سائنس اور مذہب کے اس ٹکراؤ پر آپکی رائے؟

ظفری

لائبریرین
میرے نزدیک یہ موضوع سے غیر متعلق ہے۔
اگر آپکے نزدیک یہ موضوع سے متعلق ہے، تو مجھ سے سوال پوچھنے کی بجائے آپکو خود مذہب اور اسکی اساس کی تعریف کر کے اسکا تعلق قرآن و حدیث پر اٹھنے والے سائنسی سوالات سے ثابت کرنا چاہیے۔
میں بحث کو آسان بنانا چاہتی ہوں اور میرا مطالبہ سادہ سا ہے کہ میرے سوالات کے براہ راست جوابات دیے جائیں بجائے اسے مذہب کی تشریحات کے نام پر الجھانے کے۔

آپ بحث کو آسان نہیں بلکہ پیچیدہ بنانے چاہتیں ہیں ۔ جو سوال فاروق سرورخان نے پوچھا ہے اگر وہ موضوع سے مطابقت نہیں رکھتا تو پھر آپ مذہب کو کس طرح ڈیفائنڈ کریں گی ۔اگر مذہب کو آپ ڈیفائنڈ نہیں کریں گی تو سائنس سے اس کا تقابلہ کیسے ممکن ہوگا ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آپ نے قرآن و حدیث کو جس طرح تختہِ مشق بنایا ہوا ہے ۔ اس پر صرف حجتیں ہی سامنے آرہیں ہیں ۔اس ٹاپک کے اولین صفحہ پر آپ کے پہلے سوال کا جواب رانا دے چکے ہیں ۔ اور اس کے بعد مذید ۔ مگر آپ لوگوں کو قرآنسٹ ، منکرِ حدیث کہہ کر اورمختلفInterpretationکو آڑے ہاتھ لے لیتیں ہیں ۔ جبکہ اپنیInterpretation کی طرف رجوع نہیں کرتیں ۔ زیادہ تر آپ کا ہدف پرانے اور نئے فہقاءکی آراء ہیں ۔ اس پر آپ بضد ہیں کہ ان کی آراء کو ہر طور مانا جائے اور اس پر بحث کی جائے ۔ جبکہ میں کہہ چکا ہوں کہ آپ ان فہقاء کی آراء کو قرآن و حدیث کا مسلک نہ بنائیں ۔ آپ کے سادے سے مطالبے کو مد نظر رکھتے ہوئے پوائنٹ ٹو پوائنٹ رانا نے جوابات دیئے ہیں ۔ مگرآپ ایک مخصوص مذہبی فکر ( جن میں فہقا اور امام بہت اہمیت کے حامل ہیں ) کے زیر ِ اثر رہ کر اس کو قبول کرنے سے ہچکچا رہیں ہیں ۔ اور قرآنسٹ لوگوں کا طعنہ دیکر آپ کو ان کے آراء اور تشریحات میں الجھا دیتیں ہیں ۔ بلکل اسی طرح مجھ سمیت کئی لوگوں کو آپ کی بھیInterpretationسے اختلاف ہے ۔ یہ اختلاف ہی اسی ساری سوچ کا محور ہے ۔ جس سے اس بحث کا آغاز ہوا ہے ۔ورنہ صرف قرآن کی طرف رجوع کرنے اور کسی اچھے ترجمے ( چاہے وہ کتنی بھی تعداد میں ہوں ) کو پڑھنے کے بعد یہ بات سمجھ آجاتی ہے ۔ ان آیتوں کی جس طرح Interpretationکی گئی ہے وہ اکثر ویسی نہیں ہے ۔ جیسا کہ وہاں بیان کیا جا رہا ہے ۔

میں مذہب اور سائنس کو جس تناظر سے دیکھتا ہوں ۔ اس پر اپنی رائے دے چکا ہوں ۔ اس کے بعد ان کے درمیان کس تصادم کی گنجائش رہ جاتی ہے۔پرانے فہقا ء کے پاس دورِ حاضر کا علم نہیں تھا ۔ لہذا وہ زمین چپٹی ، مرد و عورت کی جنس اور ایسی بہت سی آیتیوں کے بارے میں جن میں سائنسی توجہہ بیان کی گئی تھی ۔ سمجھنے سے قاصر تھے ۔ آج کے پڑھے لکھے اسلامی سکالرز اس بات سے واقف ہیں کہ وہاں کیا بات بیان ہو رہی ہے ۔ سائنسی تحقیق جیسے آگے بڑھے گی ۔ کئی ایسے معاملات بھی ہونگے تو آج تشنہِ سوال ہیں ۔ کل وہ اس طرح عیاں ہوجائیں گے ۔ جس طر ح ماضی کی کئی غلط Interpretationکے جوابات میسر آچکے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن نے اپنی بات سمجھانے سے قاصر ہے ۔ بلکہ آج کے دورِ حاضر علم کے تحت ہم ایسی چیزوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ جوآج سائنس کی گرفت میں نہیں ۔ اب یہ نہ کہہ دیجیئے گا کہ آج کی سائنس مکمل سائنس ہے ۔

آپ جس نکتہِ نظر سے ان ساری چیزوں کو دیکھتیں ہیں ۔ دوسروں کو مجبور نہ کریں کہ وہ بھی یہی انداز اپنائیں ۔ ابتدائی انسان اور حضرت آدم علیہ السلام کے حوالے سے آپ نے جس بحث کے آغاز کیا ہے ۔ اس کا بھی جواب دیا جاچکا ہے کہ اللہ نے انسان کو مختلف مراحل سے گذار کر انسانی شخصیت سے نوازا ۔ یہ تو کوئی نہیں کہہ رہا ہے کہ آدم پہلے انسان تھے ۔مگر اپ بضد ہیں کہ ہم اس بات کو مانیں ۔
 
آخری تدوین:

عثمان

محفلین
مذہب کا بنیادی مقصد اخلاقی کردار کو پاکیزگی سے متعارف کروانا ہے ۔
مذہب کا ایک بہت بڑا مقصد مافوق الفطرت کو متعارف کروا کر انسانی خواہش کو اس کے تابع کرنا ہے۔ آپ کا بیان کیا گیا احاطہ کافی مختصر اور موضوعاتی ہے۔

رہی بات understatementکی تو یہ مختلف ادوار میں مختلف لوگ اپنے حاضر علم کے اسیر ہوکر ہر اس بات کی مخالفت کرتے ہیں ۔ جو ان کی تحقیق اور علم کی دسترس سے دور تھی ۔دوسری وجہ دین کو سمجھنے کا وہ زاویہِ نظر ہے۔ جو عموماً آج بھی ہمیں اپنے گرد نظر آتا ہے کہ قرآن کو اپنے محدود علم اور ایک مخصوص سوچ کے ذہن سے سمجھتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ایک عرصے تک قرآن کی ایک آیت کہ " ماں کے پیٹ میں جو کچھ ہے ۔اس کا علم صرف اللہ کو ہے " اس کو مرد اور عور ت کی جنس سے منسلک کردیا اور کہا جاتا رہا ہے ۔ ماں کے پیٹ میں بچہ لڑکا ہے یا لڑکی اس کا علم صرف اللہ کو ہے ۔ اس حوالے سے ہزاروں ایسے فتوے بھی آئے ۔ جن کے تحت والدین کو اس بات سے سخت منع کردیا کہ وہ سائنسی طور پر بچے کی جنس جاننے کی کوشش نہ کریں ۔ اور بارہا ایسے تبصرے یہاں اس فورم پر بھی نظر سے گذرے ۔ جن میں اسی بات کی تکرار کی گئی ۔ مگر جب صحیح طور پر آیت کا جائزہ لیا گیا تو وہ جنس کا تو سرے سے ذکر نہیں ہے ۔ بلکہ اللہ نے انسانی شخصیت کے حوالے سے یہ فرمایا کہ مادرِ رحم میں کیا شخصیت ہے اس کا علم صرف اللہ کو ہے ۔یعنی یہ بچہ کل کا آئن اسٹائن بنے گا یا علامہ اقبال ۔ اس کا علم صرف اللہ کو ہے ۔ اور یہ بات ہر اس شخص کے لیئے منطق کی حیثیت رکھتی ہے ۔ جو اللہ پر کسی طور پر یقین رکھتا ہے ۔

اسی طرح 1982 میں ایک سعودی مفتی شیخ عبدالعزیز بن باز نے اسی آیت پر ( جو یہاں کوٹ کی جاچکی ہے ) کہ زمین چپٹی ہے ۔ اور کوئی اس سے اختلاف کرے گا تو وہ کفر کا مرتکب ہوگا ۔اب اس محدود علم پر ان کے حق میں دعا ہی کی جاسکتی ہے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کی جو تعبیر مختلف اور مخصوص ذہن اپنی علمیت کو بنیاد بنا کر کرتے ہیں ۔ اس کو لوگ دین او ر مذہب سے جوڑ دیتے ہیں ۔ بلکل اسی طرح سائنس بھی اپنے حاضر علم کی اسیر ہوکر کچھ ایسے نظریات پیش کردیتی ہے جو بعد میں غلط ثابت ہوجاتے ہیں ۔جیسا کہ قرآن میں کہا گیا کہ ہم انسانی شکل کو مراحل سے گذارتے ہوئے پہلے ہڈیا ں اور پھر ان پرمسلز چڑھاتے ہیں ۔ سائنس اس سے ایک عرصے تک اختلاف کرتی رہی کہ نہیں ۔۔۔ دونوں عمل ایک ساتھ ہوتے ہیں ۔ مگر جدیدتحقیق نے ثابت کردیا کہ قرآن کی بات صحیح ہے ۔
لہذا سائنس اور مذہب کو ٹکراؤ دونوں طرف سے اسی وقت ممکن ہے جب دونوں طرف سے اس طرح کی تو جہات پیش کی جائیں۔ اگر کوئی کسی کے فتوے اور علم کو لیکر اسے مذہب کا نام دیکر سائنس یا سائنس کو مذہب سے متصادم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ میری نظر میں ایکunderstatementہے ۔
cherry picking کی لایعنی مشق میں پڑنے کی بجائے آپ کے لیے کچھ وضاحت کیے دیتا ہوں تاکہ understatement کی وجہ سمجھنے میں آسانی رہے۔
مذہب کی کل بنیاد اعتقاد اور تقلید ہے۔ مذہب کے قواعد کو جتنا مرضی زور لگا کر عقلیانے کی کوشش کی جائے آپ اعتقاد اور تقلید کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتے۔ مذہب اس پر خود کھلے عام اصرار کرتا ہے۔
سائنس بالخصوص اور کوئی بھی دنیاوی علم بالعموم اپنی بنیاد تشکیک اور تحقیق میں رکھتا ہے۔ تشکیک جو اعتقاد کی ضد ہے۔ تحقیق جو تقلید کے منافی ہے۔
اعتقاد اور تقلید پر کھڑے کئے گئے نظریات کو رنگ رنگ کی تاویلات چڑھا کر تشکیک اور تحقیق کے عمل سے نکلنے والے علوم کے سامنے کھڑا کر کے یہ کہنا کہ "کوئی ٹکراؤ نہیں ہے" ایک understatement ہے۔
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
دین اسلام کبھی کسی ترقی کےخلاف نہیں ، نہ ہی ایسا بتایا گیا، لیکن چند لوگ زبردستی سائنس کے حوالے سے بات کرکے اسلام کی توہین کرتے ہیں جبکہ اب تک سائنس نے جتنی بھی ترقی کی ہے اس میں مسلم سائنسدانوں کے نام آتے ہیں
اور ہمیں یہ بات بھی جان لینا ہے کہ قرآن الکریم سائنس کی کتاب نہیں بلکہ قرآن میں ازل سے عبد تک ساری خبروں کا ذکر ہے جو کائنات میں رونما ہوئی اور ہونے والی ہے یہ الگ بات ہے کے قرآن الکریم کے 28 عربی تفسیر کے ترجمے سے بھی ہم لوگ یہ جاننے میں نابلد رہے ، چھوٹی سی مثال اللہ نے متعدد جگہہ روشنی نور کا ذکر کیا ہےآج سائنس کے زیادہ تر کام روشنی پر ہورہا ہے پہلے کوپر وائر سے کام لیا جاتا ہے اب بھی لیا جارہا ہے لیکن نیٹ ورکنگ کے لئے فائبر آپٹک کیبل کا استعمال کیا جاتا ہے پہلے ایک ٹیلفون لائن کے لئے ایک پئر کوپر کیبل ، اب ایک باریک (بمشکل 1 ملی میٹر)فائبر آپٹک سے ایک سے زیادہ لائنیں، انٹرنیت کونیکشن، ٹیوی، فیکس وغیرہ۔۔
سمجھنے والے قرآن الکریم سے بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں ناسمجھ کی مثال ایسی ہے کہ گدھوں کے اوپر کتابیں لاد دو تو اس کا بوجھ ضرور اٹھائے گا لیکن اندر کے مواد سے اس کو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔

قرآن مجید کی حیثیت پر غور کیا جائے تو صاف واضح ہوتا ہے کہ اگرچہ یہ کتاب ہدایت ہے، مگر اس سے استفادے کی توفیق انھی کو حاصل ہوتی ہے جو دنیا میں زندگی کی آزمایش کی حقیقت سمجھتے ہوں اور آخرت میں خدا کی جنت کو پانے کا سچا اور لازوال جذبہ رکھتے ہوں۔ اس کے حفظ و تلاوت، اس پر غور و تدبر اور اس کی تعلیمات پر عمل کے بامقصد ہونے کا تمام تر دارومدار ہدایت کو پا لینے کی خواہش پر ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تبھی ممکن ہے جب بندہ شعوری طور پر مسلمان ہو اور آخرت میں جنت کا حصول اس کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ بن جائے۔
ہم مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے موروثی اسلام ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے، حالانکہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے میں ہمارے ارادے یا کوشش کو کوئی دخل نہیں ہے۔ یہ مشیت خداوندی ہے۔ اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ہم جب ہوش سنبھالیں تو ایک مرتبہ پھر شعوری طور پر اسلام قبول کریں تا کہ اسلام ہمارے لیے ایک واقعہ بن جائے۔ اسی کے نتیجے میں دین ایک معاشرتی ضرورت، تمدنی عمل اور سماجی روایت کے بجائے آخرت کی ابدی بادشاہی کے لیے دنیوی زندگی کی واقعی ضرورت بن جائے گا ۔ اور پھر قرآن کے ساتھ ہمارا زندہ تعلق قائم ہو گا۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قرآن مجید سے بامقصد استفادے کے لیے ضروری ہے کہ بندۂ مومن
۱۔ زندگی میں درپیش آزمایش کی حقیقت سے روشناس ہو۔
۲۔ ہدایت و ضلالت کے باب میں قوانین خداوندی سے آگاہ ہو۔
۳۔ اس کا مسلمان ہونا ایک شعوری واقعہ ہو۔
۴۔ دنیا پر اس کی آخرت کی ترجیح مشہود حقیقت ہو۔
۵۔ اس کی زندگی کا اصل مسئلہ آخرت میں خدا کی جنت کا حصول ہو۔
انتھی۔۔۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
میرے نزدیک یہ موضوع سے غیر متعلق ہے۔
اگر آپکے نزدیک یہ موضوع سے متعلق ہے، تو مجھ سے سوال پوچھنے کی بجائے آپکو خود مذہب اور اسکی اساس کی تعریف کر کے اسکا تعلق قرآن و حدیث پر اٹھنے والے سائنسی سوالات سے ثابت کرنا چاہیے۔
میں بحث کو آسان بنانا چاہتی ہوں اور میرا مطالبہ سادہ سا ہے کہ میرے سوالات کے براہ راست جوابات دیے جائیں بجائے اسے مذہب کی تشریحات کے نام پر الجھانے کے۔
اگر مذہب آپ کی اپنی تشریح ہے تو جو چاہیں کہہ لیجئے اور جس طرح چاہئی تشریح کرلیجئے۔ لیکن اگر مذہب اسلام جو کہ اللہ کے نزدیک اسلام ہے اور جس کی صرف ایک کتاب قرآن حکیم ہے تو آپ اس کتاب میں پایا جانے والی ایک بھی آیت کسی بھی قسم کی سائنس کے خلاف ثابت نہیں کر پائیں گی۔ مثلا آدم کی عمر کیا تھی یا وہ کتنے سال پیشتر پیدا ہوا تھا۔ رہ گئی باقی کہانیاں اور کہانیوں کی کتابیں تو وہ سب کسی نا کسی قسم کے قصہ خوانی بازار کی تخلیقات ہیں۔ اگر آپ مذہب کی اساس طے کرلیں تو یہ تمام بحث چھاگ کی طرح بیٹھ جائے گی اور اگر آپ اپنی من مانی کہانیوں پر یقین رکھیں گی تو پھر بحث کی گنجائش کیسی ۔۔۔ مذہبی کتب میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ ایک شہزادی کی آنکھ کے اندر دو پہلوان کشتی لڑتے تھے ، ایک دن بہت روئی تو پہلوان اس سیلاب میں بہہ گئے ۔۔ اس دھاگے میں کوئی بھی مذہبی حقیقت بات کی بات خرافات کی لات سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی ۔۔ یہ اور بات ہے کہ ہم کھینچ تان کر سب کچھ سائنسی ثابت کرسکتےہیں اور ناپ تول کر جو چاہیں خلاف سائینس یا خلاف مذہب ثابت کرسکتے ہیں۔ اس دھاگے میں بحث کوئی ہے ہی نہیں کیوں کہ اس میں دیا گیا مذہب صرف من پسند تشریحات اور قصہ خوانی بازار کی کہنایوں کا مجموعہ ہے ۔۔۔ والسلام
 

مہوش علی

لائبریرین
آپ بحث کو آسان نہیں بلکہ پیچیدہ بنانے چاہتیں ہیں ۔ جو سوال فاروق سرورخان نے پوچھا ہے اگر وہ موضوع سے مطابقت نہیں رکھتا تو پھر آپ مذہب کو کس طرح ڈیفائنڈ کریں گی ۔اگر مذہب کو آپ ڈیفائنڈ نہیں کریں گی تو سائنس سے اس کا تقابلہ کیسے ممکن ہوگا ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آپ نے قرآن و حدیث کو جس طرح تختہِ مشق بنایا ہوا ہے ۔ اس پر صرف حجتیں ہی سامنے آرہیں ہیں ۔اس ٹاپک کے اولین صفحہ پر آپ کے پہلے سوال کا جواب رانا دے چکے ہیں ۔ اور اس کے بعد مذید ۔ مگر آپ لوگوں کو قرآنسٹ ، منکرِ حدیث کہہ کر اورمختلفInterpretationکو آڑے ہاتھ لے لیتیں ہیں ۔ جبکہ اپنیInterpretation کی طرف رجوع نہیں کرتیں ۔ زیادہ تر آپ کا ہدف پرانے اور نئے فہقاءکی آراء ہیں ۔ اس پر آپ بضد ہیں کہ ان کی آراء کو ہر طور مانا جائے اور اس پر بحث کی جائے ۔ جبکہ میں کہہ چکا ہوں کہ آپ ان فہقاء کی آراء کو قرآن و حدیث کا مسلک نہ بنائیں ۔ آپ کے سادے سے مطالبے کو مد نظر رکھتے ہوئے پوائنٹ ٹو پوائنٹ رانا نے جوابات دیئے ہیں ۔ مگرآپ ایک مخصوص مذہبی فکر ( جن میں فہقا اور امام بہت اہمیت کے حامل ہیں ) کے زیر ِ اثر رہ کر اس کو قبول کرنے سے ہچکچا رہیں ہیں ۔ اور قرآنسٹ لوگوں کا طعنہ دیکر آپ کو ان کے آراء اور تشریحات میں الجھا دیتیں ہیں ۔ بلکل اسی طرح مجھ سمیت کئی لوگوں کو آپ کی بھیInterpretationسے اختلاف ہے ۔ یہ اختلاف ہی اسی ساری سوچ کا محور ہے ۔ جس سے اس بحث کا آغاز ہوا ہے ۔ورنہ صرف قرآن کی طرف رجوع کرنے اور کسی اچھے ترجمے ( چاہے وہ کتنی بھی تعداد میں ہوں ) کو پڑھنے کے بعد یہ بات سمجھ آجاتی ہے ۔ ان آیتوں کی جس طرح Interpretationکی گئی ہے وہ اکثر ویسی نہیں ہے ۔ جیسا کہ وہاں بیان کیا جا رہا ہے ۔

میں مذہب اور سائنس کو جس تناظر سے دیکھتا ہوں ۔ اس پر اپنی رائے دے چکا ہوں ۔ اس کے بعد ان کے درمیان کس تصادم کی گنجائش رہ جاتی ہے۔پرانے فہقا ء کے پاس دورِ حاضر کا علم نہیں تھا ۔ لہذا وہ زمین چپٹی ، مرد و عورت کی جنس اور ایسی بہت سی آیتیوں کے بارے میں جن میں سائنسی توجہہ بیان کی گئی تھی ۔ سمجھنے سے قاصر تھے ۔ آج کے پڑھے لکھے اسلامی سکالرز اس بات سے واقف ہیں کہ وہاں کیا بات بیان ہو رہی ہے ۔ سائنسی تحقیق جیسے آگے بڑھے گی ۔ کئی ایسے معاملات بھی ہونگے تو آج تشنہِ سوال ہیں ۔ کل وہ اس طرح عیاں ہوجائیں گے ۔ جس طر ح ماضی کی کئی غلط Interpretationکے جوابات میسر آچکے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن نے اپنی بات سمجھانے سے قاصر ہے ۔ بلکہ آج کے دورِ حاضر علم کے تحت ہم ایسی چیزوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ جوآج سائنس کی گرفت میں نہیں ۔ اب یہ نہ کہہ دیجیئے گا کہ آج کی سائنس مکمل سائنس ہے ۔

آپ جس نکتہِ نظر سے ان ساری چیزوں کو دیکھتیں ہیں ۔ دوسروں کو مجبور نہ کریں کہ وہ بھی یہی انداز اپنائیں ۔ ابتدائی انسان اور حضرت آدم علیہ السلام کے حوالے سے آپ نے جس بحث کے آغاز کیا ہے ۔ اس کا بھی جواب دیا جاچکا ہے کہ اللہ نے انسان کو مختلف مراحل سے گذار کر انسانی شخصیت سے نوازا ۔ یہ تو کوئی نہیں کہہ رہا ہے کہ آدم پہلے انسان تھے ۔مگر اپ بضد ہیں کہ ہم اس بات کو مانیں ۔

میں نے تو مذہب کی قرآن و حدیث کے حوالے سے وہی تعریف لے کر چلی تھی جس پر مسلمان پچھلے 1400 سالوں سے عمل پیرا ہیں۔
یہ تو فقط 100 سال کی بات ہے کہ جب سرسید احمد خان جیسے حضرات آنا شروع ہوئے جنہوں نے حدیث کا انکار کیا، اور مرزا صاحب بھی پچھلی صدی کے ہیں جنہوں نے معیار بنایا جو حدیث انہیں پسند آئے گی وہ لیں لے گے، اور جو پسند نہیں آئے گی، اسے ٹھکرا دیں گے۔
میں نے رانا صاحب کو بالکل صاف طریقے سے انکے اس سٹینڈرڈ کا بتلا دیا تھا کہ "چت بھی میرا پٹ بھی میرا، اور انٹا میرے باپ کا"۔
رانا صاحب یہ کر رہے تھے جو چت آتا تھا (جو حدیث انہیں پسند آتی تھی) وہ بھی ان کی اور جو پٹ ہوتا تھا (یعنی جو حدیث پسند نہیں آتی تھی) اسے ناپسندیدہ کہہ کر ٹھکرا دیتے تھے۔۔۔ اور انٹا میرے باپ کی مثال بھی انہوں نے قائم کی تھی جب وہ ایک "خواب اور الہام" کی بات کر کے اسے بطور حجت پیش کر رہے تھے۔

رانا صاحب سے ہوتے ہوئے جب بات فاروق صاحب (اور حتیٰ کہ آپ تک) پہنچتی ہے تب بھی میں اپنے بیان کو 100 فیصد درست پاتی ہوں کہ آپ حضرات کا سٹینڈرڈ بھی حدیث کا انکار ہے۔ چنانچہ میں نے تو اپنے پچھلے مراسلوں میں جناب آدم کے قد وغیرہ کے حوالے سے کئی "صحیح" احادیث بیان کر دی تھیں مگر آپ انہیں مکمل طور پر ہضم کر گئے۔ چنانچہ فرمائیے کہ پھر آپکے متعلق میرا بیان کیونکر غلط ہے؟
چنانچہ جب میں آپکے ان سٹینڈرڈز پر تنقید کرتی ہوں تو آپکا مجھ پر برہم ہونا درست نہیں ہے۔

پھر آپکا یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ میں فقط "نئے اور پرانے" فقہا کی "آراء" کو ہدف بنا رہی ہوں۔ آپ پورا تھریڈ پڑھ سکتے ہیں، پہلے تو قرآن و حدیث پر سوال اٹھایا گیا ہے، اور اسکے بعد تیسرے مرحلے میں ان نئے اور پرانے فقہاٰء کی آراء پیش کی گئی ہیں۔
اور ان فقہاء کی آراء (جو کہ غلط بھی ہیں اور آپس میں تضاد بھی رکھتی ہیں، انہیں) پیش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

قرآن دعویٰ کر رہا ہے کہ اس نے ہر ہر چیز کو کھول کر بیان کر دیا ہے۔ مثلاً:
(سورۃ نحل ، آیت 89) وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ
ترجمہ: ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کر دی ہے جو ہر ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی ہے
فقہاء کی آرا (انکا غلط ہونا اور انکا آپس میں تضاد) ثبوت ہے کہ یہ دعویٰ درست نہیں۔

آج کے فقہاء ٰinterpretation نہیں کر رہے ہوتے، بلکہ "بہانے بازیاں" کرتے دکھائی دے رہے ہوتے ہیں تاکہ قرآن کو سائنس کے مطابق بنا سکیں۔
مثلاً قرآن نے زمین کی ساخت کے متعلق کوئی درجن بھر کے قریب آیات بیان کیں۔۔۔ مگر ان درجن بھر آیات میں زمین کو کبھی فرش کہا، کبھی کہا کہ اسے پھیلا دیا گیا ہے، کبھی مھد کہا۔۔۔ لیکن ایک بار بھی بھول کر قرآن نے زمین کو "گول" قرار نہیں دیا۔
کیوں؟
قران (اور حدیث) صرف ایک بار زمین کے لیے "گول" کا لفظ استعمال کر دیتا تو بات ختم ہو جاتی۔
چنانچہ آج کے فقہاء ٰinterpretation کے نام پر بہانے بازیاں کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی لیےآج کے اس فیلڈ کے مشہور ترین سکالرز (ذاکر نائیک وغیرہ) اس حوالے سے "بددیانتی" کے مرتکب ہوئے جب انہوں نے جان بوجھ کر دعویٰ کر دیا کہ قران نے زمین کی ساخت کو شتر مرغ کے انڈے کی ساخت جیسا بیان کر رہا ہے۔ اسکے لیے انہوں نے آیت 79:30 استعمال کیا:

(قرآن 79:30) وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا
ترجمہ (محمد جونا گڑھی) : اور اس کے بعد زمین کو (ہموار) بچھا دیا۔

لفظ "دحاها" کا مطلب 1400 سالوں سے سب فقہاء "پھیلانا یا بچھانا کے کرتے آ رہے ہیں۔
مگر آجکے فقہاء نے اس کا بالکل نیا مطلب بیان کر دیا جو ہے "شتر مرغ کا انڈہ"۔

ذاکر نائیک صاحب لکھتے ہیں:۔
The Qur’an mentions the actual shape of the earth in the following verse:
“And we have made the earth egg shaped”. [Al-Qur’an 79:30]
The Arabic word Dahaha means egg shaped. It also means an expanse. Dahaha is derived from Duhiya which specifically refers to the egg of an ostrich which is geospherical in shape, exactly like the shape of the earth.
Thus the Qur’an and modern established science are in perfect harmony.
Reference: Zakir Naik Q & A

دنیا میں پچھلے 1400 سالوں سے کسی مسلمان فقہیہ یا مفسر نے "دحاھا" کا مطلب انڈہ" بیان نہیں کیا ۔
دنیا کی کسی لغت نے دحاھا کا مطلب اندہ بیان نہیں کیا ہ۔

تو پھر ذاکر نائیکل یہ انڈہ کہاں سے لے کر آ گیا؟
لسان العرب نامی لغت میں یہ ملتا ہے:
الأُدْحِيُّ و الإدْحِيُّ و الأُدْحِيَّة و الإدْحِيَّة و الأُدْحُوّة مَبِيض النعام في الرمل , وزنه أُفْعُول من ذلك , لأَن النعامة تَدْحُوه برِجْلها ثم تَبِيض فيه وليس للنعام عُشٌّ . و مَدْحَى النعام : موضع بيضها , و أُدْحِيُّها موضعها الذي تُفَرِّخ فيه .ِ
ترجمہ (معنی):
یہ لفظ ریت کی اس "جگہ" کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جہاں شترمرغ اپنا انڈہ دیتا ہے۔ یہ اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ شترمرغ انڈہ دینے کے بعد اس جگہ کو اپنے پاؤں سے "پھیلا" کر ہموار کر دیتا ہے۔ شتر مرغ انڈہ دینے کے لیے گھونسلے کا استعمال نہیں کرتا۔

چنانچہ لفظ دحاھا کا مطلب کبھی بھی کسی بھی لغت میں "انڈہ" نہیں تھا، بلکہ وہ "جگہ" تھی جسے "پھیلا" کر ہموار کیا گیا ہو۔

چنانچہ جس چیز کو آپ آجکے ماڈرن فقہا کی interpretation کہہ رہے ہیں، وہ میرے نزدیک انکی "بہانے بازیاں" ہیں جوکہ کچھ کیسز میں کھلی "بددیانتی" تک پہنچ چکی ہے۔

اور یہ قرآن ہے جو کہ انسان کو "بنی آدم" کہہ کر آدم کی اولاد بیان کر رہا ہے۔ چنانچہ جب یوریشیا کے انسانوں کے جنوم کا ڈی این اے افریقہ کے انسانوں سے مشابہہ ہونے کی بجائے نیندرتھال کے جنوم کے ڈی این اے سے مشابہ نکلے گا تو پھر سوال تو اٹھے گا کہ نا کہ ہم سب اگر آدم کی اولاد ہین تو پھر یہ نیندرتھال کا ڈی این اے کہاں سے آ گیا؟

اور جو ایمبریالوجی کے حوالے سے آپ نے ایمبریو کے گوشت اور ھڈی بننے کا دعویٰ کیا تھا، اس پر تفصیل سے آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں کہ یہ دعویٰ کیوں غلط ہے۔لنک۔

اور زمین کی ساخت (فرش کی طرح ہموار) کے متعلق جو درجن بھر کے قریب قرآنی آیات ہیں، وہ آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔لنک۔
 

زیک

مسافر
جب یوریشیا کے انسانوں کے جنوم کا ڈی این اے افریقہ کے انسانوں سے مشابہہ ہونے کی بجائے نیندرتھال کے جنوم کے ڈی این اے سے مشابہ نکلے گا
خیال رہے کہ افریقہ سے باہر کے انسانوں کا ڈی این اے صرف دو تین فیصد نیئندرتال ہے اور باقی 97 فیصد افریقیوں ہی سے ملتا ہے۔
 
میں نے تو مذہب کی قرآن و حدیث کے حوالے سے وہی تعریف لے کر چلی تھی جس پر مسلمان پچھلے 1400 سالوں سے عمل پیرا ہیں۔
یہ تو فقط 100 سال کی بات ہے کہ جب سرسید احمد خان جیسے حضرات آنا شروع ہوئے جنہوں نے حدیث کا انکار کیا، ۔

کیا کہا حدیث، یوم اکملت دینکم سے لے کرابن حجر عسقلانی 1372 کی پیدائش تک کہانیوں کی کسی کتاب کا ۔ جی لکھی ہوئی کتب کا کوئی وجود ہی نہیں پایا جاتا۔ تو یہ صرف 100 سال پہلے سرسید احمد خان کی بات نہیں ، 1400 سال پہلے رسول اکرم کی بات ہے کہ قرآن ہی فقط حدیث الہی ہے باقی سب کہانیاں ہیں ہے ۔۔ اب آپ اگر صرف قرآن حکیم کی ایات سے سائنس کے خلاف کچھ ثابت کرسکیں تو جان کر معلومات میں اضافہ ہوگا۔

رہ گئی میری بات تو میں حدیث کی ہر اس کتاب کا قائیل ہوں جو رسول اکرم کے زمانے میں لکھی جاچکی تھی اور جن کتب پر رسول اکرم کا ایمان تھا اور رسول اکرم نے جس کتاب پر ایمان رکھنے کے لئے کہا تھا ۔ چونکہ قرآں کے علاواہ ایسی کسی کتاب کا وجود نہیں اور سنی سنائی کہانیوں پر میرا ایمان نہیں لہذا آپ مجھے تمام کی تمام روایا اور کہانیوں کا ترک کرنے والا سمجھ لیں تاکہ آپ کو کوئی بھی مغالطہ نہیں رہے۔

 

رانا

محفلین
میں نے رانا صاحب کو بالکل صاف طریقے سے انکے اس سٹینڈرڈ کا بتلا دیا تھا کہ "چت بھی میرا پٹ بھی میرا، اور انٹا میرے باپ کا"۔
رانا صاحب یہ کر رہے تھے جو چت آتا تھا (جو حدیث انہیں پسند آتی تھی) وہ بھی ان کی اور جو پٹ ہوتا تھا (یعنی جو حدیث پسند نہیں آتی تھی) اسے ناپسندیدہ کہہ کر ٹھکرا دیتے تھے۔۔۔ اور انٹا میرے باپ کی مثال بھی انہوں نے قائم کی تھی جب وہ ایک "خواب اور الہام" کی بات کر کے اسے بطور حجت پیش کر رہے تھے۔

مہوش بہنا ! میں اپنی گفتگو ختم کر کے اس بحث سے باہر آچکا ہوں۔ جو موقف میں نے جس جس حوالے سے پیش کرنا تھا کرچکا ہوں کہ پڑھنے والے خود ہی رائے قائم کرلیں گے کہ بندے کا کام اپنی بات کو زبردستی منوانا نہیں ہوتا بلکہ اپنا موقف پیش کرنا ہوتا ہے جو میں کرچکا ہوں۔ لیکن براہ کرم اتنی مہربانی کریں کہ بعد میں میرے موقف کا اگر کسی دوسرے کے سامنے ذکر کریں تو ایمانداری سے کریں۔اپنے الفاظ میں اس طرح نہ کریں کہ جس سے منفی تاثر پیدا ہو۔ آپ اپنا تبصرہ میرے موقف پر ضرور پیش کریں یہ آپ کا حق ہے جیسا کہ اوپر آپ نے پیش کیا ہے لیکن اس سے پہلے دو تین سطروں میں میرے موقف کو بھی بیان کردیا کریں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا کہ میرے موقف پر آپ نے تبصرہ کن شاندار الفاظ میں کیا ہے۔

میں نے ابن عربی کا ایک کشف اپنی بات کی تائید میں پیش کردیا تھا اس کو آپ لے کر ہی بیٹھ گئیں کہ خواب اور الہام پیش کردیا ہے۔ حالانکہ وہاں وضاحت بھی کردی تھی کہ میں نے تائید میں پیش کیا ہے نہ کہ بطور حجت کہ جسے ماننے پر آپ کو مجبور کروں۔ بطور حجت میں نے صرف قرآن کی آیات پیش کی ہیں باقی سب اپنی بات کی وضاحت اور تائید میں پیش کیا تھا۔ یہ بھی وضاحت کردوں کہ ابن عربی کا کشف بھی صرف اس لئے پیش کردیا کہ میں پوری گفتگو کے دوران آپ کو سُنی سمجھ کر گفتگو کررہا تھا۔ اگر اس وقت مجھے اس کا علم ہوجاتا کہ آپ اہل تشیع ہیں تو مجھے کیا ضرورت تھی کہ سُنی بزرگوں کے کشف و الہام شعیہ حضرات کے سامنے رکھوں۔

میرا موقف احادیث پر جس انداز میں آپ نے پیش کیا ہے کیا یہ دیانت داری ہے؟ میں نے کہا تھا کہ احادیث جمع کرنے میں محدثین نے بہت قابل قدرمحنت کی ہے اور اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے کہ صرف وہی حدیث لیں جو ان کے معیار پر پوری اترے۔ لیکن آخر وہ انسا ن تھے خطا سے پاک نہ تھے۔ اس لئے بعض ضعیف احادیث بھی ان کی کتابوں میں درج ہوگئیں۔ اس لئے اگر کوئی حدیث ان کتابوں میں ایسی ملے جو قرآن کے کسی مضمون کے صریح مخالف نظر آئے تو اسے رد کردیا جائے گا۔ یہ میرا سادہ سا موقف تھا جسے آپ نے اس انداز میں پیش کیا ہے کہ رانا صاحب کو جو حدیث پسند آتی ہے وہ لیتے ہیں اور جو ناپسند ہوتی ہے وہ چھوڑ دیتے ہیں۔قرآن کے مخالف حدیث کو چھوڑنا پسند ناپسند کیسے ٹھہرا۔ آپ اگر اس بات کو پسند کرتی ہیں کہ احادیث کی بنیاد پر قرآن کی تشریح کریں تو ہم اس بات کو پسند کرتےہیں کہ قرآن کی بنیاد پر احادیث کو پرکھیں۔ دونوں جگہ بہرحال ایک بنیاد موجود ہے۔ آپ کی بنیاد انسانی ہاتھوں سے تیار کردہ ہے اور ہماری بنیاد اللہ تعالیٰ کی تیار کردہ ہے جس کے مستند ہونے میں کوئی کلام نہیں۔ اب موقف ہمارا مضبوط ہے یا آپ کا۔ اگر آپ کو یہ اعتراض ہے کہ ہم قرآن کا ترجمہ اپنی سمجھ کے مطابق کرلیں گے توآپ کے موقف پر بھی یہی اعتراض ہے کہ آپ قرآن کا ترجمہ ان لوگوں کی بیان کردہ حدیثوں کے مطابق کرتی ہیں جو خطا سے پاک نہیں تھے اور کچھ پتہ نہیں کہ حدیث جمع کرنے میں ان سے کیا کیا خطائیں ہوئیں۔

اگر کوئی ایسی ضعیف احادیث کا انکار کردے جن کا آپ بھی انکار کرتی ہیں تو آپ اسے آڑے ہاتھوں لیتی ہیں کہ تم منکر حدیث ہو۔ تمہاری جرات کیسے ہوئی اس حدیث کے انکار کی۔ جب آپ سے پوچھا جائے کہ آپ اس حدیث کو مانتی ہیں تو آپ بھی انکار کردیتی ہیں۔ کیا دوغلا پن نہیں۔ کہ بقول آپ کے چت بھی اپنا پٹ بھی اپنا۔ میں اسی ضعیف حدیث کا انکار کروں تو منکر حدیث اور آپ اسی ضعیف حدیث کا انکار کریں تو پکی مسلمان۔ اور آپ اگلے کو مجبور کرتی ہیں کہ سب احادیث کو مانو یا سب کا انکار کرو۔ اگر کوئی سب احادیث کا انکار کردے تو اسے آپ قرآنسٹ کہہ کر آڑے ہاتھوں لیتی ہیں تم نے سب احادیث کا انکار کردیا اب تم سے کیا بات کی جائے۔ اگر وہ کہے کہ اچھا میں سب احادیث کو تسلیم کرتا ہوں تو آپ اسے آدم کے قد کاٹھ والی حدیث پیش کرکے کہتی ہے کہ تم نے ضعیف حدیث کو بھی مان لیا۔ تم کیسے انسان ہو۔ اب وہ انسان بے چارہ کیا کرے کہ آپ کا تو چت بھی اپنا پٹ بھی اپنا۔ اگر کوئی ایسا انسان آپ کے سامنے آجائے کہ جو کہے کہ ان ضعیف احادیث سے بچنا چاہئے اور اسکے لئے ایک معیار بنائے کہ میں صرف انہی احادیث کو مانوں گا جو قرآن کے مطابق ہوں گی اور اس کے اس معیار پر وہ ضعیف احادیث رد ہوجائیں تو آپ کو غصہ آجاتا ہے کہ اس نے ضعیف احادیث کو رد کردیا اب میں اعتراض اعتراض کیسے کھیلوں گی۔

سوال تو یہ ہے کہ آپ کے کہنے پر ہم کیوں سب احادیث کو مانیں۔ کیا ہم نے آپ کو کہیں کوئی تحریر دی تھی کہ ہم سب احادیث کو مانیں گے اور اب ہم اپنی تحریر سے منکر ہورہے ہیں۔ دیکھیں ایک مسلمان تو خوش ہوتا ہے کہ اگر دوسرے مسلمان کو کسی ضعیف حدیث سے بچتا دیکھ لے۔ آپ ایک حدیث کو ضعیف سمجھتی ہیں ہیں اسکے باوجود دوسرے مسلمانوں سے چاہتی ہیں کہ وہ اس پر ایمان لائیں۔ آپ کو خوش ہونا چاہئے کہ چلو انہوں نے ضیعف احادیث کو تو رد کیا۔ لیکن شائد آپ کو اس پر افسوس ہورہا ہے کہ اب ضعیف احادیث پر اعتراض کرکے انہیں رگیدا نہیں جاسکتا۔

میں نے تو اپنا اسٹینڈرڈ احادیث پر پیش کردیا کہ قرآن کے معیار پر پرکھی جائیں گی۔ اب آپ کے نزدیک یہ غلط ہے تو آپ میری درست اسٹینڈرڈ کی طرف راہنمائی کردیں۔ آپ کے نزدیک صحیح اسٹینڈرڈ کیا ہے؟ آپ اس کا بھی کچھ تذکرہ نہیں کرتیں۔
دیکھیں مہوش بہنا اگر آپ واقعی چاہتی ہیں ہم آپ کے بقول ان غلط اسٹینڈرڈز سے بچیں تو آپ کو اسکا حل بتانا چاہئے۔ اگر آپ حل بھی نہیں بتاتیں اور ضد کرتی ہیں کہ اپنے اسٹینڈرڈ کو بھی چھوڑ دو تو کیا یہ انصاف ہے؟

دیکھیں مہوش بہنا میں نے آپ کو آدم سے پہلے انسانوں کے وجود پر الاعراف کی آیت پیش کی اس آیت سے نہ صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ آدم سے پہلے انسان موجود تھے بلکہ ارتقا کا پتہ بھی ملتا ہے۔ اس آیت کے کسی لفظ کا غلط ترجمہ بھی نہیں کیا گیا۔ سب ترجمہ آپ کو بھی قبول ہے کہ درست ہے۔ لیکن آپ نے اسے کس بنیاد پر رد کیا؟ آدم کے پہلے انسان والی ایک ایسی حدیث کی بنیاد پر جس کو نہ آپ درست تسلیم کرتی ہیں اور نہ میں۔ کیا یہ مذاق نہیں ہے؟ ایک حدیث کو آپ بھی نہیں مانتی میں بھی نہیں مانتا لیکن صرف بحث جیتنے کی خاطر آپ نے اس کی بنیاد پر اس آیت کے ترجمہ کو ہی غلط قرار دے دیا۔ یہ تو انصاف کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔

مہوش بہنا! اگر قرآن کی تائید میں کسی غیرمسلم کے منہ سے بھی کوئی ایسی بات نکل جائے جس سے قرآن پر ہونے والے اعتراض دور ہوتے ہوں تو ایک مسلمان اس غیر مسلم کو بھی محبت کے جذبات سے دیکھتا ہے اور خوش ہوتا ہے۔ اگر آپ واقعی قرآن کے اوپر ہونےوالے سائنس کے اعتراض کو اٹھانا چاہتی تھیں اور خالص اسی نیت سے یہ دھاگہ کھولا تھا تو ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر یہاں کوئی ایسی ضعیف حدیث پیش کی جاتی جسے آپ بھی ضعیف سمجھتی ہوتیں تو آپ کو غصہ آنا چاہئے تھا کہ میں تو قرآن پر ہونے والے اعتراضات اٹھانا چاہتی تھی لیکن یہاں تو انہوں نے ضعیف حدیث پیش کرنا شروع کردی۔ لیکن افسوس کہ اسکے برعکس آپ کا رویہ ہے۔ کہ آپ نے چند سوال پیش کئے۔ ہم نے ایمانداری سے سمجھا کہ واقعی آپ اس معاملے پر پریشان ہیں اور آپ کی مدد کرنا چاہی کہ ان اعتراضات کو حل کیا جائے اور آپ کو بتایا کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور قرآن کی سورہ اعراف کی آیت واضح طور پر سائنس کی تائید کررہی ہے تو آپ کو غصہ آگیا کہ تم نے اس حدیث کو ضعیف کہہ کر رد کیوں کردیا۔ جبکہ دوسری طرف آپ خود بھی اسے ضعیف ہی سمجھتی ہیں۔ آپ کو تو خوش ہونا چاہئے تھا کہ جس حدیث کو میں ضعیف سمجھتی ہوں دوسرے مسلمان بھائی بھی اسے ضعیف سمجھتے ہیں اور قرآن پر واقعی کوئی اعتراض نہیں پڑتا۔ لیکن آپ کا رویہ سمجھ سے بالا ہے۔ کہ بعد کے مراسلوں سے لگتا ہی نہیں کہ آپ قرآن پر ہونے والے اعتراضات کو اٹھانا چاہتی تھیں۔

مجھ پر اس دھاگے سے جو تاثر ہے وہ یہ کہ اصل میں آپ کی شروع سے ہی یہ نیت نہیں تھی کہ قرآن پر ہونےوالے سائنسی اعتراض کو اٹھانا ہے۔ بلکہ آپ یہاں سنی ماخذ احادیث اور فقہا پر اعتراض کرنا چاہتی تھیں۔ اسی لئے جب آپ کو یہاں آتے ہی پتہ لگا کہ جن احادیث کی بنیاد پر آپ نے اعتراضات کا رنگ جمانا تھا وہ تو پہلے ہی انہوں نے ضعیف کہہ کر رد کردی ہیں تو آپ کو غصہ آگیا اور پورے دھاگے میں آپ کا انتہائی جارحانہ انداز یہی غمازی کررہا ہے کہ آپ اس بات پر آگ بگولا ہیں کہ جن احادیث پر اعتراضات وارد ہوتے تھے وہ انہوں نے کیوں پھینک دی ہیں۔ اور اب سب کو مجبور کررہی ہیں کہ یا تو سب احادیث کو مانو یا سب کا انکار کرو تاکہ کچھ تو اعتراض اعتراض کھیلنے کی گنجائش نکل سکے۔ انتہائی بچگانہ انداز ہے۔

اگر تو آپ نے قرآن اور سائنس کا یہ تضاد اٹھانے کی بجائے سُنی اسٹینڈرز کا جھگڑا کھڑا کرنا تھا آپ کو سیدھا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ اتنا گھما پھرا کر یہ معاملہ پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ دھاگے کے اتنے صفحات آپ سے یہ سمجھ کر بحث کرنے میں گزر گئے کہ شائد آپ تضاد اٹھانا چاہتی ہیں۔ لیکن بعد کو یہ ظاہر ہوا کہ آپ کا اصل مقصد سُنی اسٹینڈرڈ کی بحث چھیڑ کر سُنی ماخذ کو ہدف تنقید بنانا تھا۔ آپ دھاگہ ہی اس نام سے شروع کرلیتی۔ خواہ مخواہ آپ نے پیچ در پیچ راہ اختیار کی۔

دیکھیں ہر شخص سے بات کرنے کا انداز اور اسے پیش کئے جانے والے دلائل ایک جیسے کبھی نہیں ہوتے۔ ایک شخص جو قرآن کو مانتا ہے اس سے بات کرنے کا انداز الگ ہوگا کہ ایک فیکٹر ہم میں مشترک ہوگا۔ لیکن جو قرآن کو نہیں مانتا اور غیر مسلم ہے جیسے عیسائی تو اس سے بات کرنے کا انداز الگ ہوگا کیونکہ وہاں یہ فیکٹر درمیان سے اٹھ گیا اور صرف اللہ کی ذات پر ایمان ہی ایک فیکٹر مشترک رہ گیا۔ لیکن جو دہریہ ہے اس سے بالکل الگ نہج پر گفتگو کی جائے گی کہ وہاں تو یہ کامن فیکٹر بھی نہیں رہا۔
اب آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ ہیں تو مسلمان لیکن سوال کرنے کا انداز غیرمسلم اور دہریہ کا سا ہےجن کا مقصد اعتراض سے یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح اگلا بندہ کسی اعتراض سے بچ کرنہ جاسکے۔ اور مقصد اگلے کو غلط ثابت کرنا ہی ہوتا ہے۔ سائنس اورقرآن میں اگر آپ کو کوئی اختلاف نظر آتا ہے تو آپ اسے اس انداز میں پیش کررہی ہیں جیسے دوسروں نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے کہ وہ اس اعتراض کو دور کریں ورنہ میں دہریہ بننے جارہی ہوں۔ کیا آپ کا فرض نہیں ہے کہ آپ بھی اس تضاد کو اٹھانے میں دوسروں کی مدد کریں؟ یہاں سب احباب اس دھاگے میں معقولیت کے دائرے میں رہتے ہوئے اس تضاد کو اٹھانے کی کوشش کررہےہیں بلکہ ان کا موقف بھی آپ سے بدرجہا بہتر ہے کہ وہ جن احادیث کو قرآن سے متصادم دیکھتے ہیں اسے رد کررہے ہیں اور قرآن سے اپنا موقف ثابت کررہے ہیں۔ لیکن آپ کا انداز کیا ہے۔ جس حدیث کو ہم نے رد کردیا قرآن کی بنیاد پر اسے آپ بھی رد کرتی ہیں چاہے اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ وہ سنی کتابوں میں ہیں۔ لیکن ان احادیث کی بنیاد پر ہمارے موقف کو ماننے سے انکار کررہی ہیں۔ حالانکہ اگر یہ بات طے کرلی جائے کہ جن احادیث کے متعلق آپ اور ہم دونوں متفق ہوں کہ وہ غلط ہیں انہیں بحث میں پیش نہ کیا جائے تو پھر حضرت آدم والا تضاد آن کی آن میں حل ہوجاتا ہے الاعراف والی آیت کی روشنی میں۔ لیکن آپ اس مسئلے کو حل کرنا ہی نہیں چاہ رہیں کیونکہ آپ کی توپوں کا رخ صرف سنی کتابوں اور عقائد کی طرف ہے۔ اپنے مجتہدین کے بارے میں بھی کچھ فرمائیں کہ وہاں بھی یہ سائنس اور قرآن کا تضاد ہے یا حل کیا جاچکا ہے۔ اگر حل کیا جاچکا ہے تو ہمیں اس سے آگاہ کریں کہ اگر معقول ہوگا تو ہم بھی مان لیں گے کہ ہم تو پہلے ہی تضاد اٹھانے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں جبکہ آپ تضاد ثابت کرنے پر مستعد نظر آتی ہیں۔ یہ بات میں پوری دیانت داری سے کہہ رہا ہوں۔ کہ اگر آپ کے نزدیک الاعراف والی آیت کے علاوہ کوئی اور آیت بھی ہے جس سے یہ تضاد زیادہ بہتر رنگ میں آپ کے مجتہدین نے اٹھادیا ہے تو مجھے بڑی خوشی ہوگی کہ قرآن کے حق میں میرے دلائل میں ایک اور کا اضافہ ہوگا۔۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہوگی کہ وہ دلیل شعیہ مکتب فکر سے آئی ہے بلکہ میں تو اس دلیل کے پیش کرنے والے کو دعا دوں گا کہ اسے اس خدمت قرآن کی توفیق ملی ہے۔

بعد کے مراسلے میں آپ نے یہ کہا کہ فقہا کا اختلاف اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ قرآن کی بات غلط ہے۔ آپ وہی کچھ ہم سے منوانا چاہتی ہیں جو آپ پہلے سے سوچ کر آتی ہیں۔ دیکھیں ایک استاد ایک فزکس کی کتاب طلبا کو دے کر کہتا ہے کہ اس میں ہر چیز وضاحت سے موجود ہے اور اس فزکس کی کتاب کو مختلف قابلیت کے طلبا پڑھتے ہیں اور ہر ایک اپنی قابلیت کے مطابق اس میں سے نتائج اخذ کرتا ہے۔ کوئی بالکل درست اور کوئی مبہم اورکوئی بالکل غلط۔ تو کیا جنہوں نے غلط نتائج اخذ کئے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ فزکس کی کتاب غلط ہے۔ ظاہر ہے کہ نہیں۔ پڑھنے اور سمجھنے والے کی قابلیت کا فرق تھا۔ یہی معاملہ قرآن کا ہے کہ مختلف فقہا یا علماء اس کا مطالعہ کرتے ہیں سب کی روحانی اور ذہنی قابلیت ایک سی نہیں ہوتی۔ ہر ایک اپنے ظرف کے مطابق اس میں سے معارف اخذ کرتا ہے۔ قرآن تو ایسی کتاب ہے کہ ایک مزدور بھی پڑھے تو اسے بھی نامحروم نہیں رکھتا بلکہ اس کے ظرف کے مطابق اسے معارف عطا کرتا ہے۔ اورایک عالم پڑھے تو وہ اپنے ظرف کے مطابق یہاں سے پھول چنتا ہے۔ اگر کسی نے کوئی غلط نتیجہ کسی آیت سے اخذ کرلیا تو اس سے کتاب پر کیسے اعتراض اٹھ سکتا ہے۔ حیرت ہے کہ فزکس کی کتاب کے حوالے سے آپ کو تسلیم ہوگا کہ طلبا کی قابلیت میں فرق ہے کتاب پر اعتراض نہیں ہوسکتا۔ لیکن قرآن کے معاملے میں آپ طلبا کو حرف آخر منوانا چاہتی ہیں اور قرآن کو غلط ۔ یعنی چت بھی اپنا پٹ بھی اپنا کہ جو نتیجہ میں نکالوں گی وہی درست سمجھا جائے گا۔
 
آخری تدوین:
زمین کے کرہ کی شکل کے ہونے کی بحث بہت ہی پرانی ہے۔

“And we have made the earth egg shaped”. [Al-Qur’an 79:30]
پیاری سی بہن، جس آرٹیکل کا آپ نے سہارا لیا ہے، اس کا لکھنے والا لفظ دحاھا میں ہی الجھ کر رہے گیا۔ ۔ عربی لفظ کرہ کے معانی ہے گیند جیسے فٹ بال اور کا فعل مضارع ہے لفظ "[Yukawer يُكَوِّرُ] "، اس کے کیا معانی ہونگے؟ کرے کی شکل میں لپیٹنا یا گیند کی شکل میں لپیٹنا۔ آئیے دیکھتے ہیں - درج ذیل آیت میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کے رات اور دن کو کسی کرے کی طرح ایک دوسرے پر لپیٹتا ہے۔ اسی آیت میں کروں یعنی چاند اور سورج کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور لفظ "یکور" بھی مناسب استعمال کیا گیا ہے۔ جس کے معانی ہوئے کے وہ کرے یعنی کی شکل میں لپیٹتا ہے۔ لوگ اون کی بھی گیند کی شکل میں لپیٹتے ہیں اس کے لئے بھی یکور ہی استعمال ہوگا۔ یہ فعل مضارع ہے جو کہ انگریزی میں 3rd person masculine singular (form II) imperfect verb ہے۔

39:5 خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى أَلَا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ
اُس نے آسمانوں اور زمین کو صحیح تدبیر کے ساتھ پیدا فرمایا۔ وہ رات کو دن پرکرہ کی طرح لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر کرہ کی طرح لپیٹتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو مسخّر کر رکھا ہے، ہر ایک مقرّر وقت کی حد تک دوڑتا ہے، خبردار! وہی غالب، بڑا بخشنے والا ہے

دوڑنے کے لفظ سے زمین کے ساکن نا ہونے کا بھی علم ہوتا ہے۔
لین لیکسی کان یہاں موجود ہے - اس میں کاف کے صفحے پر جا کر لفظ کور دیکھیں اور اس سے اک پچھلے صفحے پر جائیں جہں لفظ کور اور یکور کے معانی دئے ہوئے ہیں۔ یکور کے معانے سر پر پگڑی کی طرح لپیٹنے کے دئے گئے ہیں۔ یعنی کسی کرے پر لپیٹنا۔ جیسے کے سر پر۔ یہ آسان مثال ہے۔
http://www.tyndalearchive.com/tabs/lane/


اگر آپ کو کسی ترجمہ میں 'کرہ کی طرح' نا ملے تو پھر کسی ڈکشنری سے آپ مدد لے سکتی ہیں کہ لفظ یکور کے معانی کیا ہیں۔ پھر یہاں سورج، چاند اور زمین سب کے لئے دوڑنے "کل یجری" سب کے سب دوڑ رہے ہیں۔ اب اگر کوئی کہے کہ چاند گول کرہ ، سورج گول کرہ، لیکن زمین ہموار سطح ہے تو پھر یہ ان سب کے گروپ میں نہیں رہی ۔۔ سبحان اللہ ۔۔

والسلام۔
 
آخری تدوین:
قرآن مجید کی حیثیت پر غور کیا جائے تو صاف واضح ہوتا ہے کہ اگرچہ یہ کتاب ہدایت ہے، مگر اس سے استفادے کی توفیق انھی کو حاصل ہوتی ہے جو دنیا میں زندگی کی آزمایش کی حقیقت سمجھتے ہوں اور آخرت میں خدا کی جنت کو پانے کا سچا اور لازوال جذبہ رکھتے ہوں۔ اس کے حفظ و تلاوت، اس پر غور و تدبر اور اس کی تعلیمات پر عمل کے بامقصد ہونے کا تمام تر دارومدار ہدایت کو پا لینے کی خواہش پر ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تبھی ممکن ہے جب بندہ شعوری طور پر مسلمان ہو اور آخرت میں جنت کا حصول اس کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ بن جائے۔

۔۔۔
سلام علیکم بہت زبردست بات کی ہے آپ نے ۔۔ قرآن حکیم کی ایک آیت صاف طور پر ہمیں بتاتی ہے کہ فیصلہ کس کتاب سے ہوگا۔ کتاب رکھ دی جائے گی

39:69 وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اور زمینِ اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی اور کتاب رکھ دی جائے گی اور انبیاء کو اور گواہوں کو لایا جائے گا اور لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔

اس دن ہم سب رب کریم سے کہانیوں کی کتابوں کے بارے میں سوال کرسیکیں گے کہ ان کہانیوں میں تو ایسا لکھا تھا اور یہ کیا کہ آپ فیصلہ صرف "الکتاب" سے کررہے ہیں؟ نعوذ باللہ ۔۔۔ اب کوئی مجھ جیسے گھسیارے کو قرآنسٹ کا طعنہ مارے تو میں کوئی بہتر نہیں ہو جاؤں گا ۔
 

x boy

محفلین
مہوش بہن کے نزدیگ قرآن الکریم کی حیثیت کیا ہے ؟ اگر مسلمانوں کی مانتی ہے تو عقل مند مسلمان بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں بلکہ سبھی کچھ لیکن نہ ماننے کی صورت میں جنت پر اور جہنم پر سیڑھی لگاکر چڑھ بھی جائے تو وہ جہنم کو لاوا، آگ اور گیس کا گولا سمجھیں گے جنت کو کائنات میں قائم کوئی ایلین پلانٹ ،،،
ہم مسلمانوں کے لئے رہنما ہے ، بحث سے کچھ حاصل نہیں، میں اوپر عرض کرچکا ہوں کہ مفکرین قرآن الکریم نے سمجھ کر ناسمجھوں کے لئے عربی میں 28 تفاسیر لکھے ہیں جن کا ترجمہ مختلف زبانوں میں کیا جارہا ہے ہے اور جاتا رہے گا۔
 
آخری تدوین:

مہوش علی

لائبریرین
زمین کے کرہ کی شکل کے ہونے کی بحث بہت ہی پرانی ہے۔


پیاری سی بہن، جس آرٹیکل کا آپ نے سہارا لیا ہے، اس کا لکھنے والا لفظ دحاھا میں ہی الجھ کر رہے گیا۔ ۔ عربی لفظ کرہ کے معانی ہے گیند جیسے فٹ بال اور کا فعل مضارع ہے لفظ "[Yukawer يُكَوِّرُ] "، اس کے کیا معانی ہونگے؟ کرے کی شکل میں لپیٹنا یا گیند کی شکل میں لپیٹنا۔ آئیے دیکھتے ہیں - درج ذیل آیت میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کے رات اور دن کو کسی کرے کی طرح ایک دوسرے پر لپیٹتا ہے۔ اسی آیت میں کروں یعنی چاند اور سورج کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور لفظ "یکور" بھی مناسب استعمال کیا گیا ہے۔ جس کے معانی ہوئے کے وہ کرے یعنی کی شکل میں لپیٹتا ہے۔ لوگ اون کی بھی گیند کی شکل میں لپیٹتے ہیں اس کے لئے بھی یکور ہی استعمال ہوگا۔ یہ فعل مضارع ہے جو کہ انگریزی میں 3rd person masculine singular (form II) imperfect verb ہے۔

39:5 خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى أَلَا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ
اُس نے آسمانوں اور زمین کو صحیح تدبیر کے ساتھ پیدا فرمایا۔ وہ رات کو دن پرکرہ کی طرح لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر کرہ کی طرح لپیٹتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو مسخّر کر رکھا ہے، ہر ایک مقرّر وقت کی حد تک دوڑتا ہے، خبردار! وہی غالب، بڑا بخشنے والا ہے

دوڑنے کے لفظ سے زمین کے ساکن نا ہونے کا بھی علم ہوتا ہے۔
لین لیکسی کان یہاں موجود ہے - اس میں کاف کے صفحے پر جا کر لفظ کور دیکھیں اور اس سے اک پچھلے صفحے پر جائیں جہں لفظ کور اور یکور کے معانی دئے ہوئے ہیں۔ یکور کے معانے سر پر پگڑی کی طرح لپیٹنے کے دئے گئے ہیں۔ یعنی کسی کرے پر لپیٹنا۔ جیسے کے سر پر۔ یہ آسان مثال ہے۔
http://www.tyndalearchive.com/tabs/lane/


اگر آپ کو کسی ترجمہ میں 'کرہ کی طرح' نا ملے تو پھر کسی ڈکشنری سے آپ مدد لے سکتی ہیں کہ لفظ یکور کے معانی کیا ہیں۔ پھر یہاں سورج، چاند اور زمین سب کے لئے دوڑنے "کل یجری" سب کے سب دوڑ رہے ہیں۔ اب اگر کوئی کہے کہ چاند گول کرہ ، سورج گول کرہ، لیکن زمین ہموار سطح ہے تو پھر یہ ان سب کے گروپ میں نہیں رہی ۔۔ سبحان اللہ ۔۔

والسلام۔

السلام علیکم
معذرت، مگر صاف الفاظ میں آپکا طریقہ کار چیزوں سے انصاف نہیں بلکہ ان سے زبردستی کھینچ تان کر کسی نہ کسی طرح اپنی پسند کا مطلب نکالنا ہے۔
یہ وہی طریقہ کار ہے جس سے ہندو بھی اپنی مقدس کتابوں سے خلاء، اور اڑن طشتری، اور پتا نہیں کون کون سے سائنسی معجزے نکال رہے ہوتے ہیں۔

لپیٹنے سے کہیں بھی دور دور تک یہ واجب نہیں آتا کہ لپیٹنے والی چیز ہر صورت میں کرہ کی شکل کی ہو گی۔ بلکہ ہم (سپاٹ سطح کے حامل) قرآن کو غلاف میں لپیٹ رہے ہوتے ہیں، سپاٹ سطح والے چوکور گفٹ پیک کو بھی گفٹ پیپر میں لپیٹ رہے ہوتے ہیں۔

قرآن ہی نے آیت 31:29 میں لپیٹنے کی جگہ "داخل" ہونے کے الفاظ استعمال کر دیے ہیں۔

(قرآن31:29)
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى وَأَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
ترجمہ: کیا تو نے نہیں دیکھا کہ الله رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور سورج اور چاند کو کام پر لگا رکھا ہے ہر ایک وقت مقرر تک چلتا رہے گا اور یہ کہ الله تمہارے کام سے خبردار ہے۔

اب یہ نہ کہیے گا کہ لپیٹنے کی طرح داخل ہونے کے لیے بھی لازمی ہے کہ وہ چیز کرہ کی شکل کی ہو۔

قرآن 15:19
والارض مددناها والقينا فيها رواسي وانبتنا فيها من كل شئ موزون
ترجمہ: اور ہم نے زمین کو پھیلایا اور اس پر پہاڑ رکھ دیے اوراس میں ہر چیز اندازے سے اگائی

قرآن 20:53
الذي جعل لكم الارض مهدا وسلك لكم فيها سبلا وانزل من السماء ماء فاخرجنا به ازواجا من نبات شتى
ترجمہ: جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا اور تمہارے لیے اس میں راستے بنائے اور آسمان سے پانی نازل کیا پھر ہم نے اس میں طرح طرح کی مختلف سبزیاں نکالیں

قرآن 43:10
الذي جعل لكم الارض مهدا وجعل لكم فيها سبلا لعلكم تهتدون
ترجمہ: وہ جس نے زمین کو تمہارا بچھونا بنایا اور تمہارے لیے اس میں راستے بنائے تاکہ تم راہ پاؤ

قرآن 50:7
والارض مددناها والقينا فيها رواسي وانبتنا فيها من كل زوج بهيج
ترجمہ: اور زمین کو بچھایا ہم نے اور ڈال دیے اس میں (پہاڑوں کے) لنگر اور اگائیں اس میں ہرطرح کی خوش منظر نباتات۔

قرآن 51:48
والارض فرشناها فنعم الماهدون
ترجمہ: اور زمین کو بچھایا ہے ہم نے اور کیا ہی اچھے ہموار کرنے والے ہیں ہم۔


قرآن 71:19
والله جعل لكم الارض بساطا
ترجمہ: اور اللہ نے زمین کو تمہارے لیے فرش کی طرح بچھا دیا۔


قرآن 78:6
الم نجعل الارض مهادا
ترجمہ: کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا۔



قرآن 88:20
والى الارض كيف سطحت
ترجمہ: اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی؟


قرآن 91:6
والارض وماطحاها
ترجمہ: اور زمین کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اُسے بچھایا۔

گول کرہ نما چیز بچھائی نہیں جاتی۔ نہ ہی فرش گول کرہ نما ہوتا ہے۔ یہ آیات خود اتنی صاف اور واضح ہیں کہ ہر انصاف کے ساتھ عقل استعمال کرنے والا صحیح نتیجے پر پہنچ سکتا ہے۔ میں اپنی صاف اور سادہ رائے ان الفاظ میں بیان کر رہی ہوں کہ جنہیں ہر صورت مذہب کی ناموس کی جنگ لڑنا ہے چاہے اس میں انصاف کا قتل ہی کیوں نہ ہوتا ہو، تو وہ یقینا اسکی کوئی نہ کوئی لنگڑی لولی تعبیر یاتشریح لے کر آ ہی جائیں گے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
مہوش بہنا ! میں اپنی گفتگو ختم کر کے اس بحث سے باہر آچکا ہوں۔ جو موقف میں نے جس جس حوالے سے پیش کرنا تھا کرچکا ہوں کہ پڑھنے والے خود ہی رائے قائم کرلیں گے کہ بندے کا کام اپنی بات کو زبردستی منوانا نہیں ہوتا بلکہ اپنا موقف پیش کرنا ہوتا ہے جو میں کرچکا ہوں۔ لیکن براہ کرم اتنی مہربانی کریں کہ بعد میں میرے موقف کا اگر کسی دوسرے کے سامنے ذکر کریں تو ایمانداری سے کریں۔اپنے الفاظ میں اس طرح نہ کریں کہ جس سے منفی تاثر پیدا ہو۔ آپ اپنا تبصرہ میرے موقف پر ضرور پیش کریں یہ آپ کا حق ہے جیسا کہ اوپر آپ نے پیش کیا ہے لیکن اس سے پہلے دو تین سطروں میں میرے موقف کو بھی بیان کردیا کریں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا کہ میرے موقف پر آپ نے تبصرہ کن شاندار الفاظ میں کیا ہے۔

میں نے ابن عربی کا ایک کشف اپنی بات کی تائید میں پیش کردیا تھا اس کو آپ لے کر ہی بیٹھ گئیں کہ خواب اور الہام پیش کردیا ہے۔ حالانکہ وہاں وضاحت بھی کردی تھی کہ میں نے تائید میں پیش کیا ہے نہ کہ بطور حجت کہ جسے ماننے پر آپ کو مجبور کروں۔ بطور حجت میں نے صرف قرآن کی آیات پیش کی ہیں باقی سب اپنی بات کی وضاحت اور تائید میں پیش کیا تھا۔ یہ بھی وضاحت کردوں کہ ابن عربی کا کشف بھی صرف اس لئے پیش کردیا کہ میں پوری گفتگو کے دوران آپ کو سُنی سمجھ کر گفتگو کررہا تھا۔ اگر اس وقت مجھے اس کا علم ہوجاتا کہ آپ اہل تشیع ہیں تو مجھے کیا ضرورت تھی کہ سُنی بزرگوں کے کشف و الہام شعیہ حضرات کے سامنے رکھوں۔

میرا موقف احادیث پر جس انداز میں آپ نے پیش کیا ہے کیا یہ دیانت داری ہے؟ میں نے کہا تھا کہ احادیث جمع کرنے میں محدثین نے بہت قابل قدرمحنت کی ہے اور اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے کہ صرف وہی حدیث لیں جو ان کے معیار پر پوری اترے۔ لیکن آخر وہ انسا ن تھے خطا سے پاک نہ تھے۔ اس لئے بعض ضعیف احادیث بھی ان کی کتابوں میں درج ہوگئیں۔ اس لئے اگر کوئی حدیث ان کتابوں میں ایسی ملے جو قرآن کے کسی مضمون کے صریح مخالف نظر آئے تو اسے رد کردیا جائے گا۔ یہ میرا سادہ سا موقف تھا جسے آپ نے اس انداز میں پیش کیا ہے کہ رانا صاحب کو جو حدیث پسند آتی ہے وہ لیتے ہیں اور جو ناپسند ہوتی ہے وہ چھوڑ دیتے ہیں۔قرآن کے مخالف حدیث کو چھوڑنا پسند ناپسند کیسے ٹھہرا۔ آپ اگر اس بات کو پسند کرتی ہیں کہ احادیث کی بنیاد پر قرآن کی تشریح کریں تو ہم اس بات کو پسند کرتےہیں کہ قرآن کی بنیاد پر احادیث کو پرکھیں۔ دونوں جگہ بہرحال ایک بنیاد موجود ہے۔ آپ کی بنیاد انسانی ہاتھوں سے تیار کردہ ہے اور ہماری بنیاد اللہ تعالیٰ کی تیار کردہ ہے جس کے مستند ہونے میں کوئی کلام نہیں۔ اب موقف ہمارا مضبوط ہے یا آپ کا۔ اگر آپ کو یہ اعتراض ہے کہ ہم قرآن کا ترجمہ اپنی سمجھ کے مطابق کرلیں گے توآپ کے موقف پر بھی یہی اعتراض ہے کہ آپ قرآن کا ترجمہ ان لوگوں کی بیان کردہ حدیثوں کے مطابق کرتی ہیں جو خطا سے پاک نہیں تھے اور کچھ پتہ نہیں کہ حدیث جمع کرنے میں ان سے کیا کیا خطائیں ہوئیں۔

اگر کوئی ایسی ضعیف احادیث کا انکار کردے جن کا آپ بھی انکار کرتی ہیں تو آپ اسے آڑے ہاتھوں لیتی ہیں کہ تم منکر حدیث ہو۔ تمہاری جرات کیسے ہوئی اس حدیث کے انکار کی۔ جب آپ سے پوچھا جائے کہ آپ اس حدیث کو مانتی ہیں تو آپ بھی انکار کردیتی ہیں۔ کیا دوغلا پن نہیں۔ کہ بقول آپ کے چت بھی اپنا پٹ بھی اپنا۔ میں اسی ضعیف حدیث کا انکار کروں تو منکر حدیث اور آپ اسی ضعیف حدیث کا انکار کریں تو پکی مسلمان۔ اور آپ اگلے کو مجبور کرتی ہیں کہ سب احادیث کو مانو یا سب کا انکار کرو۔ اگر کوئی سب احادیث کا انکار کردے تو اسے آپ قرآنسٹ کہہ کر آڑے ہاتھوں لیتی ہیں تم نے سب احادیث کا انکار کردیا اب تم سے کیا بات کی جائے۔ اگر وہ کہے کہ اچھا میں سب احادیث کو تسلیم کرتا ہوں تو آپ اسے آدم کے قد کاٹھ والی حدیث پیش کرکے کہتی ہے کہ تم نے ضعیف حدیث کو بھی مان لیا۔ تم کیسے انسان ہو۔ اب وہ انسان بے چارہ کیا کرے کہ آپ کا تو چت بھی اپنا پٹ بھی اپنا۔ اگر کوئی ایسا انسان آپ کے سامنے آجائے کہ جو کہے کہ ان ضعیف احادیث سے بچنا چاہئے اور اسکے لئے ایک معیار بنائے کہ میں صرف انہی احادیث کو مانوں گا جو قرآن کے مطابق ہوں گی اور اس کے اس معیار پر وہ ضعیف احادیث رد ہوجائیں تو آپ کو غصہ آجاتا ہے کہ اس نے ضعیف احادیث کو رد کردیا اب میں اعتراض اعتراض کیسے کھیلوں گی۔

سوال تو یہ ہے کہ آپ کے کہنے پر ہم کیوں سب احادیث کو مانیں۔ کیا ہم نے آپ کو کہیں کوئی تحریر دی تھی کہ ہم سب احادیث کو مانیں گے اور اب ہم اپنی تحریر سے منکر ہورہے ہیں۔ دیکھیں ایک مسلمان تو خوش ہوتا ہے کہ اگر دوسرے مسلمان کو کسی ضعیف حدیث سے بچتا دیکھ لے۔ آپ ایک حدیث کو ضعیف سمجھتی ہیں ہیں اسکے باوجود دوسرے مسلمانوں سے چاہتی ہیں کہ وہ اس پر ایمان لائیں۔ آپ کو خوش ہونا چاہئے کہ چلو انہوں نے ضیعف احادیث کو تو رد کیا۔ لیکن شائد آپ کو اس پر افسوس ہورہا ہے کہ اب ضعیف احادیث پر اعتراض کرکے انہیں رگیدا نہیں جاسکتا۔

میں نے تو اپنا اسٹینڈرڈ احادیث پر پیش کردیا کہ قرآن کے معیار پر پرکھی جائیں گی۔ اب آپ کے نزدیک یہ غلط ہے تو آپ میری درست اسٹینڈرڈ کی طرف راہنمائی کردیں۔ آپ کے نزدیک صحیح اسٹینڈرڈ کیا ہے؟ آپ اس کا بھی کچھ تذکرہ نہیں کرتیں۔
دیکھیں مہوش بہنا اگر آپ واقعی چاہتی ہیں ہم آپ کے بقول ان غلط اسٹینڈرڈز سے بچیں تو آپ کو اسکا حل بتانا چاہئے۔ اگر آپ حل بھی نہیں بتاتیں اور ضد کرتی ہیں کہ اپنے اسٹینڈرڈ کو بھی چھوڑ دو تو کیا یہ انصاف ہے؟

دیکھیں مہوش بہنا میں نے آپ کو آدم سے پہلے انسانوں کے وجود پر الاعراف کی آیت پیش کی اس آیت سے نہ صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ آدم سے پہلے انسان موجود تھے بلکہ ارتقا کا پتہ بھی ملتا ہے۔ اس آیت کے کسی لفظ کا غلط ترجمہ بھی نہیں کیا گیا۔ سب ترجمہ آپ کو بھی قبول ہے کہ درست ہے۔ لیکن آپ نے اسے کس بنیاد پر رد کیا؟ آدم کے پہلے انسان والی ایک ایسی حدیث کی بنیاد پر جس کو نہ آپ درست تسلیم کرتی ہیں اور نہ میں۔ کیا یہ مذاق نہیں ہے؟ ایک حدیث کو آپ بھی نہیں مانتی میں بھی نہیں مانتا لیکن صرف بحث جیتنے کی خاطر آپ نے اس کی بنیاد پر اس آیت کے ترجمہ کو ہی غلط قرار دے دیا۔ یہ تو انصاف کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔

مہوش بہنا! اگر قرآن کی تائید میں کسی غیرمسلم کے منہ سے بھی کوئی ایسی بات نکل جائے جس سے قرآن پر ہونے والے اعتراض دور ہوتے ہوں تو ایک مسلمان اس غیر مسلم کو بھی محبت کے جذبات سے دیکھتا ہے اور خوش ہوتا ہے۔ اگر آپ واقعی قرآن کے اوپر ہونےوالے سائنس کے اعتراض کو اٹھانا چاہتی تھیں اور خالص اسی نیت سے یہ دھاگہ کھولا تھا تو ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر یہاں کوئی ایسی ضعیف حدیث پیش کی جاتی جسے آپ بھی ضعیف سمجھتی ہوتیں تو آپ کو غصہ آنا چاہئے تھا کہ میں تو قرآن پر ہونے والے اعتراضات اٹھانا چاہتی تھی لیکن یہاں تو انہوں نے ضعیف حدیث پیش کرنا شروع کردی۔ لیکن افسوس کہ اسکے برعکس آپ کا رویہ ہے۔ کہ آپ نے چند سوال پیش کئے۔ ہم نے ایمانداری سے سمجھا کہ واقعی آپ اس معاملے پر پریشان ہیں اور آپ کی مدد کرنا چاہی کہ ان اعتراضات کو حل کیا جائے اور آپ کو بتایا کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور قرآن کی سورہ اعراف کی آیت واضح طور پر سائنس کی تائید کررہی ہے تو آپ کو غصہ آگیا کہ تم نے اس حدیث کو ضعیف کہہ کر رد کیوں کردیا۔ جبکہ دوسری طرف آپ خود بھی اسے ضعیف ہی سمجھتی ہیں۔ آپ کو تو خوش ہونا چاہئے تھا کہ جس حدیث کو میں ضعیف سمجھتی ہوں دوسرے مسلمان بھائی بھی اسے ضعیف سمجھتے ہیں اور قرآن پر واقعی کوئی اعتراض نہیں پڑتا۔ لیکن آپ کا رویہ سمجھ سے بالا ہے۔ کہ بعد کے مراسلوں سے لگتا ہی نہیں کہ آپ قرآن پر ہونے والے اعتراضات کو اٹھانا چاہتی تھیں۔

مجھ پر اس دھاگے سے جو تاثر ہے وہ یہ کہ اصل میں آپ کی شروع سے ہی یہ نیت نہیں تھی کہ قرآن پر ہونےوالے سائنسی اعتراض کو اٹھانا ہے۔ بلکہ آپ یہاں سنی ماخذ احادیث اور فقہا پر اعتراض کرنا چاہتی تھیں۔ اسی لئے جب آپ کو یہاں آتے ہی پتہ لگا کہ جن احادیث کی بنیاد پر آپ نے اعتراضات کا رنگ جمانا تھا وہ تو پہلے ہی انہوں نے ضعیف کہہ کر رد کردی ہیں تو آپ کو غصہ آگیا اور پورے دھاگے میں آپ کا انتہائی جارحانہ انداز یہی غمازی کررہا ہے کہ آپ اس بات پر آگ بگولا ہیں کہ جن احادیث پر اعتراضات وارد ہوتے تھے وہ انہوں نے کیوں پھینک دی ہیں۔ اور اب سب کو مجبور کررہی ہیں کہ یا تو سب احادیث کو مانو یا سب کا انکار کرو تاکہ کچھ تو اعتراض اعتراض کھیلنے کی گنجائش نکل سکے۔ انتہائی بچگانہ انداز ہے۔

اگر تو آپ نے قرآن اور سائنس کا یہ تضاد اٹھانے کی بجائے سُنی اسٹینڈرز کا جھگڑا کھڑا کرنا تھا آپ کو سیدھا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ اتنا گھما پھرا کر یہ معاملہ پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ دھاگے کے اتنے صفحات آپ سے یہ سمجھ کر بحث کرنے میں گزر گئے کہ شائد آپ تضاد اٹھانا چاہتی ہیں۔ لیکن بعد کو یہ ظاہر ہوا کہ آپ کا اصل مقصد سُنی اسٹینڈرڈ کی بحث چھیڑ کر سُنی ماخذ کو ہدف تنقید بنانا تھا۔ آپ دھاگہ ہی اس نام سے شروع کرلیتی۔ خواہ مخواہ آپ نے پیچ در پیچ راہ اختیار کی۔

دیکھیں ہر شخص سے بات کرنے کا انداز اور اسے پیش کئے جانے والے دلائل ایک جیسے کبھی نہیں ہوتے۔ ایک شخص جو قرآن کو مانتا ہے اس سے بات کرنے کا انداز الگ ہوگا کہ ایک فیکٹر ہم میں مشترک ہوگا۔ لیکن جو قرآن کو نہیں مانتا اور غیر مسلم ہے جیسے عیسائی تو اس سے بات کرنے کا انداز الگ ہوگا کیونکہ وہاں یہ فیکٹر درمیان سے اٹھ گیا اور صرف اللہ کی ذات پر ایمان ہی ایک فیکٹر مشترک رہ گیا۔ لیکن جو دہریہ ہے اس سے بالکل الگ نہج پر گفتگو کی جائے گی کہ وہاں تو یہ کامن فیکٹر بھی نہیں رہا۔
اب آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ ہیں تو مسلمان لیکن سوال کرنے کا انداز غیرمسلم اور دہریہ کا سا ہےجن کا مقصد اعتراض سے یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح اگلا بندہ کسی اعتراض سے بچ کرنہ جاسکے۔ اور مقصد اگلے کو غلط ثابت کرنا ہی ہوتا ہے۔ سائنس اورقرآن میں اگر آپ کو کوئی اختلاف نظر آتا ہے تو آپ اسے اس انداز میں پیش کررہی ہیں جیسے دوسروں نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے کہ وہ اس اعتراض کو دور کریں ورنہ میں دہریہ بننے جارہی ہوں۔ کیا آپ کا فرض نہیں ہے کہ آپ بھی اس تضاد کو اٹھانے میں دوسروں کی مدد کریں؟ یہاں سب احباب اس دھاگے میں معقولیت کے دائرے میں رہتے ہوئے اس تضاد کو اٹھانے کی کوشش کررہےہیں بلکہ ان کا موقف بھی آپ سے بدرجہا بہتر ہے کہ وہ جن احادیث کو قرآن سے متصادم دیکھتے ہیں اسے رد کررہے ہیں اور قرآن سے اپنا موقف ثابت کررہے ہیں۔ لیکن آپ کا انداز کیا ہے۔ جس حدیث کو ہم نے رد کردیا قرآن کی بنیاد پر اسے آپ بھی رد کرتی ہیں چاہے اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ وہ سنی کتابوں میں ہیں۔ لیکن ان احادیث کی بنیاد پر ہمارے موقف کو ماننے سے انکار کررہی ہیں۔ حالانکہ اگر یہ بات طے کرلی جائے کہ جن احادیث کے متعلق آپ اور ہم دونوں متفق ہوں کہ وہ غلط ہیں انہیں بحث میں پیش نہ کیا جائے تو پھر حضرت آدم والا تضاد آن کی آن میں حل ہوجاتا ہے الاعراف والی آیت کی روشنی میں۔ لیکن آپ اس مسئلے کو حل کرنا ہی نہیں چاہ رہیں کیونکہ آپ کی توپوں کا رخ صرف سنی کتابوں اور عقائد کی طرف ہے۔ اپنے مجتہدین کے بارے میں بھی کچھ فرمائیں کہ وہاں بھی یہ سائنس اور قرآن کا تضاد ہے یا حل کیا جاچکا ہے۔ اگر حل کیا جاچکا ہے تو ہمیں اس سے آگاہ کریں کہ اگر معقول ہوگا تو ہم بھی مان لیں گے کہ ہم تو پہلے ہی تضاد اٹھانے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں جبکہ آپ تضاد ثابت کرنے پر مستعد نظر آتی ہیں۔ یہ بات میں پوری دیانت داری سے کہہ رہا ہوں۔ کہ اگر آپ کے نزدیک الاعراف والی آیت کے علاوہ کوئی اور آیت بھی ہے جس سے یہ تضاد زیادہ بہتر رنگ میں آپ کے مجتہدین نے اٹھادیا ہے تو مجھے بڑی خوشی ہوگی کہ قرآن کے حق میں میرے دلائل میں ایک اور کا اضافہ ہوگا۔۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہوگی کہ وہ دلیل شعیہ مکتب فکر سے آئی ہے بلکہ میں تو اس دلیل کے پیش کرنے والے کو دعا دوں گا کہ اسے اس خدمت قرآن کی توفیق ملی ہے۔

بعد کے مراسلے میں آپ نے یہ کہا کہ فقہا کا اختلاف اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ قرآن کی بات غلط ہے۔ آپ وہی کچھ ہم سے منوانا چاہتی ہیں جو آپ پہلے سے سوچ کر آتی ہیں۔ دیکھیں ایک استاد ایک فزکس کی کتاب طلبا کو دے کر کہتا ہے کہ اس میں ہر چیز وضاحت سے موجود ہے اور اس فزکس کی کتاب کو مختلف قابلیت کے طلبا پڑھتے ہیں اور ہر ایک اپنی قابلیت کے مطابق اس میں سے نتائج اخذ کرتا ہے۔ کوئی بالکل درست اور کوئی مبہم اورکوئی بالکل غلط۔ تو کیا جنہوں نے غلط نتائج اخذ کئے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ فزکس کی کتاب غلط ہے۔ ظاہر ہے کہ نہیں۔ پڑھنے اور سمجھنے والے کی قابلیت کا فرق تھا۔ یہی معاملہ قرآن کا ہے کہ مختلف فقہا یا علماء اس کا مطالعہ کرتے ہیں سب کی روحانی اور ذہنی قابلیت ایک سی نہیں ہوتی۔ ہر ایک اپنے ظرف کے مطابق اس میں سے معارف اخذ کرتا ہے۔ قرآن تو ایسی کتاب ہے کہ ایک مزدور بھی پڑھے تو اسے بھی نامحروم نہیں رکھتا بلکہ اس کے ظرف کے مطابق اسے معارف عطا کرتا ہے۔ اورایک عالم پڑھے تو وہ اپنے ظرف کے مطابق یہاں سے پھول چنتا ہے۔ اگر کسی نے کوئی غلط نتیجہ کسی آیت سے اخذ کرلیا تو اس سے کتاب پر کیسے اعتراض اٹھ سکتا ہے۔ حیرت ہے کہ فزکس کی کتاب کے حوالے سے آپ کو تسلیم ہوگا کہ طلبا کی قابلیت میں فرق ہے کتاب پر اعتراض نہیں ہوسکتا۔ لیکن قرآن کے معاملے میں آپ طلبا کو حرف آخر منوانا چاہتی ہیں اور قرآن کو غلط ۔ یعنی چت بھی اپنا پٹ بھی اپنا کہ جو نتیجہ میں نکالوں گی وہی درست سمجھا جائے گا۔

شکریہ رانا صاحب
آپکا پیغام بہت طویل ہے۔
میں ضرورت محسوس نہیں کرتی کہ اسکا تفصیلی جواب پھر سے دیا جائے کیونکہ ان تمام باتوں پر ہم پہلے تفصیلی بحث کر چکے ہیں۔
جب ہم مسند انصاف پر بیٹھتے ہیں تو ہم شیعہ ہوتے ہیں، نہ سنی، نہ مسلمان، بلکہ صرف منصف ہوتے ہیں۔ ہماری غلطی یہ ہوتی ہے کہ ہم بحث انصاف کے لیے نہیں، بلکہ اپنے دین یا مسلک کی ناموس کے لیے کر رہے ہوتے ہیں، اور اسی حوالے سے ہم چیزوں کوتوڑ مڑوڑ کر اپنے حق میں استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ ایک غلط رویہ ہے۔
 
مہوش بہن،
یکور صرف اور صرف کرے پر لپیٹنے کے لئے استعمال ہوتا ہے، اس لئے یہ فعل کور ، کا اسم کرہ ہے ۔ آپ کی باقی فرام کردہ تمام آیات اپنی جگہ "مظبوط" ہیں اور اس معانی کے مخالف نہیں ۔ اس آیت میں کرہ لپیٹا جارہا ہے دن اور رات سے۔
جب کہ آپ کی فرام کردہ آیت میں دن ، رات میں داخل ہورہا ہے اور اور رات دن میں ۔ اس ایت میں زمین کا تذکرہ نہیں ۔ آپ کی باقی تمام آیات میں کسی بھی آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ زمین ایک کرہ کی شکل میں نہیں ہے۔

اپ کو درست معانی فراہم کئے گئے ہیں ۔ لیکن آپ قرآن کی مخالفت میں اس درست معانی کو ہندو گردی قرار دے رہی ہیں۔

بہن میں جامعہ الازہر، مدینہ یونیورسٹی ، لیڈز اور سٹانفورڈ یونیورسٹی کے سپانسر کئے گئے پراجیکٹ میں قراں کی گرامر ، کمپوزیشن کے پراجیکٹ پر کئے گئے کام پر ریویو کا ایک ذمہ دار رہا ہوں۔ میرے کام کا مجھے فخر ہے۔ ترجمے کے اس کام کا ہندو گردی قرار دینا مجھے کچھ پسند نہیں آیا۔ آپ کے پاس قرآن حکیم کے درست ترجمے پر اعتراض نہیں ملتا تو آپ کردار کشی پر اتر آتی ہیں ۔ اس معاندانہ رویہ کی کیا وجہ ہے۔ ؟

میں قرآن یا کسی بھی مذہب کی ریسرچ کے شعبے میں سمجھنا سمجھانا پسند کرتا ہوں ۔ لالوکھیتی قسم کی لڑائی اس معاملے میں زیب نہیں دیتی۔ ترجمے کا ریفرنس بھی آپ کو فراہم کیا لیکن شائید ترک قرآن ایسا مرض ہے کہ جس کا علاج صرف اللہ تعالی کے پاس ہے۔

والسلام
 
آخری تدوین:

مہوش علی

لائبریرین
اپ کو درست معانی فراہم کئے گئے ہیں ۔ لیکن آپ قرآن کی مخالفت میں اس درست معانی کو ہندو گردی قرار دے رہی ہیں۔

بہن میں جامعہ الازہر، مدینہ یونیورسٹی ، لیڈز اور سٹانفورڈ یونیورسٹی کے سپانسر کئے گئے پراجیکٹ میں قراں کی گرامر ، کمپوزیشن کے پراجیکٹ پر کئے گئے کام پر ریویو کا ایک ذمہ دار رہا ہوں۔ میرے کام کا مجھے فخر ہے۔ ترجمے کے اس کام کا ہندو گردی قرار دینا مجھے کچھ پسند نہیں آیا۔ آپ کے پاس قرآن حکیم کے درست ترجمے پر اعتراض نہیں ملتا تو آپ کردار کشی پر اتر آتی ہیں ۔ اس معاندانہ رویہ کی کیا وجہ ہے۔ ؟

میں قرآن یا کسی بھی مذہب کی ریسرچ کے شعبے میں سمجھنا سمجھانا پسند کرتا ہوں ۔ لالوکھیتی قسم کی لڑائی اس معاملے میں زیب نہیں دیتی۔ ترجمے کا ریفرنس بھی آپ کو فراہم کیا لیکن شائید ترک قرآن ایسا مرض ہے کہ جس کا علاج صرف اللہ تعالی کے پاس ہے۔

معذرت محترم فاروق صاحب
مگر موضوع کے حوالے سے میں جو چیز "محسوس" کرتی ہوں، اور جو ایماندارانہ رائے بنتی ہے، میں اسکا اظہار کر رہی ہوں۔

جب کہ آپ کی فرام کردہ آیت میں دن ، رات میں داخل ہورہا ہے اور اور رات دن میں ۔ اس ایت میں زمین کا تذکرہ نہیں ۔

یہی چیز میں آپ کو سمجھانا چاہ رہی تھی۔
آپکی پیشکردہ آیت میں بھی زمین کے گرد لپیٹنے کا ذکر نہیں ہے کہ جس کی بنا پر زمین کو کرہ بنا دیا جائے۔ بلکہ دن کو رات، اور رات کو دن میں لپیٹنے کا ذکر ہے، چنانچہ آپ انکو کرہ بنائیے۔

flat-earth.png


۔ آپ کی باقی تمام آیات میں کسی بھی آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ زمین ایک کرہ کی شکل میں نہیں ہے۔
معذرت، ان سب آیات سے یہی بات ظاہر ہو رہی ہے۔
اور اسکی گواہی پچھلے سلف قرآن کے وہ مفسرین ہیں جنہوں نے پوری زندگی قرآن پڑھنے اور سمجھنے میں گذار دی اور وہی ان آیات کی معنی بتلاتے آئے کہ زمین چپٹی سپاٹ ہے۔
اور ان سلف قران کے مفسرین نے میں سے کسی نے بھی آپکی پیشکردہ آیت (دن اور رات والی) پڑھ کر نہیں سمجھا کہ اللہ اس میں زمین کوکرہ بتلا رہا ہے۔

تو پھر قرآن کا دعویٰ کہاں گیا جہاں قرآن کہہ رہا ہے کہ اس نے ہر ہر چیز کو صاف صاف کھول کر بیان کر دیا ہے؟

سورۃ النحل، آیت 98:
ترجمہ: ہم نے یہ کتاب تم پرنازل کردی ہے جو ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی ہے

نتیجہ:
قرآن میں ایک بھی صاف اور واضح آیت نہیں جو کہتی ہو کہ زمین کرہ شکل کی ہے۔
قرآن کا دعویٰ ہے کہ اسکی آیات صاف صاف ہیں، مگر حقیقت یہ دکھائی دیتی ہے کہ پہلے تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسکی الجھی الجھی آیات کیو وجہ سے سلف مفسرین وغیرہ سب زمین کو چپٹی سپاٹ سمجھتے تھے۔


اور قرآن کا پیغام ایسا تھا کہ 1300 سال تک (سر سید احمد خان کے آنے تک) شاید کوئی منکر حدیث بھی پیدا نہیں ہوا۔ چونکہ میں یہ تھریڈ فقط "منکر حدیث" حضرات کے لیے نہیں بنا رہی ہوں، اس لیے دیگر 99 فیصد مسلمانوں کے لیے تفسیر ابن کثیر سے یہ روایت بھی پیش کرنا چاہتی ہوں۔

It was said that Nun refers to a great whale that rides on the currents of the waters of the great ocean and on its back it carries the severn Earths, as was stated by Imam Abu Jafar Ibn Jarir. Narrated by Ibn Bashar, narrated by Yahya, narrated by Sufyan Al-Thuri, narrated by Sulayman Al-Amash, narrated by Abu Thubian, narrated by Ibn Abbas who related, "The first thing that Allah created was the pen and He said to it ‘Write’. The pen asked, ‘What shall I write?’ Allah said, ‘Write (the) fate (of everything).’ So the pen wrote everything that shall be from that moment until judgment day.
Then Allah created the "Nun" and He caused steam to rise out of which the heavens were created and the Earth was then laid flat on nun’s back. Then the Nun became nervous and (as a result) the earth began to sway, but (Allah) fastened (the earth) with mountains lest the earth should move ...

It was narrated by Ibn Jarir, narrated by Ibn Hamid, narrated by Ata’a, narrated by Abu Al-Dahee, narrated by Ibn Abbas who stated, "The first thing my Lord created, may He be Exalted and Glorified, was the pen and He said to it, ‘Write.’ So the pen wrote all that will be until judgment day. Then Allah created the Nun (the whale) above the waters and he pressed the Earth into its back.

Al Tabarani narrated the same hadith above (from the prophet Muhammad) who narrated from Abu Habib Zaid Al-Mahdi Al Marouzi, narrated by Sa’id Ibn Yaqub Al-Talqani, narrated by Mu’amal Ibn Ismail, narrated by Hamad Ibn Zaid, narrated by Ata’a Ibn Al Sa’ib, narrated by Abu Al Dahee Muslim Ibn Subaih, narrated by Ibn Abbas who stated that the prophet – may peace and blessing be upon him and his family - said, "The first things Allah created were the pen and the whale and He said to the pen ‘Write.’ The pen asked, ‘What shall I write?’ Allah replied, ‘Everything that shall be until judgment day.’ Then He said ‘Nun. By the Pen and by what they write.’ So Nun is the whale and al-Qalam is the pen" ...

Ibn Abu Nujaih stated that Ibrahim Ibn Abu Bakir was informed by Mujahid who said, "It was said that Nun is the great whale who is underneath the seven Earths." Furthermore, Al-Baghawy – may Allah rest his soul - and a group of commentators stated that on the back of this whale there is a great rock whose thickness is greater than the width of the heavens and the earth and above this rock is a bull that has forty thousand horns. On the body of this bull are placed the seven earths and all that they contain, and Allah knows best.
Tafsir Ibn-Kathir
روایات تو بہت سی ہیں (لنک) مگر میں یہاں فقط اس ایک روایت پر قناعت کرتی ہوں کیونکہ جب پہلی روایت کا ہی جواب نہیں آتا تو بقیہ روایات کو پیش کرنے کی ضرورت کیا؟
 
آخری تدوین:
خواتین و حضرات!
سائنس کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ اس شے یا لاشےکے متعلقات پر بحث کرے جس کا اسے کوئی ثبوت ہی فراہم نہیں؟
نہ خدا عقل کی آنکھوں سے دکھتا ہے نہ اعتقاد۔ مذہب کی بنیادیں اگر صریح عقلی ہوتیں تو سائنس بنی آدم کے ساتھ ہی وجود میں آ گئی ہوتی۔
مذہب عقل کا علاقہ نہیں، صاحبو۔ جذبات بھی ایک نوع کا درک رکھتے ہیں۔ بڑا ارفع قسم کا۔ (اتنی گواہی تو سائنس اور فلسفہ بھی دے سکتے ہیں)۔ مذہب جذبات کا، یا اگر ہمارے سائنس دان بھڑک نہ جائیں تو میں کہوں کہ روح کا، معاملہ ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ دنیا کو سمجھ میں کیوں نہیں آتا۔
جذبات اعتقاد کا مصدر ہیں۔ اور زندگی میں کسی طور عقل سے کم اہمیت نہیں رکھتے۔ اور تو اور ہمارے یہ دہریے بہن بھائی بھی اعتقاد کی علت سے پاک نہیں رہ سکتے۔ انسان کے خمیر میں اعتقاد عقل سے زیادہ مقدار میں گوندھا گیا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ اب بھی جبکہ نفسیات جیسی سائنس ترقی کر چکی ہے، ہمارے خرد زدہ دوست منطق کی رٹ لگانے سے باز نہیں آتے۔ طرہ یہ کہ سمجھتے ہیں کہ سائنس پڑھنے والے اہلِ مذہب سے زیادہ منطقی ہیں۔ منہ دھو رکھیے، صاحبان۔ آپ خدا کو نہ مانیں، مذہب کو نہ مانیں، ماننا تو آپ کو پھر بھی پڑے گا۔ ہیں تو آپ انسان ہی۔ مذہب جیسی پر اسرار چیز تو ایک طرف رہی، آپ توہمات سے بھی اپنا ذاتی پیچھا تک نہیں چھڑا سکتے۔
با ہر کمال اندکے آشفتگی خوش است
ہر چند عقلِ کل شدہ ای بے جنوں مباش​
کبھی کبھی تو میرا جی چاہتا ہے کہ فلسفہ اور سائنس کے یہ پنڈت اللہ کرے واقعی صرف عقل والے رہ جائیں۔ اور تماشا دیکھنے کے لیے کم از کم میں تو موجود ہوں!
 

x boy

محفلین
تبصرہ نمبر 151: میرے سوال کا جواب تو جوں کا توں رہا

میں نے سواال کیا تھا کہ انکے نزدیگ قرآن الکریم عزت والی کتاب ہے یا نہیں،،، لیکن کوئی جواب نہیں،،،،

ملحدوں کے منہ میں ابھی تالا لگائے دیتا ہوں گر وہ تعلیم یافتہ باشعور ہیں،،،،،

اللہ کا قول و فعل !!

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی حتمی تفسیر نہیں فرمائی ، میرے شخ التفسیر علامہ محمد متولی الشعراوی فرمایا کرتے تھے کہ یہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت و بصیرت کی معراج ھے کہ آپ نے مھبطِ وحی ھوتے ھوئے بھی قرآن کی کائناتی آیات کی تفسیر نہیں کی یوں قیامت تک آنے والی انسانیت کو رستہ دے دیا کہ وہ اس کائنات کے بارے میں جو جانے اسے قرآن کے ساتھ ملا کر دیکھ لے ،یہ ورڈ آف گاڈ اور ورک آف گاڈ ( اللہ کا قول "کلام اللہ " اور اللہ کا فعل یعنی کائنات )ایک ھی نوٹ کے پھٹے ھوئے دو حصے ھیں ،، جن میں نہ نمبر کا فرق ھے نہ قیمت کا دونوں ملیں گے تو چلیں گے ،، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کائناتی امور میں اب کسی کی تفسیر بھی حتمی نہیں ،، البتہ عبادات کے معاملے میں نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تفسیر اپنے منتہا تک پنچا دی ھے " قد انتہا منہا " اب اس پر کوئی دوسری تفسیر نہیں ھو سکتی ،، قول و فعل کا تضاد ایک انسان میں بھی ھو تو عیب ھے لہذا خدا کے قول و فعل میں تضاد محال ھے ،، نہ سائنس کائنات میں قرآن کے خلاف کچھ پا سکتی ھے اور نہ قرآن میں کائنات کے خلاف کچھ پا سکتی ھے ،،،،
 
مدیر کی آخری تدوین:

عثمان

محفلین
خواتین و حضرات!
سائنس کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ اس شے یا لاشےکے متعلقات پر بحث کرے جس کا اسے کوئی ثبوت ہی فراہم نہیں؟
نہ خدا عقل کی آنکھوں سے دکھتا ہے نہ اعتقاد۔ مذہب کی بنیادیں اگر صریح عقلی ہوتیں تو سائنس بنی آدم کے ساتھ ہی وجود میں آ گئی ہوتی۔
مذہب عقل کا علاقہ نہیں، صاحبو۔ جذبات بھی ایک نوع کا درک رکھتے ہیں۔ بڑا ارفع قسم کا۔ (اتنی گواہی تو سائنس اور فلسفہ بھی دے سکتے ہیں)۔ مذہب جذبات کا، یا اگر ہمارے سائنس دان بھڑک نہ جائیں تو میں کہوں کہ روح کا، معاملہ ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ دنیا کو سمجھ میں کیوں نہیں آتا۔
جذبات اعتقاد کا مصدر ہیں۔ اور زندگی میں کسی طور عقل سے کم اہمیت نہیں رکھتے۔ اور تو اور ہمارے یہ دہریے بہن بھائی بھی اعتقاد کی علت سے پاک نہیں رہ سکتے۔ انسان کے خمیر میں اعتقاد عقل سے زیادہ مقدار میں گوندھا گیا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ اب بھی جبکہ نفسیات جیسی سائنس ترقی کر چکی ہے، ہمارے خرد زدہ دوست منطق کی رٹ لگانے سے باز نہیں آتے۔ طرہ یہ کہ سمجھتے ہیں کہ سائنس پڑھنے والے اہلِ مذہب سے زیادہ منطقی ہیں۔ منہ دھو رکھیے، صاحبان۔ آپ خدا کو نہ مانیں، مذہب کو نہ مانیں، ماننا تو آپ کو پھر بھی پڑے گا۔ ہیں تو آپ انسان ہی۔ مذہب جیسی پر اسرار چیز تو ایک طرف رہی، آپ توہمات سے بھی اپنا ذاتی پیچھا تک نہیں چھڑا سکتے۔
با ہر کمال اندکے آشفتگی خوش است
ہر چند عقلِ کل شدہ ای بے جنوں مباش​
کبھی کبھی تو میرا جی چاہتا ہے کہ فلسفہ اور سائنس کے یہ پنڈت اللہ کرے واقعی صرف عقل والے رہ جائیں۔ اور تماشا دیکھنے کے لیے کم از کم میں تو موجود ہوں!
تبصرہ نمبر 151: میرے سوال کا جواب تو جوں کا توں رہا

میں نے سواال کیا تھا کہ انکے نزدیگ قرآن الکریم عزت والی کتاب ہے یا نہیں،،، لیکن کوئی جواب نہیں،،،،

ملحدوں کے منہ میں ابھی تالا لگائے دیتا ہوں گر وہ تعلیم یافتہ باشعور ہیں،،،،،

اللہ کا قول و فعل !!

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی حتمی تفسیر نہیں فرمائی ، میرے شخ التفسیر علامہ محمد متولی الشعراوی فرمایا کرتے تھے کہ یہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت و بصیرت کی معراج ھے کہ آپ نے مھبطِ وحی ھوتے ھوئے بھی قرآن کی کائناتی آیات کی تفسیر نہیں کی یوں قیامت تک آنے والی انسانیت کو رستہ دے دیا کہ وہ اس کائنات کے بارے میں جو جانے اسے قرآن کے ساتھ ملا کر دیکھ لے ،یہ ورڈ آف گاڈ اور ورک آف گاڈ ( اللہ کا قول "کلام اللہ " اور اللہ کا فعل یعنی کائنات )ایک ھی نوٹ کے پھٹے ھوئے دو حصے ھیں ،، جن میں نہ نمبر کا فرق ھے نہ قیمت کا دونوں ملیں گے تو چلیں گے ،، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کائناتی امور میں اب کسی کی تفسیر بھی حتمی نہیں ،، البتہ عبادات کے معاملے میں نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تفسیر اپنے منتہا تک پنچا دی ھے " قد انتہا منہا " اب اس پر کوئی دوسری تفسیر نہیں ھو سکتی ،، قول و فعل کا تضاد ایک انسان میں بھی ھو تو عیب ھے لہذا خدا کے قول و فعل میں تضاد محال ھے ،، نہ سائنس کائنات میں قرآن کے خلاف کچھ پا سکتی ھے اور نہ قرآن میں کائنات کے خلاف کچھ پا سکتی ھے ،،،،
موضوع سے اگر آپ کو کوئی واسطہ نہیں تو اپنا یہ طیش کسی اور دھاگے میں لے جائیں۔ اس دھاگے کا موضوع اعتقاد بمقابلہ الحاد نہیں ہے۔
 

x boy

محفلین
موضوع سے اگر آپ کو کوئی واسطہ نہیں تو اپنا یہ طیش کسی اور دھاگے میں لے جائیں۔ اس دھاگے کا موضوع اعتقاد بمقابلہ الحاد نہیں ہے۔

جناب محترم عثمان
شاید آپ کو غلطی ہوئی،،،، اس لڑی میں مہوش نے دین اسلام اور اسکے شعائر اور فطرت کو حدف کیا ہے جس میں بار بار قرآن الکریم میں یہ غلط وہ غلط کی رٹ لگائی ہوئی ہے اگر ملحدین قرآن و سنت سے نابلد ہے تو اس کتاب العظیم میں خواندہ ہونے کی کوشش کریں نہ کہ اس کا وزن اٹھائے پھریں ،،،
اس لئے میں جاننا چاہتا تھا کہ وہ اسلامی ہے یا الحادی۔
ابھی بھی میں اسی سوال کا جواب چاہتا ہوں،،؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس کا مفہوم ہے
" جو بڑوں کی عزت نہیں کرتا
جو چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا
وہ ہم میں سے نہیں"۔
انتھی۔
 
Top