یوسف-2
محفلین
عام قارئین کو تو اخبارات کے ”اندر کی کہانیوں“ کا کچھ پتہ نہیں ہوتا لیکن صحافت کے شعبہ سے وابستہ باخبر افراد ”آف دی ریکارڈ“ ان باتوں سے بھی آگاہ ہوتے ہیں کہ کون سی خبر کس اخبار میں چھپ سکتی ہے اور کس میں نہیں۔ کون سا اخبار (یا اخبار نویس) پیسے لے کر خبر چھاپتا ہے اور کون کسی خبر کو نہ چھاپنے کے پیسے لیتا ہے۔ کس اخبار کی ”سرکاری سرکولیشن“ کتنی ہے اور اصلی کتنی۔ کون سا اخبار کس گروپ سے ڈرتا اور دبتا ہے اور کون اُسی گروپ کو گھاس نہیں ڈالتا وغیرہ وغیرہ۔ عوام میں کسی بی اخبار کی کریڈیبیلیٹی دو طرح سے بنتی ہے۔ایک تو اسے کتنے لوگ خریدتے ہیں یعنی اس کی اشاعت کتنی ہے اور دوسرے اس اخبار کی خبریں اگر کسی کے خلافہ چھپتی ہیں تو متعلقہ فریق اس ”خبر“ کو غلط ثابت کرتا ہے، اخبار کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرتا ہے یا رسمی طور پر اسے ’غلط‘ کہہ کر چپ ہوجاتا ہے۔ کراچی کی صحافت سے واقیت رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اس وقت سب سے زیادہ تعداد میں امت اخبار شائع ہورہا ہے، جنگ سے بھی زیادہ۔ اسی اخبار میں سب سے زیادہ ”ایکسکلوسیو نیوز“ چھپتے ہیں۔ جس کی کبھی کوئی ثبوت کے ساتھ تردید نہیں کرپاتا اور نہ ہی کوئی اس اخبار کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرتا ہے۔ آخر امت میں کچھ تو ہے کہ لوگ اسے سب سے زیادہ تعداد میں خرید کر پڑھتے ہیں اور اور کوئی اس کے خلاف سنجیدہ کاروائی بھی نہیں کرتا۔