جاسمن

لائبریرین
محترم جاسمن صاحبہ!
مالک سلامت رکھے۔
آپکی راہنمائی سر آنکھوں پر۔ بڑی مہربانی ہو گی اگر راہنمائ فرمائیں۔
کہ اگر یہاں سے ڈیلیٹ کرنا ہو تو کیسے کریں گے؟

السلام علیکم سیما!
یہاں سے آپ کے دو مراسلے حذف کر دیے گئے ہیں جو آپ نے مذکورہ لڑی میں بھیجے ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
السلام علیکم سیما!
یہاں سے آپ کے دو مراسلے حذف کر دیے گئے ہیں جو آپ نے مذکورہ لڑی میں بھیجے ہیں۔
جاسمن صاحبہ!
وعلیکم السلام
سلامت رہیے۔
عین نوازش ۔ آپکی رہنمائی سے روز کچھ نہ کچھ سیکھ رہی ہوں۔ جیتی رہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
جاسمن صاحبہ!
وعلیکم السلام
سلامت رہیے۔
عین نوازش ۔ آپکی رہنمائی سے روز کچھ نہ کچھ سیکھ رہی ہوں۔ جیتی رہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آمین!
یہاں ہر شخص دوسرے سے کچھ نہ کچھ سیکھتا ہے سیما۔ اور سیکھنے کا یہ عمل آخر تک جاری رہتا ہے۔ بس اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں "اچھا اچھا" سیکھنے کی توفیق، شوق اور آسانی دے۔ برے سے پناہ دے۔ ہماری طنابیں اپنے ہاتھ میں لے لے۔ آمین!
 

سیما علی

لائبریرین
آمین!
یہاں ہر شخص دوسرے سے کچھ نہ کچھ سیکھتا ہے سیما۔ اور سیکھنے کا یہ عمل آخر تک جاری رہتا ہے۔ بس اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں "اچھا اچھا" سیکھنے کی توفیق، شوق اور آسانی دے۔ برے سے پناہ دے۔ ہماری طنابیں اپنے ہاتھ میں لے لے۔ آمین!
آمین الہی آمین
 

جاسمن

لائبریرین
اصلاح کے لئے شکریہ جاسمن صاحبہ
را ہنمائی اب ٹھیک:lovestruck:
سیما!
جب آپ ایک مکمل لفظ لکھیں تو اس کے بعد وقفہ (سپیس) دیں۔ کسی لفظ کے درمیان میں وقفہ دیں گی تو وہ ٹوٹ جائے گا جیسا کہ آپ کا را ہنمائی ٹوٹا ہے۔
اس ایسے ہونا چاہیے۔
راہنمائی۔
 

سیما علی

لائبریرین
سیما!
جب آپ ایک مکمل لفظ لکھیں تو اس کے بعد وقفہ (سپیس) دیں۔ کسی لفظ کے درمیان میں وقفہ دیں گی تو وہ ٹوٹ جائے گا جیسا کہ آپ کا را ہنمائی ٹوٹا ہے۔
اس ایسے ہونا چاہیے۔
راہنمائی۔
آپ بھی کہتی ہونگی کیسی کوڑھ مغز ہے بار بار بتانے پر بھی غلط کیے جاتی ہے ۔۔۔ راہنمائی جیسی راہنمائی شکرن شکرن
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
اردو کا پیغام، اردو سے محبت کرنے والوں کے نام
طیبہ ممتاز۔۔۔ایکسپریس نیوز
دروازے پر دستک جاری رہی
یہاں تک کہ میں نے پوچھا کون؟
’اردو‘
جواب قدرے انہونا تھا۔
’اردو کون‘
’میر کی محبوبہ‘
میں ٹھٹک گیا۔ سرخی لب سے شوخی ادا تک ایک ایک تصویر میرے دل سے لہرا کے گزری۔

میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب سی ہے
میں نے سوچا دیکھوں تو وہ کون ہے جس کی محبت میں میر نے وہ ریختے کہے کہ ہم جیسے آج تک گلیوں میں بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔

جیسے ہی دروازے کے پٹ وا ہوئے، جو منظر تھا وہ پہلے سے زیادہ دلفریب لگنے لگا۔

میر نے ان آنکھوں کے بارعب ہونے کا ذکر تو کبھی نہیں کیا تھا اور یہ لباس ملگجا سہی، مگر محسن نقوی کی زبان میں ’سردی میں خزاں کے چاند‘ جیسا تھا
میں نے ایک نظر مڑ کر اپنے کمرے کی جانب دیکھا، میڈیسن کی ان گنت کتابوں، کافی کے دو استعمال شدہ مگ اور دو چار فلسفے کی کتابوں کے درمیان انہیں کہاں بٹھاؤں؟

لیکن اردو کو شاید ان معاملات سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ وہ جیسے آئی، دھڑلے سے ان سب کے درمیان بیٹھ گئی۔ رات بھر کی جاگی لگتی تھی۔ جو قریب سے دیکھا تو لگا میر نے جو کچھ کہا، کم کہا۔ ابھی اور بھی بہت کچھ کہا جاسکتا تھا۔

’جانتے ہو میر کیا کہتا تھا؟‘
میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔

’وہ کہتا تھا زبان شناس تو ہر کوئی ہوتا ہے، لیکن اردو شناس کوئی کوئی ہوتا ہے‘
بات حسبِ توفیق سمجھ آئی، باقی قدرے اوپر سے گزر گئی۔
’میں نے تمہارا مضمون پڑھا۔ تم نے لکھا ہے شاید اردو زبان کا کوئی مستقبل نہیں۔ یہ زبان اپنا وجود کھو رہی ہے۔

’بھلا مجھے غور سے دیکھو، تمھیں اب بھی یہی لگتا ہے؟‘

میں تھوڑا سا شرمندہ ہوا، پھر دعوت پاکر سوچا کم از کم حلیہ تو جانچ لوں۔

سبز چادر جو شروع میں قدرے نئی لگ رہی تھی، معلوم ہوا کسی قدر پیوند زدہ ہے۔
چہرے پر کہیں کہیں بزرگی کے آثار نمودار ہورہے تھے۔

بالوں میں اکا دکا جھلک چاندی کی بھی تھی۔ سیاہ لباس میں بھی پیوند تھے۔ (میرے اندر کا لکھاری خوش ہوا کہ چلو بدحالی اردو کا ذکر کیا، سچ ہی کہا)

میں نے زعم سے اردو کی آنکھوں میں دیکھا، مگر اردو کی آنکھوں میں وہ جاہ و جلال تھا کہ میں کچھ کہہ ہی نہ سکا۔ میری نظر اردو کے کندھے سے ہوتی ہوئی میڈیسن کی کتاب پر جا ٹھہری۔
’میں جانتی ہوں تمہارا وقت بہت قیمتی ہے۔‘
تو ثابت ہوا اردو بارعب ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین بھی تھی۔ مجھے اپنے لکھے ایک ایک لفظ پر شرمندگی ہونے لگی۔ اردو کے وجود میں بدحالی کا وہ شائبہ تک نہ تھا جسکا نقشہ میں نے کھینچ رکھا تھا۔
’چلو چھوڑو بس وہ سن لو جو میں اتنی صدیاں دور سے تمہیں کہنے آئی ہوں اور رسانیت سے کہنے لگی،

’تم جانتے ہو زبان کا وجود کسی باز گشت کا محتاج نہیں ہوتا۔ کسی دوسری یا تیسری زبان میں لکھے گئے بدحالی کے نقشے کا بھی نہیں!

زبان کو زندہ رکھنے کے لئے بس ایک میر، غالب یا فیض کی ضرورت ہوتی ہے۔
تخلیق ایک منزل ہے تو ارتقاء دوسری اور احیا تیسری! میں جانتی ہوں پہلی دو منازل میں عرصہ پہلے گزار چکی ہوں، وہ کہتے کہتے رک گیٴ گویا جانچ رہی ہو کہ مجھے سمجھ آ بھی رہا ہے یا نہیں!

میں نے اثبات میں سر ہلایا تو کہنے لگی،

’لیکن میرا احیا روز ہوتا ہے۔ جب بھی ایک معصوم بچہ اردو کی پہلی کتاب پڑھتا ہے، بار بار لکھتا ہے، میں تب تب زندہ ہوتی ہوں۔ جب جب ایک لکھاری صفحہ پھاڑتا اور نئی تحریر شروع کرتا ہے، وہ میری روح مجھے واپس لوٹاتا ہے۔

بس فرق صرف یہ ہے کہ اس دور کے میر اور غالب زمانے کی گرد نگاہوں سے ابھی اوجھل ہیں۔

باتیں سنتے سنتے میری نظریں اس کے دامن میں پڑے سوراخ پر جم کر رہ گئیں۔ اسے اس جگہ پیوند کی سخت ضرورت تھی۔

’میں یہ بھی جانتی ہوں تم اس وقت کیا سوچ رہے ہو؟‘

میں چونک گیا۔ ڈرتے ڈرتے نظریں ملائیں تو لگا کسی جہاں نما میں اپنا عکس دیکھ رہا ہوں۔

’وہ جو چار چھ نظمیں اور دو، تین افسانے تم نے اپنی میڈیسن کی کتابوں میں چھپا رکھے ہیں، اگر وہ چھپوا لو تو میرے دامن میں پیوند لگ جائے گا!‘

نجانے کیوں مجھے لگا اس بار اردو کے لہجے میں رعب کے بجائے نمی سی تھی۔

وہ چلی گئی تو میں دیر تک لیٹا سوچتا رہا،

میر نے جو کچھ کہا، کم کہا۔ ابھی اور بھی بہت کچھ کہا جاسکتا تھا۔
20 جون 2020 کو پڑھا بہت اچھا لگا سوچا آپ کو پسند آئے گا






یہ تحریر پڑھ کر مجھے لگ رہا ہے کہ اُردو مجھ سے مخاطب ہے ۔۔۔۔۔بہت دلفریب انداز ہے ۔

اُردو ہے جسکا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
 

سیما علی

لائبریرین
یہ تحریر پڑھ کر مجھے لگ رہا ہے کہ اُردو مجھ سے مخاطب ہے ۔۔۔۔۔بہت دلفریب انداز ہے ۔

اُردو ہے جسکا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
محمل ابراہیم !
نوازش،کرم،شکریہ،مہربانی
بیشک
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
عنایت (پتہ نہیں کون سی)..........:in-love:

آج کا اضافی علم:thumbsup2:
ایسے میں ایک پنجابی جملہ جو اکثر بڑھک کے انداز میں ہوتا ہے یاد آ رہا ہے، شومئی قسمت ہم آپ کو وہ بھی نہیں کہہ سکتے۔

ویسے بتائے دیتے ہیں۔

'کہ یاد کرسیں، آخر بیٹھا کس کول ایں'

:p
 
Top