اوپر محمود احمد غزنوی صاحب نے کیا معرکہ کا شعر لکھا ہے
بوعلی اندر غبارِ ناقہ گم۔۔۔
دستِ رومی پردہِ محمل گرفت
چھوٹا غالب صرف کمپیوٹرہارڈ ویئر کا ٹارزن نہیں ہے بلکہ فلسفہ کا ٹارزن بھی ہے۔ خوشی ہوئی اویس کی باتیں سن کر بہرحال روحانی بابا خوش ہوئے۔
جرمنی کے ماہر فلکیات اور ریاضی دان Keplerجنہوں نے سیاروں کی حرکات کے ۳ قواعد مقررکیئے ہیں جن پر اب تک ہر مُہَندِس کا عمل ہے ان کی اعلیٰ ترین خواہش جواَب بھی ہر صوفی کی اعلیٰ ترین خواہش ہے کہ وہ اپنے میں اس اللہ کو پالے جس کو وہ ہر وقت ہر جگہ خارج میں پاتا ہے یعنی باالفاظ دیگر اپنے آپ کو پالے اس بات کو وہی سمجھ سکتا ہے جس کو اس کے مرشد نے پانا کیا ہے سمجھا دیا ہو۔
نایاب بھائی سر الٰہی جس قدر انسان میں ظاہر ہوا ہےاور کسی چیز میں ظاہر نہیں ہوا کیونکہ اور موجودات میں اُس نور سے جو کچھپہنچا ہے وہ محض اُس کا اثر یا عکس تھا اور انسان میں خاص وہ نور خود جلوہگر ہوا ہے اور مصباح کا تیل بن کر اُس نے اندھیرے گھر کو روشن کردیا یہیوجہ ہے جس کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو خطاب کیا کرمنا یا بنی آدماوراسی وجہ سے کل مخلوقات پر اُس کو فضیلت دی۔
خواہم از عشق داستاں بیان گوئمسر یار نہاں عیاں گوئماولیاء کا شروع سے ہی دستوررہا ہے کہ وہ راز کی بات کو تماثیل اور اشارات میں بیان کرتے ہیں اسی مقصدکے لیئے کبھی منطق الطیر تو کبھی گلشن راز جیسی مثنویاں منصہ شہود پر جلوہگر ہوتی ہیں۔ تو کبھی شاہ شمس تبریز اعلانیہ اصل بات بیان کردیتے ہیں
منطق الطیر
منطق الطیر خواجہ فرید الدینعطار رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کی تحریر کردہ ایک تمثیلی مثنوی ہے جس میں چارہزار چھ سو اشعار ہیں مثنوی کا آغاز اللہ تبارک تعالیٰ کی حمد و ثناء،رسولکریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نعت اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ علیہاجمعین کی منقبت سے کیا گیا ہے ۔ مثنوی میں 45مقالے ہیں آخر میں ایک خاتمہہے ۔مضمون پرندوں کے اجتماع سے شروع ہوتا ہے آپ پرندوں کا خیال بیان کرتےہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ پرندوں(انسانوں) کے خیال میں کوئی ملک بادشاہ کےبغیر خوشحال نہیں رہ سکتا ہے اور وہ اپنا بادشاہ سیمرغ (حق)کو خیال کرتےہیں اور اسے تلاش کرنے کے لیئے تمام پرندے ہد ہد کی(راہ نما ،پیامبر، خضرراہ) رہنمائی حاصل کرتے ہیں ۔ہد ہد(مرشدِ کامل ) وعدہ کرتا ہے کہ وہ انھیںسیمرغ تک پہنچا دے گا شرط یہ ہے کہ وہ راستے کی صعوبتیں برداشت کرنے کی ہمترکھتے ہوں ان پرندوں میں 30پرندے ایسے ہوتے ہیں جن کی طلب صادق ہوتی ہے جنکو سالک کہا جاتا ہے سالک جو صعوبتیں برداشت کرتے ہیں وہ دراصل عارفوں کیریاضتیں ہیں۔راہ سلوک میں سالک کی سات وادیاں(بمعنی منازل)ہوتی ہیں ۔پہلی منزل کا(وادی) نام طلب و جستجوہے جب تک کوئی سالک اپنے اندر طلب پیدا نہ کرے گا وہ کمال کی راہ پر گامزننہیں ہوسکتا ہے ۔بہت سارے پرندے ادھر سے ہی واپس ہوجاتے ہیں ۔کیونکہ وہاپنے اندر طلب و جستجو کا مادہ نہیں پاتے ہیں ۔حضرت ابوبکر واسطی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ۔اس میں تین چیزیں بہرصورت ہونی چاہیے ہیں اس کو نیند پر غلبہ ہو ۔اس کا کھانا فاقہ ہو۔اس کی گفتگو ضرورت کے مطابق ہو۔یعنی کم خوردن،کم گفتن،کم خفتن(قلت طعام،قلت کلام،قلت منام)(کم کھانا،کم بولنا،کم سونا)جدوجہد این جااست بایدسالہا
زآنکہ این جا قلب گردد سالہا
مال این جا بایدت انداختن!
ملک این جا بایدت در باختن
دوسری منزل کا(وادی) نام عشق ہے اس کےلیے سالک کو منزل مقصود سے اتنی دل بستگی ہو یعنی ارادہ اتنا قوی و پختہ ہوکہ راہِ طریقت میں بلا اندیشہ نکل کھڑا ہواور راستہ کی تکالیف اور مصائبکو خاطر میں نہ لائے۔اس منزل پر بہت سارے پرندے آکر رک جاتے ہیں اور بہت سارے راستے میں ہی ہلاکہوجاتے ہیں کیونکہ ان کا مادہ ان مصائب اور سختیوں کا متحمل نہیں ہوتا ہے ۔
بعد ازآں وادی عشق آمد پدید
غرق آتش شد کسی کانجا رسید
کس دریں وادی بجز آتش مباد
وآنکہ آتش نیست عیشش خوش مباد
عاشق آں باشد کہ چون آتش بود
گرم روسو زندہ و سرکش بود!
عاقبت اندیش نبود یکزماں!
غرق در آتش چون آن برق جہاں
تیسری منزل کا(وادی) نام معرفت ہےاور یہ ہر سالک کی عقل و استعداد کے مطابق ہوتی ہے یعنی جیسا اس کا مادہہوگا بعینہ معرفت ہوگی۔اس منزل پر آکر بہت ساری باتوں کی معرفت حاصل ہوتیہے ۔علوم و فنون کی حقیقت منکشف ہوتی ہے اور بہت سارے ادھر ہی مشغول ہوجاتےہیں ۔ہیچ رہ دردی نہ چون آن دیگر است
سالک تن مالک جاںدیگر است
لاجرم بس رہ کہ پیش آید پدیدہریکی برحد خویش آید پدیدسیر ہر کس تاکمال او بودقرب ہر کس حسب حال او بودمعرفت ایں جا تفاوت یافتہایں یکی محراب و آں بت یافتہصد ہزاراں مرد گم کردد مدام!تا یکے اسرار بین گرد تمامہست دائم سلطنت در معرفتجہد کن تا حاصل آید ایں صفت
چوتھی منزل کا(وادی) نام استغناءہے اسوادی میں دنیا و مافیا سے بے نیاز سالک داخل ہوتا ہے خواہشات دنیا کا اسیرشخص اس وادی میں داخل نہیں ہوسکتا ہے ۔کیونکہ یہ سالک بلند نظر ہوتا اوراس کو نظر آتا ہے کہ یہ سب اعتبارات ہیں جن کو عوام الناس حقیقت سمجھ رہےہیں اس کی نظر میں دنیا اس نقش کی مانند ہے جس کو صحرا کی ریت پر لکھا جاتاہے اور پھر ہوا کے بگولے اس کو مٹا دیتے ہیں ۔اس مقام پر بہت سارے مستقل رہائش اختیار کرلیتے ہیں کیونکہ وہ اپنے آپ میںآگے جانے کی استطاعت نہیں پاتے ہیں ۔یہ مقام جذب ہے اس مقام کا بندہ اٹھارہہزار عالم کا اپنے ناخن پر مشاہدہ کرتا ہے ۔اورایسا بندہ کی حرکات و سکناتپر غور کیا جائے تو وہ ہر قدم بہت پھونک پھونک کر لیتا ہے کیونکہ دنیا اسکو ایک فٹبال کی مانند دکھتی ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ اگر ایک قدم اورآگے بڑھایا تونیچے گر جائے گا۔مزید جاننے کے لیئے دیکھو حاجی شریف زندنی کےواقعات جو کہ حضرت عثمان ہارونی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کے مرشد تھے اورموخر الذکر حضرت خواجہ خوجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری قدس سرہالعزیز کے مرشد ہیں ۔دیدہ باشی کان حکم پرخردتختہ خاک آورد درپیش خودپس کند آں تختہ و پرنقش ونگارثابت و سیارآرد آشکارہم ملک آرد پدید وہم زمیںگہ برآں حکمی کند گاہی بریںہم نجوم وہم بروج آرد پدیدہم افول و ہم عروج آردپدیدہم نحوست ہم سعادت برکشدخانہموت و ولادت برکشدچوں حساب نحس گردد سعد از آگوشہ آں تختہ گیر د بعد از آںبرفشاند گوئی آن ہرگز نبودآں ہمہ نقش و نشاں ہرگز نبودصورت ایں عالم پر پیچ پیچہست ہمچوں صورت تختہ ہیچ
پانچویں منزل کا(وادی) نام توحید ہے اسمقام پر سالک کو کثرت میں وحدت نظر آتی ہے وہ ہر شئے میں تجلیات اسماءکامشاہدہ کرتا ہے ۔من و تو کا فرق مٹ جاتا ہے ۔بہت سارے اسی مقام پر آکر رک جاتے ہیں اور مستقل رہائش اختیار کرلیتے ہیں ۔چوں یکی باشد ہمی نبود دوئی!ہم منی برخیزد این جا ہم توئی! چشم بینا جس جگہ اور جس شخص کو دیکھتی ہے وہ اس کی حقیقت یعنی خدا کو دیکھتی ہےرفت پیش بو علی آں پیرزنکاغذ زبرد کایں بستان زمنشیخ گفتا عہد دارم من کہ نیزجزز حق نستانم از کس ہیچ چیزپیرز ن در حال گفتا بوعلی!از کجا آوردی آخر احولیمرد راہ در دیدہ این جا غیرنیستکعبہ را ضدیتی باد یر نیست
چھٹی منزل کا(وادی) نام بے خودی(مقامحیرت بھی کہتے ہیں ) ہے اس مقام پر آکر سالک کو پتہ چلتا ہے کہ اس کی ساریمعلومات محدود تھیں اور وہ محض لاعلم تھا تو وہ مبہوت ہوجاتا ہے یہاں تک کہاپنی ہستی تک سے بھی بیگانہ ہوجاتا ہے ۔دیوانگی میں حد سے گزر جانا چاہیےلیکن کبھی کبھی تو گھر آنا چاہیےمرد حیران چون رسد ایں جایگاہدر تحیر ماندہ گم کردہ راہگم شود در اہ حیرت محووماتبے خبر از بود خود و زکائناتہر کہ زد توحید برجا نش رقمجملہ گرد و کم از و اونیزہمگربدوگویندہستی یا نہ ایسربلندعالمی پستی کہ ایدرمیانی یا برونی از میاںبرکناری یا نہانی یا عیاںفانئی یا باقی یا دوئیہر دوئی یا تو نہ ای یا نہ توئیگوید اصلامی ندانم چیز مندین ندانم ہم ندانم نیز من
ساتویں منزل کا(وادی) نام فنا ہے۔یہاں پر سالک فنا کے بعد بقا پاتا ہے اور واصل بحق ہوجاتا ہے ۔ہر کہ دریای کل گم بودہ شددائما گم بودہ و آسودہ شدگر تو ہستی راہ بین و دیدہ ور!موی در موی ایں چنیں اندر نگرہر کہ او رفت ازمیاں انیک فناچوں فنا گشت ارفنا انیک بقاخواجہ فرید الدین عطار رحمة اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس مقام پر صرف 30پرندے پہنچتے ہیں اور وہ سیمرغ کو پالیتے ہیں ۔یعنی اپنی حقیقت کوپالیتے ہیں ۔کیونکہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ سیمرغ اور ان میں کوئی فرق نہیںہے۔(من عرفہ نفسہ فقد عرف ربہ)جس نے اپنے نفس کو جانا اُسنے اپنے رب کوجانا)الحدیثہم زعکس روی سیمرغ جہاںچہرہ سیمرغ دیدند آں زماںچوں نگہ کردند ایں سیمرغ زودبےشک ایں سی مرغ آں سیمرغ بودکشف ایں سر قوی درخواستندحل مائی و توی درخواستندبی زباں آمد از آنحضرت جوابکاینہ است آنحضرت چوں آفتابہر کہ آید خویشتن بینددراوجان و تن ہم جان و تن بیند در او
مثنوی گلشن راز کو ادھر چیک کریں
شغال و مراقبات /تصوف و روحانیت /انسانی نفسیات وطبیعات کی مابعد نفسیاتی و طبیعاتی تشریح پر میرا ایک اور تھریڈ ہے اس کو ادھر چیک کریں