زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

راشد

محفلین
غم، اونٹ اور کافر....کیا مناسبت ہے؟

--------------------------------
فارسی شاعر مولانا بدرالدین چاچی کا شعر ہے:
آنچہ بر من رفت گر بر اشتراں رفتے زغم
می زدندے کافراں بر جنت الماوٰی علَم
(ترجمہ:جو بے پناہ صدمات اور غم مجھے اٹھانے پڑے ہیں۔وہ صدمات اور غم اگر اونٹوں کو پیش آتے تو کافر اپنا جھنڈا جنت کے میدان میں گاڑ چکے ہوتے۔)
کون صاحب اس کی تشریح فرماویں گے؟
 

حسان خان

لائبریرین
غم، اونٹ اور کافر....کیا مناسبت ہے؟

--------------------------------
فارسی شاعر مولانا بدرالدین چاچی کا شعر ہے:
آنچہ بر من رفت گر بر اشتراں رفتے زغم
می زدندے کافراں بر جنت الماوٰی علَم
(ترجمہ:جو بے پناہ صدمات اور غم مجھے اٹھانے پڑے ہیں۔وہ صدمات اور غم اگر اونٹوں کو پیش آتے تو کافر اپنا جھنڈا جنت کے میدان میں گاڑ چکے ہوتے۔)
کون صاحب اس کی تشریح فرماویں گے؟
میری عقلِ ناقص تو مندرجۂ بالا شعر میں تینوں چیزوں کے مابین مناسبت سمجھنے سے قاصر رہی تھی۔ امّا، مجھے دانشگاہِ تبریز کے استادِ ادبیات دکتر ابراہیم اقبالی کے انٹرنیٹ پر موجود ایک مقالے میں یہ شعر اور اُس کی تشریح نظر آئی ہے۔ اُسی کا ترجمہ پیش کر رہا ہوں۔

"شعر میں بعض ایسے اشارات و تلمیحات موجود ہوتی ہیں کہ یا تو جن تک ہماری علمی آگاہی نہیں پہنچتی یا جن کا زمانہ گذر چکا ہوتا ہے اور ہمارے زمانے میں اُن کے عدم استعمال کی وجہ سے ہم اُنہیں سمجھ نہیں پاتے۔ مثلاً یہ شعر دیکھیے:
آنچه بر من می‌رود گر بر شتر رفتی ز غم
می‌زدندی کافران در جنت‌الماویٰ قدم

اِس شعر کی بنیاد اُس آیتِ شریفہ پر ہے جو فرماتی ہے کہ: کفّار جنت میں داخل نہیں ہوں گے "حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ"۔ بہ عبارتِ دیگر، اگر شُتُر سوئی کے سوراخ سے عبور کر جائے تو کفّار بھی بہشت میں چلے جائیں گے، یعنی خداوند نے کفّار کے بہشتی ہو جانے کو 'احالہ بہ امرِ مُحال' کر دیا ہے، جس سے خود حوالہ شدہ کام بھی مُحال ہو جاتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جو غم میں اٹھاتا ہوں اگر شُتُر اٹھائے تو وہ اِس قدر لاغر و باریک ہو جائے کہ سوراخِ سوزن سے عبور کر جائے، اور یوں شرطِ خدا شکستہ ہو جائے گی اور کفّار بھی جنت میں چلے جائیں گے۔"

ماخذ

× اِحالہ بہ مُحال = کسی دعوے کو رد کرنے کا یہ طریقہ کہ اس کے نتائج کو مہمل ثابت کر دیا جائے، Reductio Ad Absurdum
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
سید نصیرالدین نصیر مرحوم نے اپنے فارسی و اردو مجموعۂ اشعار 'عرشِ ناز' کا انتساب عظیم فارسی شاعر میرزا عبدالقادر بیدل دہلوی کے نام اِن الفاظ میں کیا ہے:

انتساب
افلاطونِ دانش کدۂ حقائق، جالینوسِ عُزلت گاہِ دقائق، مفخرِ عُرفاءِ اعصار، مرجعِ فُضلاءِ امصار، حیرت خانۂ رُموز و اَسرار، کشّافِ مُعضلاتِ معارف، حلّالِ نِکاتِ عوارف، سبّاحِ دجلۂ فصاحت، سیّاحِ حدائقِ بلاغت، حارسِ عقل و شرع، عارفِ اصل و فرع، سالکِ بادیۂ تجرید، نقطۂ دائرۂ توحید، ادب یافتۂ عتبۂ عُبودیّت، نواختۂ نوالِ بابِ رُبُوبیّت، مجذوبِ وحدت، مُفتیِ ہدایت، مُکلَّل بہ اِکلیلِ سُخن، مُطرَّز بہ طِرازِ علم و فن، تربیت یافتۂ اولیاء، خلاصۂ فیضانِ اصفیاء، نبّاضِ فطرتِ انسانی، خطیبِ منبرِ سحربیانی، سلطانِ اقلیمِ الفاظ و معانی، مسافرِ رسیدہ منزل، فقیرِ مُستغنی دل ابوالفضائل حضرتِ میرزا عبدالقادر بیدل عظیم آبادی ثمّ الدّہلوی قدّس سرّہُ العزیز کے نام۔
جن کا مطالعۂ کلام ہر ذہنِ رسا اور طبعِ وقّاد کو خیراتِ معانی کے ساتھ بلندیِ تخیّل اور معراجِ تفکّر بھی عطا کرتا ہے۔
بقولِ میرزا اسداللہ خان غالب دہلوی (رح):
گر ملے حضرتِ بیدل کا خطِ لوحِ مزار
اسد، آئینۂ پروازِ معانی مانگے

کوچہ نشینِ بیدل (رح)
فقیر نصیرالدین نصیر کان اللہ لہُ
 

حسان خان

لائبریرین
پدرِ صحافت و نثرِ معاصرِ افغانستان محمود طرزی (۱۸۶۵ء-۱۹۳۳ء) کے مضمون 'دربارهٔ زبان فارسی' سے ایک اقتباس:

"زبان شیرین‌بیان فارسی یکی از زبان‌های بسیار مهمهٔ عالم اسلامی است که بعد از زبان دینی عربی مبین، یک رکن بسیار عالی زبان اسلامیان را تشکیل می‌دهد. زبان فارسی در تمام قطعهٔ ایران و افغانستان و من حیث لسان بودنش، در تمام ماوراءالنهر و بخارا و هندوستان معروف و متداول می‌باشد - زبان‌دانان این زبان نیز یک جمع کثیری از نفوس بشر می‌باشند. ولی در وقت حاضر، تنها زبان رسمی دولت علیهٔ ایران و دولت علیهٔ افغانستان زبان فارسی می‌باشد."

ترجمہ: "زبانِ شیرینِ بیانِ فارسی عالمِ اسلامی کی ایک اہم ترین زبان ہے، جو دینی زبان عربیِ مبین کے بعد مسلمانوں کی زبان کا ایک سُتونِ بسیار عالی ہے۔ زبانِ فارسی تمام قطعۂ ایران، افغانستان، اور اپنے زبان ہونے کے لحاظ سے، تمام ماوراءالنہر و بخارا اور ہندوستان میں معروف و متداول ہے ۔ اِس زبان کے جاننے والے بھی انسانی آبادی کی ایک کثیر تعداد ہیں۔ لیکن موجودہ وقت میں، صرف دولتِ علیۂ ایران اور دولتِ علیۂ افغانستان کی رسمی زبان، زبانِ فارسی ہے۔"


× محمود طرزی خود پشتون تھے۔
 

حسان خان

لائبریرین
پدرِ صحافت و نثرِ معاصرِ افغانستان محمود طرزی (۱۸۶۵ء-۱۹۳۳ء) کے مضمون 'دربارهٔ زبان فارسی' سے ایک اقتباس:

"...در خاک پاک وطن عزیز ما، تنها اقوام افغانی‌الاصلی که زبانشان صرف افغانی باشد نیستند، بلکه اقوامی که زبانشان فارسی است نیز به کثرت مقیم و موجود هستند که از اصل اجزای ملت افغانستان محسوبند. مردم نفس پایتخت و اکثر شهرهای بزرگ، نائب‌الحکومه‌نشین‌ها، علی‌الاکثر، به زبان فارسی متکلم هستند. در عموم دفاتر و محاکم رسمی دولتی، زبان فارسی از آغاز تأسیس و تشکیل یافتن حکومت مستقلهٔ افغانیه به درجه‌ای راکز و راسخ گردیده که تبدیل و تحویل آن خیلی مشکل است. زبان دربار و خاندان سلطنت، خواه در وقت حکومت صدوزایی درانی و خواه در وقت حکومت محمدزایی درانی، فارسی بوده و هست."

ترجمہ: "۔۔۔ہمارے وطنِ عزیز کی خاکِ پاک میں فقط پشتون الاصل اقوام، کہ جن کی زبان صرف پشتو ہو، نہیں ہیں، بلکہ فارسی گو اقوام بھی کثرت کے ساتھ مقیم و موجود ہیں جو اساساً اجزائے ملتِ افغانستان شمار ہوتی ہیں۔ پایتخت کے اساسی حصے اور اکثر بزرگ شہروں اور صوبائی دارالحکومتوں کے مردم علی الاکثر فارسی میں تکلم کرتے ہیں۔ ریاست کے جملہ سرکاری دفتروں اور محکموں میں،
حکومتِ مستقلۂ افغانیہ کی تأسیس و تشکیل کے آغاز کے وقت سے، زبانِ فارسی اِس حد تک ثابت و راسخ ہو چکی ہے کہ اُس کی تبدیل و تغییر بسیار مشکل ہے۔ دربار اور خاندانِ سلطنت کی زبان، خواہ صدوزائی درّانی دورِ حکومت میں یا خواہ محمدزائی درّانی دورِ حکومت میں، فارسی رہی ہے اور ہے۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"فارسی ادبیات اور ایران کی عظیم الشان تہذیب سے ہمارا رشتہ بڑا پرانا اور بڑا گہرا ہے۔ یوں سمجھیے کہ پاکستان و ایران دو ذخار دریا ہیں جو ہزاروں سال ساتھ ساتھ بہتے رہے، اور ان کی موجیں از کراں تا بکراں ایک ہی ترانہ شمال و جنوب اور شرق و غرب کو سناتی رہیں۔ کبھی کبھی صدیوں کے اس بہاؤ نے یہ رنگ بھی اختیار کیا کہ کسی بے پناہ تاریخی عمل کے ماتحت یہ دونوں دریا ملے، اور یوں ملے کہ ایک دریا بن گئے، ایک ایسا دریا جس کی لہریں باہمی ربط و اختلاط کے ایک نئے عالم کو محیط ہو گئیں۔ اور پھر ایک دن یہ نوبت بھی آئی کہ انگریزی راج کی سدِ سکندری دونوں کے درمیان اس طرح حائل ہوئی جیسے ایران و پاکستان کبھی آپس میں شناسا ہی نہ تھے۔ لیکن جلد ہی وقت کا دریا اس جدا کرنے والی دیوار کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گیا اور ہم یہ کہنے کے قابل ہوئے کہ اب پھر پاکستان ہے اور ایران دوستی و ایران شناسی کا ہزاروں برس پرانا سبق:
دگر از سر گرفتم قصۂ زلفِ پریشان را
یہ اتحادِ فکر و عمل، جس کی نعمت ایران و پاکستان کو بارگاہِ ایزدی سے ایک بار پھر عطا کی گئی، ہمارے درمیان اپنے صد گونہ مظاہر کے ساتھ از سرِ نو نمودار ہوا ہے۔"

(پروفیسر حمید احمد خاں، جامعۂ پنجاب کے رئیسِ جامعہ)
('مقالاتِ منتخبهٔ مجلّهٔ دانشکدهٔ خاورشناسی: بخشِ دوم' کے حرفِ آغاز سے اقتباس)
۲۶ اکتوبر ۱۹۶۷ء


کتابِ مذکور میں پیش گفتار کا فارسی ترجمہ بھی موجود ہے:
"با ادبیات فارسی و فرهنگ و تمدن باعظمت ایران ما بستگی بسیار قدیمی و رابطهٔ عمیقی داریم. درست مثل آن است که بگوییم پاکستان و ایران دو رودخانهٔ پهناور می‌باشند که هزاران سال است پهلوی همدیگر پیش می‌رفته‌اند و امواج آنها تا دوردست‌ترین کرانه همان یک ترانه را نواخته به شمال و به جنوب و به شرق و به غرب پخش می‌کرده‌اند و در خلال ادوار تاریخی مواردی هم بوده‌است که این سیل طوری پیش رفته که تحت تأثیر یکی از عوامل بسیار مؤثر تاریخی این دو رودخانه به همدیگر پیوسته و یکی شده‌اند و به صورت شط عظیمی درآمده‌اند که تموجات آن یک جهانی از پیوستگی‌ها و بستگی‌ها را در بر داشته‌است و بعداً به روزی هم مواجه شدیم که حکومت انگلیس‌ها طوری بین دو ملت ما مانند سد اسکندر حایل گردید که به کلی فراموش کردیم که با همدیگر خویشاوندی و پیوندی داشته‌ایم، ولی خوشبختانه زیاد طولی نکشید که این سد حایل از بین برود و تحول زمان مانند سیل نیرومندی این دیوار مانع را مثل خس و خاشاکی با خود برده دور بریزد و ما بالاخره توانستیم بگوییم که آن وحدت ما تجدید شده و درس محبت و دوستی که در طول قرن‌های متمادی بین ایران و ملت ما وجود داشته تکرار شده‌است.
دگر از سر گرفتم قصهٔ زلف پریشان را
این وحدت فکری و عملی بین ما که برای ایران و پاکستان از مواهب الٰهی است، یک بار دیگر به ما ارزانی شده و با مظاهر گوناگون خودش بین ما مجدداً آشکار گردیده‌است."
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بخارائی یہودیوں کی گفتاری فارسی زبان 'بخاری' کے نمونے دیکھیے:
اولاً تو چونکہ میرے کان ایرانی فارسی کے عادی ہیں، اور ثانیاً چونکہ ماوراءالنہری گفتاری فارسی زبانچے معیاری فارسی اور ایرانی گفتاری فارسی سے بہت زیادہ مختلف ہیں، اور پھر تو یہ یہودی 'بخاری' ہے جس میں عبرانی اور روسی کے ناآشنا الفاظ بھی شامل ہیں، اِس لیے مجھے تو بہت کم حصہ ہی سمجھ آیا ہے۔ امّا، چند دلچسپ چیزیں ضرور سنائی دے گئی ہیں مثلاً بخارا کے یہودی بھی مسلمانوں کی طرح اللہ کے لیے 'خداوندِ تعالیٰ' استعمال کرتے رہے ہیں۔
یاد رہے کہ یہ بخارائی یہودیوں کی گفتاری فارسی کا نمونہ ہے۔ جب وہ کتابت میں اپنی یہ زبان استعمال کرتے تھے تو اگرچہ وہ عبرانی رسم الخط استعمال کرتے تھے، لیکن اُن کی 'بخاری' معیاری فارسی سے قریب تر ہوا کرتی تھی، جس میں عبرانی الفاظ بھی ہوتے تھے۔ نیز، مسلمانوں کے برخلاف، اُن کی کتابی زبان میں گفتاری لہجے کے عناصر بھی شامل ہوتے تھے، کیونکہ مسلمانوں کی مانند بخارائی یہودیوں کا تعلق معیاری کلاسیکی فارسی سے زیادہ قوی نہیں تھا، اور اُن کے علماء - جنہیں وہاں 'مُلّا' کہا جاتا تھا - کی زیادہ مشغولیت عبرانی و آرامی زبانوں کے ساتھ رہتی تھی۔ تاہم، اِس 'بخاری' زبان میں یہودی دینی کتابیں لکھی گئی تھیں، اور بیسویں صدی کے آغاز میں بخارائی یہودیوں کے ایک دو اخبار بھی تھے۔
یہ زبان، یا یہ فارسی زبانچہ، اب قریبِ مرگ ہے، کیونکہ بیشتر بخارائی یہودی اسرائیل یا امریکا منتقل ہو چکے ہیں، جہاں اُن کی نئی نسل نے عبرانی یا انگریزی اپنا لی ہے۔ جبکہ جو یہودی ازبکستان میں بچے ہیں، وہ بھی فارسی سے زیادہ بہتر روسی جانتے ہیں۔ 'بخاری' میں کتابوں کا لکھا جانا تو بہت مدت قبل ہی ختم ہو چکا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
پدرِ صحافت و نثرِ معاصرِ افغانستان محمود طرزی (۱۸۶۵ء-۱۹۳۳ء) کے مضمون 'دربارهٔ زبان فارسی' سے ایک اقتباس:

"....زبان فارسی، نسبت به زبان افغانی یک عمومیت و اهمیت بیشتری دارد. مثلاً زبان افغانی منحصر و محصور به خاک پاک افغانستان و همین چند ملیون افغان است. حال آنکه زبان فارسی، غیر از آن که زبان عمومی تمام مملکت دولت همسایهٔ ما ایران می‌باشد، کذالک، در تمام ممالک ماوراءالنهر و ممالک هندوستان حتی در ممالک عثمانی نیز معروف و متداول است و از اجزای مهم‌تر زبان‌های اسلامیهٔ اهل شرق شمرده می‌شود. یک جزو مهم زبان ترکی عثمانی و ترکی ماوراءالنهر و اردوی هندی را زبان فارسی تشکیل می‌دهد که به این سبب‌ها اگر زبان رسمی دولتی افغانستان زبان فارسی باشد بی آن که ضرری بر آن مرتب شود، از فایده‌های سیاسی هم خالی نیست."

"۔۔۔زبانِ فارسی، زبانِ افغانی (پشتو) کے مقابلے میں ایک مزید عمومیت و اہمیت کی حامل ہے۔ مثلاً زبانِ افغانی فقط خاکِ پاکِ افغانستان اور اِنہی چند ملین افغانوں (پشتونوں) تک محدود و محصور ہے۔ حالانکہ زبانِ فارسی، ہماری ہمسایہ دولتِ ایران کی تمام مملکت کی عمومی زبان ہونے کے علاوہ، اِسی طرح، تمام ممالکِ ماوراءالنہر و ممالکِ ہندوستان حتیٰ ممالکِ عثمانی میں بھی معروف و متداول ہے اور اہلِ شرق کی السنۂ اسلامیہ کا اہم تر جُزء شمار ہوتی ہے۔ ترکیِ عثمانی، ترکیِ ماوراءالنہر اور ہند کی اردو کا ایک اہم حصہ زبانی فارسی پر متشمل ہے۔ اِن وجوہات کی بِنا پر اگر افغانستان کی رسمی و دولتی زبان فارسی ہو تو نہ صرف یہ کہ اِس کا کوئی ضرر نہیں ہے، بلکہ یہ سیاسی فائدوں سے بھی خالی نہیں ہے۔"


× محمود طرزی خود پشتون تھے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بخارائی یہودیوں کی کتابی فارسی 'بخاری' کا نمونہ دیکھیے:
عبرانی الفاظ کے بجز اِس اقتباس کو سمجھنے میں دشواری پیش نہیں آئی، کیونکہ اِس کی زبان معیاری فارسی سے قریب ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اقتباس میں اِس کتاب کی زبان کو مؤلف نے 'فارسی' کہا ہے۔

مُلّا اوراہام امینوف نے اپنی یہودی شرعی احکام سے متعلق کتاب 'لِیقُوتَی دِینِیم' (مجموعۂ قوانین) کو بیسویں صدی کے عشرۂ اول میں بخارائی یہودی مُلّا شمعون حاخام سے 'بخاری' میں ترجمہ کروایا تھا۔ یہ اقتباس اُسی کتاب سے پیش کیا گیا ہے۔ جالب یہ ہے کہ جس طرح فارسی، ترکی، اردو اور دیگر مسلمانوں کی زبانوں میں لکھنے والے مصنفین اپنی کتابوں کے لیے عربی نام منتخب کرتے آئے ہیں، اُسی طرح ایک فارسی گو بخارائی یہودی مُلّا نے اپنی ترجمہ کردہ 'بخاری' دینی کتاب کا نام عبرانی زبان ہی میں رہنے دیا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
پدرِ صحافت و نثرِ معاصرِ افغانستان محمود طرزی (۱۸۶۵ء-۱۹۳۳ء) کے مضمون 'دربارهٔ زبان فارسی' سے ایک اقتباس:

"در دولت علیهٔ عثمانیه از آغاز تشکیل و تأسیس تا بسیار زمان‌ها همه تحریرات رسمیهٔ دولتی‌شان به زبان فارسی بود. و در زمان حکومت اسلامیهٔ مغلیه در هندوستان، تا به وقت انقراض‌شان، زبان فارسی، زبان رسمی دولتی بود..."

ترجمہ: "دولتِ علیۂ عثمانیہ میں تشکیل و تأسیس کے آغاز سے لے کر کئی وقتوں تک اُن کی تمام رسمی و حکومتی تحریرات زبانِ فارسی میں تھیں۔ اور ہندوستان میں حکومتِ اسلامیۂ مغلیہ کے زمانے میں، اُن کی سرنگونی کے وقت تک، زبانِ فارسی رسمی و حکومتی زبان تھی۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
انگاری اونو خدا واسه من آفریده
تہرانی گفتاری فارسی میں اِس سطر کا مفہوم ہے:
گویا اُسے خدا نے میرے لیے خلق کیا ہے۔

فارسی میں 'انگاشتن/انگاریدن' کا معنی 'تصور کرنا، گمان کرنا، سمجھنا، پِندارنا، ظن کرنا' وغیرہ ہے۔ اِسی مصدر سے مُشتَق ہونے والے 'انگار' اور 'انگاری' تہرانی گفتاری فارسی میں 'گویا' کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ اِن مذکور مصدروں - جو در اصل ایک ہی مصدر کے دو گُونے ہیں - کا اصلی تلفظ 'اَنگاشتن/اَنگاریدن' ہے، لیکن ایرانی فارسی میں بیشتر افراد اِنہیں الف پر زیر کے ساتھ یعنی اِنگاشتن/اِنگاریدن/اِنگار/اِنگاری' تلفظ کرتے ہیں۔ معاصر زبان میں 'انگاشتن' زیادہ عام ہے، اور اِن دونوں مصدروں کا مضارع 'انگار' ہے۔

تہرانی گفتاری فارسی میں ذی عقل کے لیے ضمیرِ شخصِ سومِ مفرد 'او' کی بجائے ضمیرِ اشارہ 'آن' استعمال ہوتا ہے۔ اور چونکہ تہرانی گفتاری فارسی میں لفظوں میں موجود 'آن' کی آواز 'اُون' میں تبدیل ہو جاتی ہے، لہٰذا اِس ضمیرِ اشارہ کو بھی وہاں 'اُون' کی شکل میں بروئے کار لایا جاتا ہے۔

تہرانی گفتاری فارسی میں علامتِ مفعول 'را' اگر مصوت کے بعد آئے تو 'رو (-ro)' میں تبدیل ہو جاتی ہے، مثلاً: ما را ببین --> ما رو ببین۔ اور اگر رائے مفعولی صامت کے بعد آئے تو صرف 'و (-o)' کی آواز رہ جاتی ہے، مثلاً: دستت را بلند کن --> دستتو بلند کن۔ لہٰذا، 'اُونو' در حقیقت 'اُو/آن را' کی تہرانی گفتاری شکل ہے۔

تہرانی گفتاری فارسی میں 'برای' کی بجائے عموماً 'واسه/vâse' استعمال ہوتا ہے۔ واسه من یعنی برایِ من۔ 'واسه' اضافت کے ساتھ اور بغیر دونوں طرح استعمال ہوتا ہے، لیکن اضافت کے بغیر زیادہ عام ہے۔

تہرانی گفتاری فارسی میں، اور اب احیاناً ایرانی نَوِشتاری فارسی میں بھی، ماضیِ نقلی/ماضیِ قریب یعنی کرده‌ام، گفته‌است وغیرہ کے شخصِ سومِ مفرد یا غائب واحد میں 'است' حذف کر دیا جاتا ہے۔ یعنی گفته‌است --> گفته؛ رسیده‌است --> رسیده۔ لہٰذا یہاں 'آفریدہ' در حقیقت 'آفریده‌است' کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔


تہرانی فارسی میں مندرجۂ بالا سطر کا تلفظ:
engârî ûno xodâ vâse man âfaride

× اَحیاناً = گاہے، بعض اوقات، بعضاً، کبھی کبھار
 
آخری تدوین:
ایک ایرانی دوست سے گفتگو کرتے ہوئے کچھ ایسے الفاظ زیرِ نظر آئے، جو کہ انگریزی الفاظ کی صورت میں اردو میں مستعمل ہیں:

برنامه ریزی=planning
برنامه نویسی=programming
شهرسازی=urbanization
رایانه=computer
فرودگاه=airport
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ایک ایرانی دوست سے گفتگو کرتے ہوئے کچھ ایسے الفاظ زیرِ نظر آئے، جو کہ انگریزی الفاظ کی صورت میں اردو میں مستعمل ہیں:

برنامه ریزی=planning
برنامه نویسی=programming
شهرسازی=urbanization
رایانه=computer
فرودگاه=airport
صرف یہ پانچ چھ الفاظ نہیں بلکہ ایسے ہزاروں مفاہیم ہیں جن کے لیے موجودہ دور کے اکثر اردو گو انگریزی الفاظ استعمال کرتے ہیں، جبکہ فارسی میں اُن کی بجائے فارسی مُعادل مستعمَل ہیں، جنہیں فرہنگستانِ زبان و ادبِ فارسی نے مصوًّب کیا ہے۔
آپ مہندسی کے شعبے کے طالبِ علم ہیں۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ ایران میں مہندسی کی سطحِ بالا کی تعلیم کا ذریعہ آپ کی اور میری محبوب زبان فارسی ہی ہے۔ یہاں اِس سخن کا اعادہ بھی عبث نہ ہو گا کہ فارسی صرف چند متشاعروں کی قافیہ بندیوں کے لیے استعمال ہونے والی زبان نہیں ہے، بلکہ چینی، جاپانی اور رُوسی کی طرح ایک توانا سرکاری و علمی زبان ہے، جو ایران میں زندگی کے ہر شعبے میں تماماً رائج ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بَیدَق
شطرنج میں جس مُہرے کو 'پیادہ' کہتے ہیں، وہ عربی میں جا کر 'بَیدَق' ہو گیا تھا۔ بعد میں وہی معرًّب لفظ فارسی ادبیات میں بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔ مثلاً:
"بیدقِ خود را به فرزینش مده" [فَرزین = مُہرۂ وزیر]

(اقبال لاهوری)


"که شاه ارچه در عرصه زورآور است
چو ضعف آمد، از بیدقی کم‌تر است"
(سعدی شیرازی)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
علامہ اقبالِ لاہوری کے حُبِّ فارسی کی ابھی ایک اور مثال نظر آئی ہے:

"ایک شام کو ہم چار: تاثیر، چغتائی اور ان کے دو بھائی حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جاتے ہی غیر مطبوعہ اُردو کلام کا مطالبہ شروع کردیا اور دلائل کی بوچھاڑ کردی: اردو میں آپ نے دیر سے نہیں لکھا، اردو بحیثیت زبان کے مستحقِ امداد ہے، اردو دان لوگ بحیثیت ہم قوم ہونے کے پیغامِ اقبال سننے کے مستحق ہیں، مسلمانانِ ہند کو اور کون اُبھارے گا؟ کارواں کے نکالنے کا آپ ہی نے مشورہ دیا تھا، آپ کا غیر مطبوعہ اردو کلام نہ ہوا تو ہماری نیازمندی لوگوں کی نظر میں مشکوک ٹھہرے گی۔ ہم کچھ نہ کچھ لے کر ٹلیں گے۔ حضرت علامہ بستر پر لیٹے ہوئے یہ سب کچھ سن رہے تھے اور مسکرا رہے تھے۔ کہنے لگے، اردو میں شعر نازل ہی نہیں ہوتے۔ جاوید نامہ کو ابھی ختم کیا ہے اور دل و دماغ نچڑ گئے ہیں، اس لیے فارسی میں بھی کچھ کہنا محال ہے۔ یوں بھی فارسی کو چھوڑ کر اردو میں کہنا سنگِ مرمر کی بجائے گارے کی عمارت بنانا ہے۔"

ماخذ: ایک فیضانی لمحے کی یاد - ڈاکٹر محمد دین تاثیر
برگرفتہ از: ملفوظاتِ اقبال: مع حواشی و تعلیقات - ڈاکٹر ابوللیث صدیقی
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اکثر افراد کو اِس بات کا علم نہیں ہے کہ علامہ اقبال نے میٹرک کے طلبہ کے لیے 'آئینۂ عجم' سے موسوم ایک فارسی نصابی کتاب بھی مرتّب کی تھی۔ یہ نصابی کتاب اِس لحاظ سے اہم تھی کہ اِس کے حصۂ نثر میں معاصر ایرانی و افغان ادبیات کے نمونے شامل کیے گئے تھے۔ اِس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ نہ صرف قدیم، بلکہ ہم عصر فارسی کتابیں بھی علامہ اقبال کے زیرِ مطالعہ رہا کرتی تھیں۔ اِس کتاب کو یہاں سے بارگیری کیا جا سکتا ہے:
آئینۂ عجم (اشاعت: ۱۹۲۷ء)
آئینۂ عجم (اشاعت: ۱۹۳۲ء)
علامہ اقبال کی اِس ترتیب دادہ نصابی کتاب پر مولوی محمد چراغ جلال پوری نے اردو میں شرح لکھی تھی، جسے یہاں سے بارگیری کیا جا سکتا ہے:
شرحِ آئینۂ عجم


علامہ اقبالِ لاہوری سمیت فارسی زبان و ادب و تمدن سے محبت کرنے والے ہر فرد پر سلام ہو!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اردو کے معروف ترین شاعر میرزا اسداللہ خان غالب دہلوی خود کو ایرانی و ماوراءالنہری فارسی تمدن سے وابستہ سمجھے تھے:

"مرزا صاحب اپنے آپ کو ایرانی اور تورانی، تہذیبی روایت کا وارث سمجھتے تھے اور اس پر نازاں تھے۔"
ماخذ: شرحِ غزلیاتِ غالب (فارسی): جلدِ دوم، صوفی غلام مصطفیٰ تبسم، ص ۳۴

زبان و ادبیات و تمدنِ فارسی کے وارث و عاشق غالب دہلوی پر سلام ہو!
 
آخری تدوین:

ضیاءالقمر

محفلین
دارم ہوائے آں پری کُوبسکہ نغز و سر کش است
زافسوں مسخرشد ولے، زہد پری خواں خوش نہ کرد
غالب
لوگوں کا یہ مشہور عقیدہ ہے کہ پری کو دو طریقے سےرام کیا جا سکتا ہے
ایک جادو سے (افسوں)اوردوسرے زاہد سے
شاعر نے (زہد پری خواں) کہا ہے کہ بعض آیات قرآنی پڑنے سے جن اور پری حاضر ہو جاتے ہیں۔
لغت: نغز= پاکیزہ ،حسین و لطیف
"رام کو ہندی میں مُٹھی اور عربی میں قبضہ کہتے ہیں۔" ( ١٩٢٩ء، فرہنگِ عثمانیہ، ٢٥٣ )
مجھے اس پری کی جستجو ہے جو پاکیزہ حسن رکھتی ہے اور سر کش بھی ہے لیکن زہد (ریائی)کو پسند نہیں کرتی،،۔
افسوں سے مراد، افسونِ محبت ہے۔ مقصود یہ ہے کہ ۢمحبوب وہ ہے جس پر محبت کا جادو چلے نہ کہ زہد کا۔
ریختہ کی اردو لائبریری پر کتاب -
جلد دوم
: شرح غزلیات غالب (فارسی) پیکیجز لمیٹڈ لاہور صفحہ 240
مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم
شرح غزلیات غالب (فارسی) - | ریختہ
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
زافسوں مسخر ولے، زہد پری خواں خوش نہ کرد​
لگتا ہے یہاں کوئی لفظ حذف ہوگیا ہے ۔شاید یوں ہو
زافسوں مسخر شد ولے، زہد پری خواں خوش نہ کرد
یعنی از افسوں کو زفسوں پڑھا گیا ہو کہ ایسی منطوق شکلیں فارسی اشعار میں عام ہیں ۔واللہ اعلم​
 
Top