مدیحہ گیلانی
محفلین
زندگی یُوں تھی کہ جینے کا بہانہ تُو تھا
ہم فقط زیبِ حکایت تھے، فسانہ تُو تھا
ہم نے جس جس کو بھی چاہا ترے ہجراں میں، وہ لوگ
آتے جاتے ہوئے موسم تھے، زمانہ تُو تھا
اب کے کچھ دل ہی نہ مانا کہ پلٹ کر آتے
ورنہ ہم دربدروں کا تو ٹھکانہ تُو تھا
یار و اغیار کے ہاتھوں میں کمانیں تھیں فرازؔ
اور سب دیکھ رہے تھے کہ نشانہ تُو تھا