تب شاید آپ ہوش و حواس کی عمر میں داخل نہ ہوئے ہوں۔ جنگ ہی نہیں ڈان کا بھی کراچی شہر میں بائیکاٹ ہوتا رہا ہے۔ ایم کیو ایم حقیقی اور مجازی دونوں نے کئی مرتبہ جنگ کا بائیکاٹ کیا۔ تب جنگ اتنا کم چھپا کہ گویا چھپا ہی نہیں۔ ذرا اپنے کسی ”بزرگ“ سے معلوم کیجئے کہ ڈان کب اور کتنے دنوں تک ”ہارون ہاؤس“ سے باہر نہیں نکل پایا تھا۔ آپ کی دوسری بات کا جواب متعلقہ تنظیم والے ہی دے سکتے ہیں۔ہاہاہاہہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ کسی تنظیم نے جنگ کا بائیکاٹ کیا ہو؟؟؟؟؟ تب تو اس شہر پر "ہولڈ" رکھنے والی ایک دہشت گردوں سے بھرپور جماعت کی مخالفت کرنے پر "امت" کا ایسا بائیکاٹ ہونا چاہیے کہ امت اخبار والوں کو ملک میں جائے پناہ تک نہ ملے ؛)
تاکہ ثابت کر سکیں ہم کس اخبار سے کمیشن لینے کے حقدار ہیں۔چھاپ کون را ، بیچ کون را ، کما کون را،
اپن لوگ خالی پیلی لڑ ریلے
ایسا کیوں ؟
یوسف بھائی آپ نے تجسس میں ڈال دیا ہے۔ اس کی مختصر تفصیل اگر ہوسکے تو شئیر کردیں۔ ڈان مجھے اس لئے پسند ہے کہ اس کی پیشانی پر Founded by Mohammad Ali Jinnah لکھا ہوا دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ اتنے بڑے نام کی اس اخبار نے اپنی کوشش کی حد تک کافی لاج رکھی ہوئی ہے۔ (دوسروں کو اختلاف ہوسکتا ہے میری اس بات سے، اس سے انکار نہیں اس لئے اس بات کو کسی نئی بحث کا نقطہ آغاز نہ بنایا جائے) مجھے صرف اس میں دلچسپی ہے کہ ڈان نے ایسا کیا چھاپ دیا تھا جو ہارون ہاوس سے باہر ہی نہ نکل پایا۔ڈان کب اور کتنے دنوں تک ”ہارون ہاؤس“ سے باہر نہیں نکل پایا تھا۔
تب شاید آپ ہوش و حواس کی عمر میں داخل نہ ہوئے ہوں۔ جنگ ہی نہیں ڈان کا بھی کراچی شہر میں بائیکاٹ ہوتا رہا ہے۔ ایم کیو ایم حقیقی اور مجازی دونوں نے کئی مرتبہ جنگ کا بائیکاٹ کیا۔ تب جنگ اتنا کم چھپا کہ گویا چھپا ہی نہیں۔ ذرا اپنے کسی ”بزرگ“ سے معلوم کیجئے کہ ڈان کب اور کتنے دنوں تک ”ہارون ہاؤس“ سے باہر نہیں نکل پایا تھا۔ آپ کی دوسری بات کا جواب متعلقہ تنظیم والے ہی دے سکتے ہیں۔
رانا بھائی ! یہ تب کی بات ہے جب شہر قائد میں ”پیر صاحب“ عروج کی منزلیں طے کر رہے تھے۔ (سنہ تو اب مجھے بھی یاد نہیں) البتہ تب سندھ کے گورنر بھی ”ہارون ہاؤس“ والے ہی تھے۔ تب ڈان پیر صاحب کی خبریں ”حسب منشا“ نہیں چھاپا کرتا تھا۔ اور نائین زیرو میں کراچی سے شائع ہونے والے روزناموں کے مدیروں کے ”اجلاس“ میں بھی شریک نہیں ہوا کرتا تھا۔ تب مبینہ طور پر دو سو مسلح افراد نے ایک ہفتہ سے زائد تک ہارون ہاؤس کا گھیراؤ کیا ہوا تھا۔ لوگوں کو اندر آنے جانے کی آزادی تو تھی لیکن ”اندر“ سے ڈان کا کوئی شمارہ باہر نہیں نکلنے پر پابندی تھی۔ ڈان کے دفاتر اور پرنٹنگ پریس سب کچھ ہارون ہاؤس کے اندر ہی ہے۔ آپ کسی بھی ڈان کے پرانے صحافی سے پوچھ لیجئے۔ وہ آپ کو ”آف دی ریکارڈ“ سب کچھ بتا دے گا۔ اور پھر ڈان نے بھی گھٹنے ٹیک دیئے۔ رہے نام اللہ کا۔ ڈان ڈرف ایک اسٹیٹس سمبل ہے، عوام میں۔ جبکہ اردو نہ پڑھ سکنے والے پاکستانیوں سمیت پاک میں مقیم تمام غیر ملکی لوگ بھی ڈان ہی پڑھتے ہیں۔ انگریزی میں ڈان سے ”اچھا“ کوئی اخبار پاکستان میں نہیں ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ڈان تمام ”صحافتی معیارات“ پر ”دی بیسٹ“ ہے۔یوسف بھائی آپ نے تجسس میں ڈال دیا ہے۔ اس کی مختصر تفصیل اگر ہوسکے تو شئیر کردیں۔ ڈان مجھے اس لئے پسند ہے کہ اس کی پیشانی پر Founded by Mohammad Ali Jinnah لکھا ہوا دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ اتنے بڑے نام کی اس اخبار نے اپنی کوشش کی حد تک کافی لاج رکھی ہوئی ہے۔ (دوسروں کو اختلاف ہوسکتا ہے میری اس بات سے، اس سے انکار نہیں اس لئے اس بات کو کسی نئی بحث کا نقطہ آغاز نہ بنایا جائے) مجھے صرف اس میں دلچسپی ہے کہ ڈان نے ایسا کیا چھاپ دیا تھا جو ہارون ہاوس سے باہر ہی نہ نکل پایا۔
مجھے تو ان دو خبروں کو پڑھ کر یوں لگا ہے جیسے امت اخبار والے ان دہشت گردوں کو پیغام دے رہے ہوں۔۔کہ خبردار۔۔اپنا اپنا مناسب بندوبست کرلو، ہم تمہیں پہلے سے ہی بتائے دے رہے ہیں کہ پولیس اور حساس ادارے کن خطوط پر تفتیش کر رہے ہیں۔ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔۔۔سپاہِ صحابہ اور لشکرِ جھنگوی دو الگ تنظیمیں ہیں۔ لشکرِ جھنگوی ڈنکے کی چوٹ پر دہشت گرد، جبکہ سپاہِ صحابہ نرم تر دہشت گرد جماعت ہے۔ ذرا سپاہِ صحابہ اور اُن کے موجودہ لیبل اہلِ سنت والجماعت کے بارے میں بھی کچھ اندر کی خبریں ڈحونڈ کے دکھائیے۔
باقی جھوٹ نہیں کہوں گا، یہ دو تراشے دیکھ کر امت کی کچھ تو وقعت نظروں میں بحال ہوئی ہے۔
سپاہِ صحابہ اور لشکرِ جھنگوی دو الگ تنظیمیں ہیں۔ لشکرِ جھنگوی ڈنکے کی چوٹ پر دہشت گرد، جبکہ سپاہِ صحابہ نرم تر دہشت گرد جماعت ہے۔ ذرا سپاہِ صحابہ اور اُن کے موجودہ لیبل اہلِ سنت والجماعت کے بارے میں بھی کچھ اندر کی خبریں ڈحونڈ کے دکھائیے۔
کیا یہاں یہ بات ہورہی ہے کہ امت کی ہر خبر پر آمنا صدقنا پڑھنا ضروری ہے یا یہ بات کہ امت کذب محض نہیں جیسا کہ آپ کا خیال ہے؟سپاہِ صحابہ اور لشکرِ جھنگوی دو الگ تنظیمیں ہیں۔ لشکرِ جھنگوی ڈنکے کی چوٹ پر دہشت گرد، جبکہ سپاہِ صحابہ نرم تر دہشت گرد جماعت ہے۔ ذرا سپاہِ صحابہ اور اُن کے موجودہ لیبل اہلِ سنت والجماعت کے بارے میں بھی کچھ اندر کی خبریں ڈحونڈ کے دکھائیے۔
باقی جھوٹ نہیں کہوں گا، یہ دو تراشے دیکھ کر امت کی کچھ تو وقعت نظروں میں بحال ہوئی ہے۔ لیکن حیرت ضرور ہوئی کہ عباس ٹاؤن سانحے میں لشکرِ جھنگوی کے تعلق کی رپورٹ پڑھنے والے امت کے قارئین ہی اس واقعے کو غیر فرقہ وارانہ دہشت گردی ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔
ذرا بقیہ اخبارات میں سے ان مکمل دہشت گرد تنظیموں کے بارے میں خبریں چھان کر بتائیے کتنی ملتی ہیں آٹے میں نمک برابر۔
سو سنار کی ایک لوہار کیچھاپ کون را ، بیچ کون را ، کما کون را،
اپن لوگ خالی پیلی لڑ ریلے
ایسا کیوں ؟