عظیم اللہ قریشی
محفلین
ارتقاء کا فلسفہ
ارتقاء کا مطلب ہے اصل سے تبدیل ہونا نہ کہ اصل کا تبدیل ہونا، یہ تبدیلی وقتی بھی ہو سکتی ہے اور دیر پا بھی.
دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ کسی چیز/جاندار کے اصل کو قائم رکھتے ہوئے اس کے اندر آنے والی یا لائی جانے والی تبدیلی کو ارتقاء کہتے ہیں.
اور یہ ارتقاء ایک حقیقت ہے نہ کہ نظریہ کیوں کہ حقیقت ثبوت رکھتی ہے جب کہ نظریہ فقط لفاظی کا جادو ہوتا ہے.
سب سے پہلے ارتقاء کا تصور بمع ثبوت اللہ رب العالمین نے چودہ سو سال پہلے اپنی کتاب قرآن مجید میں دیا جس کی تصدیق جدید سائنس بھی کرتی ہے.
انسان کو ہی لے لیجیے، اللہ کتنے مفصل طریقہ سے بتاتا ہے کہ نطفے سے لے کر تمہاری پیدائیش کیسے کی، آج سائنس بھی رحمِ مادر کے اندر ہونے والی انسان کی تخلیق کے اس تمام ارتقائی عمل کو من و عن ویسے ہی بیان کرتی ہے، اب یہاں کوئی یہ سوال اُٹھا سکتا ہے کہ یہ تو نطفے کا ارتقاء ہے کہ وہ اصل سے تبدیل ہو کر انسان بن گیا؟
لیکن ہم مشکور ہیں سائنس کے کہ جس نے بتایا کہ اصل توڈی این اے ہے جس پر تمام معلومات کندہ ہیں، اور انسان بننے کے بعد ڈی این اے ویسا ہی رہا جیسا کہ نطفے میں تھا، یعنی کہ اصل قائم و دائم ہے.
اسی طرح نباتات چرند پرند یہ تمام اپنی زندگی میں مختلف ارتقائی عملوں سے گزرتے ہیں لیکن اپنے اصل پر قائم رہتے ہیں.
زمین سے پانی کا بخارات میں تبدیل ہونا پھر بادل بننا اور پھر اسی پانی کا دوبارہ زمین پر برسنا یہ پانی کا ارتقاء ہے بارش میں لیکن رہا وہ پانی ہی.
انسان کا ایک شخص کو اڑا کر لے جانے والے جہاز کو بوئنگ میں تبدیل کرنا یہ جہاز کا ارتقاء ہے، 300 مسافر بٹھا لینے سے وہ کشتی نہیں بن جاتا.
جسم پر لپیٹے جانے والی کھالوں سے جدید تراش خراش کے ملبوسات تک یہ ارتقاء ہے لباس کا، قمیض جیکٹ میں تبدیل ہو سکتی ہے لیکن جوتے میں نہیں.
بات کو مختصر کرتے ہوئے اب ہم ذرا دیکھتے ہیں کہ یہ ارتقاء از قدرتی چناؤ
کیا ہے(evolution by natural selection)
اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وہ تبدیلی ہے جو کسی مشکل/تکلیف کو حل کرنے کے لئے خودبخود ہو جائے، مزے کی بات یہ ہے کہ اس میں بھی اصل قائم ہی رہتا ہے.
سائنس سے انسانی جسم کی ایک مثال پیش ہے:
انسانی جسم میں سرخ اور سفید خلیوں کے بننے کا اصل مرکز تو ہڈیوں کا گُودہ (بون میرو) ہوتا ہے لیکن اس تمام عمل میں تِلی (سپلین) بہت اہم کردار ادا کرتی ہے، جسم میں سرخ خلیوں کی کمی پیدا ہو جائے تو تِلی بڑھ جاتی ہے تاکہ ان کی پیداوار بڑھائی جا سکے، اسی طرح کسی انفیکشن کی صورت میں بھی تِلی بڑھ جاتی ہے تاکہ اس سے لڑنے کے لئے سفید خلیوں کی پیداوار بڑھائی جا سکے، ضرورت پوری ہونے پر یہ دوبارہ اپنے اصل سائز پر واپس آ جاتی ہے. اب یہ عمل تو صدیوں سے جاری ہے تو پھر کیا تِلی کو بون میرو میں تبدیل نہیں ہو جانا چاہیے تھا؟ نہیں، کیونکہ اصل کا تبدیل ہو جانا ارتقاء نہیں ہے.
ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، آپ لوگ جس کمپیوٹر پہ یہ پوسٹ پڑھ رہے ہیں اس کی ریم بڑھا دینے سے ارتقاء تو ہو گی کیونکہ وہ اپ گریڈ ہو جائے گا، لیکن رہے گا کمپیوٹر ہی "الٹراساؤنڈ مشین" نہیں بن سکے گا.
بشکریہ
Zail Shahzad