روحانی اقوال

تنزلات
جب وجود نے مرتبۂِ وراء الوراء ثم الوراء سے جن سیڑھیوں پر قدم بہ قدم اُتر کر بمطابق اس حدیث قدسی کے کُنْتُ کَنْزاً مَخْفِیاً فَاحْبَتْ اَنْ اَعْرَفُ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَاپنی پہچان کروائی ۔ ان Steps کو تنزلات کہتے ہیں ۔
لغت (Dictionary)کے مطابق اوپر کی منزل چھوڑ کر نیچے آجانے کا نام تنزل ہے ۔
لیکن تصوفانہ اصطلاح میں تنزل کا یہ مطلب نہیں ۔کیونکہ ھوالآنَ کَمَا کَانَ (وہ اب بھی ویسا ہی ہے جیسا کے پہلے تھا ) بلکہ تمام تعینات خواہ وہ کسی کے علمی طور پر علم میں آئے ہوں ۔چاہے کسی نے اس کا مشاہدہ Observation) (کیا ہو ۔یہ سب تنزلات خارج (External) میں واقع ہوئے ہیں نہ کہ وجود میں ۔اس لیئے یہ تنزلات حقیقی نہیں ہیں بلکہ معیاری/اِعتِباری /سٹینڈرڈاور شہودی ہیں ۔جن منزلوں پر وجود نے قدم بہ قدم نزول فرمایا ۔انھیں حسبِ موقعہ کبھی تنزلات ،کبھی تعینات ، کبھی تجلیات، کبھی تَقِیدات اور کبھی
اعتبارات کہتے ہیں ۔
تنزلات ستہ کا بیان یعنی سات تنزلات کابیان(جن میں حق تعالیٰ نے ظہور فرمایا)
واضح ہو سات مرتبے اور ۶تعینات ہیں۔
پہلے مرتبہ احد یت کا بیان۔
پہلا مرتبہ لا تعین اور اطلاق ذاتِ بَحَت/خالصتا/پیورلیہے۔ وجود اس مرتبہ میں صفات کی نسبت سے بری یہاں تک کے تعینات سے بھی پاک ہے اور اس مرتبہ کا نام مرتبہ احدیت رکھا جاتا ہے اور یہ حق تعالیٰ کی کُنہ(حقیقت) ہے اوراس کے اوپر اور کوئی مرتبہ نہیں ہے
بلکہ تمام اس کے نیچے ہیں ۔احدیت میں اسماء و صفات سے کوئی چیز ظاہر نہیں ہوتی ۔وہ اپنی ذاتی شان میں محض ذات ہے۔پس پہلے مرتبہ کو لا تعین ، ذات بحت اور احدیت صِرفہ(تنہا۔محض) کہتے ہیں جو کہ تعریف اور صفات کی اضافت سے مننزہ (یعنی بے چون وبے چگوں)
اور ہر قید حتیٰ کہ قید اطلاق سے بھی پاک ہے۔
دوسرے مرتبہ جس کانام وَحدت ہے اور پہلا تعین ہے جس کا نام حقیقت محمدیہ ﷺہے۔
اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا اپنی ذات اور اپنی صفات اور تمام مؤجودات کو بعض کو بعض سے امتیاز کئے بغیر اِجمالی (تفصیل کی ضد)طور پر جان لینا ہے ۔اور تصوفانہ اصطلاح میں دوسرے مرتبہ کو جمع الاجمع ،علم مُجْمَل ،علم ذاتی کہتے ہیں ۔اسی مرتبہ میں ذات نے اپنے آپ کو اناسے
تعبیر فرمایا ہے ۔
تیسرا مرتبہ جس کا نام و احدیت اور دوسرا تعین ہے جس کا نام حقیقت انسانیہ ہے۔
اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا اپنی ذات اور صفات اور تمام مؤجودات کا تفصیلی طور پر اور ایک دوسرے میںامتیاز کرنے اور تفصیلی طور پر جان
لینے کا علم ہے ۔
یعنی جو کچھ تعینِ اول جس کانام ’’ حقیقت محمدیہ ہے ‘‘ میں مختصراً ظاہرتھا ۔وہ تعین ثانی جس کا نام ’’ حقیقت انسانیہ ہے ‘‘ میںتفصیلاً ظاہر ہوا جیسے بیج سے تنا ،شاخیں ، پتے ، پھول اور پھل ظاہر ہوتے ہیں اور اس تیسرے مرتبہ کوجس کا نام ’’ واحدیت ہے ‘‘ کو عالمِ جبروت بھی کہتے ہیں اور مقام جمع ،حقیقتِ آدم اور نفسِ رحمان بھی کہتے ہیں۔
چوتھے مرتبہ جس کا نام ملکوت اورتیسرا تعین ہے جس کا نام روح ہے۔
چوتھا مرتبہ عالمِ ملکوت کا مرتبہ ہے یہ عالم بحر ناپید اکنار ہے ایک طرف تو ذات بے چوں(مانند۔مثل) سے بہ کیفیت ِ بے چونی متصل ہے اور دوسری طرف عالمِ اجسام سے بحیثیت ان کی روح کے تعلق کی وجہ سے منسلک ہے (جسے تصوفانہ اصطلاح میں عالمِ امر، لوحِ محفوظ اور نفسِ ناطقہ ، الروح ،روحِ مقیم اور روحِ اعظم بھی کہتے ہیں یہ ایک بسیط اور بے کیف عالم ہے نزدیک و دور سے پاک ہے۔زمین و آسمان کے بیچ جو کچھ بھی ہے چاہے وہ جمادات ہے ،حیوانات ہے یا نباتات ہر ایک میں اس کی استعداد کے مطابق تصرف کرتی ہے انسان میں روح انسانی اس کا نام ہے جب انسان زندہ ہوتا ہے اس کا نام حیات ہے اور جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا نام موت ہے ۔چونکہ حالت نیند میں اسکا ظاہری تصرف بند ہوجاتا ہے اس لیئے نوم کو موت کی بہن کہا جاتا ہے ۔ ) تعینات کے ضمن میں اس کا نام تعینِ روح ہے۔ اس
سے مراد عالم دنیاکی چیزیں ہیں جو مجرد و بسیط ہیں۔
المرتبہ الخامس و التعین الرابع عالم مثال
(شرح مرتبہ پنجم تعین چہارم عالم مثال)
پانچواں مرتبہ عالم مثال کا ہے جو کہ تعینات کے ضمن میں چوتھا تعین ہے ۔ اور اس سے مراد اشیاء کونیہ مرکبہ لطیفہ ہیں جو نہ ٹکڑے ٹکڑے ہوتی ہیںنہ ہی پھٹتی اور جڑتی ہیں۔ اور یہ نورانیت کا مقام ہے۔یہ ایک انتہائی لطیف عالم ہے ۔اس میں دنیاوی ہر چیز کی اپنی ایک شکل ہے ،مثلاً یہاں حرص کی شکل کوے کی صورت میں متشکل ہے ،شہوت مرغ کی شکل میں ،زیب وزینت مور کی شکل میں ،امن فاختہ کی شکل میں۔ہدہد
رشک کی شکل میں، غرض ہر چیز کی شکل مؤجود ہے ،یعنی غم ،خوشی،بیماری ، نفرت ،سچ ،وغیرہ وغیرہ
المرتبۃ السادسہ و التعین الخامس عالم الاجسام
(شرح مرتبہ ششم تعین پنجم عالم اجسام)
اور چھٹا مرتبہ عالم اجسام کا ہے اور تعینات کے ضمن میں پانچواں تعین ہے اور اس سے مراد اشیاء کونیہ کثیفیہ ہیں جو ٹکڑے ٹکڑے ہونے کو اور جدا جدا ہونے کو قبول کرتی ہیں۔ اس کو عالمِ ناسوت بھی کہتے ہیں ۔یہ جسمانیت کا مقام ہے
والمرتبۃ السابعۃ
اور ساتواں مرتبہ انسان ہے جو تعینات کے ضمن میں چھٹا مرتبہ ہے ان تمام مراتب مذکورہ جسمانیہ نورانیہ روحانیہ ،وحدت،واحدیت کا مرتبہ
جامعیت ہے وہ پچھلی تجلیات کا لباس ہے اور اس کا نام انسان ہے ۔
(انسان کامل ان تمام مراتب کا جامع ہے جب وہ عروج کرتا ہے تو اس میں تمام مراتب مذکورہ اپنے پھیلاؤ کے ساتھ ظاہر ہوجاتے ہیں اور
اس کو انسان کامل کہا جا تا ہے)۔
سرِّوحدت سے اتنی آشنائی اور عواملِ جمعیت سے اتنی آگاہی کہ انسان کثرات سے نکل کر جمع الجمع کے مقام پر پہنچ جائے ۔بہت دشوار ہے جب کسی کو یہ مقام حاصل ہوجاتا ہے تو وہ ہر شخص کے آگے اس مقام کا راز بیان نہیں کرسکتا ۔کیونکہ اس کے لیے بڑی تربیت اور بہت زیادہ تہذیبِ نفس کی ضرورت ہے ۔اسی لئے تو صوفیوں کو اہلِ راز کہا گیا ہے۔
گفت پیغمبر کہ ہر کوسرنَہُفَت زود باشد بمرادِ خویش جفت
پیغمبر ( صلی اللہ علیہ و آلہ و بارک وسلم ) نے فرمایا جس نے اپنا راز چھپایا بہت جلد اپنی مرد سے وابستہ ہوا
دانہ چوں اندر زمیں پنہاں شود سِرِّآں سرسبزیِ بستان شود
دانہ جب زمیں میں خزانے کی طرح دبایا جاتا ہے تو کچھ عرصے بعد وہ باغ کی ہریالی صورت میں اپنا زرو وجواہراگل دیتا ہے۔
رازِ عرفانی کے افشا میں دو قباحتیں ہیں ایک تو اہل ظاہر اور بے مغز پوست پرستوں کی طرف سے اور دوسرے اپنے آپ کو عالم ظاہر کرنے والوں کی طرف سے ۔یہ ظاہری عالم جنگ جدل کے زور پر استدلال کرنا چاہتے ہیں ۔جب تک عقل کا قیاس نور عرفان سے منور نہ ہوجائے لاکھ عقل سر ٹپکے حق تک اس کی رسائی ممکن نہیں۔
نوٹ: اگر من کرے تو مندرجہ بالا لکھت سماعت بھی کرسکتے ہیں
 
ایک روز جب بابا اکیلے بیٹھے تھے تو میں ان کے سامنے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا اور بولا ’’بابا آپ سب لوگوں سے بار بار نروان کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ نروان کیا ہوتا ہے؟
‘‘بابا نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا ’’بیٹا‘‘ نروان میں ’’نر‘‘ کا مطلب ہے’’بغیر‘‘ اور ’’وان‘‘ کا مطلب ہے ’’ہوا‘‘ !
پھر کہنے لگے۔ کبھی تم نے تالاب کو دیکھا ہے۔ جب ہوا چل رہی ہو اور اس کی سطح پر لہریں پیدا ہو گئی ہوں اس وقت نہ تو ارد گرد کے ماحول کاعکس ہی تالاب میں نظر آتا ہے اور نہ تالاب کی تہہ میں پڑی ہوئی کوئی چیز دیکھائی دیتی ہے۔ لیکن جب ہوا تھم جائے تو باہر کی ساری دنیا اس میں نظر آنے لگتی ہے اور خود اس کی تہہ بھی ابھر کر سطح پر آ جاتی ہے۔ بس یہی حال انسان کا ہے۔ جب تک وہ خواہشات کی زد میں رہے گا، اسے نہ تو باہر کا کوئی علم حاصل ہو گا اور نہ اندر کی کائنات ہی اس پر منکشف ہوسکے گی۔
خواہشات کی آندھی رک جائے تو سمجھ بینائی مل گئی۔ نروان حاصل ہو گیا۔
 
لاجواب ہونا
خلیفہ ہارون الرشید بڑے حاضر دماغ تھے ایک دفعہ کسی نے ان سے پوچھا:
"آپ کبھی کسی کی بات پر لاجواب بھی ہوئے ہیں؟"
انہوں نے کہا: تین مرتبہ ایسا ہوا کہ میں لاجواب ہوگیا..!
ایک مرتبہ ایک عورت کا بیٹا مرگیا اور وہ رونے لگی.. میں نے اس سے کہا کہ آپ مجھے اپنا بیٹا سمجھیں اورغم نہ کریں.. عورت نے جواب دیا: "میں اُس بیٹے کے مرنے پر کیوں نہ آنسو بہاؤں جس کے بدلے خلیفہ میرا بیٹا بن گیا"
دوسری مرتبہ مصر میں کسی شخص نے حضرت موسیٰ ثانی ہونے کا دعوی کر لیا.. میں نے اسے بلوا کر کہا کہ حضرت موسیٰ کے پاس تو اللہ تعالیٰ کے دئیے معجزات تھے،، اگر تُو موسیٰ ہے تو کوئی معجزہ دکھا.. اس نے جواب دیا: "موسیٰ نے تو تب معجزہ دکھایا تھا جب فرعون نے خدائی کا دعویٰ کیاتھا.. تُو بھی یہ دعویٰ کر تو میں معجزہ دکھاتا ہوں"
تیسری مرتبہ لوگ ایک گورنرکی غفلت اور کاہلی کی شکایت لے کر آئے.. میں نے کہا کہ وہ شخص تو بہت نیک، شریف اور ایماندار ہے.. انہوں نے جواب دیا: "پھر آپ اپنی جگہ اسے خلیفہ بنا دیں تاکہ اس کا فائدہ سب کو پہنچے"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏میں کبھی لاجواب نہیں ہوا مگر اُس شخص کے سامنے، جس نے مجھ سے پوچھا :
تو کون ہے؟؟
خلیل جبران
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بار پطرس بخاری سے صحافی نے پوچھا
کہ آپ کبھی زندگی میں لاجواب ہوئے ہیں
پطرس بخاری نے جواب دیا کہ ہاں
ہوا کچھ یوں تھا کہ میری گھڑی خراب ہو گئی تھی میں گھڑی ٹھیک کروانے کے ارادے سے بازار گیا
ادھر ادھر دیکھنے پر مجھے گھڑیوں کی دوکان نظر آئی
میں نے دوکان دار سے کہا بھیا جی مجھے گھڑی ٹھیک کروانی ہے
دوکان دار نے جواب دیا کہ بھیا جی ھم گھڑیاں ٹھیک نہیں کرتے
میں نے پوچھا تو پھر آپ کیا کرتے ہیں
دوکان دار نے کہا جی ھم ختنے کرتے ہیں
میں نے دوکان دار سے کہا تو پھر آپ نے دوکان کے باہر گھڑیاں کیوں لٹکا رکھی ہیں
دوکان دار نے کہا تو آپ ہی پھر بتا دیں ھم باہر کیا لٹکائیں.
 

الف نظامی

لائبریرین
حضرت سید محمد حسینی خواجہ بندہ نواز گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

جب تک تمہیں محبت کی چنگاری اور معرفت الہی کی سرخ گندھک نہ ملے گی تمہارے وجود کا تانبا کبھی سونا نہیں بن سکتا۔
-
حاصلِ عشقش سہ سخن بیش نیست
سوختم و سوختم و سوختم
عشق کا حاصل تین باتوں کے علاوہ کچھ نہیں ، جل گیا ، جل گیا ، جل گیا
-
اے بھائی جہاں تک ہو وقت ضائع نہ کرو ، جو کچھ کرو خدا کی رضا کے لیے کرو۔
-
یہ سورتیں یاد کر لیں رات کو سونے سے پہلے پڑھیں
یسین ، فتح ، واقعہ ، ملک ، نوح
سونے سے پہلے پانچ سو مرتبہ درود شریف اور پانچ سو مرتبہ سورۃ الاخلاص پڑھنا
-
تلاوتِ کلام مجید اور اوراد و ظائف میں مصروف رہنے سے خود بخود گپ شپ میں کمی آ جاتی ہے
-
شرکِ خفی یہ ہے کہ خطرہ غیر کو دل میں گزرنے اور آنے دیں۔ تاثیرات کو اشیاء کا اثر جانیں۔ موثرِ حقیقی سے غافل ہو جائیں ، سبب و علت میں رہ جائیں ، مسبب کو فراموش کر دیں۔
-
ہمیں الف کی مانند قد عطا ہوا ہے ، اسی طرح ہمیں آزاد رہنا چاہیے
-
انسان میں خدا دانی ، خدا شناسی ، خدا پرستی اور خدا بینی ہونی چاہئیے ورنہ وہ دو پاوں کا ایک جانور کہا جائے گا
-
واللہ اگر وجدانِ یار نہیں تو طلب کرنے میں کیا نقصان ہے۔ کیوں نہیں طلب میں عمر گذار دیتے۔ اگر معرکہ میں مردوں کی طرح جولاں گری میسر نہیں تو مردوں کی صورت بنا کر نعرہ مارنے میں کیا حرج ہے۔ اگر حقیقتِ وصال نصیب نہیں تو اس کی تمنا ہی میں عمر بسر کرنا کیا برا ہے۔ اگر اچھی طرح سمجھو تو معلوم ہوگا کہ درمان وجود مقصود سے خوش تر دردِ طلب ہے جو اس میں مزا ہے وہ کسی میں نہیں۔ ہمارے سرور ہمارے پیشوا و مقتدا حضرت فرید الدین مسعود نور اللہ مرقدہ و قدس اللہ روحہ جس سے خوش ہوتے یہ دعا دیتے کہ خدائے عزوجل اپنا درد تجھے عطا کرئے۔
( بحوالہ فوائد حضرت بندہ نواز مرتبہ محمد معشوق حسین خان سلطانی ، ناشر سیرت فاونڈیشن لاہور )
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
حضرت خواجہ فخرِ جہاں علیہ الرحمۃ اپنے مریدوں کو عورتوں سے گانا سننے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ چنانچہ جب آپ کو اطلاع ملی کہ حافظ غلام رسول نے ایک مراسن عورت سے گانا سنا ہے تو آپ اس پر سخت برہم ہوئے اور فرمایا:
" حافظ جیو ! تو مرا چہ مقرر کردی ، من از آں ملایان ہستم کہ شیخ منصور را بر دار کردہ بودند "
یعنی تم نے مجھے کیا سمجھ رکھا ہے۔ میں تو اُن مولویوں میں سے ہوں جنہوں نے منصور کو پھانسی پر لٹکایا تھا
حالاں کہ حافظ صاحب انتہائی عابد ، زاہد اور مغلوب الحال بزرگ تھے۔ ان کے استغراق کی یہ کیفیت تھی کہ اگر نماز عشاء کے رکوع میں استغراق ہو جاتا تو صبح تک رکوع میں ہی کھڑے رہتے۔ اسی طرح اگر سجدے میں استغراق ہوتا تو پھر صبح تک سجدے میں پڑے رہتے اور جس سے آپ نے گانا سنا تھا وہ سیاہ رنگ کی بدہیئت میراسن تھی اور سرِ راہ اُس سے چند اشعار سن لیے تھے مگر شیخ طریقت اتنی سی بات کو بھی گوارا نہ کر سکے۔

بے علم صوفی شیطان کا کھلونا بن جاتا ہے۔
چنانچہ حضرت شیخ الاسلام فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ جب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی قدس سرہ کی بیعت کر نے کے بعد ان کے ہمراہ دہلی چلنے لگے تو انہوں نے آپ کو لے جانے سے انکار کر دیا اور فرمایا پہلے علم حاصل کرو پھر میرے پاس آو۔

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوبِ الہی قرآن مجید کے علاوہ صحاح ستہ کے بھی حافظ تھے اور ان کو ہندوستان کے اڑھائی سو جید علماء نے شیخ الاسلام کے عہدے کے لیے منتخب کیا تھا۔ گویا جب ہم کسی صوفی کا ذکر کرتے ہیں تو وہ عالم پہلے ہوتا ہے اور صوفی بعد میں۔
(بحوالہ خانقاہی نظام از نور احمد فریدی)

شاہ ابو الخیر فرماتے ہیں:
ہم نے مسند امام احمد کا مطالعہ از اول تا آخر پانچ مرتبہ کیا ہے۔
طبقات ابن سعد کا سات مرتبہ مطالعہ اور امام بخاری کی صحیح بارہ مرتبہ مطالعہ کر چکے ہیں۔
(بحوالہ: مقاماتِ خیر از ابو الحسن زید فاروقی صفحہ 353)
 

الف نظامی

لائبریرین
تزکیہ نفس چار قاف پر مشتمل ہے۔ قلت طعام (کم کھانا) ، قلت المنام (کم سونا) ،قلت الکلام( کم گفتگو کرنا) اور قلت الصحبۃ مع الانام ( لوگوں سے کم میل ملاپ رکھنا) ۔ جب ان چار قاف پر کاربند ہو جائیں تو جان لیں کہ تزکیہ نفس حاصل ہو گیا۔
( مکتوبات خواجہ بندہ نواز سید محمد حسینی رحمۃ اللہ علیہ )
 

سیما علی

لائبریرین
امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

میں نے اللہ سبحانہ کو پہچانا ارادوں کے ٹوٹ جانے،نیتوں کے بدل جانے، اور ہمتوں کے پست ہو جانے سے۔
نھج البلاغہ حکمت نمبر 250
 

سیما علی

لائبریرین
امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا:
عقل مند کی زبان اس کے دل کے پیچھے ہے اور بے وقوف کا دل اس کی زبان کے پیچھے ہے۔
نھج البلاغہ
حکمت 40
 

سیما علی

لائبریرین
دنیا بے وفا اور انتہائی ناقابل اعتبار ہے اس سے فائدہ وہی شخص اٹھاتاہے جو اسے مخلوق خدا کی اصلاح اور فلاح میں لگا دیتا ہے۔

شیخ سعدیؒ

 

سیما علی

لائبریرین
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام

فتنہ و فساد میں اس طرح رہو جس طرح اونٹ کا وہ بچہ جس نے ابھی اپنی عمر کے دو سال ختم کئے ہوں کہ نہ تو اس کی پیٹھ پر سواری کی جاسکتی ہے اور نہ اس کے تھنوں سے دودھ دوہا جاسکتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
امام علی علیہ السلام
تسلیم و رضا بہترین مصاحب اور علم شریف ترین میراث ہے اور علمی و عملی اوصاف خلعت ہیں اور فکر صاف شفاف آئینہ ہے .
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت ابومسعود عقبہ بن عمرو انصاری بدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس شخص نے کسی کی خیر و بھلائی پر رہنمائی کی تو اس کے لیے اس کارِ خیر کے کرنے والے کے برابر اجر ہے۔''
(مسلم)
توثیق الحدیث:أخرجہ مسلم(1893)
 

الف نظامی

لائبریرین
خواجہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد مبارک:
عام مومنوں کے مقام کی انتہا ولیوں کے مقام کی ابتدا ہے۔ ولیوں کے مقام کی انتہا شہیدوں کے مقام کی ابتدا ہے۔ شہیدوں کے مقام کی انتہا صدیقوں کے مقام کی ابتدا ہے۔
صدیقوں کے مقام کی انتہا نبیوں کے مقام کی ابتدا ہے۔ نبیوں کے مقام کی انتہا رسولوں کے مقام کی ابتدا ہے۔ رسولوں کے مقام کی انتہا اولوالعزم کے مقام کی ابتدا ہے۔ اولوالعزم کے مقام کے انتہا حبیبِ خدا محمد مصطفٰے ﷺ کے مقام کی ابتدا ہے اور حبیبِ خدا ﷺ کے مقام کی انتہا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی جانتا ہی نہیں ہے

( تذکرہ مشائخ نقشبندیہ ، صفحہ 58 )
 

ثمین زارا

محفلین
عوارف المعارف جو کہ حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہروردی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی شہرہ آفاق تصنیف ہے اس کے صفحہ نمبر 402 پر رقم ہے۔ "حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے فرمایا! کھانے کی ابتداء اور انتہاء نمک سے کروکیونکہ اس میں 70 بیماریوں کا علاج ہے جس میں پانچ بیماریاں یہ ہیں
جذام
برص
دارڈ کا درد
پیٹ کا درد اور جنون
جنون
کتنی اچھی بات ۔ ۔ شکریہ
 

ثمین زارا

محفلین
خواجہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد مبارک:
عام مومنوں کے مقام کی انتہا ولیوں کے مقام کی ابتدا ہے۔ ولیوں کے مقام کی انتہا شہیدوں کے مقام کی ابتدا ہے۔ شہیدوں کے مقام کی انتہا صدیقوں کے مقام کی ابتدا ہے۔
صدیقوں کے مقام کی انتہا نبیوں کے مقام کی ابتدا ہے۔ نبیوں کے مقام کی انتہا رسولوں کے مقام کی ابتدا ہے۔ رسولوں کے مقام کی انتہا اولوالعزم کے مقام کی ابتدا ہے۔ اولوالعزم کے مقام کے انتہا حبیبِ خدا محمد مصطفٰے ﷺ کے مقام کی ابتدا ہے اور حبیبِ خدا ﷺ کے مقام کی انتہا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی جانتا ہی نہیں ہے

( تذکرہ مشائخ نقشبندیہ ، صفحہ 58 )
صلی اللہ علیہ وسلم
 
Top