زیرک کے پسندیدہ اشعار

زیرک

محفلین
دیکھا نہ کاروبارِ محبت کبھی حفیظؔ
فرصت کا وقت ہی نہ دیا کاروبار نے
حفیظ جالندھری​
 

زیرک

محفلین
الٰہی ایک غمِ روزگار کیا کم تھا
کہ عشق بھیج دیا جانِ مبتلا کیلئے
حفیظ جالندھری​
 

زیرک

محفلین
ہجراں کی رات مشغلۂ دل نہ پوچھئے
اس زلفِ خم بہ خم کی گِرہ کھولتا رہا
ظہیر کاشمیری​
 

زیرک

محفلین
دل مر مِٹا تلاوتِ رخسارِ یار میں
مرحوم طِفلگی سے ہی اہلِ کتاب تھا
ظہیر کاشمیری​
 

زیرک

محفلین
ہم کو آزادی ملی بھی تو کچھ ایسے ناسک
جیسے کمرے سے کوئ صحن میں پنجرہ رکھ دے
نثار ناسک​
 

زیرک

محفلین
جال کے اندر بھی میں تڑپوں گا چیخوں گا ضرور
مجھ سے خائف ہیں تو میری سوچ کے پر کاٹیے
نثار ناسک​
 

زیرک

محفلین
خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے، لیکن
تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو
احمد مشتاق​
 

زیرک

محفلین
المیہ
مسلک پتہ چلا جو مسافر کی لاش کا
چپ چاپ آدھی بھیڑ گھروں کو چلی گئی
فہمی بدایونی​
 

زیرک

محفلین
عجب شرطیں لگاتی ہے محبت کی تجارت بھی
مِرے حصے میں لاگت بھی خسارہ بھی مشقت بھی
فہمی بدایونی​
 

زیرک

محفلین
زہر کی آنکھوں میں روشن صورتیں دو ہیں عدیمؔ
شکل اک سقراط کی،۔۔ اور ایک چہرہ ہِیر کا
عدیم ہاشمی​
 

زیرک

محفلین
اوک بنا بنا کے ہم دستِ دعا کو تھک گئے
جو بھی ہمیں دِیا گیا، کاسے میں ڈال کر دِیا
عدیم ہاشمی​
 

زیرک

محفلین
بُوزنے ہیں تو ملے ہم کو ہمارا جنگل
آدمی ہیں تو مداری سے چھڑایا جائے
عدیم ہاشمی​
 

زیرک

محفلین
لوگ پھرتے ہیں بھرے شہر کی تنہائی میں
سرد جسموں کی صلیبوں پہ اٹھا کر چہرے
نصیر احمد ناصر​
 
Top