زمین ساکن ہے(ثبوت ‍قرآنی آیات سے)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایسے موضوع شروع کرنے والے چند پیغامات کے بعد ذاتیات پر کیوں اتر آتے ہیں۔
میں نے مرحوم احمد دیدات کی تقاریر اور مناظرے بھی سنے ہیں، ڈاکٹر ذاکر نائیک کی تقاریر اور مناظرے بھی سنے ہیں۔ انہوں نے تو کبھی بھی اور کہیں بھی ایسا رویہ نہیں اپنایا۔ انہوں نے دوسروں کا نقطہ نظر سن کر جواب دیا، ثبوت پیش کیئے، دلیلیں دیں اور بس۔ اور یہی رویہ مخالفین کا بھی دیکھا۔ کہیں کسی کو لٹھ لے کر دوسرے کے پیچھے پڑتے نہیں دیکھا۔ کہ مانو نہیں تو تم فلاں ہو اور فلاں ہو۔
 

arifkarim

معطل
سائنسی دلائل کیا خاک لائیں جب مولانا نے بات ہی ختم کردی۔۔۔
ہم تو یہی کہتے ہیں قرآن اور سائنس کا مقابلہ بنتا ہی نہیں۔ نہ قرآن کو اس بات سے کوئی غرض ہے کہ زمین ساکن ہے اور نہ اس سے کہ زمین متحرک ہے۔ قرآن کا مقصد ہی کچھ اور ہے۔ ایک نظریہ حیات دینا۔ اور یہ کام قرآن بخوبی کرتا ہے۔ دوسری صورت میں کیا اللہ کے لیے یہ بعید تھا کہ فزکس، کیمسٹری اور بائیولوجی کے فارمولوں پر مشتمل ایک کتاب بھجوا دیتا؟

ہا ہا ہا، قرآن کوئی قصہ کہانی نہیں ہے۔ قرآن کی اگر صحیح تفسیر کی جائے، تو وہ سائنسی قوانین سے ہم آشنا ہے!!!!!
 

خرم

محفلین
اللہم صل علی محمد و علٰی آلِہ و بارک وسلم
سب سے پہلی بات تو یہ کہ قرآن صرف مذہبی کتاب نہیں۔ جب یہ کتاب دعوٰی کرتی ہے کہ زمین کے اندھیروں میں‌چھپا ہوا ایک ذرہ بھی ایسا نہیں‌اور ایسی کوئی خشک و تر چیز موجود نہیں جس کا علم اس کتابِ مبین میں‌موجود نہ ہو تو یہ بات کہنے کا جواز ہی نہیں‌رہ جاتا کہ قرآن صرف ایک مذہبی کتاب ہے جس کا علم صرف عبادات پر مشتمل ہے۔ قرآن میں فزکس، کیمسٹری، حساب، الجبرا سب کچھ موجود ہیں لیکن اس کے لئے دیدہ بینا چاہئے۔ یہ دیدہ بینا کتابیں پڑھ لینے سے یا تفاسیر کا مطالعہ کرنے سے حاصل نہیں ہوتی۔ انسان کے پاس جتنا بھی علم ہے وہ وہی ہے جو اللہ تبارک و تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کو سکھایا۔ انسان کتنا بھی ترقی کرلے اس علم کی حد کو پار نہیں کر سکتا کہ اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں ارشاد فرما دیا کہ "ولا یحیطون بشئی من علمہ الا بما شاء" کہ کوئی اس کے علم کا احاطہ نہیں‌کرسکتا مگر جس کی وہ اجازت دے۔ اب جب صاحبِ قرآن صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کائنات کی پیدائش سے قیامت تک کی جو بات چاہو پوچھ لو تو یہ بات انتہائی غلطی کی ہے کہ یہ تصور بھی کیا جائے کہ فزکس، کیمیا یا دیگر علومِ انسانی میرے آقا صل اللہ علیہ وسلم کی دسترس سے باہر تھے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہاتھی کا بوجھ چوہے پر نہیں لادا جاتا۔ پیمانہ بھی ہے اور حوض بھی لیکن جام ہر کسی کو اس کی استطاعت کے مطابق ہی بھر کے دیا جاتا ہے۔ یہ الگ بات کہ ہم یہ تصور کرنے لگ پڑیں کہ ہمارا جام ہی سمندر ہے۔ بدقسمتی سے یہی بات اس دھاگہ پر ہو رہی ہے۔ مہوش بہنا نے ایک اور پوسٹ میں ظاہر پرستی کی بات کی تھی۔ کم و بیش وہی معاملہ یہاں‌درپیش ہے۔
اب جہاں تک زمین و آسمان کی گردش کا تعلق ہے تو اگر میرا حافظہ غلطی پر نہیں تو قرآن تو کہتا ہے کہ یہ سب حرکت پذیر ہیں۔ (فاروق بھائی شاید درست آیات کی طرف نشاندہی کر سکیں)۔ زمین متحرک بھی ہے اور ساکن بھی ۔ ساکن ان اجسام کے لئے جو اس پر قیام پذیر ہیں اور متحرک ان کے لئے جو اس کی کشش ثقل سے باہر ہیں۔ اللہ تعالٰی نے اس زمین میں‌لنگر ڈالے تاکہ یہ اپنے مقام سے سرک نہ جائے اور ایک مخصوص مدار میں ایک مخصوص ترتیب سے ساتھ حرکت کرتی رہے۔ سورج بھی کہکشاں کے لاتعداد ستاروں‌کے ساتھ متحرک ہے۔ چاند بیک وقت زمین اور سورج دونوں‌کے گرد چکر لگا رہا ہے۔ یہ سب کچھ قرآن سے ثابت ہے۔ صرف دیدہ بینا کہ ضرورت ہوتی ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ جب تک کسی شے کے متعلق علم نہ ہو تب تک اس کی طرف خیال نہیں جاسکتا۔ مثال کے طور پرانیسویں صدی کے کسی شخص کو انٹر نیٹ کی بابت خیال آ ہی نہیں‌سکتا تھا کیونکہ اس وقت تک اس کا اور جن اسباب نے اسے ممکن بنایا ان کے متعلق علم ہی موجود نہ تھا۔ اسی طرح مفسرین نے اپنے اپنے وقت کے مطابق اور اپنے اپنے علم کے مطابق تفاسیر لکھیں اور قرآن کے معارف بیان کئے۔ یہاں یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ اولین میں ایسے لوگ موجود نہ تھے جنہیں ان تمام باتوں کا ادراک نہ تھا بلکہ اولین میں ایسی ہستیاں موجود تھیں جو اپنی بصیرتِ نوری سے ان تمام معاملات کو جانتی تھیں جیسا کہ حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ تمام علوم قرآن میں جمع ہیں لیکن لوگوں کے فہم ان کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
جب اللہ کا کوئی بندہ اس کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں درجہ کمال پر پہنچ جاتا ہے تو اسے ان تمام چیزوں‌پر آگاہ و آشنا کیا جاتا ہے اور دربارِ رسالت سے انہیں قرآن کے فہم کا فیض عطا ہوتا ہے۔ یہ علم نہ کسی کتاب سے ملتا ہے اور نہ کسی تفسیر سے۔ ان کا حصول صرف اور صرف دربارِ رسالت صل اللہ علیہ وسلم سے ہی ممکن ہے۔ یہ وہ مقام ہوتا ہے جس کے متعلق ارشادِ ربانی ہے کہ میں‌اپنے بندہ کا ہاتھ بن جاتا ہوں، اس کے کان بن جاتا ہوں‌اس کی آنکھ بن جاتا ہوں۔ اب کچھ لوگ یہ کہیں گے کہ پھر وہ لوگ یہ سب کچھ بتا کیوں نہیں‌دیتے۔ تو اس کی مثال آپ یوں سمجھ لیجئے کہ اگر آپ نے ایک فلم دیکھی جس میں خوب ماردھاڑ ہو اور ولن لوگوں‌کے کشتوں کے پشتے لگا رہا ہو لیکن فلم کی تکمیل پر آپ کو علم ہوا کہ آخر میں فتح‌حق کی ہوئی تو دوسری بار وہی فلم دیکھتے وقت فلم میں کیا جانے والا ظلم آپ کو بے چین نہیں کرے گا کیونکہ آپ جانتے ہیں‌کہ آخر میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یہی حال ان لوگوں‌کا ہوتا ہے جنہیں‌اللہ اپنے علم میں سے کچھ حصہ بصیرت کا عطا فرما دیتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ جب اللہ ہر چیز کی نگہبانی کر رہا ہے اور اس کائنات کی ہر چیز ہر عمل اس کے اذن سے ہے تو انہیں‌صرف ایک فکر ہوتی ہے کہ اللہ راضی ہو جائے۔ باقی تمام باتیں ان کے لئے غیر اہم ہو جاتی ہیں۔
جہاں‌تک امام احمد رضا خان صاحب کی تفسیر کا تعلق ہے، ان کی تفسیر یقیناًَ خلوصِ دل پر اور انتہائی نیک نیتی پر مبنی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے اختلافِ علمی نہیں کیا جاسکتایا یہ کہ وہ حرفِ آخر ہے۔ ہاں‌جو اصحاب ان سے نسبت رکھنے والے ہیں ان کو ایسا سمجھنا لازم ہےکیونکہ طالب علم کو استاد سے علم سیکھنے کے لئے لازم ہے کہ وہ استاد کے علم کی کاملیت پر یقین کرے۔ البتہ ‌بعد از تحصیلِ علم اگر وہ استاد کی کسی بات سے اختلاف کرتا ہے اور اسے ثابت بھی کرتا ہے تو اس کا وہ علم بھی اس کے استاد کا علم کہلائے گا کیونکہ اس کا علم اس کے استاد کے علم کا ہی ایک جزو ہوتا ہے۔
اس لئے برائے مہربانی اس ساری بات کو ایک علمی مباحثہ کی صورت میں لیں۔ امام احمد رضا خان صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے ایک بات کی، آج آپ نے اپنی آنکھوں‌ سے دیکھا کہ وہ بات غلط ہے تو آپ کی امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے عقیدت کا یہی تقاضہ ہے کہ آپ یہ کہیں‌کہ یہ بات غلط ہے کیونکہ یہ قرآن کے بھی خلاف ہے اور ہمارے مشاہدہ کے بھی۔ اور ایسا کر کے آپ امام صاحب کے مرتبہ علمی میں کمی نہیں کررہے بلکہ ان کے کام کو آگے بڑھا رہے ہیں کیونکہ اگر امام احمد رضا خان صاحب حیاتِ ظاہری میں ہوتے تو وہ بھی یہی کرتے اور نسبت تو یہی ہے کہ وہ کام کیا جائے جو مرشد کرے اور کرنا پسند کرے۔
اللہ ہم سب کو سیدھا راستہ چلائے۔ آمین۔
 
اللہم صل علی محمد و علٰی آلِہ و بارک وسلم
سب سے پہلی بات تو یہ کہ قرآن صرف مذہبی کتاب نہیں۔ جب یہ کتاب دعوٰی کرتی ہے کہ زمین کے اندھیروں میں‌چھپا ہوا ایک ذرہ بھی ایسا نہیں‌اور ایسی کوئی خشک و تر چیز موجود نہیں جس کا علم اس کتابِ مبین میں‌موجود نہ ہو تو یہ بات کہنے کا جواز ہی نہیں‌رہ جاتا کہ قرآن صرف ایک مذہبی کتاب ہے جس کا علم صرف عبادات پر مشتمل ہے۔ قرآن میں فزکس، کیمسٹری، حساب، الجبرا سب کچھ موجود ہیں لیکن اس کے لئے دیدہ بینا چاہئے۔ یہ دیدہ بینا کتابیں پڑھ لینے سے یا تفاسیر کا مطالعہ کرنے سے حاصل نہیں ہوتی۔ انسان کے پاس جتنا بھی علم ہے وہ وہی ہے جو اللہ تبارک و تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کو سکھایا۔ انسان کتنا بھی ترقی کرلے اس علم کی حد کو پار نہیں کر سکتا کہ اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں ارشاد فرما دیا کہ "ولا یحیطون بشئی من علمہ الا بما شاء" کہ کوئی اس کے علم کا احاطہ نہیں‌کرسکتا مگر جس کی وہ اجازت دے۔ اب جب صاحبِ قرآن صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کائنات کی پیدائش سے قیامت تک کی جو بات چاہو پوچھ لو تو یہ بات انتہائی غلطی کی ہے کہ یہ تصور بھی کیا جائے کہ فزکس، کیمیا یا دیگر علومِ انسانی میرے آقا صل اللہ علیہ وسلم کی دسترس سے باہر تھے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہاتھی کا بوجھ چوہے پر نہیں لادا جاتا۔ پیمانہ بھی ہے اور حوض بھی لیکن جام ہر کسی کو اس کی استطاعت کے مطابق ہی بھر کے دیا جاتا ہے۔ یہ الگ بات کہ ہم یہ تصور کرنے لگ پڑیں کہ ہمارا جام ہی سمندر ہے۔ بدقسمتی سے یہی بات اس دھاگہ پر ہو رہی ہے۔ مہوش بہنا نے ایک اور پوسٹ میں ظاہر پرستی کی بات کی تھی۔ کم و بیش وہی معاملہ یہاں‌درپیش ہے۔
اب جہاں تک زمین و آسمان کی گردش کا تعلق ہے تو اگر میرا حافظہ غلطی پر نہیں تو قرآن تو کہتا ہے کہ یہ سب حرکت پذیر ہیں۔ (فاروق بھائی شاید درست آیات کی طرف نشاندہی کر سکیں)۔ زمین متحرک بھی ہے اور ساکن بھی ۔ ساکن ان اجسام کے لئے جو اس پر قیام پذیر ہیں اور متحرک ان کے لئے جو اس کی کشش ثقل سے باہر ہیں۔ اللہ تعالٰی نے اس زمین میں‌لنگر ڈالے تاکہ یہ اپنے مقام سے سرک نہ جائے اور ایک مخصوص مدار میں ایک مخصوص ترتیب سے ساتھ حرکت کرتی رہے۔ سورج بھی کہکشاں کے لاتعداد ستاروں‌کے ساتھ متحرک ہے۔ چاند بیک وقت زمین اور سورج دونوں‌کے گرد چکر لگا رہا ہے۔ یہ سب کچھ قرآن سے ثابت ہے۔ صرف دیدہ بینا کہ ضرورت ہوتی ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ جب تک کسی شے کے متعلق علم نہ ہو تب تک اس کی طرف خیال نہیں جاسکتا۔ مثال کے طور پرانیسویں صدی کے کسی شخص کو انٹر نیٹ کی بابت خیال آ ہی نہیں‌سکتا تھا کیونکہ اس وقت تک اس کا اور جن اسباب نے اسے ممکن بنایا ان کے متعلق علم ہی موجود نہ تھا۔ اسی طرح مفسرین نے اپنے اپنے وقت کے مطابق اور اپنے اپنے علم کے مطابق تفاسیر لکھیں اور قرآن کے معارف بیان کئے۔ یہاں یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ اولین میں ایسے لوگ موجود نہ تھے جنہیں ان تمام باتوں کا ادراک نہ تھا بلکہ اولین میں ایسی ہستیاں موجود تھیں جو اپنی بصیرتِ نوری سے ان تمام معاملات کو جانتی تھیں جیسا کہ حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ تمام علوم قرآن میں جمع ہیں لیکن لوگوں کے فہم ان کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔<br>
جب اللہ کا کوئی بندہ اس کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں درجہ کمال پر پہنچ جاتا ہے تو اسے ان تمام چیزوں‌پر آگاہ و آشنا کیا جاتا ہے اور دربارِ رسالت سے انہیں قرآن کے فہم کا فیض عطا ہوتا ہے۔ یہ علم نہ کسی کتاب سے ملتا ہے اور نہ کسی تفسیر سے۔ ان کا حصول صرف اور صرف دربارِ رسالت صل اللہ علیہ وسلم سے ہی ممکن ہے۔ یہ وہ مقام ہوتا ہے جس کے متعلق ارشادِ ربانی ہے کہ میں‌اپنے بندہ کا ہاتھ بن جاتا ہوں، اس کے کان بن جاتا ہوں‌اس کی آنکھ بن جاتا ہوں۔ اب کچھ لوگ یہ کہیں گے کہ پھر وہ لوگ یہ سب کچھ بتا کیوں نہیں‌دیتے۔ تو اس کی مثال آپ یوں سمجھ لیجئے کہ اگر آپ نے ایک فلم دیکھی جس میں خوب ماردھاڑ ہو اور ولن لوگوں‌کے کشتوں کے پشتے لگا رہا ہو لیکن فلم کی تکمیل پر آپ کو علم ہوا کہ آخر میں فتح‌حق کی ہوئی تو دوسری بار وہی فلم دیکھتے وقت فلم میں کیا جانے والا ظلم آپ کو بے چین نہیں کرے گا کیونکہ آپ جانتے ہیں‌کہ آخر میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یہی حال ان لوگوں‌کا ہوتا ہے جنہیں‌اللہ اپنے علم میں سے کچھ حصہ بصیرت کا عطا فرما دیتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ جب اللہ ہر چیز کی نگہبانی کر رہا ہے اور اس کائنات کی ہر چیز ہر عمل اس کے اذن سے ہے تو انہیں‌صرف ایک فکر ہوتی ہے کہ اللہ راضی ہو جائے۔ باقی تمام باتیں ان کے لئے غیر اہم ہو جاتی ہیں۔
جہاں‌تک امام احمد رضا خان صاحب کی تفسیر کا تعلق ہے، ان کی تفسیر یقیناًَ خلوصِ دل پر اور انتہائی نیک نیتی پر مبنی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے اختلافِ علمی نہیں کیا جاسکتایا یہ کہ وہ حرفِ آخر ہے۔ ہاں‌جو اصحاب ان سے نسبت رکھنے والے ہیں ان کو ایسا سمجھنا لازم ہےکیونکہ طالب علم کو استاد سے علم سیکھنے کے لئے لازم ہے کہ وہ استاد کے علم کی کاملیت پر یقین کرے۔ البتہ ‌بعد از تحصیلِ علم اگر وہ استاد کی کسی بات سے اختلاف کرتا ہے اور اسے ثابت بھی کرتا ہے تو اس کا وہ علم بھی اس کے استاد کا علم کہلائے گا کیونکہ اس کا علم اس کے استاد کے علم کا ہی ایک جزو ہوتا ہے۔
اس لئے برائے مہربانی اس ساری بات کو ایک علمی مباحثہ کی صورت میں لیں۔ امام احمد رضا خان صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے ایک بات کی، آج آپ نے اپنی آنکھوں‌ سے دیکھا کہ وہ بات غلط ہے تو آپ کی امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے عقیدت کا یہی تقاضہ ہے کہ آپ یہ کہیں‌کہ یہ بات غلط ہے کیونکہ یہ قرآن کے بھی خلاف ہے اور ہمارے مشاہدہ کے بھی۔ اور ایسا کر کے آپ امام صاحب کے مرتبہ علمی میں کمی نہیں کررہے بلکہ ان کے کام کو آگے بڑھا رہے ہیں کیونکہ اگر امام احمد رضا خان صاحب حیاتِ ظاہری میں ہوتے تو وہ بھی یہی کرتے اور نسبت تو یہی ہے کہ وہ کام کیا جائے جو مرشد کرے اور کرنا پسند کرے۔
اللہ ہم سب کو سیدھا راستہ چلائے۔ آمین۔

شاباش
بات درست سمت میں سمجھ رہے ہو
 
صاحبو۔ جو آرٹیکل پیش کیا گیا۔ اس میں ایک بنیادی مسئلہ ہے - وہ یہ کہ اس میں آیات کا ترجمہ جان بوجھ کر اپنی مرضی کے الفاظ سے کیا گیا ہے تاکہ اپنی بات میں وزن پیدا ہو۔ ان آیات سے نہ فردا فردا اور نہ ملا کر وہ معنی نہیں بنتے جو بنائے گئے ہیں۔ یہ لکھنے والے کی اپنی ذہنی اختراع ہے۔ ایک سے دو دنوں میں دوبارہ ان آیات کے معانی جو دوسرے مترجمین نے کئے ہیں پیش کرتا ہوں۔ تاکہ اندازہ ہو کہ قرآن کا یہ پیغام ہی نہیں تھا جو اس آرٹیکل میں درج کیا گیا ہے۔ اور اس آرٹیکل کے لکھنے والے " فاضل مصنف "‌ کے اپنے اور دوسروں‌کے وقت کا ضیاع اس قابل نہیں کہ اس پر مزید وقت ضائع کیا جائے۔
 

پپو

محفلین
میں انتہائی ادب کے ساتھ اس سلسلے پر لکھوں گا چونکہ معماملہ نازک بھی ہے اور سائنسی بنیاد سے بھی تعلق رکھتاہےاور ہمارے لیے ایک دوسرے پر اعتماد کا بھی متقاضی ہے انشااللہ
 
اللہ سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔۔۔ اور بجائے اعلی حضرات کی پوجا کے اس آسان مذہب کو اس کی عین روح کے مطابق سمجھنے اور عمل کرنے کی طاقت عطا فرمائے اور اپنا فضل شامل حال رکھے۔ آمین

خدا جانے، تعظیم کرنے کو پوجا تک کیوں ملادیا جاتا ہے؟ فلاں کی تعظیم کی تو پوجا ہوگئی، فلاں کے لیے ایسا کہا تو شرک ہوگیا۔۔۔ اس قدر تنگ نظری سے بھی کام نہ لیجئے صاحبو۔۔۔! اگر کسی عمل پر اعتراض ہے تو وہ ضرور بیان کیجئے لیکن اسے اپنی مرضی کا نام دینا، یہ کہاں کا عدل و انصاف ہے؟
 
بہت خوبصورت لکھا ہے خرم بھائی۔۔۔۔! ایک بات کی وضاحت کہ مولانا احمد رضا خاں نے قرآن پاک کا ترجمہ لکھا ہے، تفسیر نہیں۔

اب جہاں تک زمین و آسمان کی گردش کا تعلق ہے تو اگر میرا حافظہ غلطی پر نہیں تو قرآن تو کہتا ہے کہ یہ سب حرکت پذیر ہیں۔ (فاروق بھائی شاید درست آیات کی طرف نشاندہی کر سکیں)۔ زمین متحرک بھی ہے اور ساکن بھی ۔ ساکن ان اجسام کے لئے جو اس پر قیام پذیر ہیں اور متحرک ان کے لئے جو اس کی کشش ثقل سے باہر ہیں۔ اللہ تعالٰی نے اس زمین میں‌لنگر ڈالے تاکہ یہ اپنے مقام سے سرک نہ جائے اور ایک مخصوص مدار میں ایک مخصوص ترتیب سے ساتھ حرکت کرتی رہے۔ سورج بھی کہکشاں کے لاتعداد ستاروں‌کے ساتھ متحرک ہے۔ چاند بیک وقت زمین اور سورج دونوں‌کے گرد چکر لگا رہا ہے۔ یہ سب کچھ قرآن سے ثابت ہے۔ صرف دیدہ بینا کہ ضرورت ہوتی ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ جب تک کسی شے کے متعلق علم نہ ہو تب تک اس کی طرف خیال نہیں جاسکتا۔ مثال کے طور پرانیسویں صدی کے کسی شخص کو انٹر نیٹ کی بابت خیال آ ہی نہیں‌سکتا تھا کیونکہ اس وقت تک اس کا اور جن اسباب نے اسے ممکن بنایا ان کے متعلق علم ہی موجود نہ تھا۔ اسی طرح مفسرین نے اپنے اپنے وقت کے مطابق اور اپنے اپنے علم کے مطابق تفاسیر لکھیں اور قرآن کے معارف بیان کئے۔

بالکل ٹھیک۔ میری نظر سے بھی کافی عرصہ پہلے ایک کتاب گذری تھی اس میں قرآنی آیات کی مدد سے ثابت کیا گیا تھا کہ زمین حرکت کرتی ہے۔۔۔ اس پر بھی روشنی ڈالی جانی چاہئے۔
اس کے علاوہ جہاں تک میری معلومات ہے، مولانا احمد رضا خان نے حرکت زمین کے حوالہ سے دو یا تین رسائل لکھے ہیں جن میں سائنسی اور منطقی دلائل بھی ہیں۔ اب چونکہ سائنسی باتیں میری چھوٹی سی عقل سے اوپر کی ہیں، اس لیے میں ان کو سمجھنے اور بیان کرنے سے قاصر ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
میں انتہائی ادب کے ساتھ اس سلسلے پر لکھوں گا چونکہ معماملہ نازک بھی ہے اور سائنسی بنیاد سے بھی تعلق رکھتاہےاور ہمارے لیے ایک دوسرے پر اعتماد کا بھی متقاضی ہے انشااللہ

ضرور لکھیں، ہمیں‌ بھی آپ کی تحریر کا انتظار رہے گا۔
 

چنچل

محفلین
السلام علیکم
میں نے اس ساری بحث کو پڑا اور مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ اس بحث کو شروع کرنے والے نے آخر ایسا کون سا گناھ کردیا کہ جتنے بھی اس نظریے (یعنی زمین کے ساکن ہونے ) کہ مخالفین تھے وہ سب یوں بگڑ گئے کہ جیسے یہان سائنس کے نظریے کا ابطال نہیں بلکہ خود قرآن پاک کا ابطال کردیا گیا ہے ۔ارے بھئی رضا صاحب نے ایک عالم دین کی ایک نظریے کے اوپر ایک تحقیق ہی پیش کی ہے نا اور وہ بھی عقلی اور نقلی دلائل کے ساتھ اب چاہیے تو یہ تھا کہ جو لوگ بھی زمین کی حرکت کے قائل ہیں وہ علمی طریقے سے پہلے خودقرآن و سنت سے پھر سائنس سے ان کے اس نظریے کی تردید کرتے۔لیکن ایسا کچھ بھی یہان نہیں ہوا اور سب اپنی اپنی ہانکنے لگے کوئی کہتا کہ ہمیں زمین و آسمان کیہ گردش سے کیا لینا دینا کوئی کہتا کہ یہ مولوی ہر کسی کہ پیچھے یوں ہی لٹھ لے کر پڑ جاتے ہیں کہ ہمارا نظریہ ہی مانو حالانکہ ایسی کوئی بات یہان نہیں ہوئی ۔اب اگر کسی کو مولویون کے ساتھ خدا واسطے کا بیر ہو تو کیا کیا جاسکتا ۔۔۔میر ی گذارش یہی ہے کہ علمی انداز میں اس موضوع پر گفتگو کی جائے اور احمد رضا خان صاب نے جو نظریہ دیا ہے اور اس پر جو بھی دلائل دیے ہیں ان کا جواب قرآن و سنت سے بھی اور سائنس سے بھی ان کا رد کیا جائے تو تب بات بنے گی۔۔۔
 
یہاں سوال یہ تھا کہ علمی و عقلی حساب کتاب سے یہ بات ثابت کی جائے کے زمین ساکن نہیں ہے ۔ لیکن جواب ملے وہ جو ان حضرات کے اپنے اندازے ہے۔
جناب محسن صاحب فرماتے ہے کہ مولوی حضرات گز گز بھر کپڑا سروں پر باندھ لیتے ہے اور (شاید ان کے خیال میں ) کوئی کام کاج نہیں کرتے۔ یعنی سنت رسول صلی اللہ علیک وسلم کا سرے سے علم ہی نہیں تو زمین کی حرکت کے بارے میں کیا جواب دے گے۔
جناب شمشاد صاحب کی ماشاء اللہ عزوجل 38 ہزار پوسٹس ہوگئی لیکن لا حاصل ۔ یا دلائل پیش کر دے جو ہم مان لے یا ہماری بات مان لے یا پھر اپنی ضد پر اڑے رہے ۔ ہم آپ کی زاتیات پر اثر انداز نہیں ہونگے۔
اور جناب خرم صاحب سے بھی حد درجہ گزارش ہے کہ "سرکار پہلے یہ بات تو ثابت کریں نا کہ زمین حرکت کررہی ہے اُس کے بعد یہ فیصلہ کیجئے گا کہ ہمارے امام ، احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے جو سو سے زائد دلائل دیے وہ سب (بقول آپ لوگوں کے) غلط ہے " ۔
 
نام کتاب: الزواجرعن اقتراف الکبائر(جہنم میں لے جانے والے اعمال)مؤلف: امام احمد بن حجر المکی شافعی علیہ رحمۃ اللہ القوی
پیش کش: مجلس المدینۃ العلمیۃ (شعبہ تراجم کتب)
سن طباعت: مضان المباکر 1428ھ ، بمطابق ستمبر 2007 ء

p10.gif

p11.gif


p12.gif

p13.gif


 

شمشاد

لائبریرین
نمبر 5 پر لکھا ہے۔۔۔حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ محبوب رب العزت، محسنِ انسانیت عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے : "قرآنِ پاک میں جھگڑنا چھوڑ دو کیونکہ تم سے پہلی اُمتوں پر اسی وقت لعنت کی گئی جب انہوں نے قرآن پاک میں اختلاف کیا، بے شک قرآنِ پاک میں جھگڑنا کفر ہے۔"

اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پہلی امتوں پر بھی قرآن اترا تھا جس میں انہوں نے اختلاف کیا اور ان پر لعنت کی گئی، لیکن ہمیں تو یہی معلوم ہے کہ قرآن ایک ہی ہے جو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم پر اترا تھا۔ اس کی وضاحت کریں گے۔ باقی تو میں بعد میں پڑھوں گا۔
 
یہاں سوال یہ تھا کہ علمی و عقلی حساب کتاب سے یہ بات ثابت کی جائے کے زمین ساکن نہیں ہے ۔ لیکن جواب ملے وہ جو ان حضرات کے اپنے اندازے ہے۔
جناب محسن صاحب فرماتے ہے کہ مولوی حضرات گز گز بھر کپڑا سروں پر باندھ لیتے ہے اور (شاید ان کے خیال میں ) کوئی کام کاج نہیں کرتے۔ یعنی سنت رسول صلی اللہ علیک وسلم کا سرے سے علم ہی نہیں تو زمین کی حرکت کے بارے میں کیا جواب دے گے۔
جناب شمشاد صاحب کی ماشاء اللہ عزوجل 38 ہزار پوسٹس ہوگئی لیکن لا حاصل ۔ یا دلائل پیش کر دے جو ہم مان لے یا ہماری بات مان لے یا پھر اپنی ضد پر اڑے رہے ۔ ہم آپ کی زاتیات پر اثر انداز نہیں ہونگے۔
اور جناب خرم صاحب سے بھی حد درجہ گزارش ہے کہ "سرکار پہلے یہ بات تو ثابت کریں نا کہ زمین حرکت کررہی ہے اُس کے بعد یہ فیصلہ کیجئے گا کہ ہمارے امام ، احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے جو سو سے زائد دلائل دیے وہ سب (بقول آپ لوگوں کے) غلط ہے " ۔

خدارا ۔۔۔۔ خدارا ۔۔۔۔ میرے مسلم بہن بھائیو ! اب تو اپنی حالت زار پر رحم کرو۔۔۔۔۔۔۔ اب تو عقل سے کام لو ۔۔۔۔ کیا اسلام محض ملا سمجھتا ہے ۔۔۔۔ یہ مذہبی برہمن ہمیں کس مقام پر لے آئے ہیں ذرا اس پر بھی غور کر لیں۔۔۔ آقائے دو جہاں کا نام شاید ہماری زبان سے اتنا ادا نہیں ہوتا ہے جتنا ان ملاؤں کا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عزیزو ! یہ انتہائی سادہ مذہب ہے۔۔۔۔ صرف تفکر کی ضرورت ہے۔۔۔۔ کیا تفکر صرف ملا کرے گا ۔۔۔ اور ہم اسکی اندھی تقلید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسوہ حسنہ ہماری سامنے ہے۔۔۔۔ کیا یہ کافی نہیں ہے۔۔۔۔ صحابہ کرام کی زندگی ہمارے سامنے ہے کہ کیا یہ کم ہے۔۔۔۔
وہ شخص کیا درست بات کرے گا جس نے کبھی اپنے ھاتھ سے محنت کی کمائی نہ کھائی ہو۔۔۔۔ جو ہمیشہ صدقے کے مال پر پلا ہو وہ بھلا کیا درست بات کرے گا۔۔۔۔ ہمارا قصور صرف اتنا ہے کہ ہم بس اندھی تقلید کرتے چلے جا رہے ہیں۔۔۔۔ جو ہمارے بڑوں نے کیا ہم میں سے بیشتر اسی راہ پر چل رہے ہیں۔۔۔۔
مجھے صرف انتا جواب دے دیں کہ عالم کی تشریح کیا ہے۔۔۔۔۔ ؟۔۔۔۔۔۔۔۔ غیر مسلم قراآن میں تفکر کرے کہاں کے کہاں پہنچ گئیے ہیں اور ہم ابھی تک اماموں کی تعریفیں کر رہے ہین۔۔۔۔۔ ان نام نہاد اماسوں کی وجہ سے آج ہم اس مقام پر ہیں ۔۔۔۔۔
حد ہوتی ہے ذہنی پسماندگی کی بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس بحث کرنا ۔۔۔ اب یہی ہمارا کام ہے۔۔۔۔
یہ ملا جنہیں کافر کہتا ہے۔۔۔۔ انہیں کے رحم و کرم پر زندہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا کو ئی بتا سکتا ہے ۔۔۔۔ ادویات پر کس کی اجارہ داری ہے ؟۔۔۔۔ جس چشمے کو لگا کر وہ قران پڑہتا ہے اسکا گلاس کہاں سے آتا ہے؟ چشمے کا فریم کون بنا رہا ہے۔؟۔۔۔۔۔ جس کاغذ پر ہمارا قران چھپتا ہے وہ کہاں سے آتا ہے ؟ جس سیاہی سے پرنٹنگ ہوتی ہے وہ کون بنا رہا ہے ؟۔۔۔۔۔ ارے دور کیوں جا رہے ہیں ۔۔۔ جس لباس ہم زیب تن کرتے ہیں ذرا اس پر ہی غور کر لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ بنئی کی مشین کہاں سے آتی ہے؟۔۔۔۔ بنائی کا سوت کہاں سے آتا ہے ؟۔۔۔۔ سوئی کہاں سے آتی ہے ؟۔۔۔۔ ڈزائننگ میٹیریل کہاں سے آتا ہے ؟۔۔۔۔ ارے جو معدنیات ہمارے ممالک میں ہیں ان کوبھی ریفائن یہی کافر کر کے دیتا ہے؟۔۔۔۔۔ کیا دیا ہے ان ملاؤں نے ؟۔۔۔۔ نفرت کا درس۔۔۔۔ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونے کا ہنر۔۔۔۔ اور کیا پیدا کیا ہے ؟۔۔۔۔ ہم جیسے نالائق جو ان کو عظیم القابات سے سارا دن نوازتے رہتے ہیں۔۔۔۔

خدارا اپنی حالت زار پر اب تو رحم کریں۔۔۔۔۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top