پاکستان کیوں ناگزیر تھا,,,,سعید صدیقی
فاضل ماہر تعلیم تجزیہ نگار محترم پروفیسر حسنین کاظمی صاحب کا مندرجہ بالا عنوان سے 31جولائی کو کالم شائع ہوا ہے آپ نے قائداعظم کے حوالے سے اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ برصغیر میں مسلمانوں کی ایک آزاد مملکت کا قیام خود اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے یہی پاکستان کا جذبہ محرکہ تھا اس کی اصل وجہ نہ ہندوؤں کی تنگ نظری ہے نہ انگریزوں کی چال۔ قائداعظم کی جس تقریر کا کاظمی صاحب نے حوالہ دیا ہے وہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلباء سے خطاب اس معنی میں ہو سکتا ہے کہ میری معلومات کی حد تک ڈاکٹر سر ضیاء الدین احمد نے قائداعظم کے اعزاز میں 8مارچ 1944 کو لنچ دیا تھا اس میں آپ نے فرمایا۔
Pakistan was not the product of the conduct or misconduct of hindus. It had always been there only they were not conscious of it. Hindus and muslims living in the same town and villager been blended into one nation they were always two seperate entities.
ایک اور موقع پر 10مارچ 1941 کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ہی کے طلباء کو خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا۔
In India permanent and perenial majority dominates over a society in minority. we have seen from actual experience that the british system of govt. result in the establishment of complete hindu domination over all others in India. The muslims and other minorites are rendered absolutely powerless without any hope of achieving a share of power under the constitution. (sayings of Quaid-e-Azam, Rizman Ahmed).
مندرجہ بالا بیانات کو اگر غور سے پڑھا جائے تو ان میں قائداعظم نے اسلام کے دائمی فکر و نظر کے ذریعہ مسلمانوں کے فلسفہ حیات کے اعتبار سے انہیں ایک علیحدہ قوم کی حیثیت میں پیش کیا ہے جیساکہ قائداعظم نے بارہا کہا کہ مسلمان اور ہندو تاریخ ثقافت تہذیب ادب کے اعتبار سے دو علیحدہ قومیں ہیں ایک کا ہیرو دوسرے کا دشمن کہلاتا ہے۔ دوسرے خطاب میں تو واضح طور پر فرمایا کہ ہندوستان میں مستقل طور پر ہندوؤں کی عددی اکثریت اقلیت پر غالب رہتی ہے اور برطانیہ کا طرز جہانبازی تو قطعی طور پر ہندوؤں کے غلبے پر دلالت کرتی ہے مسلمان اور دیگر اقلیتیں بالکل بے دست و پا ہو کر رہ گئی ہیں جنہیں مستقبل میں کبھی بھی آئین کی رو سے طاقت میں شرکت کا حق حاصل ہونے کی امید نہیں ہے۔
تقسیم برصغیر یا مطالبہ پاکستان کی اصل وجہ ہندوؤں کی تنگ نظری یا انگریزوں کی چال نہیں تھی اس امر کا جائزہ لینے کیلئے تاریخ کے اوراق کی روگردانی مناسب ہو سکتی ہے 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جب مسلمانوں پر قیامت ٹوٹی، ان کو پھانسی کے تختوں پر چڑھایا گیا، ان کی املاک کو نذر آتش کیا گیا، شہزادوں کے سر کاٹ کر بادشاہ کے سامنے پیش کئے گئے۔ نہر سعادت خان موجودہ چاندنی چوک میں پانی کی جگہ مسلمانوں کا خون بہا تو قوم کے بطل جلیل سر سید احمد خان نے مسلمانوں کی بقا کے لئے جس کیمیا سعادت کا نسخہ تجویز کیا یعنی مسلمان انگریزی زبان سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم حاصل کریں۔ اس میں اپنوں کی غداری کے ساتھ اردو ہندی کا تنازع ہندوؤں نے کھڑا کیا۔ اردو فارسی کو دفتری زبان کے طور پر تبدیل کرنے کی مہم چلائی گئی۔ اردو کو کہا گیا یہ قرآن کے رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اس کی جگہ ہندی یا دیوناگری رسم الخط جاری کیا جائے۔ شدھی شنگھٹن کا قضیہ کھڑا کیا گیا سر سید احمد خان نے حقائق کا جائزہ لیتے ہوئے بنارس کے شہر میں واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ اگر ہندوؤں کی تنگ نظری اور تعصب کا یہی عالم رہا تو وہ دن دور نہیں جب ہندوستان ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا میں تقسیم ہو جائے گا۔ انگریز نے کیونکہ حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی لہٰذا مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور ہندو کی طرف اس کا جھکاؤ آخر وقت تک رہا۔ آج بھی برطانیہ امریکہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو زیادہ پسند کرتے ہیں اور آگے کی طرف چلئے تو 1936 کے الیکشن کے نتیجے میں ہندوستان کے پانچ صوبوں یو پی سی پی بمبئی مدارس اور بہار میں کانگریس کی حکومتیں قائم ہوئیں۔ ودیا مندر اسکیم شروع کی گئی۔ اسکولوں میں بندے ماترم کا گیت طلبہ سے گوایا گیا، بندے ماترم کے گیت میں مسلمان حکمرانوں کے مظالم اور تضحیک کا ذکر ہوتا تھا۔ واردھا اسکیم آف ایجوکیشن رائج کی گئی اردو کو مٹانے کی تمام سازشیں جاری رہیں۔
گرام سدھار کی اسکیم کے ذریعے مسلمان زمینداروں کو زمینوں سے بے دخل کیا گیا کسانوں میں ان کی زمین بانٹ دی گئی بہار میں کیونکہ زمیندار زیادہ تر ہندو تھے وہاں یہ قانون نافذ نہیں کیا گیا۔ گاؤکشی پر پابندی لگا دی گئی۔ مسجدوں کے آگے عین نماز اور اذان کے وقت سنکھ بجائے جاتے۔ ہندو مسلم فساد برپا کئے گئے۔ الغرض 3سال بعد جب کانگریس کی حکومت ختم ہوئی تو قائداعظم نے Day of Delivernce یوم نجات منانے کا اعلان کیا۔ کلکتہ میں مسلمانوں کے جلوس پر ہندو بلوائیوں نے حملہ کر دیا۔ اس میں بہت مسلمان مارے گئے جب نوکھالی میں کچھ ہندو مارے گئے تو جھٹ مہاتماجی کے پیٹ میں درد اٹھ آیا۔ گاندھی جی کا تو یہ قول تھا کہ مسلمان یا تو عرب آوروں کی اولاد ہیں یا ہم ہی میں سے تبدیل ہوئے لوگ ہیں ان کی درستی کا ایک ہی علاج ہے یا تو انہیں ان کے آبائی وطن عربستان واپس بھیج دیا جائے یا انہیں شدھی سنگھٹن کے ذریعے واپس ہندو دھرم میں لایا جائے یہ بھی نہ ہو سکے تو انہیں غلام بنا کر رکھا جائے۔ میں تو پلا بڑھا ہی ہندوؤں میں ہوں۔ تحریک پاکستان جب عروج پر تھی تو میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے فارغ التحصیل ہو کر جب پارلیمینٹ ہاؤس نئی دہلی میں داخل ہوا تو کانگریس کی Quit Inida تحریک میرے سامنے ریل کی پٹڑیاں اکھاڑی گئیں، سگنل توڑ دیئے گئے، ریلوے کلیئرنگ آفس کی 5منزلہ عمارت سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے۔ قائداعظم نے کانگریس کی اس تحریک کے سلسلے میں پیشکش کو مسترد کر دیا تھا کہ پہلے مسلمان ہندو مل کر انگریز کو نکال دیں۔ قائداعظم نے اسے شاطرانہ چال بتایا۔ جب 3جون 1947 کو آل انڈیا ریڈیو سے دو آزاد مملکتوں کا اعلان ہو گیا پہلی تقریر لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی ہوئی بعد میں پنڈت جواہر لال نہرو کی تقریر ہوئی تیسرے نمبر پر قائداعظم نے قوم سے خطاب کیا اور انتقال اقتدار کو پرامن طریق پر اپنے انجام کو لے جانے کی اپیل کی۔ میں تو آل انڈیا ریڈیو پر موجود تھا اسی روز سے ہندوؤں نے مسلمانوں پر حملے کرنا شروع کر دیئے۔ پورے ہندوستان میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ نئی دہلی Sectariate میں Partition کونسل کے اجلاس شروع ہوئے۔ بٹوارہ Assets کی تقسیم شروع ہوئی کل انڈیا کا Reserve چار ارب روپیہ نکلا بڑے مول تول بحث مباحثہ کے بعد 75کروڑ پاکستان کے حصے میں آیا۔
20کروڑ کی پہلی قسط دے کر باقی رقم روک لی ہم جب پاکستان پہنچے تو تنخواہ دینے کو پیسے نہیں تھے جو رقم مال اسباب لے کر چلے تھے راستے میں لوٹ لیا گیا۔
تن ہمہ تار تار شد پنبہ کجا کجا نہم
میرے زخموں میں ٹیس شاید اس لئے زیادہ اٹھتی ہے کہ میری گنہگار آنکھوں نے یہ سارے منظر دیکھے ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا احمد سعید کون سے عالم دین ہیں جنہیں میں نے نہیں سنا۔ ان کا احترام ادب تقدس اپنی جگہ قائم ہے وہ وارث الانبیاء ہیں، دین کے معاملے میں انہی سے رجوع کرنا ہوگا لیکن تحریک پاکستان کے دوران اس دین دانش نے جو گل کھلائے اس کا اور ہندو کانگریس کے تعصب اور تنگ نظری کا ذکر اب جب قیامت سر پر سے گزر گئی مولانا ابوالکلام آزاد Indiawins Freedom میں پاکستان کے قیام کا ذمہ دار پنڈت جواہر لال نہرو اور مسٹر ولبھ بھائی پٹیل کو ٹھہراتے ہیں گاندھی جی کو بھی ان کا ہمنوا بتانے سے انہوں نے گریز نہیں کیا۔ الغرض مطالبہ پاکستان یا مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کا جذبہ محرکہ ہندو کی تنگ نظری تھی یا نہیں شاید ہی کوئی درد مند دل اس حقیقت کو نظرانداز کر سکے۔ قائداعظم اور زعماء پاکستان اسلام کے داعی تھے اس میں کوئی کلام نہیں وہ سچے مسلمان تھے قائداعظم کی امانت دیانت صداقت کے ان کے بدترین دشمن بھی دل سے قائل تھے راست گوئی راست معاملگی ان کا شعار تھا لیکن وہ بقول اقبال گفتار کے غازی نہیں کردار کے غازی تھے ہماری بدنصیبی کہ ہم نے پاکستان بنے کے بعد تحریک پاکستان کے محرکات کو یکسر گنوا دیا اور ہر برائی کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا ناکامی بربادی ہمارا مقدر بن گئی۔
خلیل جبران لبنانی ادیب مفکر نے اقوال زریں میں جو کچھ کہا ہے ہم پر بعینہ صادق آتا ہے وہ کہتا ہے۔
افسوس اس قوم پر جو عقیدے سے مالا مال ہو اور مذہب کی روح سے بیگانہ ہو۔
افسوس اس قوم پر جس کے پاس اپنی تاریخ اور تہذیب کے کھنڈروں کے سوائے فخر کرنے کو کچھ نہ ہو اور جو اس وقت تک بغاوت کرنے پر آمادہ نہ ہو جب تک پھانسی کا پھندا اس کے گردن میں نہ پڑ جائے۔
افسوس اس قوم پر جو ٹکڑیوں میں بٹی ہو اور ہر ٹکڑا خود کو علیحدہ قوم سوچتا ہو۔