عبدالقیوم چوہدری
محفلین
یہ گوشوارہ ٹھیک ہی ہو گا۔ لیکن ایک ایسا پہلو جو یہاں نظر انداز کیا گیا اور جس کے بارے میں کچھ ذاتی مقامی سطح کی معلومات میرے پاس موجود ہیں وہ ضرور شراکت کروں گا۔یہ تصویر آج کل سوشل میڈیا پر گردش میں ہے۔ اگر یہ درست ہے تو ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں کتنی "غربت" ہے کہ حکومتوں کے اعلیٰ افسران بھی مساکین کے لیے شروع کی گئی "بے نظیر انکم سپورٹ" سے وظیفے لینے پر مجبور ہیں!
میں اپنے اردگرد کے علاقے میں کچھ ایسی بیوہ خواتین کو جانتا ہوں جن کے پاس شناختی کارڈ سرے سے ہی موجود نہیں تھا۔ خاوند فوت ہو گیا تو نا بچوں کا ب فارم تھا نا اپنا شناختی کارڈ۔ بغیر شناخت کی ان خواتین اور بچوں میں سے کچھ کے تو کسی نا کسی طرح کارڈز بن گئے لیکن بہت سے محروم بھی رہے۔
جب یہ سکیم نئی نئی شروع ہوئی تو یہ بغیر شناختی کارڈ والی خواتین حقدار تو تھیں لیکن کارڈ نا ہونے کی وجہ سے اس سکیم سے فائدہ نہ اٹھا سکتی تھیں۔ ایسے میں کچھ افسران اورسیاسی لوگوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے انھیں اپنی بیگمات یا ایسے قریبی عزیز خواتین جو بیوہ یا مطلقہ تھیں کے ناموں پر کارڈ بنوا دئیے۔ جو وہ بیوہ خواتین خود ہی استعمال کرتیں تھیں۔ گو یہ طریقہ کار غلط تھا لیکن ان کا مقصد ان بغیر شناختی کارڈ والی خواتین کی مدد کرنا ہی تھا۔ اس گوشوارے کا مزید باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو خصوصاً بلوچستان اور دیگر پسماندہ علاقوں میں نظر آنے والے بڑے ہندسے زیادہ نہیں تو 40 سے 50 فیصد تک کم ہو جائیں گے۔