زہر پیالہ : شفیع عقیل دی پنجابی نظماں اردو ترجمے دے نال

الف نظامی

لائبریرین
لوکیں جَھلّے
میرے دُکھ تے تیریاں خوشیاں
اَکھراں وِچ نہ آوندے
لوکیں جَھلّے کُجھ ناں جانݨ
فیر وی باتاں پاوندے


پاگل لوگ
میرے دکھ اور تیری خوشیاں
لفظوں میں نہیں سما سکتے ، لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتے
اس کے باوجود پاگل لوگ جو کچھ بھی نہیں جانتے
وہ ہماری کہانیاں بنا رہے ہیں
 

الف نظامی

لائبریرین
عمر سفر
عُمر سفر وِچ ناں مِتراں دے
اِنج پئے بُھلدے جاندے
جیویں رُکھوں سُکّے پَتّر
آپے ڈِگدے جاندے


عمر کا سفر
عمر کے سفر میں دوستوں اور پیاروں کے نام
یوں بھولتے جا رہے ہیں
جیسے کسی درخت کے سُوکھے پتے
خود بخود گرتے چلے جاتے ہیں
 

الف نظامی

لائبریرین
اوکڑ ویلا
شہر وی سُنّے ، بَݨ وی سُنّے
دونوَاں توں ڈر آوے
اِک پرچھانواں نال اے میرے
او وی ناں چَھڈّ جاوے


مشکل وقت
شہر بھی سُونے ہیں اور جنگل بھی سُونے ہیں
مجھے ان دونوں سے ڈر آ رہا ہے
ایک میرا سایہ ہی میرے ساتھ باقی رہ گیا ہے
کہیں یہ بھی میرا ساتھ نہ چھوڑ جائے
 

الف نظامی

لائبریرین
کَلّا سفر
کَلیاں جاندے راہ وی تَھکدے
نال کھَڑن پرچھَاویں
تُوں کیوں کَلّا سفر تے ٹُریا
فیر پَرت نہ آویں


اکیلا سفر
اکیلے سفر کرتے ہوئے تو راستے بھی تھک جاتے ہیں
اس لئے وہ اپنے ساتھ سائے لے جاتے ہیں
پھر تو اکیلا سفر پر کیوں چل رہا ہے؟
کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں پھر لوٹ کر آنا پڑے۔ ابھی سے کسی کو اپنے ساتھ لے جا
 

الف نظامی

لائبریرین
آپݨے دُکھ وِچ
بَلدی اَگ جَد راتیں ویکھاں
مَینوں اِسراں جاپے
جیویں گھُپ ہنیرا سَڑدا
آپݨے دُکھ وِچ آپے


اپنے دُکھ میں
جب میں اندھیری رات میں جلتی ہوئی
آگ دیکھتا ہوں
تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے گھور اندھیرا
اپنے دُکھ میں خود ہی جل جل کر راکھ ہو رہا ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
گُذری رُت دی قبر
پت جَھڑ وِچ جَد پتّے ڈِگدے
رُکھ اِنج نظرِیں آوندے
گُذری رُت دی قبر تے جیویں
رو رو پھُل ورساوندے


گذرے موسم کی قبر
خزاں کے موسم میں جب پتے گرتے ہیں
تو مجھے درخت یوں دکھائی دیتے ہیں
جیسے گذرے ہوئے موسم کی قبر پر
رو رو کر پھُول برسا رہے ہیں
 

الف نظامی

لائبریرین
بُرج
وَدھ وَدھ اَمبراں دے وَل ویکھے
مَینوں ایہہ ڈر آوے
دھرتی توں جو اُچّا ہووے
اوہو ای ڈھے جاوے


مینار
مینار بڑھ بڑھ کے ، اُونچا ہو ہو کر آسمانوں کی طرف دیکھ رہا ہے
لیکن مجھے یہ خوف ہے کہ
دھرتی سے جو بھی اُونچا ہو جاتا ہے
وہی ڈھے جاتا ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
اِک کُڑی نُوں
جاوَن والے وات نہ پُچھدے
توں کیوں اَونسیاں
* پاویں
دُجیاں کولوں وِچھڑ گئی ایں
خود توں وی ناں جاویں


ایک لڑکی کے نام
جو لوگ چلے جاتے ہیں وہ پیچھے رہ جانے والوں کی خبر نہیں لیا کرتے
پھر تو کیوں شگون نکال کر اُن کی آس لگائے بیٹھی ہے
تو دوسروں سے تو بچھڑ گئی ہے
کہیں ایسا نہ ہو کہ خود سے بھی بچھڑ جائے


* اَونسی:
/noun, feminine/
a superstitious way of guessing success or failure,
fulfillment or belying of hope by drawing a series of lines on the ground without count and then canceling them in certain order, an exact multiple indicating success
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
رات ویلے
چُپ دے ڈَنگے ، سہمے پنچھی
جاگݨ ٹہنیاں اُتّے
اِک دُوجے نُوں ویکھ کے سوچݨ
رُکھ کیوں گھُوکیں سُتّے؟


رات کے وقت
خاموشی کے ڈسے اور سہمے ہوئے پرندے
شاخوں پر بیٹھے جاگ رہے ہیں
وہ ایک دوسرے کی جانب دیکھ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ
یہ درخت گہری نیند کیوں سوئے ہوئے ہیں؟
 

الف نظامی

لائبریرین
ذات دی دلدل
دھرتی ، ساگر ، ٹَپّ کے لوکیں
تاریاں وِچ کھلوئے
آپݨی ذات دی دلدل دے وِچ
لَک لَک کُھبّے ہوئے


ذات کی دلدل
لوگ تمام دھرتی اور سمندر پھلانگ کر
چاند ستاروں میں جا پہنچے ہیں
لیکن اس کے باوجود ابھی تک اپنی ذات کی دلدل میں
کمر کمر دھنسے ہوئے ہیں ، وہ اپنی ذات کی دلدل سے باہر نہیں نکل سکے
 

الف نظامی

لائبریرین
کتاب
ایہو کتاباں ذہن دے بُوہے
پل وچ کھوہل وکھاوَن
ایہو آپݨے حرفاں راھیں
سوچِیں (سوچ-ایں) سَنگل پاون


کتاب
یہی کتابیں کبھی ذہن کے دروازوں کو
ایک پل میں کھول دیتی ہیں اور
یہی کتابیں ہیں جو اپنے حرفوں سے سوچ کو
زنجیر پہنا دیتی ہیں
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
کیکٹس
جیوَن تھَل وِچ تُوں میں دونویں
کیکٹس اُگّے ہوئے
بَدّل ، پاݨی ، سبزہ ، کوئی نہ
فیر وی ویکھ نہ موئے


کیکٹس
میں اور تو دونوں زندگی کے ریگستان میں
کیکٹس کی طرح اُگے ہوئے ہیں
نہ بادل ہیں اور نہ پانی اور نہ ہی کوئی سبزہ دکھائی دیتا ہے
لیکن دیکھ! ہم پھر بھی نہیں مرے ، پھر بھی زندہ ہیں
 

الف نظامی

لائبریرین
گھیرے
سجناں وِچّ میں گھِریا ہویا
کیہڑے پاسے جاواں
جیہڑے وَیری آپ گوائے
اوہناں لئی پچھتاواں


گھیرے
میں چاروں جانب سے دوستوں میں گھرا ہوا ہوں
ان سے بچ کر کس جانب جاوں؟
جو دشمن میں نے اپنے آپ گنوا دئیے تھے
اب ان کے لئے پچھتا رہا ہوں
 

الف نظامی

لائبریرین
دن دا جنگل
صدیاں توں میں سفر تے ٹُریا
پَل پَل وَرھے دا لگّے
دن دا جنگل پار کراں تے
رات سمندر اَگّے


دن کا جنگل
میں صدیوں سے سفر کرتا آ رہا ہوں
ایک ایک لمحہ مجھے ایک ایک سال کی طرح محسوس ہو رہا ہے
میں دن کا جنگل پار کرتا ہوں تو
رات کا سمندر آگے کھڑا ہوتا ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
کُڑیئے!
کیہڑے شہروں آئی ایں تُوں
کیہڑے شہر ای جانا؟
وِنگیاں ، ڈنگیاں ، پکّیاں ، راہوَاں
مُڑ مُڑ بھُلیں پانا


اے لڑکی !
تو کس شہر سے آئی ہے اور تجھے
کس شہر جانا ہے
یہ ٹیڑھے میڑھے آسیب زدہ راستے جن پر تو چل رہی ہے
تجھے بار بار بھُول بھلیّوں میں ڈالیں گے
 

الف نظامی

لائبریرین
آس بھُلاوا
سُفنہ سی یا آس بھُلاوا
عمر گزاری ساری
تُسیں نصیباں والے لوکو
اسیں تے بازی ہاری


آس کا دھوکہ
وہ کوئی خواب تھا یا محض آس کا دھوکا تھا
جس میں ساری عمر گزار دی
اے لوگو ! تم نصیب والے ہو ، خوش قسمت ہو
ہم تو بازی ہار گئے
 

الف نظامی

لائبریرین
گُنجھل دھاگے
سوچ دے دھاگے گُنجھلاں پَیّاں
کُجھ وی سمجھ نہ آوے
جیوں جیوں گنڈھاں کھولدا جاواں
دھاگہ ٹُٹدا جاوے


گُنجلک دھاگے
سوچ کے دھاگے اُلجھ کر گنجلک ہو گئے ہیں
میری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا
جوں جوں میں گرہیں کھولتا جاتا ہوں
توں توں دھاگہ ٹوٹتا جارہا ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
جھُوٹھ تے سچ
یاری دے کئی رُوپ میں ویکھاں
نِت ایہہ سانگ رچاوے
دشمن دا اِک رُوپ او سچا
اوہو نظریں آوے


جھوٹ اور سچ
میں دوستی کے کئی روپ دیکھتا ہوں
یہ نت نئے سوانگ رچا کر اور روپ بدل بدل کر سامنے آتی ہے
مگر دشمن کا ایک ہی روپ ہوتا ہے
اور وہ سچا ہوتا ہے اور ہمیشہ وہی نظر آتا ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
گُجھی سوچ
رُوپ جوانی جد تک ہوون
وقت کھلوتا لگدا
عمر ڈھلے تے وَرھا شتابی
پل پل دے وِچ لنگھدا


گہری سوچ
جب تک آدمی کے پاس حسن اور جوانی ہوتے ہیں
وقت ٹھہرا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ اسکے گذرنے کا احساس
تک نہیں ہوتا۔ مگر جب عمر ڈھلنے لگتی ہے تو یہ تیز رفتار سال
ایک ایک پل میں گذرتے ہوئے محسوس ہونے لگتے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
یاداں دے ڈھنگ
نیلے ، پیلے ، لال تے چِٹّے
پھُلّاں دے کئی رنگ
وِچھڑے لوک کدی نال بھُلدے
یاداں دے کئی ڈھنگ


یادوں کے ڈھنگ
نیلے پیلے ، سرخ اور سفید
پھولوں کے کئی رنگ ہیں
بچھڑنے والے لوگ کبھی نہیں بھولتے
یادوں کے کئی ڈھنگ ہوتے ہیں
 
Top