افغانستان کی گفتاری لہجوں اغلباََ میں اب بھی دوشنبہ کو دوشنبے کے بجائے دوشنبا ہی پڑھا جاتا ہے۔فارسی زبان میں جتنے بھی الفاظ ہائے غیر ملفوظہ پر ختم ہوتے ہیں، ایرانی تلفظ میں اُن کے ماقبل کے صامت پر فتحہ کی بجائے کسرہ آتا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، ایران میں 'سینہ' کا تلفظ 'sîna' کی بجائے 'sîne' کیا جاتا ہے۔ یہ خصوصیت ایرانی فارسی میں گذشتہ چند صدیوں ہی میں ظاہر ہوئی ہے، ورنہ فارسیِ کہن میں اِن الفاظ کا وہی طرزِ تلفظ تھا جو فارسی کے مشرقی لہجوں اور اردو میں فی الوقت رائج ہے۔ اگرچہ مشرقی فارسی لہجوں نے فارسیِ کہن کا طرزِ تلفظ محفوظ رکھا ہے، لیکن وہاں بھی بر خلافِ قاعدہ ایک لفظ 'شنبہ' موجود ہے جس میں اب ایرانیوں کی طرح صامتِ آخرین کی حرکت کو اِمالے کے ساتھ کسرہ تلفظ کیا جاتا ہے۔ اِس لفظ کا تلفظ ابتداءً 'şamba' تھا لیکن اب ہر فارسی گو ملک میں اِسے 'şambe' پڑھا جاتا ہے۔ تاجکستان کے دارالحکومت 'دوشنبہ' کا تلفظ بھی اِسی باعث 'duşambe' کیا جاتا ہے اور انگریزی میں اُس کے لیے 'dushanbe' کا املا استعمال ہوتا ہے۔ میں نے اکثر اردو مطبوعات میں دیکھا ہے کہ اُن میں ناواقفیت کی بنا پر اِس شہر کو 'دوشنبے' لکھا ہوا ہوتا ہے۔
ہائے غیر ملفوظہ پر ختم ہونے والا صرف یہی لفظ ایسا ہے جسے مشرقی لہجوں میں ایرانیوں کی طرح تلفظ کیا جاتا ہے۔
لیکن وہاں بھی شاید 'شنبے' تلفظ ہی کو معیاری مانا جاتا ہے۔افغانستان کی گفتاری لہجوں اغلباََ میں اب بھی دوشنبہ کو دوشنبے کے بجائے دوشنبا ہی پڑھا جاتا ہے۔
پہلے مصرع کا مطلب یہ ہے کہ کسی نے شہریار کو ایک خط دیا۔دوسرے مصرع کا مطلب واضح نہیںبرادر اریب آغا، شاہنامۂ فردوسی کی مندرجۂ ذیل بیت کا اردو میں مفہوم بیان کیجیے:
"یکی نامه فرمود پس شهریار
نبشتن برِ رُستم نامدار"
اِس بیت کا ترجمہ یہ ہے:پہلے مصرع کا مطلب یہ ہے کہ کسی نے شہریار کو ایک خط دیا۔دوسرے مصرع کا مطلب واضح نہیں
فارسی میں، بلکہ اردو میں بھی بنیادی طور پر، 'خُمار' نشے کو نہیں، بلکہ اُس سردرد و کسالت کو کہتے ہیں جو نشہ ٹوٹنے اور مستی کی حالت ختم ہونے کے بعد انسان پر طاری ہوتی ہے۔ میرا گمان ہے کہ یہاں شاعر شرابِ ناامیدی کو مثبت نہیں، بلکہ منفی چیز کے طور پر پیش کر رہا ہے اور اپنے مخاطَب سے کہہ رہا ہے تم تو حالا بادۂ جوانی سے مست ہو، تم اُس رنج و ملال کو کیا جانو جو شرابِ ناامیدی سے ہم پر عارض ہوتی ہے۔تو که از میِ جوانی همه سرخوشی چه دانی
که شرابِ ناامیدی چقدر خمار دارد
(شهریار)
تو بادہء جوانی سےسراپا مست ہے، تو کیا جانے کہ مئے ناامیدی کتنا نشہ رکھتا ہے۔
لغوی طور پر اس کی تقطیع کردیں۔ یہ آخری بیت کی گرامری لحاظ سے وضاحت کردیں کہ یہ کیسے اس مفہوم کو بیان کرتا ہے؟برادر اریب آغا، شاہنامۂ فردوسی کی مندرجۂ ذیل بیت کا اردو میں مفہوم بیان کیجیے:
"یکی نامه فرمود پس شهریار
نبشتن برِ رُستم نامدار"
'فرمودن' کا بنیادی معنی 'حکم دینا' یا 'امر کرنا' تھا۔ 'یکی نامه نبشتن فرمود' یعنی ایک نامہ لکھنے کا حکم دیا۔ یہ قدیم اسلوب ہے۔ معاصر فارسی میں اِس طرح کا نحو استعمال نہیں ہوتا ہے۔ معاصر فارسی نثر میں یہ مفہوم کچھ اِس طرح بیان کیا جاتا: امر کرد تا/که نامهای بنویسند.لغوی طور پر اس کی تقطیع کردیں۔ یہ آخری بیت کی گرامری لحاظ سے وضاحت کردیں کہ یہ کیسے اس مفہوم کو بیان کرتا ہے؟
چترال میں وادیِ مغلشت فارسی گو لوگوں کا علاقہ ہے۔ابھی معلوم ہوا ہے کہ ۱۹۶۲ء تک پاکستان میں واقع سابقہ ریاستِ چترال کی رسمی و انتظامی زبان فارسی تھی۔
ماخذ