روحانی اقوال

ارتقاء کا فلسفہ

ارتقاء کا مطلب ہے اصل سے تبدیل ہونا نہ کہ اصل کا تبدیل ہونا، یہ تبدیلی وقتی بھی ہو سکتی ہے اور دیر پا بھی.
دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ کسی چیز/جاندار کے اصل کو قائم رکھتے ہوئے اس کے اندر آنے والی یا لائی جانے والی تبدیلی کو ارتقاء کہتے ہیں.
اور یہ ارتقاء ایک حقیقت ہے نہ کہ نظریہ کیوں کہ حقیقت ثبوت رکھتی ہے جب کہ نظریہ فقط لفاظی کا جادو ہوتا ہے.
سب سے پہلے ارتقاء کا تصور بمع ثبوت اللہ رب العالمین نے چودہ سو سال پہلے اپنی کتاب قرآن مجید میں دیا جس کی تصدیق جدید سائنس بھی کرتی ہے.
انسان کو ہی لے لیجیے، اللہ کتنے مفصل طریقہ سے بتاتا ہے کہ نطفے سے لے کر تمہاری پیدائیش کیسے کی، آج سائنس بھی رحمِ مادر کے اندر ہونے والی انسان کی تخلیق کے اس تمام ارتقائی عمل کو من و عن ویسے ہی بیان کرتی ہے، اب یہاں کوئی یہ سوال اُٹھا سکتا ہے کہ یہ تو نطفے کا ارتقاء ہے کہ وہ اصل سے تبدیل ہو کر انسان بن گیا؟
لیکن ہم مشکور ہیں سائنس کے کہ جس نے بتایا کہ اصل توڈی این اے ہے جس پر تمام معلومات کندہ ہیں، اور انسان بننے کے بعد ڈی این اے ویسا ہی رہا جیسا کہ نطفے میں تھا، یعنی کہ اصل قائم و دائم ہے.
اسی طرح نباتات چرند پرند یہ تمام اپنی زندگی میں مختلف ارتقائی عملوں سے گزرتے ہیں لیکن اپنے اصل پر قائم رہتے ہیں.
زمین سے پانی کا بخارات میں تبدیل ہونا پھر بادل بننا اور پھر اسی پانی کا دوبارہ زمین پر برسنا یہ پانی کا ارتقاء ہے بارش میں لیکن رہا وہ پانی ہی.
انسان کا ایک شخص کو اڑا کر لے جانے والے جہاز کو بوئنگ میں تبدیل کرنا یہ جہاز کا ارتقاء ہے، 300 مسافر بٹھا لینے سے وہ کشتی نہیں بن جاتا.
جسم پر لپیٹے جانے والی کھالوں سے جدید تراش خراش کے ملبوسات تک یہ ارتقاء ہے لباس کا، قمیض جیکٹ میں تبدیل ہو سکتی ہے لیکن جوتے میں نہیں.

بات کو مختصر کرتے ہوئے اب ہم ذرا دیکھتے ہیں کہ یہ ارتقاء از قدرتی چناؤ

کیا ہے(evolution by natural selection)
اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وہ تبدیلی ہے جو کسی مشکل/تکلیف کو حل کرنے کے لئے خودبخود ہو جائے، مزے کی بات یہ ہے کہ اس میں بھی اصل قائم ہی رہتا ہے.
سائنس سے انسانی جسم کی ایک مثال پیش ہے:
انسانی جسم میں سرخ اور سفید خلیوں کے بننے کا اصل مرکز تو ہڈیوں کا گُودہ (بون میرو) ہوتا ہے لیکن اس تمام عمل میں تِلی (سپلین) بہت اہم کردار ادا کرتی ہے، جسم میں سرخ خلیوں کی کمی پیدا ہو جائے تو تِلی بڑھ جاتی ہے تاکہ ان کی پیداوار بڑھائی جا سکے، اسی طرح کسی انفیکشن کی صورت میں بھی تِلی بڑھ جاتی ہے تاکہ اس سے لڑنے کے لئے سفید خلیوں کی پیداوار بڑھائی جا سکے، ضرورت پوری ہونے پر یہ دوبارہ اپنے اصل سائز پر واپس آ جاتی ہے. اب یہ عمل تو صدیوں سے جاری ہے تو پھر کیا تِلی کو بون میرو میں تبدیل نہیں ہو جانا چاہیے تھا؟ نہیں، کیونکہ اصل کا تبدیل ہو جانا ارتقاء نہیں ہے.
ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، آپ لوگ جس کمپیوٹر پہ یہ پوسٹ پڑھ رہے ہیں اس کی ریم بڑھا دینے سے ارتقاء تو ہو گی کیونکہ وہ اپ گریڈ ہو جائے گا، لیکن رہے گا کمپیوٹر ہی "الٹراساؤنڈ مشین" نہیں بن سکے گا.

بشکریہ
Zail Shahzad
 
جہاں پیار ہوگیا ہو وہاں امتیاز کیا ہے
یہ جہانِ عاشقی ہے یہاں رنگ و بو نہ پوچھو
نہ یہاں ہے کوئی ساجد نہ یہاں کسی کو سجدہ
نہ طلب نہ کوئی طالب، یہ مقامِ ھُو نہ پوچھو
جو نہیں ہے آنکھ پُرنم، تو یہ گفتگو نہ پوچھو
یہ ہے درد کا فسانہ، اسے بےوضو نہ پوچھو
میرا یار سامنے ہے، مجھے کیف ہورہا ہے
میں نماز پڑھ رہا ہوں، میرا قبلہ رُو نہ پوچھو
میں ازل سے لے کر اب تک تجھے ڈھونڈتا پھرا ہوں
میں جہاں جہاں بھی ٹھہرا، مری جستجو نہ پوچھو
ہے اسی میں میری عزت ہے اسی میں میری عظمت
میں ہوں خاک کوئے جاناں میری آبرو نہ پوچھو
میں ہوں پیکرِ تمنّا، ہے عجب میرا تقاضا ۔۔۔۔۔۔
تمہیں مانگتا ہوں تم سے، مری دل لگی نہ پوچھو
صاحبزادہ عاصم مہاروی چشتی
 
ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﺑﮯﻭﻗﻮﻑ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ !
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ
ﻣﯿﺮﯼ
ﺳﻠﻄﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ '' ﺑﮯﻭﻗﻮﻑ '' ﮨﮯ، ﺍﺳﮯ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﻭ۔
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﮭﯽ ۔ ۔ ۔ ۔ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ،
ﺧﯿﺮ ﺣﮑﻢ ﺗﮭﺎ،ﻋﻤﻞ ﮨﻮﺍ ۔ ۔ ۔
ﺍﻭﺭ '' ﺑﮯﻭﻗﻮﻑ '' ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺳﻨﮑﮍﻭﮞ ﻟﻮﮒ
ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺩﺋﯿﮯ ﮔﺌﮯ،
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺳﺐ ﮐﺎ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ '' ﻓﺎﺋﻨﻞ ﺭﺍﺅﻧﮉ '' ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ '' ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﺑﮯﻭﻗﻮﻑ '' ﻗﺮﺍﺭ ﭘﺎﯾﺎ۔
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﻠﮯ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﮨﺎﺭ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ ﺍﺱ '' ﺑﮯﻭﻗﻮﻑ '' ﮐﮯ ﮔﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ، ﻭﮦ '' ﺑﮯ ﻭﻗﻮﻑ '' ﺍﻋﺰﺍﺯ ﭘﺎﮐﺮ
ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻟﻮﭦ ﮔﯿﺎ،
ﺍﮎ ﻋﺮﺻﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ '' ﺑﮯﻭﻗﻮﻑ '' ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﮯ ﺧﯿﺎﻝ ﺳﮯ ﺁﯾﺎ،
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻣﺮﺽ ﺍﻟﻤﻮﺕ ﻣﯿﮟ ﺁﺧﺮﯼ ﻭﻗﺖ ﮔﺰﺍﺭ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ
ﮐﻮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ،ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﺫﻥِ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﺑﺨﺶ ﺩﯾﺎ۔
ﺑﮯﻭﻗﻮﻑ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺍ
'' ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﻼﻣﺖ ۔ ۔ ۔ ﺁﭖ ﻟﯿﭩﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﯿﮟ، '' ؟
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍﯾﺎ،ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻻ '' ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺍﭨﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﺟﺎﺭﮨﺎﮨﻮﮞ، ﺟﮩﺎﮞ ﺳﮯ
ﻭﺍﭘﺴﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﯽ، ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯﻟﯿﮯ ﻟﯿﭩﻨﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮬﮯ
!''
ﺑﮯﻭﻗﻮﻑ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ '' ﻭﺍﭘﺴﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﻧﺎ؟ ﮐﯿﺎ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻭﮨﯿﮟ ﺭﮨﻨﺎ ﮬﮯ؟
"ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﮯﺑﺴﯽ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ '' ﮨﺎﮞ ۔ ۔ ۔ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻭﮨﯿﮟ ﺭﮨﻨﺎ ﮬﮯ
'' ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺗﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﯾﻘﯿﻨﺎََ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﻣﺤﻞ، ﺑﮍﮮ ﺑﺎﻏﯿﭽﮯ، ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻏﻼﻡ، ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﺑﯿﮕﻤﺎﺕ، ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﻣﺎﻥِ ﻋﯿﺶ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮬﻮﮔﺎ !" ﺑﮯﻭﻗﻮﻑ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ
ﭼﯿﺦ ﻣﺎﺭﮐﺮ ﺭﻭﭘﮍﺍ۔
ﺑﮯﻭﻗﻮﻑ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ،ﺍﺳﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮧ ﺁﺋﯽ ﮐﮧ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯿﻮﮞ ﺭﻭﭘﮍﺍ ﮬﮯ۔
'' ﻧﮩﯿﮟ ۔ ۔ ۔ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺟﮭﻮﻧﭙﮍﯼ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺎﺋﯽ ۔ ۔ ۔ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻧﮑﻠﯽ،
'' ﮐﯿﺎ ۔ ۔ ۔ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮬﮯ ۔۔ ۔ ﺁﭖ ﺳﺐ ﺳﮯﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﻤﺠﮫ ﺩﺍﺭ ﮨﯿﮟ، ﺟﺐ ﺁﭘﮑﻮ ﭘﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻭﮨﺎﮞ ﺭﮨﻨﺎ ﮬﮯ ﺿﺮﻭﺭ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮬﻮﮔﺎ '' ۔ ﺑﮯﻭﻗﻮﻑ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ
'' ﺍﻓﺴﻮﺱ ۔ ۔ ۔ ۔ ﺻﺪ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ﺁﮦ ! ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻼ ﮐﺎ ﺩﺭﺩ ﺗﮭﺎ
ﺑﮯ ﻭﻗﻮﻑ ﺍﭨﮭﺎ۔
ﺍﭘﻨﮯ ﮔﻠﮯ ﺳﮯ ﻭﮦ ﮨﺎﺭ ﺍﺗﺎﺭﺍ۔
ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﮔﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ

'' ﺗﻮ ﭘﮭﺮﺣﻀﻮﺭ ۔ ۔ ۔ ﺍﺱ ﮨﺎﺭ ﮐﮯ ﺣﻖ ﺩﺍﺭ ﺁﭖ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﮯ
 


مٹی دیا بابیا کاہدا تینوں مان اے
دم دا بھروسہ نئیں اے تیری شان اے
دھوکے تے فریب نے مت تیری ماری اے
من اچ کھوٹ تیرے منہ اوتے داڑھی اے
کام نئیں کوئی چنگا تیرا کاہدا انسان ایں
مٹی دیا بابیا کاہدا تینوں مان اے
کتھے موسیٰ کتھے توں تو فرعون بن بینا ایں
کدی کدی اپنے نوں رب وی توں کیندا ایں
بھلیا اے تینوں توں جگ تے مہمان ایں
مٹی دیا بابیا کاہدا تینوں مان اے
اگلے جہان تیرے کام کسے آؤنا نئیں
کسے سگے سوہدرے نے تینوں بخشاوا نئیں
جس نے بخشاؤنا تینوں ،تیری او زبان اے
مٹی دیا بابیا کاہدا تینوں مان اے
مرجانا جدوں ،رولا ساریاں نے پانا ایں
چھیتی چھیتی کرو اینوں کدوں لے کے جانا اے
کینا لئی کھولی توں جھوٹ دی دوکان اے
مٹی دیا بابیا کاہدا تینوں مان اے
 

ایک بادشاہ تھا۔ جس کی چار بیویاں تھیں۔۔۔
وہ چوتھی بیوی سے سب سے زیادہ محبت کرتا تھا۔۔۔ اور سب کچھ اس کی خاطر قربان کرنے کے لیے تیار تھا۔
وہ تیسری بیوی سے بھی محبت کرتا تھا۔۔۔ ۔
لیکن اس قدر نہیں جتنی چوتھی سے۔۔۔ اور کسی اور کی خاطر اس تیسری بیوی کو چھوڑ بھی سکتا تھا۔
وہ ہر مشکل وقت میں دوسری بیوی کے پاس آتا تھا ۔۔۔ ۔ اور اس سے مشورہ لیتا تھا۔۔۔
اور اس کے پاس آکر سکون محسوس کرتا تھا۔۔۔
لیکن پہلی بیوی کو وہ کوئی اہمیت نہ دیتا تھا۔۔۔
حالانکہ اسے اس بیوی سے بھی محبت تھی۔۔۔ اور ہر مشکل وقت میں اس کے کام آتی تھی۔۔۔
ایک دن بادشاہ بیمار ہوا۔۔۔
اس نے سب بیویوں سے پوچھا: میری چار بیویاں ہیں۔۔۔ میں قبر میں اکیلے ہرگز نہ جاوں گا۔۔۔ تم میں سے کون میرے ساتھ جانے کے لیے تیار ہے؟؟
چوتھی نے کہا: ہرگز ایسا ممکن نہیں۔۔ یہ نہیں ہو سکتا۔
تیسری نے کہا: ہرگز ٰ نہیں۔۔۔ زندگی بہت پیاری ہے۔۔۔ میں تمہارے بعد کسی اور سے شادی کروں گی۔
دوسری نے کہا:میں تمہارے ساتھ قبر میں تو نہیں جا سکتی۔۔۔ ہاں تمہیں قبر تک پہنچا دوں گی۔
اب پہلی بیوی کی باری آئی تو اس نے کہا: میں قبر میں تمہارے ساتھ ہوں گی۔۔۔ ۔ تم جہاں جاو گے میں ساتھ ہوں گی۔
اب بادشاہ کو اپنے کئے پر شرمندگی ہوئی۔۔۔ کہ زندگی بھر اس باوفا بیوی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا تھا۔
حقیقت یہ ہے۔۔۔
کہ ہم میں سے ہر کسی کی چار بیویاں ہیں:
چوتھی : ہمارا جسم۔ جتنا اس کا خیال رکھیں موت کے وقت ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔
تیسری : مال ودولت۔ موت کے وقت اوروں کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے۔
دوسری : دوست اور رشتہ دار۔ جتنے بھی اچھے ہوں ہمیں صرف قبر تک پہنچا دیں گے۔
پہلی : ہمارے نیک اعمال۔ اس بارے ہم عام طور پر بے پروائی کرتے ہیں۔۔۔ لیکن صرف اسی نے ہمارے ساتھ قبر میں جانا.
 
مجھے انبیاء کا حقیقی تعارف چاہیے۔
مجھے سب واعظ صرف یہ تو بتاتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ سلام بہت خوبصورت اور حسین و جمیل تھے ، مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اس یوسف علیہ سلام نے اپنے ملک کو کیا "معاشی پروگرام" دیا تھا کہ 7 سال کے قحط میں کوئی انسان بھوک سے نھیں مرنے پایا۔
سب صرف یہ تو بتاتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ سلام کی بادشاہت اتنی دبدبے والی تھی کہ جنات بھی ان کے ماتحت تھے مگر کوئی نہیں بتاتا کہ وہ بے پناہ "سیاسی بصیرت" رکھنے والے بادشاہ تھے،[ایک مثال] اپنے ملک فلسطین [ انڈسٹریل/ صنعتی اکانومی ] اور ملکہ بلقیس کے ملک یمن [ ایگریکلچرل/ ذرعی اکانومی ] کے درمیان دو طرفہ معاہدات [Bileteral Agreements] کے نتیجے میں خطے کو جس طرح خوشحالی دی آج کی جدید دنیا بھی اس کی مثال نہیں دیتی۔
مجھے سب واعظ صرف اتنا سا تو بتاتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زلفیں "والیل" اور روئے مبارک "والضحی" کا تھا مگر اس سے آگے کبھی کوئی یہ نہیں بتاتا کہ جس معاشرے میں لوگ غربت سے تنگ آ کر ہمہ وقت لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت کرتے رہتے ہوں وہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح "ہمہ گیر تبدیلی" لاتے ہیں کہ وہ وقت بھی آتا ہے کہ زکوۃ دینے والے تو بہت ہو گئے مگر کوئی ایسا غریب نہ رہا کہ اسے زکوۃ دی جاتی، اس دو جہتی دنیا [Bi-Polar World ], میں جہاں آدھی دنیائے انسانیت قیصر روم {Roman Empire} اور آدھی کسری ایران {Persian Empire} کے ظلم و استبداد کا شکار تھی وہاں انسانیت کی تذلیل کرنے والا اور ان کر حقوق {Rights} کو پامال {violate} کرنے والا کوئی نہ رہا،
مجھے انبیاء کے "کردار" کا تعارف چاہیے کیونکہ میرا معاشرہ بھی آج قیامت خیز فساد کا شکار ہے، انسانیت آج بھی اس بائی پولر ورلڈ{capitalists vs communists} میں الجھی ہوئی ہے، انسانیت آج بھی سسک رہی ہے عزتیں آج بھی ویسے ہی نیلام ہو رہی ہیں، بیٹے آج بھی مذہب کے نام پہ ذبح ہورہے ہیں،
کیا تھی وہ عیسیٰ علیہ سلام کی عدم تشدد {Non violence} کی حکمت عملی،
کیا تھی وہ موسیٰ علیہ سلام کی فرعون کے خلاف آزادی کی تحریک۔۔۔۔ کسی کو قتل بھی نہ ہونے دیا اور آزادی بھی حاصل کر لی
مجھے انبیاء کر کردار کا تعارف چاہیے صرف شکل و صورت کا نہیں۔
مجھے انبیاء کا حقیقی تعارف چاہیے۔
 
پشاور میں پچھلے 14 پندرہ دنوں سے بارش ہورہی ہے آج عصر کے وقت اچانک خنکی کا احساس ہوا تو بستر سنبھالا اچانک ذہن ماضی کی طرف نکل گیا اور ایک قوالی محفل یاد آگئی جس میں امیر خسرو کے اس کلام نے بہت محظوظ کیا تھا یوٹیوب پر جا کر کھوجا تو کلام سامنے آگیا آپ بھی سنیئے اور لطف لیجئے

دی شب کہ می رفتی بتا ،رو کردہ ازما یک طرف
افگندہ کاکل یک طرف، زلفے چلیپاں یک طرف
سلطانے خوباں می رود ہرسو ہجوم عاشقاں
چابک سواراں یک طرف ،مسکین گداہا یک طرف
تا بر رخے زیبائے تو افتادہ زاہد را نظر
تسبیح وزہدش یک طرف ،ماندہ مصلا یک طرف
نوشن شراب لعل او ،شد مجلس ما بے خبر
جام و صراحی یک طرف،مستانہ رسوا یک طرف
بے چارہ خسرو خستہ را، خون ریخن فرمودہ است
خلقے بہ منت یک طرف،آن شوخ تنھا یک طرف
 
نیکی جب تک مزاج میں داخل نہ ھو جائے کردار کی اصلاح ممکن نہیں۔ اسی لئےصوفیاء کی تبلیغ کا انداز علماء سے الگ ہے۔ علماء نیکی کی نشاندہی کرتے ہیں اور صوفیاء نیکی کو مزاج میں ڈھال دیتے ہیں.
 
ایک بادشاہ تھا۔ جس کی چار بیویاں تھیں۔۔۔
وہ چوتھی بیوی سے سب سے زیادہ محبت کرتا تھا۔۔۔ اور سب کچھ اس کی خاطر قربان کرنے کے لیے تیار تھا۔
وہ تیسری بیوی سے بھی محبت کرتا تھا۔۔۔ ۔
لیکن اس قدر نہیں جتنی چوتھی سے۔۔۔ اور کسی اور کی خاطر اس تیسری بیوی کو چھوڑ بھی سکتا تھا۔
وہ ہر مشکل وقت میں دوسری بیوی کے پاس آتا تھا ۔۔۔ ۔ اور اس سے مشورہ لیتا تھا۔۔۔
اور اس کے پاس آکر سکون محسوس کرتا تھا۔۔۔
لیکن پہلی بیوی کو وہ کوئی اہمیت نہ دیتا تھا۔۔۔
حالانکہ اسے اس بیوی سے بھی محبت تھی۔۔۔ اور ہر مشکل وقت میں اس کے کام آتی تھی۔۔۔
ایک دن بادشاہ بیمار ہوا۔۔۔
اس نے سب بیویوں سے پوچھا: میری چار بیویاں ہیں۔۔۔ میں قبر میں اکیلے ہرگز نہ جاوں گا۔۔۔ تم میں سے کون میرے ساتھ جانے کے لیے تیار ہے؟؟
چوتھی نے کہا: ہرگز ایسا ممکن نہیں۔۔ یہ نہیں ہو سکتا۔
تیسری نے کہا: ہرگز ٰ نہیں۔۔۔ زندگی بہت پیاری ہے۔۔۔ میں تمہارے بعد کسی اور سے شادی کروں گی۔
دوسری نے کہا:میں تمہارے ساتھ قبر میں تو نہیں جا سکتی۔۔۔ ہاں تمہیں قبر تک پہنچا دوں گی۔
اب پہلی بیوی کی باری آئی تو اس نے کہا: میں قبر میں تمہارے ساتھ ہوں گی۔۔۔ ۔ تم جہاں جاو گے میں ساتھ ہوں گی۔
اب بادشاہ کو اپنے کئے پر شرمندگی ہوئی۔۔۔ کہ زندگی بھر اس باوفا بیوی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا تھا۔
حقیقت یہ ہے۔۔۔
کہ ہم میں سے ہر کسی کی چار بیویاں ہیں:
چوتھی : ہمارا جسم۔ جتنا اس کا خیال رکھیں موت کے وقت ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔
تیسری : مال ودولت۔ موت کے وقت اوروں کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے۔
دوسری : دوست اور رشتہ دار۔ جتنے بھی اچھے ہوں ہمیں صرف قبر تک پہنچا دیں گے۔
پہلی : ہمارے نیک اعمال۔ اس بارے ہم عام طور پر بے پروائی کرتے ہیں۔۔۔ لیکن صرف اسی نے ہمارے ساتھ قبر میں جانا.
بابا جی صاحب !!! ساہنو تے اک وی نہیں ملدی ، یہ سارے بادشاہ سلامت صاحب چار پانچ بیویوں سے کٹ گل ہی نہیں کردے۔ جس بادشاہ کی حقیقت یا افسانہ پڑھ لیں اس کی پانچ چھ سات بیویاں ہوندی ہیں۔ یہ تو بڑی نا انصافی ہے جی ہم رعایا دے نال۔ کاش ہمارے بادشاہ لوکاں کو بھی آپ کے یہ روحانی اقوال شوال سمجھ شمجھ آ جائیں۔
 
منقول ہے کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدّس اللہ سرّہ اپنے شاگردوں کی دس صفات پر تربیت کیا کرتے تھے:
1- یہ کہ وہ کسی بات پر اللہ کی قسم نہیں کھائیں گے خواہ وہ بات سچ ہی کیوں نہ ہو، تاکہ ان پر حق تعالیٰ کے انوار کا ایک دروازہ کھل جائے اور وہ اپنے قلوب میں ان انوار کا اثر محسوس کرسکیں۔
2- وہ جھوٹ سے ہر حال میں گریز کریں گے خواہ مزاح کی غرض سے ہی کیوں نہ ہو، تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے سینے کھول دے اور ان کے اعمال پاک ہوجائیں اور صدقِ حال حاصل ہو۔
3- وہ وعدے کرنے کی عادت سے گریز کریں گے اور کئے ہوئے وعدوں کو پورا کریں گے تاکہ ان پر حیاء اور سخاء کا دروازہ کھلے اور سچوں کی محبت نصیب ہو۔
4- مخلوق میں سے کسی پر بھی لعنت کرنے سے باز رہیں گے حتیٰ کہ کسی ذرّے تک کو بھی اذیّت نہیں پہنچائیں گے تاکہ وہ ہلاکت کے اسباب سے بچے رہیں اور بندگانِ خدا کے حق میں رحمت قرار پائیں۔
5- کسی کا برا نہیں چاہیں گے خواہ وہ ان کے ساتھ ناانصافی کا رویہ روا رکھے ہو، اور نہ ہی اس کے جواب میں قولاّ یا فعلاّ کچھ ردعمل دیں گے، تاکہ وہ اللہ کی بارگاہ میں اس سے بلند مرتبے پر فائز ہوں اورخلقِ خدا کی محبت ان تک پہنچے۔
6- اہلِ قبلہ میں سے کسی کے خلاف شرک، کفر اور نفاق کی گواہی نہیں دیں گے تاکہ وہ اخلاقِ سنت کے قریب تر ہوسکیں اور تمام خلق کے لئے رحمت کا باعث ہوں۔
7- گناہوں نافرمانیوں کی طرف نگاہ ڈالنے سے گریز کریں گے اور اپنے اعضاء و جوارح کو بھی ان سے دور رکھیں گے تاکہ روحانی ارتقاء حاصل ہو اور طاعات ان کے لئے آسان ہوجائیں۔
8- بندوں پر تکیہ و توکل کرنے سے مجتنب رہیں گے خواہ کوئی حاجت کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو کیونکہ اسی میں عبادت گذاروں اور پرہیز گاروں کا شرف و عزّت ہے۔
9- لوگوں سے کوئی طمع نہیں رکھیں گے کیونکہ یہی غنائے خالص ہے اور یہی عزت و توکل اور ورع ہے۔
10- تواضع اور انکساری کی صفت اپنائیں گے جو عبدات گذاروں اور صالحین کی بلند و بالا منزل ہے۔
 

محمد فہد

محفلین
روح روانی کی دکان قلب ہے ۔ اس کی متاع علمِ طریقت اور اس کا کاروبار اللہ تعالیٰ کے بارہ ، اصولی اسماء میں سے پہلے چار اسما میں مشغول ہونا ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے :
اور اللہ ہی کے لیے ہیں نام اچھے اچھے ۔ سو پکارو اسے انہیں ناموں سے " ( الاعراف: 180)
اور یہ آیت اشارہ کر رہی ہے اسماء مشغول ہونے کا محل ہیں ۔ اور یہی علمِ باطن ہے ۔
اللہ تعالیٰ انہیں اسماء کے ذریعے محسنین کے دل کو اثبات بخشتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے :
" ثابت قدم رکھتا ہے اللہ اہلِ ایمان کو ، اس پختہ قول کی برکت سے دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ ( الابراہیم :27)
اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر انسیت کی خاص کیفیت نازل فرماتا ہے ۔ جسے سکینہ کہا جاتا ہے ۔ اس میں شجرِ توحید پروان چڑھتا ہے جس کی جڑ ساتویں زمیں میں بلکہ تحت الثریٰ میں ہے ۔ اور ٹہنیاں ساتویں آسمان تک بلند ہیں ۔ بلکہ عرش کے اوپر تک پہنچی ہوئی ہیں ۔
"پاکیزہ درخت کی مانند ہیں جس کی جڑیں بڑی مضبوط ہیں اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں "
(ابراہیم:24)
روح روانی کو اس کاروبار سے جو نفع ہوتا ہے وہ دل کی زندگی ہے ۔ عالم ِ الملکوت کو وہ اپنے دل کی آنکھ سے عیاں دیکھتا ہے ۔ جنت کے باغ اسے دکھائی دینے لگتے ہیں ۔ اہلِ جنت، جنت کے انوار اور فرشتے اس کے روبرو ہوتے ہیں ۔ اور جب وہ اسمائے باطنی کا مشاہدہ کرتا ہے تو اپنی زبان سے باطنی گفتگو کرتا ہے ۔ جو بلا حرف و صوت ہوتی ہے ۔ اس کاروبار کی وجہ سے اس کا ٹھکانہ جنت یعنی جنت النعیم قرار پاتا ہے۔
از حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ " سر السرار " صفحہ 81
 

محمد فہد

محفلین
روح سلطانی کی دکان جان ہے ۔ اس کا سامانِ تجارت معرفت اور کاروبار ، بارہ اسماء میں سے درمیانی چار اسماء کا دل کی زبان سے ورد ہے ۔
جیسا کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا :
" العِلمُ علمان ِ ۔ عِلمُ باللسان۔ وذالِک حُجتہ اللہ تعالیٰ علیٰ ابنِ آدم و عِلمُ بالجنان۔ فذالکَ العِلمُ النّافِعُ"
علم کی دو قسمیں ہیں (1) علم لسانی (2) علم جنانی
علم لسانی اللہ تعالی کی ابنِ آدم پر حجت ہے اور علم جنانی ہی علم نافع ہے" ۔
کیونکہ علم کے تمام فائدے اسی دائرہ میں ہیں ۔
حضور ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے :
" قرآن کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے اور یہ سلسلہ سات باطنوں تک دراز ہے ۔ "
آپ ﷺ کا ارشاد ہے :
" بیشک اللہ تعالیٰ نے قرآن کو دس بطنوں پر نازل فرمایا ۔ پس ہر باطن پہلے باطن سے زیادہ نفع بخش اور مفید ہے ۔ کیونکہ اس میں پہلے کی نسبت زیادہ عجائب ہیں ۔ "
یہ اسماء ان بارہ چشموں کی مانند ہیں جو عصائے موسیٰ کی ضرب سے پھوٹے تھے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشادِ الٰہی ہے :
اور یاد کرو جب پانی کی دعا مانگی موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے تو ہم نے فرمایا مارو اپنا عصا فلاں چتان پر تو فوراً بہہ نکلے اس چٹان سے بارہ چشمے ۔ پہچان لیا ہر گروہ نے اپنا اپنا گھاٹ " ۔
علمِ ظاہری اس پاک پانی کی مانند ہے جو عارضی ہو جب کہ علمِ باطن چشمے کے اصلی پانی جیسا ہے ۔ ( جو کبھی ختم نہیں ہوتا ٭)علمِ باطنی، علم ظاہری کی نسبت زیادہ نفع بخش ہے ۔ اور علم کا یہ چشمہ ابدی ہے کبھی خشک نہیں ہوتا ۔
ارشادِ ربانی ہے :
" اور ایک نشانی ان کے لیےیہ مردہ زمین ہے ۔ ہم نے اسے زندہ کر دیا اور ہم نے نکالا اس سے غلہ ، پس وہ اس سے کھاتے ہیں ۔ "
اللہ تعالیٰ نے روئے زمیں سے ایک دانہ نکالا جو حیواناتِ نفسانیہ کی خوراک ہے زمین انفس سے ایک دانہ پیدا کیا جو ارواحِ روحانی کی خوراک ٹھہرا ۔
جیسا کہ حضور ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے :
" جس نے چالیس صبحیں اللہ کے خلوص میں کیں تو اللہ نے اس کے دل سے حکمت کے چشمے اس کی زبان پر جاری کر دیے " ۔
رہا روحِ سلطانی کا نفع تو انسان اس سے جمالِ خداوندی کا عکس دیکھتا ہے ۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
" نہ جھٹلایا دل نے جو دیکھا ( چشمِ مصطفیٰ) نے " ( النجم:11)
اسی طرح حضور ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے :
"ایک مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہے "
پہلے مومن سے مراد بندے کا دل ہے ۔ اور دوسرے سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذاتِ با برکات ہے ۔
جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام مومن آیا ہے :
المومن المہیمن العزیز الجبّار المتکبر ( الحشر :23)
" امان بخشنے والا ، نگہبان، عزت والا، ٹوٹے دلوں کو جوڑنے والا متکبر "
صاحبالمرصاد فرماتے ہیں کہ اس طائفے کا مسکن تیسری جنت یعنی جنت الفردوس ہے ۔
از حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ " سر الاسرار " صفحہ 83
 
قلب جاری ہونا یہ ہے کہ تیرا شعور بیدار ہو جائے ۔بدی تیرے دل میں کھٹکنے لگ جائے اور نیکی تیرے دل میں اطمینان پیدا کرنے لگ جائے یہ جس انسان کے اندر بھی پیدا ہو گیا اُس کا قلب جاری ہو گیا۔
سید عصمت گیلانی
 
مرشد کیا ہوتا ہے؟؟؟
مرشد محبت کی زمین کا ایک کسان ایک دہقان ہوتا ہے
اک لفظ محبت کا ادنیٰ سا فسانہ ہے
سمٹے تو دلے عاشق پھیلے تو زمانہ ہے (جگر)
یہ آپ کے دل کی زمین کی ماہیت، قابلیت اور معیار کو برسوں کے تجربے کی روشنی میں دیکھتا بھالتا جانچتا ہے۔
پھرقلب کی زمین سے جھوٹ، فریب، دھوکہ، غصہ، سود، حرص، اناپرستی،لالچ،جعل سازی ، ملاؤٹ، خوشامد، بے حیائی،غرور ،تکبر، بڑبولا پن، جیسی مضر خود رو معاشرتی و روحانی مفسد جڑی بوٹیوں کو اکھاڑ کر تلف کردیتا ہے۔
پھر عاجزی کی گوڈی کرتا ہے
پھر اللہ کی محبت کا ودود نامی بیج بوتا ہے
پھر حکمت کی کھاد ڈالتا ہے
پھر خدمت کا پانی لگاتا ہے
اتنی تپسیا ور یاضت کے بعد اک ننھا سا پودا بیج سے پھوٹتا ہے
پھر اس ننھی جان میں محبت، الفت، انسانیت، گداز،قناعت ، شرم و حیا،بے طمعی ،صبر، بردباری،درگزر،استقلال ،بہادری،دانائی ،حکمت ،صالحیت، جیسی اعلیٰ خصوصیات کی
نس بندی وپیوندکاری کرتا ہے اس دوران اس کی کڑی نگرانی کرتا ہے اور اس کو موسم کی سختیوں سے بچاتا ہے اور ایک سائبان کی طرح مثل ماں اس کے سَر پر کھڑا رہتا ہے
پھر جب دیکھتا ہے کہ جان پکڑ لی ہے تو اس کو موسم کی سختیاں جھیلنے کے لیئے چھوڑ دیتا ہے اس دوران اس کو کبھی سخت دھوپ لگتی ہے کبھی سخت سردی میں کہر پڑتی ہے کبھی برسات میں اس پر اولے برستے ہیں تاکہ زمانے کے سرد و گرم سے آگاہ ہوسکے پھر اسکو پھل پھول لگتے ہیں تو کم ظرف لوگ پتھر مارتے ہیں
جب زمانہ عذاب دیتا ہے
میرا مولا ثواب دیتا ہے
بوٹا بوٹا سوال کرتا ہے
پتا پتا جواب دیتا ہے
لیکن یہ پتھر کھا کر بھی پھل دیتا ہے ہر پتھر ہر گالی ہر برے رویئے کا جواب کبھی یہ ہنس کر اور کبھی دعا دے کر کرتا ہے ایسے اعلیٰ ظرف اور خدا صفت لوگوں کے ارے میں شعراء کچھ یوں رقم طراز ہیں۔
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ
آپ نے شائد نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں(سرور بارہ بنکوی)
ثم وجہہ اللہ آیدت بہ نظر
وھو معکم نمایدت اطوار
(فرید الدین عطار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے دوستوں کا چہر ایسا ہوتا ہے کہ اللہ یاد آجاتا ہے اور وھو معکم این ماکنتم کا اطلاق ان کے طور طریقوں میں نمایاں ہوتا ہے)
ایسے لوگ نایاب زمانہ ہوتے ہیں ان کی مثال ایسے ہوتی ہے جیسے کسی صحرا میں گھنا چھتنار درخت جس کے سائے تلے ظلمت زدہ لوگ دم لیتے ہیں اور نوری جام پی کر گویا دوبارہ جی اٹھتے ہیں ایسے نایاب زمانہ لوگوں کے جسم سے کچھ ایسی فریکوئنسیاں نکلتی ہیں کہ خواہ مخواہ ان کی صحبت میں بیٹھنے اور ان کی باتیں سننے کو دل کرتا ہے ۔
یک زمانہ صحبت بااؤلیاء
بہتر است صد سالہ طاعت بے ریا (روم)
زرہ دوستی آں دمساز
بہتر از صد سالہ نماز(عطار)
 

اکمل زیدی

محفلین
مجھے انبیاء کا حقیقی تعارف چاہیے۔
مجھے سب واعظ صرف یہ تو بتاتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ سلام بہت خوبصورت اور حسین و جمیل تھے ، مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اس یوسف علیہ سلام نے اپنے ملک کو کیا "معاشی پروگرام" دیا تھا کہ 7 سال کے قحط میں کوئی انسان بھوک سے نھیں مرنے پایا۔
سب صرف یہ تو بتاتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ سلام کی بادشاہت اتنی دبدبے والی تھی کہ جنات بھی ان کے ماتحت تھے مگر کوئی نہیں بتاتا کہ وہ بے پناہ "سیاسی بصیرت" رکھنے والے بادشاہ تھے،[ایک مثال] اپنے ملک فلسطین [ انڈسٹریل/ صنعتی اکانومی ] اور ملکہ بلقیس کے ملک یمن [ ایگریکلچرل/ ذرعی اکانومی ] کے درمیان دو طرفہ معاہدات [Bileteral Agreements] کے نتیجے میں خطے کو جس طرح خوشحالی دی آج کی جدید دنیا بھی اس کی مثال نہیں دیتی۔
مجھے سب واعظ صرف اتنا سا تو بتاتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زلفیں "والیل" اور روئے مبارک "والضحی" کا تھا مگر اس سے آگے کبھی کوئی یہ نہیں بتاتا کہ جس معاشرے میں لوگ غربت سے تنگ آ کر ہمہ وقت لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت کرتے رہتے ہوں وہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح "ہمہ گیر تبدیلی" لاتے ہیں کہ وہ وقت بھی آتا ہے کہ زکوۃ دینے والے تو بہت ہو گئے مگر کوئی ایسا غریب نہ رہا کہ اسے زکوۃ دی جاتی، اس دو جہتی دنیا [Bi-Polar World ], میں جہاں آدھی دنیائے انسانیت قیصر روم {Roman Empire} اور آدھی کسری ایران {Persian Empire} کے ظلم و استبداد کا شکار تھی وہاں انسانیت کی تذلیل کرنے والا اور ان کر حقوق {Rights} کو پامال {violate} کرنے والا کوئی نہ رہا،
مجھے انبیاء کے "کردار" کا تعارف چاہیے کیونکہ میرا معاشرہ بھی آج قیامت خیز فساد کا شکار ہے، انسانیت آج بھی اس بائی پولر ورلڈ{capitalists vs communists} میں الجھی ہوئی ہے، انسانیت آج بھی سسک رہی ہے عزتیں آج بھی ویسے ہی نیلام ہو رہی ہیں، بیٹے آج بھی مذہب کے نام پہ ذبح ہورہے ہیں،
کیا تھی وہ عیسیٰ علیہ سلام کی عدم تشدد {Non violence} کی حکمت عملی،
کیا تھی وہ موسیٰ علیہ سلام کی فرعون کے خلاف آزادی کی تحریک۔۔۔۔ کسی کو قتل بھی نہ ہونے دیا اور آزادی بھی حاصل کر لی
مجھے انبیاء کر کردار کا تعارف چاہیے صرف شکل و صورت کا نہیں۔
مجھے انبیاء کا حقیقی تعارف چاہیے۔
بہت اعلیٰ ۔ ۔ ۔
بس ہم اسی میں خوش ہیں ...باقی چیزوں میں محنت ہے ....جو ہم سے نہیں ہوتی . . .
 
ایک تاریک خلا، اُس میں چمکتا ہُوا میں
یہ کہاں آگیا ہستی سے سرکتا ہُوا میں
شعلہ ِ جاں سے فنا ہوتا ہوں قطرہ قطرہ
اپنی آنکھوں سے لہو بن کے ٹپکتا ہُوا میں
آگہی نے مجھے بخشی ہے یہ نار ِ خود سوز
اک جہنّم کی طرح خود میں بھڑکتا ہُوا میں
منتظر ہوں کہ کوئی آکے مکمل کردے
چاک پر گھومتا، بل کھاتا، درکتا ہُوا میں
مجمع ِ اہل ِ حرم نقش بدیوار اُدھر
اور اِدھر شور مچاتا ہُوا، بکتا ہُوا میں
میرے ہی دم سے ملی ساعت ِ امکان اِسے
وقت کے جسم میں دل بن کے دھڑکتا ہوا میں
بے نیازی سے مری آتے ہوئے تنگ یہ لوگ
اور لوگوں کی توجّہ سے بدکتا ہُوا میں
رات کی رات نکل جاتا ہوں خود سے باہر
اپنے خوابوں کے تعاقب میں ہمکتا ہُوا میں
ایسی یکجائی، کہ مٹ جائے تمیز ِ من و تُو
مجھ میں کھِلتا ہُوا تُو، تجھ میں مہکتا ہُوا میں
اک تو وہ حسن ِ جنوں خیز ہے عالم میں شہود
اور اک حسن ِ جنوں خیز کو تکتا ہُوا میں
ایک آواز پڑی تھی کہ کوئی سائل ِ ہجر؟
آن کی آن میں پہنچا تھا لپکتا ہُوا میں
ہے کشید ِ سخن ِ خاص ودیعت مجھ کو
گھومتا پھرتا ہوں یہ عطر چھڑکتا ہوا میں
راز ِ حق فاش ہُوا مجھ پہ بھی ہوتے ہوتے
خود تک آہی گیا عرفان بھٹکتا ہُوا میں
 
Top