زندگی

عمر سیف

محفلین
دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے
چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے
نیلام ہو رہا تھا کسی نازنیں کا پیار
قیمت نہیں چکائی گئی اک غریب سے
 

عمر سیف

محفلین
اُمید کے اُفق پر لاکھ آفتاب اُبھرے
لیکن کمی نہ آئی قسمت کی تیرگی میں
ارمان، شوق، حسرت،غم آرزو، مسرت
اتنا طویل قصہ تھوڑی سی زندگی میں
 

عمر سیف

محفلین
بڑا کٹھن ہے راستہ، جو آ سکو تو ساتھ دو
یہ زندگی کا فاصلہ مٹا سکو تو ساتھ دو
بڑے فریب کھاؤ گے، بڑے ستم اٹھاؤ گے
یہ عمر بھر کا ساتھ ہے، نبھا سکو تو ساتھ دو
 

عمر سیف

محفلین
کب کسی سے سوال کرتے ہیں
کب عیاں اپنا حال کرتے ہیں
وار دیتے ہیں زندگی اپنی
لوگ یوں بھی کمال کرتے ہیں
 

عمر سیف

محفلین
ہمارا دل سویرے کا سنہرا جام ہو جائے
چراغوں کی طرح آنکھیں جلیں اور شام ہو جائے
اُجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
 

عمر سیف

محفلین
زندگی کیا کوئی نثار کرے
کس سے دُنیا میں کوئی پیار کرے
اپنا سایہ بھی اپنا دشمن ہے
کون اب کس کا اعتبار کرے
 

عمر سیف

محفلین
شبِ غم کی سحر نہیں ہوگی
ہو بھی تو میرے گھر نہیں ہوگی
زندگی تُو ہی مختصر ہو جا
شبِ غم مختصر نہیں ہوگی
 

تیشہ

محفلین
زندگی‘ تیری عنائت پہ نچھاور کر دی !
پھر بھی رہتا ہے تو بتلا ترا احساں کوئی؟

کوئی پاگل، کوئی وخشی کبھی دیکھا کب تھا
کیسے ہوتا نہ مرے روپ سے حیراں کوئی

جتنی یادیں ہیں تیری،ساتھ لئے پھرتا ہوں
اب میرے رخت میں باقی نہیں ساماں کوئی

:chalo:
 

عمر سیف

محفلین
کُھلی آنکھوں سے دیکھے سارے موسم
بس اب سونے کو بھی جی چاہتا ہے
اُسے پانا بھی اپنی زندگی ہے
اُسے کھونے کو بھی جی چاہتا ہے
 

عمر سیف

محفلین
زندہ ہیں دیکھنے کو مگر مر رہے ہیں ہم
تاریکیوں میں جیسے سفر کر رہے ہیں ہم
کچھ رنگ،واہموں سے کیا تھا جنہیں کشید
اب اپنی زندگی میں انہیں بھر رہے ہیں ہم
 

عمر سیف

محفلین
التجا کا ملال کیا کیجیئے
اُن کے در پر کہیں پڑی ہوگی
موت کہتے ہیں جس کو اے ساغر
زندگی کی کوئی کڑی ہوگی
 
Top