ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے ‘‘تذکرہ بابا تاج الدین ناگپوریؒ ‘’ میں اپنے نانا صاحبؒ کی ایک کرامت کی توجیہہ بیان کی ہے۔
‘‘ایک لنگڑا نوجوان شفا خانے میں آ کر ٹھہر گیا۔ یہ شفا خانہ بھی مسجد اور مدرسے کی طرح پھونس کی جھونپڑیوں پر مشتمل تھا۔ لنگڑا صبح کھا پی کر شفاخانے سے چلتا اور نانا تاج الدین کے سامنے آ بیٹھتا۔ سلام کر کے لنگڑی ٹانگ پھیلا کر اپنا ہاتھ پھیرنے لگتا اور ایسا منہ بناتا کہ جیسے بڑی تکلیف میں ہے۔ نانا ‘‘
ہوں’’ کہہ کر چپ ہو جاتے۔ اس طرح دو مہینے گزر گئے۔ لنگڑا تھا بڑا اڑیل، اپنے معمول پر قائم رہا۔ ایک روز غصے میں بھرا ہوا آیا اور نانا کی طرف دیکھ کر بڑبڑانے لگا۔ ‘‘
خدا نے مجھے لنگڑا کر دیا جن کی ٹانگیں ہیں ان کو کچھ احساس نہیں ہوتا۔ سنا تھا کہ خدا کے یہاں انصاف ہے۔ انصاف کو بھی جھنجوڑ کر دیکھ لیا۔ لوگ خدا خدا پکارتے ہیں لیکن خدا والوں کو بھی دیکھ لیا۔ یہ بھی سب گونگے بہرے ہیں۔ خدا اور خدا والوں سے تو میری بیساکھی اچھی ہے سہارا تو دیتی ہے۔’’
نانا اس کی باتیں سن کر جھنجلا گئے اور چیخ کر بولے ‘‘
جا دفان ہو جا۔ بھلا چنگا ہو کر لنگڑا بنتا ہے۔ جھوٹا کہیں کا’’ اور یہ کہہ کر لنگڑے کو مارنے کے لئے دوڑے۔ لنگڑا بیساکھی چھوڑ کر بھاگا۔ اب اس کی لنگڑی ٹانگ بالکل ٹھیک ہو چکی تھی۔
انسان علی شاہ، نانا تاج الدینؒ کے فیض یافتہ تھے۔ ان کو روحانی علوم پر عبور تھا اور سوچنے کی طرزیں بھی نانا سے ملتی تھیں۔ انہوں نے نانا کی حیات میں ترک وطن کر کے شکر درہ میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ ایک دن لنگڑے کا واقعہ زیر بحث آ گیا۔
انسان علی شاہ کہنے لگے۔ اس واقعہ کی توجیہہ مشکل نہیں۔
یہ سمجھنا کہ کائنات ارتقائی مراحل طے کر رہی ہے غلط ہے۔ یہاں ہر چیز صدوری طور پر ہوتی ہے۔ وقت صرف انسان کی اندرونی واردات ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کوئی شئے اندرونی واردات کی حد سے باہر نہیں۔ تغیر اور ارتقاء کے مرحلے اندرونی واردات ہی کے اجزاء ہیں۔ یہ واردات ہی نوعی سراپا کی نقلیں افراد کی شکل و صورت میں چھاپتی ہیں۔ چھپائی کی رفتار معین ہے۔ اسی رفتار کا نام وقت ہے۔ اگر اس رفتار میں کمی بیشی ہو جائے تو لنگڑا، لولا، اندھا چھپنے لگتا ہے۔ حوادث اس طرح رونما ہوتے ہیں۔ جب عارف کا ذہن ایک آن کے لئے صدوری کیفیت میں داخل ہو جاتا ہے تو یہ بے اعتدالیاں دور ہو جاتی ہیں اور لولے لنگڑے بھلے چنگے ہو جاتے ہیں۔
محمد سعد