شمشاد
لائبریرین
گیلیلیو کو 1992 میںچرچ نے آزاد کیا!
1992 یا 1592 یا واقعی آپ کچھ کہنا چاہ رہے تھے؟
گیلیلیو کو 1992 میںچرچ نے آزاد کیا!
1992 یا 1592 یا واقعی آپ کچھ کہنا چاہ رہے تھے؟
سائنسی دلائل کیا خاک لائیں جب مولانا نے بات ہی ختم کردی۔۔۔
ہم تو یہی کہتے ہیں قرآن اور سائنس کا مقابلہ بنتا ہی نہیں۔ نہ قرآن کو اس بات سے کوئی غرض ہے کہ زمین ساکن ہے اور نہ اس سے کہ زمین متحرک ہے۔ قرآن کا مقصد ہی کچھ اور ہے۔ ایک نظریہ حیات دینا۔ اور یہ کام قرآن بخوبی کرتا ہے۔ دوسری صورت میں کیا اللہ کے لیے یہ بعید تھا کہ فزکس، کیمسٹری اور بائیولوجی کے فارمولوں پر مشتمل ایک کتاب بھجوا دیتا؟
اللہم صل علی محمد و علٰی آلِہ و بارک وسلم
سب سے پہلی بات تو یہ کہ قرآن صرف مذہبی کتاب نہیں۔ جب یہ کتاب دعوٰی کرتی ہے کہ زمین کے اندھیروں میںچھپا ہوا ایک ذرہ بھی ایسا نہیںاور ایسی کوئی خشک و تر چیز موجود نہیں جس کا علم اس کتابِ مبین میںموجود نہ ہو تو یہ بات کہنے کا جواز ہی نہیںرہ جاتا کہ قرآن صرف ایک مذہبی کتاب ہے جس کا علم صرف عبادات پر مشتمل ہے۔ قرآن میں فزکس، کیمسٹری، حساب، الجبرا سب کچھ موجود ہیں لیکن اس کے لئے دیدہ بینا چاہئے۔ یہ دیدہ بینا کتابیں پڑھ لینے سے یا تفاسیر کا مطالعہ کرنے سے حاصل نہیں ہوتی۔ انسان کے پاس جتنا بھی علم ہے وہ وہی ہے جو اللہ تبارک و تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کو سکھایا۔ انسان کتنا بھی ترقی کرلے اس علم کی حد کو پار نہیں کر سکتا کہ اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں ارشاد فرما دیا کہ "ولا یحیطون بشئی من علمہ الا بما شاء" کہ کوئی اس کے علم کا احاطہ نہیںکرسکتا مگر جس کی وہ اجازت دے۔ اب جب صاحبِ قرآن صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کائنات کی پیدائش سے قیامت تک کی جو بات چاہو پوچھ لو تو یہ بات انتہائی غلطی کی ہے کہ یہ تصور بھی کیا جائے کہ فزکس، کیمیا یا دیگر علومِ انسانی میرے آقا صل اللہ علیہ وسلم کی دسترس سے باہر تھے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہاتھی کا بوجھ چوہے پر نہیں لادا جاتا۔ پیمانہ بھی ہے اور حوض بھی لیکن جام ہر کسی کو اس کی استطاعت کے مطابق ہی بھر کے دیا جاتا ہے۔ یہ الگ بات کہ ہم یہ تصور کرنے لگ پڑیں کہ ہمارا جام ہی سمندر ہے۔ بدقسمتی سے یہی بات اس دھاگہ پر ہو رہی ہے۔ مہوش بہنا نے ایک اور پوسٹ میں ظاہر پرستی کی بات کی تھی۔ کم و بیش وہی معاملہ یہاںدرپیش ہے۔
اب جہاں تک زمین و آسمان کی گردش کا تعلق ہے تو اگر میرا حافظہ غلطی پر نہیں تو قرآن تو کہتا ہے کہ یہ سب حرکت پذیر ہیں۔ (فاروق بھائی شاید درست آیات کی طرف نشاندہی کر سکیں)۔ زمین متحرک بھی ہے اور ساکن بھی ۔ ساکن ان اجسام کے لئے جو اس پر قیام پذیر ہیں اور متحرک ان کے لئے جو اس کی کشش ثقل سے باہر ہیں۔ اللہ تعالٰی نے اس زمین میںلنگر ڈالے تاکہ یہ اپنے مقام سے سرک نہ جائے اور ایک مخصوص مدار میں ایک مخصوص ترتیب سے ساتھ حرکت کرتی رہے۔ سورج بھی کہکشاں کے لاتعداد ستاروںکے ساتھ متحرک ہے۔ چاند بیک وقت زمین اور سورج دونوںکے گرد چکر لگا رہا ہے۔ یہ سب کچھ قرآن سے ثابت ہے۔ صرف دیدہ بینا کہ ضرورت ہوتی ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ جب تک کسی شے کے متعلق علم نہ ہو تب تک اس کی طرف خیال نہیں جاسکتا۔ مثال کے طور پرانیسویں صدی کے کسی شخص کو انٹر نیٹ کی بابت خیال آ ہی نہیںسکتا تھا کیونکہ اس وقت تک اس کا اور جن اسباب نے اسے ممکن بنایا ان کے متعلق علم ہی موجود نہ تھا۔ اسی طرح مفسرین نے اپنے اپنے وقت کے مطابق اور اپنے اپنے علم کے مطابق تفاسیر لکھیں اور قرآن کے معارف بیان کئے۔ یہاں یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ اولین میں ایسے لوگ موجود نہ تھے جنہیں ان تمام باتوں کا ادراک نہ تھا بلکہ اولین میں ایسی ہستیاں موجود تھیں جو اپنی بصیرتِ نوری سے ان تمام معاملات کو جانتی تھیں جیسا کہ حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ تمام علوم قرآن میں جمع ہیں لیکن لوگوں کے فہم ان کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔<br>
جب اللہ کا کوئی بندہ اس کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں درجہ کمال پر پہنچ جاتا ہے تو اسے ان تمام چیزوںپر آگاہ و آشنا کیا جاتا ہے اور دربارِ رسالت سے انہیں قرآن کے فہم کا فیض عطا ہوتا ہے۔ یہ علم نہ کسی کتاب سے ملتا ہے اور نہ کسی تفسیر سے۔ ان کا حصول صرف اور صرف دربارِ رسالت صل اللہ علیہ وسلم سے ہی ممکن ہے۔ یہ وہ مقام ہوتا ہے جس کے متعلق ارشادِ ربانی ہے کہ میںاپنے بندہ کا ہاتھ بن جاتا ہوں، اس کے کان بن جاتا ہوںاس کی آنکھ بن جاتا ہوں۔ اب کچھ لوگ یہ کہیں گے کہ پھر وہ لوگ یہ سب کچھ بتا کیوں نہیںدیتے۔ تو اس کی مثال آپ یوں سمجھ لیجئے کہ اگر آپ نے ایک فلم دیکھی جس میں خوب ماردھاڑ ہو اور ولن لوگوںکے کشتوں کے پشتے لگا رہا ہو لیکن فلم کی تکمیل پر آپ کو علم ہوا کہ آخر میں فتححق کی ہوئی تو دوسری بار وہی فلم دیکھتے وقت فلم میں کیا جانے والا ظلم آپ کو بے چین نہیں کرے گا کیونکہ آپ جانتے ہیںکہ آخر میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یہی حال ان لوگوںکا ہوتا ہے جنہیںاللہ اپنے علم میں سے کچھ حصہ بصیرت کا عطا فرما دیتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ جب اللہ ہر چیز کی نگہبانی کر رہا ہے اور اس کائنات کی ہر چیز ہر عمل اس کے اذن سے ہے تو انہیںصرف ایک فکر ہوتی ہے کہ اللہ راضی ہو جائے۔ باقی تمام باتیں ان کے لئے غیر اہم ہو جاتی ہیں۔
جہاںتک امام احمد رضا خان صاحب کی تفسیر کا تعلق ہے، ان کی تفسیر یقیناًَ خلوصِ دل پر اور انتہائی نیک نیتی پر مبنی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے اختلافِ علمی نہیں کیا جاسکتایا یہ کہ وہ حرفِ آخر ہے۔ ہاںجو اصحاب ان سے نسبت رکھنے والے ہیں ان کو ایسا سمجھنا لازم ہےکیونکہ طالب علم کو استاد سے علم سیکھنے کے لئے لازم ہے کہ وہ استاد کے علم کی کاملیت پر یقین کرے۔ البتہ بعد از تحصیلِ علم اگر وہ استاد کی کسی بات سے اختلاف کرتا ہے اور اسے ثابت بھی کرتا ہے تو اس کا وہ علم بھی اس کے استاد کا علم کہلائے گا کیونکہ اس کا علم اس کے استاد کے علم کا ہی ایک جزو ہوتا ہے۔
اس لئے برائے مہربانی اس ساری بات کو ایک علمی مباحثہ کی صورت میں لیں۔ امام احمد رضا خان صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے ایک بات کی، آج آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ بات غلط ہے تو آپ کی امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے عقیدت کا یہی تقاضہ ہے کہ آپ یہ کہیںکہ یہ بات غلط ہے کیونکہ یہ قرآن کے بھی خلاف ہے اور ہمارے مشاہدہ کے بھی۔ اور ایسا کر کے آپ امام صاحب کے مرتبہ علمی میں کمی نہیں کررہے بلکہ ان کے کام کو آگے بڑھا رہے ہیں کیونکہ اگر امام احمد رضا خان صاحب حیاتِ ظاہری میں ہوتے تو وہ بھی یہی کرتے اور نسبت تو یہی ہے کہ وہ کام کیا جائے جو مرشد کرے اور کرنا پسند کرے۔
اللہ ہم سب کو سیدھا راستہ چلائے۔ آمین۔
اللہ سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔۔۔ اور بجائے اعلی حضرات کی پوجا کے اس آسان مذہب کو اس کی عین روح کے مطابق سمجھنے اور عمل کرنے کی طاقت عطا فرمائے اور اپنا فضل شامل حال رکھے۔ آمین
اب جہاں تک زمین و آسمان کی گردش کا تعلق ہے تو اگر میرا حافظہ غلطی پر نہیں تو قرآن تو کہتا ہے کہ یہ سب حرکت پذیر ہیں۔ (فاروق بھائی شاید درست آیات کی طرف نشاندہی کر سکیں)۔ زمین متحرک بھی ہے اور ساکن بھی ۔ ساکن ان اجسام کے لئے جو اس پر قیام پذیر ہیں اور متحرک ان کے لئے جو اس کی کشش ثقل سے باہر ہیں۔ اللہ تعالٰی نے اس زمین میںلنگر ڈالے تاکہ یہ اپنے مقام سے سرک نہ جائے اور ایک مخصوص مدار میں ایک مخصوص ترتیب سے ساتھ حرکت کرتی رہے۔ سورج بھی کہکشاں کے لاتعداد ستاروںکے ساتھ متحرک ہے۔ چاند بیک وقت زمین اور سورج دونوںکے گرد چکر لگا رہا ہے۔ یہ سب کچھ قرآن سے ثابت ہے۔ صرف دیدہ بینا کہ ضرورت ہوتی ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ جب تک کسی شے کے متعلق علم نہ ہو تب تک اس کی طرف خیال نہیں جاسکتا۔ مثال کے طور پرانیسویں صدی کے کسی شخص کو انٹر نیٹ کی بابت خیال آ ہی نہیںسکتا تھا کیونکہ اس وقت تک اس کا اور جن اسباب نے اسے ممکن بنایا ان کے متعلق علم ہی موجود نہ تھا۔ اسی طرح مفسرین نے اپنے اپنے وقت کے مطابق اور اپنے اپنے علم کے مطابق تفاسیر لکھیں اور قرآن کے معارف بیان کئے۔
میں انتہائی ادب کے ساتھ اس سلسلے پر لکھوں گا چونکہ معماملہ نازک بھی ہے اور سائنسی بنیاد سے بھی تعلق رکھتاہےاور ہمارے لیے ایک دوسرے پر اعتماد کا بھی متقاضی ہے انشااللہ
یہاں سوال یہ تھا کہ علمی و عقلی حساب کتاب سے یہ بات ثابت کی جائے کے زمین ساکن نہیں ہے ۔ لیکن جواب ملے وہ جو ان حضرات کے اپنے اندازے ہے۔
جناب محسن صاحب فرماتے ہے کہ مولوی حضرات گز گز بھر کپڑا سروں پر باندھ لیتے ہے اور (شاید ان کے خیال میں ) کوئی کام کاج نہیں کرتے۔ یعنی سنت رسول صلی اللہ علیک وسلم کا سرے سے علم ہی نہیں تو زمین کی حرکت کے بارے میں کیا جواب دے گے۔
جناب شمشاد صاحب کی ماشاء اللہ عزوجل 38 ہزار پوسٹس ہوگئی لیکن لا حاصل ۔ یا دلائل پیش کر دے جو ہم مان لے یا ہماری بات مان لے یا پھر اپنی ضد پر اڑے رہے ۔ ہم آپ کی زاتیات پر اثر انداز نہیں ہونگے۔
اور جناب خرم صاحب سے بھی حد درجہ گزارش ہے کہ "سرکار پہلے یہ بات تو ثابت کریں نا کہ زمین حرکت کررہی ہے اُس کے بعد یہ فیصلہ کیجئے گا کہ ہمارے امام ، احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے جو سو سے زائد دلائل دیے وہ سب (بقول آپ لوگوں کے) غلط ہے " ۔