! زندگی کی پیدا ئش: خدا کی تخلیق یا ارتقا؟ !

ظفری

لائبریرین
اپنی مصروفیات کی وجہ سے یہ اہم دھاگہ دیکھ نہیں سکا ۔ دوستوں نے بہت اچھی معلومات اور اپنے نظریات شئیر کیئے ۔ اس موضوع کے حوالے سے دو باتیں پیش کرنے کی جسارت کروں گا ۔

سب سے پہلے اس وقت ہمارے ہاں سائنسی علوم سے دلچسپی رکھنے والوں کے ذہن پر نظریہ ارتقاء کا غیر معمولی غلبہ ہے ۔ وہ اس کے خلاف کسی رائے یا منطق کو اپنے ذہن میں جگہ دینے کے لیئے تیار نہیں ہیں ۔ جو رائے ، نظریہ یا منطق اس کے خلاف جائے گی وہ اس کو نظرانداز کرکے تمسخر ہی اڑائیں گے ۔ یا یوں لکھ لیں کہ نظریہ ارتقاء کیساتھ ، سائنسی ذہن رکھنے والوں کا ایک تعصب وابستہ ہو چکا ہوا ہے ۔ یہ نظریہ جب پیش کیا گیا تو اس وقت دنیا میں ایک عمومی تبدیلی کی فضا تھی جس میں یہ کوشش کی جا رہی تھی کہ زندگی کو اتفاقات سے آتا ہوا دکھا دیا جائے ۔ نظریہ ارتقاء بھی اسی فضا سے وجود پذیر ہوا ۔ اور ہھر اس کے بعد اس کا اطلاق لوگوں کی سماجیات ، مذہب ، تاریخ پر کر دیا ۔ اس کے نتیجے میں اب یہ سائنسی حقیقت سے آگے نکل کر اب ایک عقیدہ بن چکا ہے ۔ ورنہ ہر آدمی جو سائنس سے دلچسپی رکھتا ہے ۔ اور جس نے نظریہ ارتقاء کو پڑھا ہے وہ جانتا ہے کہ یہ میہز نظریہ ہے ۔ آپ دیکھیں کہ اس کے حق میں ابھی تک کسی قسم کے شواہد وقوع پذیر نہیں ہوئے ۔ یعنی Fossils کےریکارڈ میں کوئی ایسی چیز نہیں ملی ۔ اور جو چیزیں سامنے آئیں وہ سب گھڑا ہوا جھوٹ ثابت ہوئیں ۔ نظریہ ارتقاء کو تھوڑا باریکی سے پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ اس کی حیثیت اب سائنس فکشن سے زیادہ نہیں رہ گئی ہے ۔ بلکہ اس کے خلاف بہت شواہد سامنے پیش کیئے جاچکے ہیں ۔

اس نظریہ کو اللہ کا قانون ، ایک ایک کرکے رد کرتا چلا جاتا ہے ۔ کیونکہ ایک تعصب موجود ہے اس وجہ سے لوگ اس کو سننے کے لیئے تیار نہیں ہوتے ۔ لہذا اگر کسی سائنسی محفل میں آپ اس کے خلاف بات کریں گے تو آپ کو اس کےخلاف ردعمل نظر آئے گا ۔ لیکن ان سائنسدانوں سے پوچھنا چاہیئے کہ وہ کیا شواہد ہیں کہ جس کے حق میں یہ تصور پیش کیا ہے گیا ۔ بڑی سادہ سی بات ہے کہ اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ تخلیقات میں مشاہبیت موجود ہے ۔ مشاہبیت سے آپ نے ایک قیاس کیا ۔ اس قیاس کے حق میں بھی کوئی چیز وقوع پذیر ہونی چاہیئے ۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ ارتقاء کا ایک عمل ہزاروں سال میں ، یا لاکھوں سال میں ہوا ہے ۔ تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہر چیز کامل صورت میں تو موجود ہو مگر درمیان کی صورت میں کہیں نہیں پائی جاتی ہو ۔ چلیئے آپ یہ کہتے ہیں کہ survival of the fittest کے اصول پر اسکو ختم ہو جانا ہے اور جب یہ ختم ہوگی تو آخر دنیا کے اندر کہیں نہ کہیں Fossils میں تو یہ ریکارڈ میں آنا چاہیئے ۔ اب تک جتنے اس طرح کے قصےتراشے گئے ہیں ۔ وہ سب افسانے ثابت ہوئے ۔

دوسری چیز یہ ہے کہ ابراہیمی مذاہب میں کیا بات کہی گئی ہے ۔ یہی کہ اس دنیا میں انسان آدم اور حوا کی اولاد ہے ۔ آدم و حوا کیسے وجود میں آئے تھے ۔ قرآن اس بارے میں جو بات کہتا ہے کہ میں جاننا چاہوں‌گا کہ سائنس اس بارے میں کیا اعتراض رکھتا ہے ۔ قرآن مجید کے مطابق اس وقت تخلیق کیا عمل ہے ۔ وہ یہ ہے کہ اس متی کے اندر سے غذائیت کی جو چیزیں پیدا ہوتیں ہیں وہ آپ کھاتے ہیں ۔ اور پھر انہی کے اجزاء کے اندر سے ایک ' قطرہِ آب " آپ کے وجود کے اندر پیدا ہوتا ہے ۔ ان دونوں کے ملاپ سے ماں کے پیٹ میں ایک پراسس شروع ہوتا ہے ۔ یہ پراسس 9 سے 10 مہینے لیتا ہے ۔ اور پھر یہ پراسس مکمل ہوجانے کے بعد بچے کی پیدائش ہوجاتی ہے ۔ پھر بچہ بھی اس کے بعد کئی مراحل سے گذرتا ہے ۔ یعنی وہ بچہ ہوتا ہے ۔ پھر بچپن اور لڑکپن کے مراحل آتے ہیں ۔ پھر ا سکا شعور بیدار ہوتا ہے ۔ اس کی جنس کی جبلت بیدار ہوتی ہے ۔ پھر وہ شباب کی عمر کو پہنچتا ہے ۔ یہ تو ایک ارتقائی عمل ہے جس کو آپ اگر ابتداء سے شروع کریں تو یہ کوئی دس سے پندرہ سال میں مکلمل ہوتا ہے ۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ بلکل یہی عمل جو اس وقت جاری ہے یہ ماں کے پیٹ کے بجائے زمین کے پیٹ میں ہوا ہے ۔ یعنی قرآن نے بیان کیا ہے کہ " تینل لازم " یعنی چپچیپاتے ہوئے گارھے سے اس کی ابتدا ء ہوئی ہے ۔ یہاں جو نو ، دس مہینے میں یہ عمل مکمل ہوتا ہے ۔ پھر دوسرا مرحلہ سولہ ، سترہ سال میں مکمل ہوتا ہے ۔ ممکن ہے کہ یہ ہزاروں سال میں مکمل ہوا ہو ۔ یعنی یہ عمل پہلے ہزاروں سال میں اس طرح پراسس ہوا ۔ اور اب یہی عمل نو ، دس مہینوں میں مکمل ہوجاتا ہے ۔ تو یہ کیوں سائنٹفک نہیں ہے ۔ اس کی کیا وجہ ہے ۔ ؟
 

زیک

مسافر
ہر آدمی جو سائنس سے دلچسپی رکھتا ہے ۔ اور جس نے نظریہ ارتقاء کو پڑھا ہے وہ جانتا ہے کہ یہ میہز نظریہ ہے ۔ آپ دیکھیں کہ اس کے حق میں ابھی تک کسی قسم کے شواہد وقوع پذیر نہیں ہوئے ۔ یعنی Fossils کےریکارڈ میں کوئی ایسی چیز نہیں ملی ۔ اور جو چیزیں سامنے آئیں وہ سب گھڑا ہوا جھوٹ ثابت ہوئیں ۔ نظریہ ارتقاء کو تھوڑا باریکی سے پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ اس کی حیثیت اب سائنس فکشن سے زیادہ نہیں رہ گئی ہے ۔ بلکہ اس کے خلاف بہت شواہد سامنے پیش کیئے جاچکے ہیں ۔

ٹاک اوریجنز اور پینڈا کا انگوٹھا پڑھیں پھر بات کریں گے۔
 

ابو کاشان

محفلین
دوسری چیز یہ ہے کہ ابراہیمی مذاہب میں کیا بات کہی گئی ہے ۔ یہی کہ اس دنیا میں انسان آدم اور حوا کی اولاد ہے ۔ آدم و حوا کیسے وجود میں آئے تھے ۔ قرآن اس بارے میں جو بات کہتا ہے کہ میں جاننا چاہوں‌گا کہ سائنس اس بارے میں کیا اعتراض رکھتا ہے ۔ قرآن مجید کے مطابق اس وقت تخلیق کیا عمل ہے ۔ وہ یہ ہے کہ اس متی کے اندر سے غذائیت کی جو چیزیں پیدا ہوتیں ہیں وہ آپ کھاتے ہیں ۔ اور پھر انہی کے اجزاء کے اندر سے ایک ' قطرہِ آب " آپ کے وجود کے اندر پیدا ہوتا ہے ۔ ان دونوں کے ملاپ سے ماں کے پیٹ میں ایک پراسس شروع ہوتا ہے ۔ یہ پراسس 9 سے 10 مہینے لیتا ہے ۔ اور پھر یہ پراسس مکمل ہوجانے کے بعد بچے کی پیدائش ہوجاتی ہے ۔ پھر بچہ بھی اس کے بعد کئی مراحل سے گذرتا ہے ۔ یعنی وہ بچہ ہوتا ہے ۔ پھر بچپن اور لڑکپن کے مراحل آتے ہیں ۔ پھر ا سکا شعور بیدار ہوتا ہے ۔ اس کی جنس کی جبلت بیدار ہوتی ہے ۔ پھر وہ شباب کی عمر کو پہنچتا ہے ۔ یہ تو ایک ارتقائی عمل ہے جس کو آپ اگر ابتداء سے شروع کریں تو یہ کوئی دس سے پندرہ سال میں مکلمل ہوتا ہے ۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ بلکل یہی عمل جو اس وقت جاری ہے یہ ماں کے پیٹ کے بجائے زمین کے پیٹ میں ہوا ہے ۔ یعنی قرآن نے بیان کیا ہے کہ " تینل لازم " یعنی چپچیپاتے ہوئے گارھے سے اس کی ابتدا ء ہوئی ہے ۔ یہاں جو نو ، دس مہینے میں یہ عمل مکمل ہوتا ہے ۔ پھر دوسرا مرحلہ سولہ ، سترہ سال میں مکمل ہوتا ہے ۔ ممکن ہے کہ یہ ہزاروں سال میں مکمل ہوا ہو ۔ یعنی یہ عمل پہلے ہزاروں سال میں اس طرح پراسس ہوا ۔ اور اب یہی عمل نو ، دس مہینوں میں مکمل ہوجاتا ہے ۔ تو یہ کیوں سائنٹفک نہیں ہے ۔ اس کی کیا وجہ ہے ۔ ؟

یہی بات میں غامدی صاحب کے حوالے سے یہاں پوسٹ 11 میں کہہ چکا ہوں۔ آپ کے اور زیادہ وضاحت سے پیش کرنے کا شکریہ۔
 

طالوت

محفلین
ان کا مطلب تو وہ خود ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ باقی موضوع کا عنوان اگر کھلم کھلا اہانت آمیز نہیں تو میں اسے کیوں بدلوں؟

ویسے تو اس کا جواب صرف مسکراہٹ ہی ہو سکتا ہے لیکن پھر سوچا آپ اس سے جانے کیا سمجھیں تو ذرا وضاحت ہی کر دوں ۔۔۔
اہانت کی بات تو شاید میں نہیں کی تھی اور نہ ہی حروف کے حوالے سے نشاندہی کی تھی ۔۔۔ اپنی بات بڑی وضاحت کے ساتھ میں نے پیش کر دی تھی جس کا جو جواب آپ نے دیا ہے وہ کسی صورت میرے سوال سے میل نہیں کھاتا ۔۔۔ شاید آپ اسے کوئی انا کا مسئلہ سمجھتے ہوں ۔۔۔ برحال موضوع عمدہ ہے انشاءاللہ اچھی گفتگو رہے گی۔۔۔
وسلام
 

طالوت

محفلین
ڈارون کا نظریہ ہمارے ہاں بعض اوقات اس لیئے پیچیدگی پیدا کرتا ہے کہ ہم فرض کرتے ہیں کہ ڈارون ایک ملحد تھا ، خدا کو نہیں مانتا تھا حالانکہ ڈارون کی سوانح عمری پڑھئیے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ڈارون خدا کا قائل تھا ۔۔۔ جب اس نے اپنے آبائی فن علم طب کی تعلیم مکمل کر لی ، ڈاکٹر بن گیا تو یکایک کایا پلٹ گئی ۔۔۔ دنیا سے نفور ہو گیا اور خدا کی طرف مائل ۔۔۔ چنانچہ کیمبرج یونیورسٹی میں اس نے عیسائی مزہب کی تعلیم حاصل کی جہاں طلبہ کو تقابل ادیان کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔۔۔ یہاں ڈارون نے اسلام کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیئے عربی زبان بھی پڑھی ۔۔۔ اس کے خطوط کا جو مجموعہ شائع ہوا ہے اس میں کئی خط اس نے اپنے عربی استاد کے نام لکھے ہیں اور بےحد ادب و احترام سے اس کا نام لیا ہے ۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس زمانے میں کیمبرج یونیورسٹی میں عربی نصاب کی جو کتابیں پڑھائی جاتیں تھیں ان میں یا تو "اخوان الصفا" کے اقتباسات ہوں گے یا "ابن سکسکویہ" کی "الفوزالاصغر" کے انتخابات ۔۔۔
ان دونوں میں ارتقاء کا نظریہ بیان کیا گیا ہے اور آپ کو معلوم کر کے حیرت ہو گی کہ ان مسلمان مولفووں کی زندگی میں کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا اور کبھی انھیں کافر قرار نہیں دیا ۔۔۔ اخوان الصفا اور ابن سکسکویہ کی "الفوزالاصغر" تیسری چوتھی صدی ہجری کی کتابیں ہیں ، ان میں لکھا ہے کہ خدا پہلے مادے کو پیدا کرتا ہے اور اس مادے کو ترقی عطا کرتا ہے لہذا اولا وہ مادہ غبار یا دھوئیں کی صورت اختیار کرتا ہے ۔۔۔ جمادات رقی کرتے ہوئے مختلف قسم کے پتھر بنتے ہیں اور بلاآخر وہ مرجان کی صورت اختیار کر لیتے ہیں جو ہوتے تو پتھر ہیں لیکن ان میں درخت کی سی شاخیں ہوتی ہیں پھر جمادات کے بعد نباتات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے درخت ترقی کرتے جاتے ہیں اور سب سے آخری مرحلے میں ایسا درخت ملتا ہے جو جانور کی خصوصیات سے بہت قریب ہے ، یہ ہے کجھور کا درخت اور درختوں کے بالمقابل کجھور کے درخت میں نر اور مادہ الگ الگ ہوتے ہیں اور درختوں کے بالقابل جن کی ساری شاخیں بھی کاٹ دیں تو درخت نہیں مرتا کجھور کا سر کاٹ دیں تو درخت مر جاتا ہے ۔۔۔ اسلیئے کجھور کے درخت کو اعلٰی ترین پودے اور ادنٰی ترین حیوان دونوں سے مشابہت ہے ، پھر ادنٰی ترین قسم کا حیوان پیدا ہوتا ہے وہ ترقی کرتے کرتے کیا بنتا ہے ، ابن مسکویہ بیان کرتا ہے اور "اخوان الصفا" میں بھی وہی بیان کیا گیا ہے کہ وہ بندر کی شکل اختیار کرتا ہے ، (یہ ڈارون کا بیان نہیں ہے یہ مسلمان حکماء کا بیان ہے) پھر اس کے بعد ترقی کرتا ہے تو ادنٰی قسم کا انسان بنتا ہے ۔۔۔ وحشی انسان ترقی کرتے کرتے اعلٰی ترین انسان بنتا ہےیہ بشر ولی اور پیغمبر ہوتا ہے پھر اس سے بھی ترقی کر کے فرشتہ بنتا ہے پھر فرشتوں کے بعد ذات باری تعالٰی خدا کی ہی ذات ہوتی ہے ، ہر چیز خدا سے ہی شروع ہو کر خدا ہی کی طرف جاتی ہے ۔۔۔۔
"والیہ المرجع و الماب" یہ ہے کہ ہمارے حکماء کا بیان ، جب یہ چیزیں مسلمان حکماء نے بیان کیں اور ان پر مسلمان فقہا نے ان کی زندگی میں کبھی کفر کا فتوٰی نہیں دیا تو اس کو اسلام کے خلاف قرار دینا ایک غور طلب بات ہے ۔۔۔ قران میں آدم کی پیدائیش کے متعلق یہ ضرور بیان کیا گیا ہے کہ اللہ نے انھیں مٹی سے پیدا کیا ۔۔۔ ہمارا تصور یہ ہے اللہ ایک کمہار کی طرح مٹٰ کو لیتا ہے اور اس کی مورت بناتا ہے پھر اس کے اندر روح پھونکتا ہے ۔۔ ممکن ہے ایسا ہوا ہو، میں انکار نہیں کر سکتا لیکن آپ ان آیتوں ( 67:40:11:35 ، 5:22:37:18 ) کو کریں گے جن میں بار بار یہ کہا گیا ہے کہ اللہ نے انسان کو "مٹی سے پھر نطفے سے پیدا کیا ہے " ظاہر ہے کہ مٹی سے کبھی نطفہ پیدا نہیں ہوتا ، حیوان اور انسان سے نطفہ نکلتا ہے اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اللہ نے سارے درمیانی مدارج کی تفصیل حذف کر دیا اور کہا کہ مٹی تمھاری اصل ہے اور تمھاری پیدائیش کا آخری وسیلہ تمھارے باپ کا نطفہ ہے جو تمھاری ماں کے رحم میں ہوتا ہے اور اس طرح تم پیدا ہو جاتے ہو، ایک آیت (14:71) کو لیجیئے "خلقکم اطورا" (خدا نے انسان کو طور بہ طور پیدا کیا) "طور" ہی وہ لفظ ہے جس سے تطور (ارتقا) کو لفظ بنایا گیا ہے ، اس کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ خدا نے انسان کو اولا جمادات کی شکل میں پیدا فرمایا پھر ہ جمادات ترقی کرتے ہوئے نباتات بنتے ہیں پھر حیوان بنتے ہیں ۔۔ غرض اس میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا ، شاید آپ کی واقفیت کے لیئے ایک چیز عرض کر دوں کہ آپ کی یونیورسٹی لائبریری (اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور) میں ایک چھوٹا سا مضمون عربی زبان میں آپ کو ملے گا "خلق الکائنات و تطور الانواع حسب آرا المفکرین المسلمین" سے آپ دیکھ سکتے ہین ، جس میں آپ کو یہ ساری تفصیلیں ملیں گی ، اس میں بہ کثرت مسلمان عالموں اور صوفیوں کے بیانات کو یکجا کر دیا گیا ہے ۔۔۔


خطبات بہاولپور از ڈاکٹر محمد حمید اللہ
 

arifkarim

معطل
جی ہاں! ڈارون ایک خدا کا قائل تھا، یہ تو آجکل کے دہریہ سائنسدان اسکی تھیوری کو غلط رنگ میں استعمال کرتے ہیں!
 

قیصرانی

لائبریرین
ویسے تو اس کا جواب صرف مسکراہٹ ہی ہو سکتا ہے لیکن پھر سوچا آپ اس سے جانے کیا سمجھیں تو ذرا وضاحت ہی کر دوں ۔۔۔
اہانت کی بات تو شاید میں نہیں کی تھی اور نہ ہی حروف کے حوالے سے نشاندہی کی تھی ۔۔۔ اپنی بات بڑی وضاحت کے ساتھ میں نے پیش کر دی تھی جس کا جو جواب آپ نے دیا ہے وہ کسی صورت میرے سوال سے میل نہیں کھاتا ۔۔۔ شاید آپ اسے کوئی انا کا مسئلہ سمجھتے ہوں ۔۔۔ برحال موضوع عمدہ ہے انشاءاللہ اچھی گفتگو رہے گی۔۔۔
وسلام

طالوت سے پوچھے گئے سوال میں عارف کریم کا جواب اور عارف کریم سے کی گئی بات کا جواب طالوت سے؟ کیا آپ ایک ہی رکن ہیں؟ کیا یہ پوچھنا انا کا مسئلہ بن جائے گا؟ :hatoff:
 

طالوت

محفلین
طالوت سے پوچھے گئے سوال میں عارف کریم کا جواب اور عارف کریم سے کی گئی بات کا جواب طالوت سے؟ کیا آپ ایک ہی رکن ہیں؟ کیا یہ پوچھنا انا کا مسئلہ بن جائے گا؟ :hatoff:
اب اردو کی گھمن پھیریاں نہ دیں ۔۔۔ تھوڑی سی اردو تو ہمیں بھی آتی ہے ۔۔۔ ہم سے آپ بل واسطہ اور بلا واسطہ گفتگو کر رہے تھے ۔۔۔ اور یہ آخری جملہ ؟ ؟‌ ؟ :rolleyes:
خیر یہ موضوع اس بحث کے لیئے نہیں ۔۔۔۔۔۔ وسلام
 

ادریس آزاد

محفلین
نظریہ ارتقاء عین اسلامی نظریہ ہے۔جید علمائے اسلام نے ہی اسے پیش کیا ہے۔کوئی کافر تصور بھی نہیں کرسکتا ایسے کسی نظریے کا جیسا نظریہ انسانی پیدائش کے متعلق مسلمان فلاسفہ اور علما اور صوفیا نے پیش کیا ہے۔علامہ اقبال جنوبی ایشیا میں اس کے سب سے بڑے ماننے والے تھے۔ مولانا روم نے کتنے ہی شعر کہے۔ابن مسکویہ جن کا نام اوپر میرے بھائی نے غلط لکھا ہے،اس کے اولین فہم حاصل کرنے والوں‌میں سے تھے۔ قران کریم میں بے شمار سے زیادہ ایات محض نظریہ ارتقاء کی وضاحت میں ائی ہیں۔
ثم خلقکم ثم صورناکم ثم قلنا للملئکۃ السجدوا۔۔۔ہم نے تم سب (کم جمع مذکر کا صیغہ ہے)کو پیدا کیا پھر صورت عطا کی پھر ہم ملائکہ سے کہا کہ سجدہ کرو۔
علامہ اقبال نے اس آیت کے بارے میں اپنے خطبات میں لکھا ہے کہ ارتقاء کے حق میں موجود اس آیت کا رد ممکن نہیں۔اورمیرے بھائی آج کل تو ہمارے سکول کے نائنتھ ٹینتھ کے بچوں کو وہ آیات قرانی یاد ہیں، جو ارتقاء پر ہیں۔ ذرا نائنتھ کی بیالوجی میں موجود وہ آیہ قرانی ملاحظہ کیجیے ناں۔جس میں ارشاد ہے کہ زمین پر مخلوقات کس طرح پیدا کی گئیں۔کچھ پیٹ کے بل رینگنے والے ہیں، کچھ چار پاؤں پر چلنے والے ہیں ، کچھ پروں کے ذریعے ہوا میں‌اڑنے والے ہیں، کچھ دو پاؤں‌پر چلنے والے ہیں۔
اور یہ بھی یاد رکھیے گا کہ اس مقام پر جس پر انسان اب ہے ،ارتقاء رک نہیں گیا، انسان ایک تھری ڈائمنشنل تصور کے ساتھ پیدا ہوا ہے، ایکس،وائی، اور زیڈ محور میں اشیاء کو دیکھنے والی مخلوق۔ارتقاءمیں ثابت ہے کہ جانور ٹو ڈائمنشنل ہے اور حشرات ون ڈائمنشنل(اس بات کی آپ مزید وضاحت چاہیں تو کر سکتا ہوں) ارتقاء یہ ثابت کرتا ہے کہ مخلوق کی ڈائمنشنل اپروچ میں ارتقاء واقع ہوتا آیا ہے۔چنانچہ اب انسان کے ارتقاءکا اگلہ مرحلہ یہ کہ اس کے شعور میں ارتقاء ہوگا اور یہ الوہی شعور کے مرحلے میں داخل ہوگا۔
 

ابن جمال

محفلین
علم جدید کے چیلنج میں بھی اس پر اچھی بحث کی گئی ہے اورڈارون کے نظریہ ارتقائ کو رد کیاگیاہے۔ لیکن علامہ سید سلیمان ندوی نے سیرت النبی کی چوتھی یا پانچویں جلد میں ارتقائ پر بحث کی ہے اورانہین مسلم فلسفیوں کا ذکرکیاہے جیسے ابن مسکویہ اوراخوان الصفاکے رسائل وغیرہ اورشاید اس پر اپنی کوئی بھی رائے پیش نہیں کی ہے۔
یہ توماننا پڑے گاکہ زندگی میں ارتقائ کا عمل جاری ہے۔ بچپن ،جوانی بڑھاپا یہ سب بجائے خود ایک ارتقائی عمل ہیں۔اورڈارون کا پیش کردہ نظریہ اگرثابت شدہ ہوتوبھی اسلام کے مخالف نہیں۔ اصل مسئلہ تب پیداہوتاہے اورمذہب سے ٹکرائو تب ہوتاہے جب لادین اورملحد قسم کے فلسفی اس کو انکار خدا کیلئے ایک دلیل بناتے ہیں۔ کہ انسان ارتقائ کی پیداوارہے اس میں خدا کاکوئی عمل دخل نہیں۔
 

طالوت

محفلین
مگر کسی درست چیز کے غلط استعمال سے کیا درست کو فوت کر دینا چاہیے ؟
وسلام
 

عسکری

معطل
پھر کون ڈارون کا متوالہ اٹھ آیا یار یہ قصے تو میرے کمرے میں ختم نہیں رہے پلییز سوچنے دو مجھے کون صحیص ہے
 

کعنان

محفلین
ھمم، یعنی قرآن نظریہ ارتقا کی تصدیق کرتا ہے۔
جی، سیل کی تقسیم پر نر و مادہ وجود میں‌ آسکتے ہیں۔ بغیر، مرد کے حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش اسکا زندہ ثبوت ہے۔
حال ہی میں‌ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ افریقہ میں‌ چھپکلیوں کی ایک خاص نسل ہے، جسکی مادہ بغیر کسی نر کے مزید بچے پیدا کر سکتی ہے۔ یعنی مادہ کے پیٹ میں‌انڈے تقسیم ہو کر نر و مادہ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں!
قرآن کریم نے ان تمام علوم کے سمندرکو کس خوبی کیساتھ ایک کوزے میں‌ بند کر دیا:
'' انا اللہ علی کل شئ قدیر ''

السلام علیکم

ٹاپک بہت پرانا ھے سرچ کے دوران نظر سے گزرا اس لئے چھپکلی کی بات پر اضافہ کرنا چاہتا ہوں
جن بھائیوں نے بیالوجی پڑھی ہوئی ھے وہ ان کو یاد آ‌جائے گا اگر غور کریں گے تو۔

"امیبا" ایک ٹیلی سکوپک جرثیمہ ھے
یہ خود دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ھے یا تجربہ کے لئے اس کو کاٹو تو دو امیبا بن جاتے ہیں
اگر ایک امیبا کو دس مرتبہ کاٹو کے تو 11 امیبا بن جائیں گے یعنی جتنے بھی ٹکرے کریں گے اتنے امیبا بنتے جائیں گے
ایسا کیوں ھے ، وہ اس لئے کہ اس کے نیوکلیئس میں ایک ایسا ٹرانپیرنٹ ہوتا ھے کہ جب بھی اس کو کاٹو گے اور جہاں سے بھی کاٹو گے یا امیبا خود ڈیوائڈ ہو گا تو وہ ٹرانسپیرنٹ دوسرے حصے میں بھی چلا جائے گا۔ اور یہ خاصیت صرف امیبا میں ہی ھے اور کسی میں نہیں۔

والسلام
 
ڈارون کا نظریہ ارتقاء بالکل فاسد نظریہ ہے۔ کچھ مسلمان علماء نے بھی اس کو قرآن سے ثابت کرنےکی کوشش کی ہے۔ حالانکیہ یہ سب غلط ہے۔ علامہ اقبال کے کہنے سے یہ بات حق نہیں ہو جاتی ۔ میں انشاء اللہ اس پر کام کر رہاہوں او رجلد ہی آپ کو اس کے بارے میں آگاہ کروں گا۔ فی الحال ہارون یحیٰی صاحب کی اس کتاب کو پڑھ لیجیے۔ جس میں ا س مسئلے پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔

http://www.4shared.com/document/SDaPbzCm/Naqsha_e_Tahleeq.html
 

فرخ منظور

لائبریرین
ڈارون کا نظریہ ارتقاء بالکل فاسد نظریہ ہے۔ کچھ مسلمان علماء نے بھی اس کو قرآن سے ثابت کرنےکی کوشش کی ہے۔ حالانکیہ یہ سب غلط ہے۔ علامہ اقبال کے کہنے سے یہ بات حق نہیں ہو جاتی ۔ میں انشاء اللہ اس پر کام کر رہاہوں او رجلد ہی آپ کو اس کے بارے میں آگاہ کروں گا۔ فی الحال ہارون یحیٰی صاحب کی اس کتاب کو پڑھ لیجیے۔ جس میں ا س مسئلے پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔

http://www.4shared.com/document/SDaPbzCm/Naqsha_e_Tahleeq.html

قبلہ آپ کے کہنے سے بھی ڈارون کا نظریہ غلط نہیں ہو جائے گا۔ جیسے گلیلیو نے کہا تھا کہ یہ لوگ مجھے سزا دیتے رہیں لیکن ان کے سزا دینے سے زمین سورج کے گرد گھومنا بند نہیں کر دے گی۔
آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
 

طالوت

محفلین
بغیر کسی عمدہ دلیل کہ ہر چیز کو رد کر دینا ہمارے یہاں کا شیوا ہے ۔ بہرحال علم انھیں خود رد کر رہا ہے اور معاشرہ بھی ۔
وسلام
 

arifkarim

معطل
ڈارون کا نظریہ بہت متنازع ہے۔ اور یہاں یورپ و امریکہ میں بھی بہت سے حلقے اسکی کھلے دل سے مخالفت کرتے ہیں۔
 
موجودہ انسان کل کے چمپائینزی سے ارتقاء پاکر انسان ہوگئے اور بے چارے کل کے انسان اسی ارتقاء کے الٹ پھیر میں آج چمپائینزی بنے پھر رہے ہیں۔اور بنیادی امیبا اتنا بے شرم کہ وہیں کے وہیں امیبا رہ کر سائینس اسٹوڈنٹس کی نیند حرام کیے ہوئے ہے۔
 

arifkarim

معطل
جی جیسا کہ ایک امریکی انڈین دانا شخص نے کہا تھا: چمپائنزی ہمارے ماں باپ نہیں، رشتے دار ہیں ۔
یاد رہے کہ انسانی ارتقائی عمل میں بہت سی انسانی مماثلت والی نسلیں ہلاک ہو چکی ہیں، جن میں Neanderthal اور Homo erectus جیسی نسلیں بھی شامل ہیں۔ یوں کوئی بعید نہیں کہ ہم یعنی Homo Sapiens بھی زمانہ قریب میں قدرت کا ساتھ نہ دینے پر ہلاک کر دئے جائیں۔
 
Top