ڈاکٹر ناشناسآج فیس بک کھولی تو ایک ایرانی نے یہ اشعار اپنی ٹائم لائن میں لکھے تھے تو اچانک صاعقہ کی رفتار سے 1990 کا منظر ذہن میں گھوم گیا میں صدر اپنے ایک دوست سے ملنے گیا تو اس کے ساتھ ایک اور لڑکا کھڑا تھا اور اس کو اپنی تازہ کہی ہوئی غزل سنا رہا تھا میں اسوقت دسویں کا طالب علم تھا میرے دوست کو کوئی ضروری کام تھا تو اس نے مجھے کہا کہ آپ جائیں اور معذرت کرلی اور ساتھ ہی کہا ان سے ملیں یہ ہیں وقار جو کہ مہر تخلص کرتے ہیں یہ آپ کے گھر کے قریب ہی رہتے ہیں بہرحال ہم باتیں کرتے ہوئے واپس گھر کو آنے لگے تو راستے میں پتہ چلا کہ مؤصوف بھی میٹرک کے طالب علم ہیں اور شاعری وغیرہ کرتے ہیں دوران راہ خوب علمی گفتگو ہوئی غالب، داغ اور اقبال پر سیر حاصل گفتگو ہوئی پھر فراز پر خوب تبادلہ خیال ہوا۔ مؤصوف ہر ایک پر اعتراضات اٹھائے جارہے تھے میرے لیئے یہ بہت حیرت کا باعث تھا کیونکہ میرے لیئے تو اس وقت یہ شعراء ایک دیوتا کی حیثیت رکھتے تھے جن کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن بہرحال جس کمال مہارت سے موصوف علمی گفتگو علم عروض کے حوالے سے فرمارہے تھے تو وہ میری چھوٹی سے عقل سے باہر تھی اس دوران موصوف کا گھر آگیا تو کہنے لگے اب اجازت چاہتا ہوں تو میں آخر وہ سوال جو کہ میرے ذہن میں کافی دیر سے کلبلا رہا تھا آخر کر ہی دیا میں نے کہا کہ جناب آپ کی بالی عمریا اور یہ خیالات کے بڑے بڑے مہان شکتی مان دیوتاؤں پر نکتہ اعتراض و فنی خامیاں ایں چہ بوالعجبی است تو موصوف کہنے لگے کہ میں ان چھوٹے چھوٹے شعراء کو نہیں پڑھتا ہوں بلکہ ان کو تو میں ساتویں کلاس میں ہی سارا پڑھ لیا ہے اور اب میں حافظ عرفی عراقی خاقانی اور بیدل کو پڑھنا ہوں اور جھٹ جیب سے ایک کیسٹ نکال کر دی اور کہا کہ اس کو سننا پھر بات کریں گے اور اللہ حافظ کہہ کر اپنی گلی کی طرف مڑلیے۔
میں نے کیسٹ پر دیکھا تو اس پر لکھا تھا ناشناس یہ ناشناس سے میرا پہلا تعارف تھا اس میں ایک کلام یہی ہے جو کہ میں اب آپ سے شریک محفل کرنے جارہا ہوں۔
http://dari.irib.ir/images/media/n.saeghe.mp3
راز آتشکدہ اے دل به کسے نتوان گفت
خبرِ صاعقہ در گوشِ خسے نتوان گفت
دل میں بھڑکتی آگ کا راز محرم راز کے سوا کسی کو نہیں بتلایا جاسکتا ایسے ہی بجلی کے چمکنے کی خبر(بمعنی آگ یا شعلہ) خس(بھوسہ) کے کان میں نہیں کہی جاسکتی ہے
ہمچو اے پروانہ خموشانہ شوَم خاکستر
کہ سر عشق بہ ھر بوالھوس نتوان گفت
مجھے پروانے کی طرح خاموشی سے اپنی آگ میں جل کر خاک ھونا پڑے گا۔ کیونکہ عشق کے اِسرار کسی ہوس کے پجاری کو بتائے نہیں جا سکتے ہیں
راهزن تا رهِ منزل نزَند اے راهرَو
مقصدِ قافلہ را بہ جرسے نتوان گفت
اے سلوک کے راستہ چلنے والے جب تک تو منزل پر نہیں پہنچ جاتا تو قافلہ کے قصد و مقصد و منزل کا پتہ قافلے کی جرس(گھنٹی) کو بھی نہیں بتایا جاسکتا کیونکہ راہزن بمعنی شیطان کا خطرہ مؤجود ہے۔
اے تنُک حوصلہ تُو محرمِ اسرا ر نہ ای
دردِ سیمرغ بہ پیشے مگسے نتوان گفت
اے کم حوصلہ سالک تو اسرار الٰہی کا امین کیسے ہوسکتا ہے کہ تھوڑی سی آزمائش سے ہی گھبرا گیا ہے۔ ایسے ہی سیمرغ کا راز کسی مکھی کو کیسے بتایا جاسکتا ہے۔
محمود احمد غزنوی نایاب الف نظامی تلمیذ باباجی فاتح
دردِ سیمرغ بہ پیشِ مگسے نتوان گفتآج فیس بک کھولی تو ایک ایرانی نے یہ اشعار اپنی ٹائم لائن میں لکھے تھے تو اچانک صاعقہ کی رفتار سے 1990 کا منظر ذہن میں گھوم گیا میں صدر اپنے ایک دوست سے ملنے گیا تو اس کے ساتھ ایک اور لڑکا کھڑا تھا اور اس کو اپنی تازہ کہی ہوئی غزل سنا رہا تھا میں اسوقت دسویں کا طالب علم تھا میرے دوست کو کوئی ضروری کام تھا تو اس نے مجھے کہا کہ آپ جائیں اور معذرت کرلی اور ساتھ ہی کہا ان سے ملیں یہ ہیں وقار جو کہ مہر تخلص کرتے ہیں یہ آپ کے گھر کے قریب ہی رہتے ہیں بہرحال ہم باتیں کرتے ہوئے واپس گھر کو آنے لگے تو راستے میں پتہ چلا کہ مؤصوف بھی میٹرک کے طالب علم ہیں اور شاعری وغیرہ کرتے ہیں دوران راہ خوب علمی گفتگو ہوئی غالب، داغ اور اقبال پر سیر حاصل گفتگو ہوئی پھر فراز پر خوب تبادلہ خیال ہوا۔ مؤصوف ہر ایک پر اعتراضات اٹھائے جارہے تھے میرے لیئے یہ بہت حیرت کا باعث تھا کیونکہ میرے لیئے تو اس وقت یہ شعراء ایک دیوتا کی حیثیت رکھتے تھے جن کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن بہرحال جس کمال مہارت سے موصوف علمی گفتگو علم عروض کے حوالے سے فرمارہے تھے تو وہ میری چھوٹی سے عقل سے باہر تھی اس دوران موصوف کا گھر آگیا تو کہنے لگے اب اجازت چاہتا ہوں تو میں آخر وہ سوال جو کہ میرے ذہن میں کافی دیر سے کلبلا رہا تھا آخر کر ہی دیا میں نے کہا کہ جناب آپ کی بالی عمریا اور یہ خیالات کے بڑے بڑے مہان شکتی مان دیوتاؤں پر نکتہ اعتراض و فنی خامیاں ایں چہ بوالعجبی است تو موصوف کہنے لگے کہ میں ان چھوٹے چھوٹے شعراء کو نہیں پڑھتا ہوں بلکہ ان کو تو میں ساتویں کلاس میں ہی سارا پڑھ لیا ہے اور اب میں حافظ عرفی عراقی خاقانی اور بیدل کو پڑھنا ہوں اور جھٹ جیب سے ایک کیسٹ نکال کر دی اور کہا کہ اس کو سننا پھر بات کریں گے اور اللہ حافظ کہہ کر اپنی گلی کی طرف مڑلیے۔
میں نے کیسٹ پر دیکھا تو اس پر لکھا تھا ناشناس یہ ناشناس سے میرا پہلا تعارف تھا اس میں ایک کلام یہی ہے جو کہ میں اب آپ سے شریک محفل کرنے جارہا ہوں۔
http://dari.irib.ir/images/media/n.saeghe.mp3
راز آتشکدہ اے دل به کسے نتوان گفت
خبرِ صاعقہ در گوشِ خسے نتوان گفت
دل میں بھڑکتی آگ کا راز محرم راز کے سوا کسی کو نہیں بتلایا جاسکتا ایسے ہی بجلی کے چمکنے کی خبر(بمعنی آگ یا شعلہ) خس(بھوسہ) کے کان میں نہیں کہی جاسکتی ہے
ہمچو اے پروانہ خموشانہ شوَم خاکستر
کہ سر عشق بہ ھر بوالھوس نتوان گفت
مجھے پروانے کی طرح خاموشی سے اپنی آگ میں جل کر خاک ھونا پڑے گا۔ کیونکہ عشق کے اِسرار کسی ہوس کے پجاری کو بتائے نہیں جا سکتے ہیں
راهزن تا رهِ منزل نزَند اے راهرَو
مقصدِ قافلہ را بہ جرسے نتوان گفت
اے سلوک کے راستہ چلنے والے جب تک تو منزل پر نہیں پہنچ جاتا تو قافلہ کے قصد و مقصد و منزل کا پتہ قافلے کی جرس(گھنٹی) کو بھی نہیں بتایا جاسکتا کیونکہ راہزن بمعنی شیطان کا خطرہ مؤجود ہے۔
اے تنُک حوصلہ تُو محرمِ اسرا ر نہ ای
دردِ سیمرغ بہ پیشے مگسے نتوان گفت
اے کم حوصلہ سالک تو اسرار الٰہی کا امین کیسے ہوسکتا ہے کہ تھوڑی سی آزمائش سے ہی گھبرا گیا ہے۔ ایسے ہی سیمرغ کا راز کسی مکھی کو کیسے بتایا جاسکتا ہے۔
محمود احمد غزنوی نایاب الف نظامی تلمیذ باباجی فاتح
نہایت ہی اعلی انتخاب، عظیم صاحب۔ہمارے بُت