اپنی مصروفیات کی وجہ سے یہ اہم دھاگہ دیکھ نہیں سکا ۔ دوستوں نے بہت اچھی معلومات اور اپنے نظریات شئیر کیئے ۔ اس موضوع کے حوالے سے دو باتیں پیش کرنے کی جسارت کروں گا ۔
سب سے پہلے اس وقت ہمارے ہاں سائنسی علوم سے دلچسپی رکھنے والوں کے ذہن پر نظریہ ارتقاء کا غیر معمولی غلبہ ہے ۔ وہ اس کے خلاف کسی رائے یا منطق کو اپنے ذہن میں جگہ دینے کے لیئے تیار نہیں ہیں ۔ جو رائے ، نظریہ یا منطق اس کے خلاف جائے گی وہ اس کو نظرانداز کرکے تمسخر ہی اڑائیں گے ۔ یا یوں لکھ لیں کہ نظریہ ارتقاء کیساتھ ، سائنسی ذہن رکھنے والوں کا ایک تعصب وابستہ ہو چکا ہوا ہے ۔ یہ نظریہ جب پیش کیا گیا تو اس وقت دنیا میں ایک عمومی تبدیلی کی فضا تھی جس میں یہ کوشش کی جا رہی تھی کہ زندگی کو اتفاقات سے آتا ہوا دکھا دیا جائے ۔ نظریہ ارتقاء بھی اسی فضا سے وجود پذیر ہوا ۔ اور ہھر اس کے بعد اس کا اطلاق لوگوں کی سماجیات ، مذہب ، تاریخ پر کر دیا ۔ اس کے نتیجے میں اب یہ سائنسی حقیقت سے آگے نکل کر اب ایک عقیدہ بن چکا ہے ۔ ورنہ ہر آدمی جو سائنس سے دلچسپی رکھتا ہے ۔ اور جس نے نظریہ ارتقاء کو پڑھا ہے وہ جانتا ہے کہ یہ میہز نظریہ ہے ۔ آپ دیکھیں کہ اس کے حق میں ابھی تک کسی قسم کے شواہد وقوع پذیر نہیں ہوئے ۔ یعنی Fossils کےریکارڈ میں کوئی ایسی چیز نہیں ملی ۔ اور جو چیزیں سامنے آئیں وہ سب گھڑا ہوا جھوٹ ثابت ہوئیں ۔ نظریہ ارتقاء کو تھوڑا باریکی سے پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ اس کی حیثیت اب سائنس فکشن سے زیادہ نہیں رہ گئی ہے ۔ بلکہ اس کے خلاف بہت شواہد سامنے پیش کیئے جاچکے ہیں ۔
اس نظریہ کو اللہ کا قانون ، ایک ایک کرکے رد کرتا چلا جاتا ہے ۔ کیونکہ ایک تعصب موجود ہے اس وجہ سے لوگ اس کو سننے کے لیئے تیار نہیں ہوتے ۔ لہذا اگر کسی سائنسی محفل میں آپ اس کے خلاف بات کریں گے تو آپ کو اس کےخلاف ردعمل نظر آئے گا ۔ لیکن ان سائنسدانوں سے پوچھنا چاہیئے کہ وہ کیا شواہد ہیں کہ جس کے حق میں یہ تصور پیش کیا ہے گیا ۔ بڑی سادہ سی بات ہے کہ اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ تخلیقات میں مشاہبیت موجود ہے ۔ مشاہبیت سے آپ نے ایک قیاس کیا ۔ اس قیاس کے حق میں بھی کوئی چیز وقوع پذیر ہونی چاہیئے ۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ ارتقاء کا ایک عمل ہزاروں سال میں ، یا لاکھوں سال میں ہوا ہے ۔ تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہر چیز کامل صورت میں تو موجود ہو مگر درمیان کی صورت میں کہیں نہیں پائی جاتی ہو ۔ چلیئے آپ یہ کہتے ہیں کہ survival of the fittest کے اصول پر اسکو ختم ہو جانا ہے اور جب یہ ختم ہوگی تو آخر دنیا کے اندر کہیں نہ کہیں Fossils میں تو یہ ریکارڈ میں آنا چاہیئے ۔ اب تک جتنے اس طرح کے قصےتراشے گئے ہیں ۔ وہ سب افسانے ثابت ہوئے ۔
دوسری چیز یہ ہے کہ ابراہیمی مذاہب میں کیا بات کہی گئی ہے ۔ یہی کہ اس دنیا میں انسان آدم اور حوا کی اولاد ہے ۔ آدم و حوا کیسے وجود میں آئے تھے ۔ قرآن اس بارے میں جو بات کہتا ہے کہ میں جاننا چاہوںگا کہ سائنس اس بارے میں کیا اعتراض رکھتا ہے ۔ قرآن مجید کے مطابق اس وقت تخلیق کیا عمل ہے ۔ وہ یہ ہے کہ اس متی کے اندر سے غذائیت کی جو چیزیں پیدا ہوتیں ہیں وہ آپ کھاتے ہیں ۔ اور پھر انہی کے اجزاء کے اندر سے ایک ' قطرہِ آب " آپ کے وجود کے اندر پیدا ہوتا ہے ۔ ان دونوں کے ملاپ سے ماں کے پیٹ میں ایک پراسس شروع ہوتا ہے ۔ یہ پراسس 9 سے 10 مہینے لیتا ہے ۔ اور پھر یہ پراسس مکمل ہوجانے کے بعد بچے کی پیدائش ہوجاتی ہے ۔ پھر بچہ بھی اس کے بعد کئی مراحل سے گذرتا ہے ۔ یعنی وہ بچہ ہوتا ہے ۔ پھر بچپن اور لڑکپن کے مراحل آتے ہیں ۔ پھر ا سکا شعور بیدار ہوتا ہے ۔ اس کی جنس کی جبلت بیدار ہوتی ہے ۔ پھر وہ شباب کی عمر کو پہنچتا ہے ۔ یہ تو ایک ارتقائی عمل ہے جس کو آپ اگر ابتداء سے شروع کریں تو یہ کوئی دس سے پندرہ سال میں مکلمل ہوتا ہے ۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ بلکل یہی عمل جو اس وقت جاری ہے یہ ماں کے پیٹ کے بجائے زمین کے پیٹ میں ہوا ہے ۔ یعنی قرآن نے بیان کیا ہے کہ " تینل لازم " یعنی چپچیپاتے ہوئے گارھے سے اس کی ابتدا ء ہوئی ہے ۔ یہاں جو نو ، دس مہینے میں یہ عمل مکمل ہوتا ہے ۔ پھر دوسرا مرحلہ سولہ ، سترہ سال میں مکمل ہوتا ہے ۔ ممکن ہے کہ یہ ہزاروں سال میں مکمل ہوا ہو ۔ یعنی یہ عمل پہلے ہزاروں سال میں اس طرح پراسس ہوا ۔ اور اب یہی عمل نو ، دس مہینوں میں مکمل ہوجاتا ہے ۔ تو یہ کیوں سائنٹفک نہیں ہے ۔ اس کی کیا وجہ ہے ۔ ؟
سب سے پہلے اس وقت ہمارے ہاں سائنسی علوم سے دلچسپی رکھنے والوں کے ذہن پر نظریہ ارتقاء کا غیر معمولی غلبہ ہے ۔ وہ اس کے خلاف کسی رائے یا منطق کو اپنے ذہن میں جگہ دینے کے لیئے تیار نہیں ہیں ۔ جو رائے ، نظریہ یا منطق اس کے خلاف جائے گی وہ اس کو نظرانداز کرکے تمسخر ہی اڑائیں گے ۔ یا یوں لکھ لیں کہ نظریہ ارتقاء کیساتھ ، سائنسی ذہن رکھنے والوں کا ایک تعصب وابستہ ہو چکا ہوا ہے ۔ یہ نظریہ جب پیش کیا گیا تو اس وقت دنیا میں ایک عمومی تبدیلی کی فضا تھی جس میں یہ کوشش کی جا رہی تھی کہ زندگی کو اتفاقات سے آتا ہوا دکھا دیا جائے ۔ نظریہ ارتقاء بھی اسی فضا سے وجود پذیر ہوا ۔ اور ہھر اس کے بعد اس کا اطلاق لوگوں کی سماجیات ، مذہب ، تاریخ پر کر دیا ۔ اس کے نتیجے میں اب یہ سائنسی حقیقت سے آگے نکل کر اب ایک عقیدہ بن چکا ہے ۔ ورنہ ہر آدمی جو سائنس سے دلچسپی رکھتا ہے ۔ اور جس نے نظریہ ارتقاء کو پڑھا ہے وہ جانتا ہے کہ یہ میہز نظریہ ہے ۔ آپ دیکھیں کہ اس کے حق میں ابھی تک کسی قسم کے شواہد وقوع پذیر نہیں ہوئے ۔ یعنی Fossils کےریکارڈ میں کوئی ایسی چیز نہیں ملی ۔ اور جو چیزیں سامنے آئیں وہ سب گھڑا ہوا جھوٹ ثابت ہوئیں ۔ نظریہ ارتقاء کو تھوڑا باریکی سے پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ اس کی حیثیت اب سائنس فکشن سے زیادہ نہیں رہ گئی ہے ۔ بلکہ اس کے خلاف بہت شواہد سامنے پیش کیئے جاچکے ہیں ۔
اس نظریہ کو اللہ کا قانون ، ایک ایک کرکے رد کرتا چلا جاتا ہے ۔ کیونکہ ایک تعصب موجود ہے اس وجہ سے لوگ اس کو سننے کے لیئے تیار نہیں ہوتے ۔ لہذا اگر کسی سائنسی محفل میں آپ اس کے خلاف بات کریں گے تو آپ کو اس کےخلاف ردعمل نظر آئے گا ۔ لیکن ان سائنسدانوں سے پوچھنا چاہیئے کہ وہ کیا شواہد ہیں کہ جس کے حق میں یہ تصور پیش کیا ہے گیا ۔ بڑی سادہ سی بات ہے کہ اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ تخلیقات میں مشاہبیت موجود ہے ۔ مشاہبیت سے آپ نے ایک قیاس کیا ۔ اس قیاس کے حق میں بھی کوئی چیز وقوع پذیر ہونی چاہیئے ۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ ارتقاء کا ایک عمل ہزاروں سال میں ، یا لاکھوں سال میں ہوا ہے ۔ تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہر چیز کامل صورت میں تو موجود ہو مگر درمیان کی صورت میں کہیں نہیں پائی جاتی ہو ۔ چلیئے آپ یہ کہتے ہیں کہ survival of the fittest کے اصول پر اسکو ختم ہو جانا ہے اور جب یہ ختم ہوگی تو آخر دنیا کے اندر کہیں نہ کہیں Fossils میں تو یہ ریکارڈ میں آنا چاہیئے ۔ اب تک جتنے اس طرح کے قصےتراشے گئے ہیں ۔ وہ سب افسانے ثابت ہوئے ۔
دوسری چیز یہ ہے کہ ابراہیمی مذاہب میں کیا بات کہی گئی ہے ۔ یہی کہ اس دنیا میں انسان آدم اور حوا کی اولاد ہے ۔ آدم و حوا کیسے وجود میں آئے تھے ۔ قرآن اس بارے میں جو بات کہتا ہے کہ میں جاننا چاہوںگا کہ سائنس اس بارے میں کیا اعتراض رکھتا ہے ۔ قرآن مجید کے مطابق اس وقت تخلیق کیا عمل ہے ۔ وہ یہ ہے کہ اس متی کے اندر سے غذائیت کی جو چیزیں پیدا ہوتیں ہیں وہ آپ کھاتے ہیں ۔ اور پھر انہی کے اجزاء کے اندر سے ایک ' قطرہِ آب " آپ کے وجود کے اندر پیدا ہوتا ہے ۔ ان دونوں کے ملاپ سے ماں کے پیٹ میں ایک پراسس شروع ہوتا ہے ۔ یہ پراسس 9 سے 10 مہینے لیتا ہے ۔ اور پھر یہ پراسس مکمل ہوجانے کے بعد بچے کی پیدائش ہوجاتی ہے ۔ پھر بچہ بھی اس کے بعد کئی مراحل سے گذرتا ہے ۔ یعنی وہ بچہ ہوتا ہے ۔ پھر بچپن اور لڑکپن کے مراحل آتے ہیں ۔ پھر ا سکا شعور بیدار ہوتا ہے ۔ اس کی جنس کی جبلت بیدار ہوتی ہے ۔ پھر وہ شباب کی عمر کو پہنچتا ہے ۔ یہ تو ایک ارتقائی عمل ہے جس کو آپ اگر ابتداء سے شروع کریں تو یہ کوئی دس سے پندرہ سال میں مکلمل ہوتا ہے ۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ بلکل یہی عمل جو اس وقت جاری ہے یہ ماں کے پیٹ کے بجائے زمین کے پیٹ میں ہوا ہے ۔ یعنی قرآن نے بیان کیا ہے کہ " تینل لازم " یعنی چپچیپاتے ہوئے گارھے سے اس کی ابتدا ء ہوئی ہے ۔ یہاں جو نو ، دس مہینے میں یہ عمل مکمل ہوتا ہے ۔ پھر دوسرا مرحلہ سولہ ، سترہ سال میں مکمل ہوتا ہے ۔ ممکن ہے کہ یہ ہزاروں سال میں مکمل ہوا ہو ۔ یعنی یہ عمل پہلے ہزاروں سال میں اس طرح پراسس ہوا ۔ اور اب یہی عمل نو ، دس مہینوں میں مکمل ہوجاتا ہے ۔ تو یہ کیوں سائنٹفک نہیں ہے ۔ اس کی کیا وجہ ہے ۔ ؟