدل
حضرت علی علیہ السلام نے اپنی حکومت کے لئے جو قوانین مرتب کئے تھے، وہ من و عن وہی قوانین تھے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی حکومت کے لئے معین فرمائے تھے ، چنانچہ حضرت علی علیہ السلام کی عدالت کے بارے میں پیغمبر اسلامﷺ کا ارشاد ہے: *کفّی و کفّ علی فی العدل سواء* یعنی: عدالت میں میرا اور علی کا ہاتھ بالکل برابر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام مالی اور دیگر مادی حتی معنوی مسائل میں سارے انسانوں کو ایک ہی خانہ میں جگہ نہیں دیتا اور اس مسئلہ میں اسلام مارکسزم کا شدید مخالف ہے؛ لیکن جہاں قانون کا مسئلہ ہوتا ہے، وہاں اسلام، عالم و جاہل، غریب و امیر، دوست و دشمن سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ’’علیک بالعدل فی الصدیق والعدو‘‘ یعنی: دوست اور دشمن دونوں کے ساتھ عدالت سے پیش آؤ۔

آپ علیہ السلام نے ایک نافرمان عامل کی تنبیہ کرتے ہوئے ایک خط میں فرمایا: واللّہ لو ان الحسن والحسین۔۔۔ یعنی: واللہ اگر حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام نے بھی یہ کام کیا ہوتا، تو ان کے لئے بھی میرے پاس کسی نرمی کا امکان نہیں تھا۔۔۔۔ آپ علیہ السلام قانون کے نفاذ میں کسی مروت، خاندان پرستی اور تعلقات کے قائل نہیں تھے، چنانچہ جناب عقیل علیہ السلام نے جو کہ آپ کے سگے بھائی تھے، جب آپ سے اپنا قرض ادا کرنے کے لئے بیت المال سے کچھ اضافی رقم کا مطالبہ کیا تو آپ نے نہایت سختی سے انکار کر دیا۔ *آج کی حکومتوں کو حضرت علی علیہ السلام کی سیرت کو اپناکر ایسے قوانین بنانا چاہیں، جن میں صرف حکمرانوں کا نہیں بلکہ پوری قوم کا فائدہ ہو اور دنیا کو چاہیئے کہ ملکی اور عدالتی قوانین کے نفاذ میں تفریق کی قائل نہ ہو۔* *ایک مقام پر فرماتے ہیں۔۔* اتامرونی ان اطلب النصر بالجور...‘‘ یعنی: کیا تم لوگ مجھے مشورہ دے رہے ہو کہ میں ظلم و جور کے سہارے فتح و کا میابی حاصل کروں۔۔۔۔ *اور اس جملہ کے ذریعے آپ نے اس نظریہ پر خط بطلان کھینچ دیا، جو کہتا ہے کی بلند اور نیک مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اچہے برے ہر قسم کے وسائل کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔*

مالی وسائل کی تقسیم میں عدل
رسول اللہ (ص) عرب و عجم اور سیاہ و سفید کی تفریق کے بغیر سارے مسلمانوں کو بیت المال سے برابر کا حق دیا کرتے تھے۔ لیکن رسول اللہﷺ کے بعد کی حکومتوں نے آپ کی سیرت کے بر خلاف بیت المال اور مال غنیمت کی تقسیم میں رنگ و نسل اور ذات پات کو معیار بنا لیا۔ لیکن حکومت ملتے ہی حضرت علی علیہ السلام نے اس غلط اور غیر اسلامی سیرت کی مخالفت کی اور دوبارہ سیرت رسولﷺ کا احیاء فرمایا اور عرب و عجم، سیاہ و سفید اور مہاجر و انصار کی تفریق ختم کر دی، جس کے نتیجے میں اہل باطل کی ایک بڑی تعداد آپ کی مخالف ہوگئی۔ ایک مقام پر امام علیہ السلام نے فرمایا: والله لو وجد ته قد تزوج به النساء۔۔۔۔ یعنی: خدا کی قسم! اگر میں مسلمانوں کے عمومی اموال اس حالت میں پاتا کہ اسے عورت کا مہر بنا دیا گیا ہے یا کنیز کی قیمت کے طور پر دیا گیا ہے تو اسے بھی واپس کرا دیتا۔۔۔۔ آپ علیہ السلام بیت المال کو مال خدا اور مسلمانوں کا حق سمجھتے تھے۔ آپ نے کبھی بھی بیت المال کو اپنے ذاتی منافع کے لئے استعمال نہیں کیا اور نہ ہی اپنے کسی عامل کی طرف سے بیت المال میں خیانت اور اسراف کو برداشت کیا۔ نہج البلاغہ کے مختلف خطبات اور مکتوبات اس بات پر گواہ ہیں کہ امیر المومنین علیہ السلام نے بیت المال میں معمولی خیانت کرنے والوں کی شدید تنبیہ و سرزنش کی ہے اور بہت سے گورنروں کو اس خطا پر معزول بھی کیا ہے۔

فیصلوں میں عدل
آپ کی عدالت اس سلسلے میں شہرہ آفاق ہے اور اس موضوع پر بہت سی مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ہم ذیل کی سطروں میں فقط دو تین نمونوں کے ذکر کرنے پر اکتفاء کر رہے ہیں:
الف: ایک مرتبہ ایک شخص نے قاضی کے دربار میں حضرت علی علیہ السلام کے خلاف شکایت کی، حضرت علی علیہ السلام اس شخص کے ساتھ قاضی کے دربار میں پہنچے تو قاضی نے کہا: اے ابو الحسن! آپ اپنے مدّعی کے ساتھ بیٹھ گئے، جب مقدمہ کا فیصلہ ہوچکا تو قاضی نے حضرت علی علیہ السلام کے چہرے پر ناراضگی کے آثار دیکھ کر اس کا سبب پوچھا، آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’تم نے گفتگو کے دوران میرے مدّعی کو نام لے کر بلایا، مگر مجھے کنیت کے ساتھ بلایا، حالانکہ عدل و انصاف کا تقاضا یہ تھا کی تم مجھے بھی نام لے کر بلاتے۔
ب: حضرت علی علیہ السلام نے اپنے مشہور صحابی ابو الاسود دوئلی کو ایک جگہ قاضی بنایا اور پھر کچھ ہی عرصے کے بعد معزول کر دیا تو انہوں نے پوچھا: یا امیر المومنین میں نے نہ تو کوئی خیانت کی اور نہ ہی کسی طرح کی ناانصافی اور ظلم، پھر آپ نے مجھے کیوں معزول کر دیا؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’میں نے دیکھا کی تمہاری آواز مدعی کی آواز سے بلند ہو جاتی ہے. لہذا تمہیں معزول کر دیا۔

حضرت علی علیہ السلام نے فیصلہ، قضاوت اور حدود الہیٰ کے نفاذ میں اپنے پرائے، دوست و دشمن، غلام و آقا، عرب و عجم سب کو ایک نگاہ سے دیکھا. چنانچہ تاریخ میں ایسے بہت سے شواہد ملتے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے حکم الہیٰ کی مخالفت اور جرم کے مرتکب ہونے کی صورت میں اپنے قریبی ترین چاہنے والوں پر بھی حدود الہیٰ کو جاری کیا۔ چنانچہ نجاشی نام کے آپ کے ایک قریبی چاہنے والے نے، جو بہت بڑے شاعر تھے اور ہمیشہ آپ کی حمایت میں اشعار کہا کرتے تھے، شراب پی لی. تو آپ نے اس پر بھی شراب پینے کی حد جاری کر دی اور جب اس کے قبیلہ والوں نے اعتراض کیا تو فرمایا: ’’اے بنی نہد کے بھائیو! نجاشی بھی امت مسلمہ کا ایک فرد ہے۔ لہذا ہم نے کفارہ کے طور پر اس پر بھی شریعت کی حد جاری کی ہے۔۔۔۔
 
صوفی ایک ایسی ہستی ایک ایسی شخصیت کو کہتے ہیں کہ جس کی ہر چیز پرگہری نظر ہوتی ہے جو کہ عام کیا اچھے خاصے انٹلکچوئل کو بھی نصیب نہیں ہوتی ہے کیونکہ ہر اٹنلکچوئل بھی کسی نہ کسی نظریئے کا اسیر ہوتا ہے جب کہ صوفی سب کچھ جانتا ہے سب نظریوں کو مانتا یا یوں کہہ لیں کہ احترام کرتا ہے ہے لیکن باؤجود اس سب کہ وہ ہر نظریئے سے آزاد ہوتا ہے کیونکہ صوفی جس کمزور لمحے کا اسیر ہو کر کسی نظریئے کا پیرو ہوگا اسی لمحے سے اس کےمقید/ جہل کا دور شروع ہوجائے گاکیونکہ صوفی جانتا ہے کہ اس دنیا میں سب کچھ ایلوجن/سراب ہے اور کوئی بھی نظریہ کامل نہیں ہے اور ہر نظریہ چیلنج کیا جاسکتا ہے اور شرح و بسط سے اس پر اعتراضات کیئے جاسکتے ہیں ۔
 
عورت کی زبان سے، بگڑے پٹھان سے اور بن بلائے مہمان سے اللہ بچائے
درزی کے لارے سے، دیرینہ کنوارے سے، محبت میں ہارے سے اللہ بچائے
مُلا کے لالج سے، نفسیاتی معالج سے، اور دماغی فالج سے اللہ بچائے
گدھے کی لات سے، پیسے والے جاٹ سے اور تھانے کی رات سے اللہ بچائے
پرانی بیوی سے ،خراب ٹی وی سے اور مخنث کی عاشقی سے اللہ بچائے
رانوں کی گالی سے، بے سُری قوالی سے اور نہار منہ سوالی سے اللہ بچائے
نکلے ہوئے کیل سے، خاتون کی دلیل سے اور بھوکی چیل سے اللہ بچائے
کوے کی مکاری سے، پولیس کی یاری سے اور ٹرک کی شاعری سے اللہ بچائے
چوہدری کے ڈکار سے، منہ بولے پیار سےاور پیٹھ پیچھے وار سے اللہ بچائے
پاوں کی موچ سے، رشتے دار کی سوچ سے اور مچھر کی فوج سے اللہ بچائے
پیشہ ور قصائی سے، پنڈ کے نائی سے اور محلے کی دائی سے اللہ بچائے
محبوب کے طعنے سے، بے وقت گانے سے اور بیگم کے بہانے سے اللہ بچائے
بھینس کی نادانی سے، اتھری جوانی سے اور کملی زنانی سے اللہ بچائے.
 

سیما علی

لائبریرین
امام شافعیؒ نے فرمایا:
"احمدؒ آٹھ شعبوں میں امام ہے:
✦ حدیث میں امام ہے
✦ فقہ میں امام ہے
✦ لغت میں امام ہے
✦ قرآن میں امام ہے
✦ فقر میں امام ہے
✦ زہد میں امام ہے
✦ ورع میں امام ہے
✦ سنت میں امام ہے (طبقات الحنابلہ مؤلفہ ابو یعلیٰ)
 
Top