ہمارے گھر کے بل کھاتے ہوئے زینوں سے چھت کی اونچائی 20 فٹ سے اوپر ہے۔ ہم نے تنِ تنہا سارے گھر کو رنگ کر ڈالا لیکن اتنی اونچائی تک کیسے پہنچا جائے اس نے ہمیں شدید الجھن میں ڈالے رکھا۔
روزمرہ کی باتیں
آپ خود دیکھیں ان مڑتے زینوں پر ہموار سطح انتہائی کم ہے۔ حفاظتی تدابیر مدِ نظر رکھتے ہوئے بھی کوئی سیڑھی کھڑی کر کے اس پر چڑھنا خطرے سے خالی نہیں۔
کسی پیشہ ور کی خدمات لیتے ہوئے معاوضے پر یہ کام کروانا چنداں مشکل نہیں۔ لیکن ہم نے سارا گھر خود پینٹ کیا تھا اور جس طرح اپنی غزل کہہ کر کسی اور کا مقطع نہیں لیا جا سکتا اس طرح ہمیں ایسی کوئی خدمت لینے میں اپنی عزتِ نفس کا سودا محسوس ہو رہا تھا۔ یہ ٹھان لیا تھا کہ کرنا خود ہے اور اس وقت تک نہیں کرنا جب تک مکمل طور پر خود کو محفوظ ہونے کا احساس نہ ہو۔
ہم نے بھی در در کی خاک چھانی۔ دو چار تعمیراتی کمپنیوں سے بھی بات کی کہ وہ کوئی عارضی پلیٹ فارم بنانے کا خام مواد کرائے پر مہیا کر دیں تو پلیٹ فارم خود بنا کر رنگ کی اس بازی کو ہم تمام کریں۔ لیکن طویل گفت و شنید کے بعد بھی جو حل انہوں نے تجویز کیے ان میں بھی یک گونہ خطرہ تھا۔ ہمارے گھر والوں اور رفقا کا خیال تھا کہ ہم اس رنگ بازی سے باز آ جائیں گے لیکن ہمارے ذہن میں اقبال کے یہ الفاظ "خودی کو کر بلند" بار بار گونج رہے تھے۔ آخر ہمارے ذہن میں ایک حل آ ہی گیا۔ ایک پورا دن ہمیں سوچتے، سیڑھیوں کی پیمائش کرتے اور نقشہ پیمائی کرتے گزر گیا۔ آخر کار اپنے خیال کو ایک ڈیزائن کی شکل میں ہم نے کاغذ پر منتقل کیا۔ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہمیں اب قلی، مستری اور مزدور کے ساتھ ساتھ ترکھان بھی بننا تھا۔
ہم ایک لکڑیوں کی دوکان پر گئے، مطلوبہ لکڑیاں خرید کر انہیں پیمائش کے مطابق خود آریوں سے کاٹتے چلے گئے۔
اب مرحلہ تھا ان لکڑیوں کو ڈیزائن کے مطابق زینوں پر پلیٹ فارم بنانے کے لیے فٹ کرنا۔ چار پانچ گھنٹے کی محنتِ شاقہ کے بعد تنِ تنہا ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
پلیٹ فارم کو متوازن رکھنے کے لیے ہم نے کل 9 ٹانگیں لگائیں۔
یہ رہا ہمارا بنایا ہوا لکڑی کا پلیٹ فارم
بلندی سے پلیٹ فارم
اس پلیٹ فارم پر سیڑھی رکھتے ہوئے ہم نے آخر کار اپنی رنگ بازی کی داستان مکمل کر لی۔