دشمنوں نے مجھ کو سمجھا اپنی اپنی سوچ تک
دوستوں نے اپنے اپنے ظرف تک پایا مجھے
میں تر و تازہ ہوں شاخِ زندگی پر دیکھ لے
حادثوں کی دھوپ تُو نے سُلگایا مجھے
اگر رہنا ہے گلشن میں تو اپنے آشیانے کی
کبھی تخریب بھی ہوگی،کبھی تعمیر بھی ہوگی
یہ ہم جانتے ہیں،زندگی اک خواب ہے افسر
مگر اس خواب کی آخر کوئی تعبیر بھی ہوگی