حسان خان
لائبریرین
"وہ اہم نکتہ جس کی جانب توجہ دی جانی چاہیے یہ ہے کہ فارسی کی حیثیت میرزا غالب کی نظر میں محض ایک زبان کی ہی نہ تھی بلکہ ان کے پیشِ نظر معانیِ عالی سے سرشار ثقافت و تہذیب تھی جس کا شمار اس قابلِ قدر دولت سے ہوتا ہے جو حقائق کے جواہر سے مالامال ہو۔ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ انہیں شدت سے احساس تھا کہ وہ اپنے دہانِ تشنہ کو اس چشمہ سارِ شیریں سے سیراب کر سکیں اور اس طرح وہ اپنی علمی شخصیت اور تہذیبی و ثقافتی دولت میں اضافہ کر سکیں۔
میرزا غالب نے نثری عبارات کی پیچیدگیوں اور اشعار کے مضامین میں جس کثرت سے اصطلاحات اور ادبی، تاریخی، عرفانی و فلسفی مفاہیم کا استعمال کیا ہے وہ اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ انہیں اس فارسی تمدن و ادب سے جو انہوں نے ایران کے نامور شعراء [و] ادباء سے حاصل کیا تھا قدیم نسبت ہے اور اس میدان میں موصوف کو تجربہ بھی کافی تھا۔ چنانچہ مندرجۂ ذیل اشعار میں ایران کے جن فارسی گو شعراء کی جانب اشارہ کیا گیا ہے وہ اس حقیقت کو بخوبی آشکار کر دیتے ہیں کہ انہیں اس بات پر فخر تھا کہ ان میں یہ استعداد موجود ہے کہ وہ ایران کے ان فارسی گو شعراء کا تتبع کر سکتے ہیں جنہیں آج عالمی شہرت حاصل ہے:
شنیدم که در روزگارِ کهن
شده عنصری شاهِ صاحبسخن
چو اورنگ از عنصری شد تهی
به فردوسی آمد کلاهِ مهی
چو فردوسی آورد سر در کفن
به خاقانی آمد بساطِ سخن
چو خاقانی از دارِ فانی گذشت
نظامی به مُلکِ سخن شاه گشت
نظامی چو جامِ اجل درکشید
سرِ چترِ دانش به سعدی رسید
چو اورنگِ سعدی فرو شد ز کار
سخن گشت بر فرقِ خسرو نثار
ز خسرو چو نوبت به جامی رسید
ز جامی سخن را تمامی رسید
ز جامی به عرفی و طالب رسید
ز عرفی و طالب به غالب رسید
چنانچہ اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ فارسی زبان سے غالب کا عشق و علاقہ محض سطحی و سرسری نہ تھا بلکہ وہ خود کو اس اسلامی تہذیب و تمدن کے بحرِ شیریں میں مستغرق پاتے تھے جس کی تجلی اس زبان میں ہوئی تھی۔"
میرزا غالب دہلوی کے کردار اور عہد پر ایک نظر
سید باقر ابطحی (از ایران)
مترجم: یونس جعفری
ماخذ: سہ ماہی اردو ادب، جنوری فروری مارچ ۱۹۹۹ء
میرزا غالب نے نثری عبارات کی پیچیدگیوں اور اشعار کے مضامین میں جس کثرت سے اصطلاحات اور ادبی، تاریخی، عرفانی و فلسفی مفاہیم کا استعمال کیا ہے وہ اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ انہیں اس فارسی تمدن و ادب سے جو انہوں نے ایران کے نامور شعراء [و] ادباء سے حاصل کیا تھا قدیم نسبت ہے اور اس میدان میں موصوف کو تجربہ بھی کافی تھا۔ چنانچہ مندرجۂ ذیل اشعار میں ایران کے جن فارسی گو شعراء کی جانب اشارہ کیا گیا ہے وہ اس حقیقت کو بخوبی آشکار کر دیتے ہیں کہ انہیں اس بات پر فخر تھا کہ ان میں یہ استعداد موجود ہے کہ وہ ایران کے ان فارسی گو شعراء کا تتبع کر سکتے ہیں جنہیں آج عالمی شہرت حاصل ہے:
شنیدم که در روزگارِ کهن
شده عنصری شاهِ صاحبسخن
چو اورنگ از عنصری شد تهی
به فردوسی آمد کلاهِ مهی
چو فردوسی آورد سر در کفن
به خاقانی آمد بساطِ سخن
چو خاقانی از دارِ فانی گذشت
نظامی به مُلکِ سخن شاه گشت
نظامی چو جامِ اجل درکشید
سرِ چترِ دانش به سعدی رسید
چو اورنگِ سعدی فرو شد ز کار
سخن گشت بر فرقِ خسرو نثار
ز خسرو چو نوبت به جامی رسید
ز جامی سخن را تمامی رسید
ز جامی به عرفی و طالب رسید
ز عرفی و طالب به غالب رسید
چنانچہ اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ فارسی زبان سے غالب کا عشق و علاقہ محض سطحی و سرسری نہ تھا بلکہ وہ خود کو اس اسلامی تہذیب و تمدن کے بحرِ شیریں میں مستغرق پاتے تھے جس کی تجلی اس زبان میں ہوئی تھی۔"
میرزا غالب دہلوی کے کردار اور عہد پر ایک نظر
سید باقر ابطحی (از ایران)
مترجم: یونس جعفری
ماخذ: سہ ماہی اردو ادب، جنوری فروری مارچ ۱۹۹۹ء