زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

سید عاطف علی

لائبریرین
میں یہ لفظ پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ میں نے اِس کی بجائے زیادہ تر 'خسرہ' سنا ہے۔ بہر حال، آپ کی مانند مجھے بھی شخصاً یہ لفظ بدنما معلوم ہو رہا ہے۔
میں اِس بیماری کا مستعمل ایرانی فارسی نام نہیں جانتا تھا۔ مطّلع کرنے کے لیے شکریہ!
تاجک فارسی کی ایک لغت کی جانب رجوع کرنے سے معلوم ہوا ہے کہ تاجکستان میں اِس بیماری کے لیے نغزک، آبکان، چیچک، گُل‌افشان، گُل وغیرہ رائج ہیں۔
ویسے، اِس بیماری کا گُل سے بھی کوئی لفظی تعلق ہے، کیونکہ تاجکستان میں اِس کے لیے 'گُل' اور 'گُل‌افشان' نظر آئے ہیں۔ جبکہ لفظِ 'چیچک' بھی ترکی زبان میں گُل کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
ترکی زبان میں اِس بیماری کو 'چیچک' یا 'سُوچیچکی (آبی گُل)' کہتے ہیں۔
اردو میں خسرہ میزلز کے لیے ہے۔ اور سمال پوکس کے لیے چیچک۔چکن پوکس کے لیے آکڑا کاکڑا یا چھوٹی چیچک اردو میں عام استعمال ہو تے ہیں ۔ واللہ اعلم
آبلہء مرغان اچھی ترکیب ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اردو زبان میں لفظِ 'سوال' کا تلفظ savâl ہے۔ لیکن ایرانی فارسی میں اِس لفظ کا تلفظ سُؤَال/so'âl کیا جاتا ہے، جو عربی میں بھی اِس کلمے کا اصلی تلفظ ہے۔ یہ چیز بھی قابلِ ذکر ہے کہ ایران کے مردم عربوں کی طرح 'سُؤال' کا تلفظ واؤ پر ہمزہ یعنی سکتے کے ساتھ کرتے ہیں۔
ماوراءالنہری نوِشتاری فارسی میں دونوں تلفظ استعمال ہوتے نظر آئے ہیں، لیکن شاید ماوراءالنہری گفتاری فارسی میں savâl تلفظ زیادہ استعمال ہوتا ہو گا، کیونکہ 'فرہنگِ تفسیریِ زبانِ تاجیکی' میں اِسے سُؤَال کا 'معمول شدہ' تلفظ بتایا گیا ہے۔ بہ علاوہ، ازبک بھی اِس لفظ کو savâl تلفظ کرتے ہیں۔
حتماً نہیں کہہ سکتا، لیکن مجھے گمان ہوتا ہے کہ ماوراءالنہری نوِشتاری فارسی میں suâl تلفظ کے استعمال کی ایک وجہ ایرانی فارسی کا اثر بھی ہو سکتا ہے۔
 
آخری تدوین:
اگر پشتو میں یہ تلفظ استعمال ہوتا ہے تو پس افغان فارسی میں بھی سُؤَال ہی مستعمل ہو گا۔
افغان پشتو کے بارے میں میری معلومات نہیں کہ وہ کیسے بولتے ہیں۔پاکستانی گفتاری پشتو میں سُؤَال ہی سنتے ہیں
 

راشد

محفلین
السلام علیکم
بلبلِ شوریدہ کا مطلب؟
اقبال کا شعر ہے:
نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے۔۔۔۔۔۔۔۔الخ

اور اسی طرح:
بیا کہ بلبل شوریدہ نغمہ پرداز است
عروس لالہ سراپا کرشمہ و ناز است

 
آخری تدوین:
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
آسان فارسی میں اس کا ترجمہ ایسا ہے:
پدرم مرا رفتن ندادند
فصیح فارسی میں شاید ایسے ہو:
پدرم مرا نگذاشتند که بروم
کیا فارسی میں اردو کی طرح جمع کر دیا جاتا ہے ؟ میرا خیال تھا کہ عربی کی طرح اس کی رعایت نہیں رکھی جاتی۔
پدرم مرا رفتن نداد
پدرم مرا نگذاشت که بروم
 
مولانا محمد حسین آزاد اپنی کتاب "سخندانِ فارس" میں باب"فارسی پر ہندوستاں میں آکر کیا کیا رنگ چڑھے" میں برصغیر کے لوگوں کی فارسی میں غلطیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔

ایک غریب نواب صاحب کے ہاں گیا۔دربان نے جانے نہ دیا۔فارسی میں کہتا ہے"خانہء نواب صاحب رفتہ بودم، دربان رفتن نہ داد۔اہلِ زبان کہتا ہے۔"خانہء نواب رفتہ بودم۔دربان نگذاشت کہ دروں روم۔"

اہلِ زبان=ایرانی
 
آخری تدوین:
کیا فارسی میں اردو کی طرح جمع کر دیا جاتا ہے ؟ میرا خیال تھا کہ عربی کی طرح اس کی رعایت نہیں رکھی جاتی۔
پدرم مرا رفتن نداد
پدرم مرا نگذاشت که بروم

کتابی فارسی کا مجھے معلوم نہیں۔ البتہ جو گفتاری فارسی ہم لوگ بولتے ہیں، اس میں اس کی رعایت نہیں کی جاتی۔اس میں عزت کے لئے جمع کا صیغہ نہیں لگایا جاتا، جیسے بابایم رفت بولا جاتا ہے، بابایم رفتند نہیں بولا جاتا۔
کتابی فارسی کے حوالے سے برادرم حسان خان زیادہ صحیح بتاسکتے ہیں۔
 
السلام علیکم
بلبلِ شوریدہ کا مطلب؟
اقبال کا شعر ہے:
نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے۔۔۔۔۔۔۔۔الخ

اور اسی طرح:
بیا کہ بلبل شوریدہ نغمہ پرداز است
عروس لالہ سراپا کرشمہ و ناز است


شوریدہ کا مطلب ہے آشفتہ، دیوانہ، عاشق۔۔
یہاں یہ بطورِ صفت مستعمل ہے۔یعنے عاشق بلبل۔
 

حسان خان

لائبریرین
آسان فارسی میں اس کا ترجمہ ایسا ہے:
پدرم مرا رفتن ندادند
یہ درست فارسی محاورہ نہیں ہے، بلکہ اردو کے 'جانے نہ دیا' کا لفظی فارسی ترجمہ ہے۔ اہلِ زبان نے کبھی یہ مفہوم اِس طرح ادا نہیں کیا۔ اِس جملے سے ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ 'رفتن' نامی کوئی چیز ہے جسے والد نے متکلم کو دینے سے انکار کر دیا ہو۔
فصیح فارسی میں شاید ایسے ہو:
پدرم مرا نگذاشتند که بروم
یہ درست ہے۔ چند نِکات ذہن نشین کر لیجیے:
فارسی میں 'پدر' کے ساتھ عموماً مفرد فعل استعمال کیا جاتا ہے۔ جمع فعل مقدس شخصیتوں یا بادشاہوں وغیرہ کے لیے بعض اوقات کام میں لایا جاتا ہے۔ یہاں 'نگذاشت' زیادہ مناسب ہے۔
چونکہ 'بروم' سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ 'گذاشتن' کا مفعول شخصِ متکلم ہے، اِس لیے 'مرا' کی حاجت نہیں ہے۔ 'پدرم نگذاشت که...' کافی ہے۔
 
آخری تدوین:
یہ درست فارسی محاورہ نہیں ہے، بلکہ اردو کے محاورے 'جانے نہ دیا' کا لفظی فارسی ترجمہ ہے۔
ویسے یہ محاورہ میں نے مخدوم صابری صاحب کی فارسی اردو بول چال کتاب میں دیکھا۔علاوہ ازیں یہی محاورہ ہم خود اپنے خاندان میں بھی استعمال کرتے ہیں۔افغانوں سے پوچھنا پڑے گا کہ آیا وہ بھی استعمال کرتے ہیں ۔کیونکہ میں نے خود گفت و شنید میں مصدر گذاشتن استعمال ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔بہرحال پرسش کے بعد ہی مطلع کردوں گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
کیا فارسی میں اردو کی طرح جمع کر دیا جاتا ہے ؟ میرا خیال تھا کہ عربی کی طرح اس کی رعایت نہیں رکھی جاتی۔
پدرم مرا رفتن نداد
پدرم مرا نگذاشت که بروم
کتابی فارسی کا مجھے معلوم نہیں۔ البتہ جو گفتاری فارسی ہم لوگ بولتے ہیں، اس میں اس کی رعایت نہیں کی جاتی۔اس میں عزت کے لئے جمع کا صیغہ نہیں لگایا جاتا، جیسے بابایم رفت بولا جاتا ہے، بابایم رفتند نہیں بولا جاتا۔
کتابی فارسی کے حوالے سے برادرم حسان خان زیادہ صحیح بتاسکتے ہیں۔
فارسی میں بھی گاہے تعظیم کے لیے فعل کا صیغۂ جمع استعمال ہوتا ہے، لیکن اردو کے مقابلے میں فارسی میں اِس چیز کا استعمال بسیار کم ہے۔ مثلاً اردو میں شاعروں وغیرہ کے لیے بھی تعظیمی صیغۂ جمع استعمال کرتے ہیں: حافظ شیرازی شیراز میں مدفون ہیں۔ لیکن ایسی صورت میں فارسی میں ہمیشہ صیغۂ مفرد استعمال ہوتا ہے: حافظ شیرازی در شیراز مدفون است۔
حتیٰ کہ مقدس شخصیات کے لیے بھی عموماً صیغۂ واحد ہی استعمال ہوتا نظر آتا ہے۔ مثلاً:
"این بانوی گرامی در مدینه مدفون است۔"

تعظیمی صیغۂ جمع حدیثوں کی نقل میں نظر آتا ہے۔ برائے نمونہ:
"رسولِ خدا (ص) فرمودند/‏می‌فرمایند۔۔۔"
لیکن اِس کی بجائے 'فرمود/می‌فرماید' کا استعمال بھی عام ہے۔

گذشتہ شاہی ادوار میں، خصوصاً پہلوی دور میں، جب شاہوں کو مزید تعظیم دینا مقصود ہوتا تھا تو اُن کے لقب 'اعلیٰ حضرت' وغیرہ کے ساتھ فعل کا صیغۂ جمع بروئے کار لایا جاتا تھا۔
"اعلی‌حضرت گفتند: من خیلی نگرانِ شما هستم و نمی‌دانم چه كار بكنم."
لیکن یہاں بھی صیغۂ واحد نیز استعمال ہوا کرتا تھا، اور اگر کوئی 'گفت' کہہ دیتا تو اُسے 'اعلیٰ حضرت' کی تذلیل قطعاً نہیں سمجھا جاتا، کیونکہ فرماں روا شاہوں تک کے لیے صیغۂ واحد کا استعمال عام چیز ہے۔


جب شخصِ سومِ مفرد کے لیے 'او' کی بجائے تعظیماً 'ایشان' استعمال ہوتا ہے، تو پھر اِس سے مطابقت کی غرَض سے فعل کو بھی جمع لایا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ویسے یہ محاورہ میں نے مخدوم صابری صاحب کی فارسی اردو بول چال کتاب میں دیکھا۔علاوہ ازیں یہی محاورہ ہم خود اپنے خاندان میں بھی استعمال کرتے ہیں۔افغانوں سے پوچھنا پڑے گا کہ آیا وہ بھی استعمال کرتے ہیں ۔کیونکہ میں نے خود گفت و شنید میں مصدر گذاشتن استعمال ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔بہرحال پرسش کے بعد ہی مطلع کردوں گا۔
افغان گفتاری فارسی کے بارے میں میری معلومات محدود ہیں، اِس لیے فی الحال حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔
امّا، ایرانی اور تاجکستانی گفتاری و نوِشتاری فارسی میں یہ محاورہ بالکل رائج نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ایک غریب نواب صاحب کے ہاں گیا۔دربان نے جانے نہ دیا۔فارسی میں کہتا ہے"خانہء نواب صاحب رفتہ بودم، دربان رفتن نہ داد۔اہلِ زبان کہتا ہے۔"خانہء نواب رفتہ بودم۔دربان نگذاشت کہ دروں روم۔"
ایران و تاجکستان میں 'صاحِب' کا لفظ 'مالک' یا 'دارندہ' کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اردو والے معنی میں، اپنے اصلی معنی کے ہمراہ، یہ لفظ افغانستان میں رائج ہے۔
 

راشد

محفلین
مجھے کوئی صاحب یہ بتا دیں کہ:
خ۔۔دا در انتظار حمد ما نیست ...محم۔د چش۔۔م براه ثن۔ا نی۔۔۔ست
محمد حامد ح۔۔۔مد خ۔دا ب۔۔۔س .... خدا م۔۔دح آفرین مصطقی بس
منا جاتی اگر باید بیان ک۔۔رد ... به یک بیتی قناعت میتوان کرد
.محمد از تو میخواهم خ۔دا را.... ال۔۔۔هی از تو ح۔۔ب مصطقی را
یہ اشعار کس کے ہیں؟ اور ان کے علاوہ بھی اس کا کچھ حصہ ہے یا یہی ہیں؟
:eyerolling:

جزاکم اللہ خیراً
 

حسان خان

لائبریرین
مجھے کوئی صاحب یہ بتا دیں کہ:
خ۔۔دا در انتظار حمد ما نیست ...محم۔د چش۔۔م براه ثن۔ا نی۔۔۔ست
محمد حامد ح۔۔۔مد خ۔دا ب۔۔۔س .... خدا م۔۔دح آفرین مصطقی بس
منا جاتی اگر باید بیان ک۔۔رد ... به یک بیتی قناعت میتوان کرد
.محمد از تو میخواهم خ۔دا را.... ال۔۔۔هی از تو ح۔۔ب مصطقی را
یہ اشعار کس کے ہیں؟ اور ان کے علاوہ بھی اس کا کچھ حصہ ہے یا یہی ہیں؟
:eyerolling:

جزاکم اللہ خیراً
اِن ابیات کے شاعر میرزا مظہر جانِ جاناں ہیں۔

شاعر کے دیوان میں اِن ابیات کی شکل و ترتیب یہ ہے:
خدا در انتظارِ حمدِ ما نیست
محمد چشم بر راهِ ثنا نیست
خدا مدح‌آفرینِ مصطفیٰ بس
محمد حامدِ حمدِ خدا بس
مناجاتی اگر باید بیان کرد
به بیتی هم قناعت می‌توان کرد
محمد از تو می‌خواهم خدا را
الٰهی از تو عشقِ مصطفیٰ را
 
آخری تدوین:

راشد

محفلین
اِن ابیات کے شاعر میرزا مظہر جانِ جاناں ہیں۔

شاعر کے دیوان میں اِن ابیات کی شکل و ترتیب یہ ہے:
خدا در انتظارِ حمدِ ما نیست
محمد چشم بر راهِ ثنا نیست
خدا مدح‌آفرینِ مصطفیٰ بس
محمد حامدِ حمدِ خدا بس
مناجاتی اگر باید بیان کرد
به بیتی هم قناعت می‌توان کرد
محمد از تو می‌خواهم خدا را
الٰهی از تو عشقِ مصطفیٰ را
جزاکم اللہ خیراً
کیا دیوان میں موجود ان اشعار کی کوئی تصویر مل سکتی ہے؟
 
Top