میرے بھائی بات اک لمبا چکر کاٹ کر وہیں آ گئی کہ
یہ جو روح ہے نا یہ امر الہی ٹھہرتے ہمیشہ بلند پروازی کی جانب مائل رہتی ہے ۔
لاکھ کوشش کر لی جائے یہ اسی مقولے پر قائم نظر آتی ہے ۔
"پہلی مرتبہ اس وقت جب میں نے دیکھا وہ بلندیوں میں پرواز کرنا چاہتی تھی لیکن وہ بہت مسکین اور عاجز نظر آتی تھی۔"
اس میں نیا کیا ہے
مگرآئیے میں سمجھاؤں کہ فرق اور نقصان کیا ہے
جب ایک نیا پڑھنے والا ، مبتدی ، پڑھنا شروع کرتا ہے تب ذہن کچا ہوتا ہے
دماغ ہر بات کا اثر قبول کرتا ہے،
اب اگر عینی سسٹر اور نایاب سائیں کہتے ہیں کہ کوئی مضائقہ نہیں ، ہم تو اپنے یقین پر قائم رہیں گے نا
پیاری بہن اور سویٹ بھائی
بقول قبلہ استاد جی
اے تازہ واردان بساط ہوائے دل
زنہار اگر تمہیں ہوسِ ناؤ نوش ہے
پاکستانی بھائی اور میری بات غالب قبلہ کے الفاظ میں
دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہے
آپ ٹھیک سمجھتے ہو، کہ حکیم کامل ہو تو روح کی ہر بیماری کا علاج کر دے گا
لیکن یہ یاد رکھیں کہ ہر بیماری بے شک چھوڑ جاتی ہے مگر اپنا نشان چھوڑ جاتی ہے
آپ بے شک اپنے یقین پر قائم رہے ، کچے دماغ پر ان باتوں نے جو بیماری ڈالی وہ بھی آپ پر اللہ کا کرم ہوا ٹھیک ہو گئی
مگر پیارے یہ چیچک کی بیماری ہے، بندہ ٹھیک تو ہو جاتا ہے ، مگر داغ رہ جاتے ہیں
اور آپ کیا ظلم کرنا چاہتے ہو، بے چاری روح پر
جان بوجھ کر اسے داغدار کر رہے ہو
نقصان اور فرق
خلیل جبران کو جب کسی نے پہلی بار پڑھا
تو اس نے دیکھا کہ "روح کو جب پہلی بار دیکھا تو بلند پرواز وغیرہ ، مگر مسکین اور عاجز"
اس نے سمجھا کہ سٹارٹ یہی ہے
اس لیے اس نے کبھی اپنی اوقات نہ جانی
وہ یہی سمجھتا رہا کہ اسے روح پیدائشی ایسی ہی ملی ہے ، (اس کے نتائج و عواقب پر غور کرنے کیلئے آپ خود بھی بہت سمجھدار ہیں)
نتیجہ یہی کہ انسان اور خدا کے بیچ ایک غیر محسوس سے خندق حائل ہوتی گئی(چاہے کوئی مانے یا نہ مانے مگر کڑوا سچ یہی ہے)
مگر جب کسی نے پہلی بار حضور غوث الاعظم سرکار ؒکو پڑھا
تو اسے معلوم ہوا کہ روح ابتدا سے ہی اتنی لطیف اور طاقتور تھی کہ حضور غوث پاکؒ ماں کے رحم مبارک سے آدھا قرآن حفظ کر کے تشریف لائے۔پھر دنیا میں آنے کے بعد ان کی روح بلندیوں کی آخری حدیں چھونے چل پڑی
یہ ہے انسان کا کمال
اس نے روح کی اس ابتدائی طاقت کو ضائع نہ جانے دیا، بلکہ اسے بلندی کے سفر میں بطور ایندھن استعمال کیا
اب نیا پڑھنے والا جب سوچے گا، روح میں جھانکے گا تو اسے روح عاجز اور مسکین نظر آئے گی
لیکن بجائے وہ خدا سے دور ہونے کے شرمندہ ہوگا، اپنی غلطیوں پر نادم ہوگا، کیونکہ وہ یہ حقیقت پہلے ہی جان چکا ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، یقیناً میری روح بھی پاک پیدا ہوئی، مگر یہ سب کثافتیں میرے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہیں ، نہ کہ خدا کی دین۔
اوریہی ندامت، یہی پہلا آنسو بوجھ ہلکا کرنے کا پہلا قدم ہوگا ، اللہ کی رحمت جوش میں آئے گی، اور روح کی نشاۃ ثانیہ ہوگی
یہ ہے فر ق ناقص فلسفے اور کامل فلسفے کے اثرات کا
اور نقصان بھی آپ کے سامنے
اب آپ کی ہی چوائس ہے
مجھے معلوم ہے میں اپنی بات ٹھیک سے ایکسپلین نہیں کر پایا
مگر آپ کی ذہانت پر مجھے کوئی شبہ نہیں۔ اس میں بہت کچھ بین السطور ہے، امید ہے سمجھنے کی کوشش کریں گے
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
میری آپی
مہ جبین یقیناً میری بات سے ضرور اتفاق کریں گی، آجاؤ آپی جی