زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

حسان خان

لائبریرین
میغ = ابْر، سَحاب

به دل گفت از این پس: "دریغا، دریغ!
که شد ماهِ تابنده در زیرِ میغ"
(فردوسی طوسی)

ترجمہ: اُس نے پس ازاں دل میں کہا: "افسوس! افسوس! کہ ماہِ تابندہ ابر کے پیچھے چلا گیا۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فارسی زبان میں جتنے بھی الفاظ ہائے غیر ملفوظہ پر ختم ہوتے ہیں، ایرانی تلفظ میں اُن کے ماقبل کے صامت پر فتحہ کی بجائے کسرہ آتا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، ایران میں 'سینہ' کا تلفظ 'sîna' کی بجائے 'sîne' کیا جاتا ہے۔ یہ خصوصیت ایرانی فارسی میں گذشتہ چند صدیوں ہی میں ظاہر ہوئی ہے، ورنہ فارسیِ کہن میں اِن الفاظ کا وہی طرزِ تلفظ تھا جو فارسی کے مشرقی لہجوں اور اردو میں فی الوقت رائج ہے۔ اگرچہ مشرقی فارسی لہجوں نے فارسیِ کہن کا طرزِ تلفظ محفوظ رکھا ہے، لیکن وہاں بھی بر خلافِ قاعدہ ایک لفظ 'شنبہ' موجود ہے جس میں اب ایرانیوں کی طرح صامتِ آخرین کی حرکت کو اِمالے کے ساتھ کسرہ تلفظ کیا جاتا ہے۔ اِس لفظ کا تلفظ ابتداءً 'şamba' تھا لیکن اب ہر فارسی گو ملک میں اِسے 'şambe' پڑھا جاتا ہے۔ تاجکستان کے دارالحکومت 'دوشنبہ' کا تلفظ بھی اِسی باعث 'duşambe' کیا جاتا ہے اور انگریزی میں اُس کے لیے 'dushanbe' کا املا استعمال ہوتا ہے۔ میں نے اکثر اردو مطبوعات میں دیکھا ہے کہ اُن میں ناواقفیت کی بنا پر اِس شہر کو 'دوشنبے' لکھا ہوا ہوتا ہے۔
ہائے غیر ملفوظہ پر ختم ہونے والا صرف یہی لفظ ایسا ہے جسے مشرقی لہجوں میں ایرانیوں کی طرح تلفظ کیا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:
فارسی زبان میں جتنے بھی الفاظ ہائے غیر ملفوظہ پر ختم ہوتے ہیں، ایرانی تلفظ میں اُن کے ماقبل کے صامت پر فتحہ کی بجائے کسرہ آتا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، ایران میں 'سینہ' کا تلفظ 'sîna' کی بجائے 'sîne' کیا جاتا ہے۔ یہ خصوصیت ایرانی فارسی میں گذشتہ چند صدیوں ہی میں ظاہر ہوئی ہے، ورنہ فارسیِ کہن میں اِن الفاظ کا وہی طرزِ تلفظ تھا جو فارسی کے مشرقی لہجوں اور اردو میں فی الوقت رائج ہے۔ اگرچہ مشرقی فارسی لہجوں نے فارسیِ کہن کا طرزِ تلفظ محفوظ رکھا ہے، لیکن وہاں بھی بر خلافِ قاعدہ ایک لفظ 'شنبہ' موجود ہے جس میں اب ایرانیوں کی طرح صامتِ آخرین کی حرکت کو اِمالے کے ساتھ کسرہ تلفظ کیا جاتا ہے۔ اِس لفظ کا تلفظ ابتداءً 'şamba' تھا لیکن اب ہر فارسی گو ملک میں اِسے 'şambe' پڑھا جاتا ہے۔ تاجکستان کے دارالحکومت 'دوشنبہ' کا تلفظ بھی اِسی باعث 'duşambe' کیا جاتا ہے اور انگریزی میں اُس کے لیے 'dushanbe' کا املا استعمال ہوتا ہے۔ میں نے اکثر اردو مطبوعات میں دیکھا ہے کہ اُن میں ناواقفیت کی بنا پر اِس شہر کو 'دوشنبے' لکھا ہوا ہوتا ہے۔
ہائے غیر ملفوظہ پر ختم ہونے والا صرف یہی لفظ ایسا ہے جسے مشرقی لہجوں میں ایرانیوں کی طرح تلفظ کیا جاتا ہے۔
افغانستان کی گفتاری لہجوں اغلباََ میں اب بھی دوشنبہ کو دوشنبے کے بجائے دوشنبا ہی پڑھا جاتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
جس طرح فارسی میں سوال کے لیے 'آیا' کا لفظ استعمال ہوتا ہے، اور کسی بھی اخباری جملے میں 'آیا' کا اضافہ کر کے اُسے سوالیہ جملے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، اُسی طرح ترکی زبان میں لفظِ 'می' استعمال ہوتا ہے جو عموماً سوالیہ جملوں کے آخر میں آتا ہے۔ لیکن یہ لفظ صرف ترکی تک محدود نہیں رہا ہے، بلکہ ماوراءالنہر میں تاجکوں اور ازبکوں کی، یا اگر درست تر کہا جائے، فارسی گویوں اور ترکی گویوں کی صدیوں کی ہم زیستی کے باعث یہ حرف ماوراءالنہری گفتاری فارسی، بالخصوص شمالی تاجکستان اور سمرقند و بخارا کی گفتاری فارسی میں بھی رائج ہو چکا ہے، اور یہ شوروی دور کی عامیانہ زدہ نَوِشتاری زبان میں، اور گاہے معاصر تاجکستانی حکایتی ادبیات میں بھی، استعمال ہوتا رہا ہے۔
شمالی تاجکستان اور سمرقند و بخارا کی گفتاری فارسی بہت زیادہ ترکی زدہ ہے۔

ماوراءالنہری گفتاری فارسی میں 'می' کے استعمال کی ایک مثال دیکھیے:
معلّمه پسرش رفت می؟ = آیا پسرِ معلّم رفت؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
افغانستان کی گفتاری لہجوں اغلباََ میں اب بھی دوشنبہ کو دوشنبے کے بجائے دوشنبا ہی پڑھا جاتا ہے۔
لیکن وہاں بھی شاید 'شنبے' تلفظ ہی کو معیاری مانا جاتا ہے۔
اِس ویڈیو میں ایامِ ہفتہ کے افغان تلفظ دیکھیے:

ایران میں 'جمعہ' کو بھی 'جمعے' کہا جاتا ہے۔ قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اِس ویڈیو بنانے والے افغان نے 'شنبہ' کا تلفظ اِمالے کے ساتھ کیا ہے، لیکن 'جمعہ' کا تلفظ فتحہ کے ساتھ ہی کیا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
کہنہ ادبی فارسی میں نہیِ حاضر کے لیے میمِ نہی کا استعمال ہوتا تھا مثلاً مکن، مگو، مباشید، مپرسید وغیرہ۔ امّا معاصر فارسی میں اب میمِ نہی کی بجائے نون کا استعمال ہوتا ہے اور میمِ نہی قدیمی ہو گیا ہے۔ یعنی اب گفتاری و نوشتاری فارسی میں نکن، نگو، نباشید، نپرسید ہی استعمال ہوتے ہیں۔ البتہ، شعراء اپنی شاعری میں قدیم ذائقہ ڈالنے کے لیے گاہے اِس کا استعمال کرتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
پہلے مصرع کا مطلب یہ ہے کہ کسی نے شہریار کو ایک خط دیا۔دوسرے مصرع کا مطلب واضح نہیں
اِس بیت کا ترجمہ یہ ہے:
سپس پادشاہ نے رُستمِ نامدار کی جانب ایک نامہ لکھنے کا حکم دیا۔
× سِپَس = بعد ازاں، پس ازاں، پھر
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تو که از میِ جوانی همه سرخوشی چه دانی
که شرابِ ناامیدی چقدر خمار دارد
(شهریار)

تو بادہء جوانی سےسراپا مست ہے، تو کیا جانے کہ مئے ناامیدی کتنا نشہ رکھتا ہے۔
فارسی میں، بلکہ اردو میں بھی بنیادی طور پر، 'خُمار' نشے کو نہیں، بلکہ اُس سردرد و کسالت کو کہتے ہیں جو نشہ ٹوٹنے اور مستی کی حالت ختم ہونے کے بعد انسان پر طاری ہوتی ہے۔ میرا گمان ہے کہ یہاں شاعر شرابِ ناامیدی کو مثبت نہیں، بلکہ منفی چیز کے طور پر پیش کر رہا ہے اور اپنے مخاطَب سے کہہ رہا ہے تم تو حالا بادۂ جوانی سے مست ہو، تم اُس رنج و ملال کو کیا جانو جو شرابِ ناامیدی سے ہم پر عارض ہوتی ہے۔

خُمار (عربی)
حالتِ بعد از مستی؛ دردِ سری، که بعد از مستی حِس کرده می‌شود.

خُمار است انجامِ مستیِ مَی.
(ضرب‌المَثَل)

اگر به میکده رفتیم، عُذرِ ما بپذیر،
که باده خوردنِ ما را خُمار شد باعث.
(هلالی)

[فرهنگِ زبانِ تاجیکی، جلدِ دوم، ص ۵۰۳]

۱. حالتِ بعد از مستی؛ چشمِ خُمار چشم نیم‌مست، چشمِ پُرناز. ۲. میل و رغبتِ زیاد به چیزِ عادت‌شده وقتِ ترکِ آن؛ خُمارِ چیزی گرفتن میل و رغبت داشتن به چیزِ عادت‌شده وقتِ ترک یا دست‌رس نبودنِ آن.
[فرهنگِ تفسیریِ زبانِ تاجیکی، جلدِ دوم، ص ۴۷۸]

۱. کسلی و ملالتی که پس از رفتنِ نشئهٔ ناشی از مشروباتِ الکلی یا موادِ مُخدِّر دست می‌دهد و شخص مجدداً خواهانِ آنها می‌شود. ۲. (صفت) دچارشده به چنین حالتی. ۳. ویژگیِ چشمِ کمی خواب‌آلود و خوش‌حالت که در زیبایی‌شناسیِ قدمایی و در ادبیاتِ عاشقانه موردِ توجه بوده‌است؛ مست؛ مخمور. ۴. (گفتگو) کسل، بی‌حال.
[فرهنگِ روزِ سخن، ص ۴۹۵]


دردِسر و ملالی که پس از مستی عارضِ شخص می شود.
[فرهنگِ معین]

۱. سردرد و کسالتی که پس از برطرف شدنِ کیفِ شراب در انسان پیدا می‌شود؛ حالتِ بعد از مستی.
۲. (صفت) کسی که به حالتِ خماری دچار شده باشد؛ مخمور.
۳. (صفت) ویژگیِ چشمی که حالتِ خماری در آن نمایان باشد.
[فرهنگِ عمید]
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ابھی معلوم ہوا ہے کہ ۱۹۶۲ء تک پاکستان میں واقع سابقہ ریاستِ چترال کی رسمی و انتظامی زبان فارسی تھی۔ :)
ماخذ
 
آخری تدوین:
برادر اریب آغا، شاہنامۂ فردوسی کی مندرجۂ ذیل بیت کا اردو میں مفہوم بیان کیجیے:
"یکی نامه فرمود پس شهریار

نبشتن برِ رُستم نامدار"
لغوی طور پر اس کی تقطیع کردیں۔ یہ آخری بیت کی گرامری لحاظ سے وضاحت کردیں کہ یہ کیسے اس مفہوم کو بیان کرتا ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
لغوی طور پر اس کی تقطیع کردیں۔ یہ آخری بیت کی گرامری لحاظ سے وضاحت کردیں کہ یہ کیسے اس مفہوم کو بیان کرتا ہے؟
'فرمودن' کا بنیادی معنی 'حکم دینا' یا 'امر کرنا' تھا۔ 'یکی نامه نبشتن فرمود' یعنی ایک نامہ لکھنے کا حکم دیا۔ یہ قدیم اسلوب ہے۔ معاصر فارسی میں اِس طرح کا نحو استعمال نہیں ہوتا ہے۔ معاصر فارسی نثر میں یہ مفہوم کچھ اِس طرح بیان کیا جاتا: امر کرد تا/که نامه‌ای بنویسند.
'نبشتن' شعری ضرورت کی وجہ سے دوسرے مصرعے میں آیا ہے۔ یہ 'نوشتن' کی قدیم متبادل شکل ہے۔
'بر' کا ایک قدیمی مفہوم 'جانب، طرف، سُو' بھی ہے۔


ویسے 'بیت' دو مصرعوں کے مجموعے کو کہتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
یہاں پر مکمل شاہنامۂ فردوسی کا انگریزی ترجمہ موجود ہے جو دو انگریز برادروں آرتھر جورج وارنر اور ایڈمنڈ وارنر کے توسط سے نو جلدوں میں ۱۹۲۵ء میں انجام پایا تھا:
The Shahnama of Firdausi
 

حسان خان

لائبریرین
امروز میں نے تاجکستانی فیس بُکی گروہ 'زبانِ پارسی' پر یہ چند سطریں لکھی ہیں:

فارسی زبانِ یک ملّت نیست، زبانِ یک تمدنِ عظیم و پهناور است. هر کس که عاشقِ آن تمدنِ عالی‌قدر باشد، و به آن وابستگی و دل‌بستگی احساس کند، فارسی زبانِ اوست، اعم از این که زبانِ مادری‌اش فارسی باشد یا نباشد. این چیزِ تازه‌ای نیست، بلکه در طولِ تاریخِ تمدنِ هزارسالهٔ فارسی، درِ زبانِ فارسی به رویِ هر فرد و قوم کشاده بوده‌است، و این زبان هر شخصِ فارسی‌دوست را به فرزندیِ خود می‌پذیرفته‌است.
زنده باش، ای دری، ای زبانم وَ محبوبِ من! :in-love:


ترجمہ: فارسی کسی ملّت کی زبان نہیں، ایک عظیم و وسیع تمدن کی زبان ہے۔ جو شخص بھی اُس عالی قدر تمدن کا عاشق ہو، اور اُس سے وابستگی و دل بستگی محسوس کرے، فارسی اُس کی زبان ہے، خواہ اُس کی مادری زبان فارسی ہو یا نہ ہو۔ یہ کوئی تازہ چیز نہیں ہے، بلکہ فارسی کے ہزارسالہ تمدن کے طُولِ تاریخ میں زبانِ فارسی کا در ہر فرد و قوم کے چہرے کی جانب کھلا رہا ہے، اور یہ زبان ہر فارسی دوست شخص کو اپنی فرزندی میں قبول کرتی رہی ہے۔
زنده باش، ای دری، ای زبانم وَ محبوبِ من! :in-love:


× تاجکستان کے قومی ترانے میں 'زنده باش، ای وطن، تاجیکستانِ آزادِ من!' کی سطر ہر بند کے بعد دہرائی جاتی ہے۔ میں نے مندرجۂ بالا مصرعہ اُسی سطر کی پیروی میں کہا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ابھی ایک تاجکستانی شخص 'سعدی وارثوف' کا یہ جملہ میری نظروں سے گذرا:
"همهٔ بزرگانِ ما بدونِ استثنا تازی‌دان بودند."
واقعی، جس طرح تمام اردو نویس متقدمین بدونِ استثناء فارسی دان تھے، اُسی طرح گذشتہ قرون کے تمام فارسی نویس بزرگان بھی کسی استثناء کے بغیر عربی دان تھے۔ اُن بزرگوں کی وہ عربی دانی ہی فارسی زبان پر عربی کے پایدار و ماندگار اثرات کا باعث ہے۔


× تازی = عربی
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
سیبِ آفتابی
سیبِ داغ‌دار و پژمرده. تأثیر گوید، بیت:
گرچه از تابِ عِذارش آفتابی گشته‌است
بویِ جان می‌آید از سیبِ زنخدانش هنوز

(چراغِ هدایت، سراج‌الدین علی خان آرزو، ۱۷۳۴ء)


شعر کا ترجمہ: اگرچہ اُس کے رخسار کی تاب سے اُس کا سیبِ زنخدان داغ دار و پژمُردہ و خشک ہو گیا ہے [لیکن] ہنوز اُس سے بوئے جاں آتی ہے۔
 
آخری تدوین:
فارسی میں افعالِ معاون میں سے ایک فعل ہے "تَوانَستَن"۔ اسے کابلی گفتاری فارسی میں "تانستن" کہا جاتا ہے جوکہ تحریری و رسمی فارسی میں قابلِ قدر تعداد میں مستعمل نہیں ہے۔ مولانا حسین آزادؔ کی کتاب "سخندانِ فارس" میں درج فارسی شاعر دقیقی کے ایک شعر میں اس کا استعمال دیکھا:۔
چنان شد ز بس کشته آن رزمگاه
که بروی نتانست رفتن سپاه

لغتنامہء دہخدا میں اس کی مزید مثالیں بھی دیکھیں۔

رسمی فارسی میں اس کا استعمال بالکل توانستن ہی کے مشابہ ہے، امّا گفتاری فارسی میں قدرے طورِ دگر مستعمل ہے۔
رسمی فارسی: نمی توانم کرد یا نمی توانم بکنم
گفتاری فارسی: کردہ نمی تانم یا نمی تانم بکنم
 
آخری تدوین:
Top