قُرآن کا موضوع انسان ہے۔ قُرآن سے وابستگی اگر انسان کے اخلاق و کردار بہتر بنانے کا باعث ہےتو فائدہ اُٹھائیں۔ اقبال اور قرآن کا مطالعہ کافی فائدہ مند ہو سکتا ہے اور ایک کتاب " مسلہ جبر وقدر" آپ کو کُچھ پیچیدہ معاملات کے بارے میں زیادہ بالغ نظر بنا سکتی ہے۔ ماضی میں غلامی اور جنگی قیدیوں پر اسلام نے اُس وقت کے تناظر میں زیادہ انسان دوست اصول متعارف کروائے۔ قیدیوں کو فدیہ
نہ دے سکنے پر مسلمانوں کو پڑھانے پر بھی آزاد کر دیا گیا۔
یہ وہ سراب ہے جو کہ آج ہر جگہ مسلمانوں کے ذہنوں میں بٹھایا جاتا ہے، حالانکہ قرآن خود آج تک یہ نہ کہہ سکا کہ اسکا موضوع انسان ہے۔
بلکہ قرآن تو الٹا "انسان" کا موضوع بتلا رہا ہے کہ وہ ہے اللہ کی "عبادت"۔
(القرآن 51:56) وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
ترجمہ:
میں نے جنات اورانسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں
ایک بات اور یاد رکھیں، جس طرح مسلمانوں نے قرآن کا موضوع انسان قرار دے دیا، تو یاد رکھئیےصرف قرآن ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب کی کتاب کا موضوع انسان ہی ہے۔
اور موضوع وغیرہ جو مرضی ہو، حقیقت یہ ہے کہ قرآن کچھ جگہوں کائنات کے ان نظاموں کو پیش کر رہا ہے تاکہ انسانوں کو اللہ کے نام پر ڈرا سکے۔ لیکن موجودہ سائنس نےقرآن کے بتلائے گئے کائنات کےسسٹم کو دلیل سے جھٹلا دیا ہے۔
چنانچہ اب اس بہانے کے پیچھے پناہ لینا عبث ہے کہ قرآن کا موضوع سائنس نہیں ہے۔
باقی قیدی خواتین کے حوالے سےمیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دورِ اسلام کی لونڈیاں آج کی عافیہ صدیقی سے بہت بہتر حالات میں تھیں۔
بلاشک و شبہ اسلام نہ صرف یہ کہ سائنس سے ٹکرا رہا ہے، بلکہ بہت ہی بری طرح انسانیت سے بھی مذہب کا ٹکراؤ ہو رہا ہے۔
بلا شک و شبہ کنیز باندیوں کے ساتھ اسلام کے 1400 سالہ تاریخ میں جو کچھ ہوتا رہا ہے، اسکے سامنے عافیہ صدیقی کیس ہیچ ہے۔
اسلام کی 1400 سالہ تاریخ یہ ہے کہ جب آقا کا دل سیکس بالجبر سے بھر جاتا تھا تو وہ اپنی کنیز باندی کو سیکس بالجبر کے لیے اپنے بھائی کے حوالے کر دیتا تھا، اور جب بھائیوں کا بھی دل بھر جاتا تھا تو کنیز باندی کو نئے آقا کو بیچ دیا جاتا تھا جو کہ اس سے پھر سیکس بالجبر کر رہا ہوتا تھا۔
یہ روایت پڑھئیے:
صحابی ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ جنگ کے بعد چند خوبصورت عرب عورتیں ان کے قبضے میں آئیں اور صحابہ کو انکی طلب ہوئی کیونکہ وہ اپنی بیویوں سے دور تھے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ میں صحابہ چاہتے تھے کہ وہ ان کنیز عورتوں کو بیچ کر قیمت بھی حاصل کریں۔ چنانچہ صحابہ نے عزل سے کام لیا [یعنی ہمبستری کے وقت اپنے عضو تناسل باہر نکال کر مادہ منویہ باہر خارج کیا تاکہ وہ عورتیں حاملہ نہ ہو سکیں اور انکی اچھی قیمت مل سکے]۔ پھر انہوں نے اللہ کے رسول ص سے اسکے متعلق پوچھا تو رسول اللہ ص نے فرمایا کہ (اس کی اجازت ہے لیکن) تم چاہو یا نہ چاہو، اگر کسی روح کو پیدا ہونا ہے تو وہ پیدا ہو کر رہے گی۔
صحیح مسلم [عربی] ، حدیث 2599
صحیح مسلم [آن لائن لنک انگلش ورژن] حدیث 3371
عزل والی یہ روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں کئی طریقے سے روایت ہوئی ہے۔
کوئی بھی الہامی مذہب کبھی بھی انسانیت کی ایسے تذلیل نہیں کر سکتا۔
بلا شک و شبہ یہود و نصاری میں بھی کنیز باندی پر ظلم ہے، مگر اسکے باوجود یہود و نصاری کنیز باندی سے سلوک کے حوالے سے اسلام سے کہیں بہتر ہیں۔
اسلام نے کنیز باندی اور غلامی پر جو شریعت نازل کی، وہ عرب کے جاہل معاشرےکی غلامی اور اہل کتاب میں غلامی کا ایک "ملغوبہ" ہے ۔
صرف یہ ہی نہیں بلکہ کنیز باندی کے حوالے سے میری پاس بیان کرنے کو بہت کچھ ہے، مگر آپ سننے کا حوصلہ نہیں کر پائیں گے۔
مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ ملا حضرات نے انہیں اس حوالے سے 99 فیصد جاہل رکھا ہے اور انہیں اسلام کی 1400 سالہ غلامی کی تاریخ کی بھنک تک نہیں پڑنے دیتے ہیں، وگرنہ پتا نہیں کتنے مسلمان تو اسی وقت شائد اسلام سے تائب ہو جائیں۔ مگر یوں حقائق کو چھپانا اس سے بڑی لعنت ہے۔