آپ بحث کو آسان نہیں بلکہ پیچیدہ بنانے چاہتیں ہیں ۔ جو سوال
فاروق سرورخان نے پوچھا ہے اگر وہ موضوع سے مطابقت نہیں رکھتا تو پھر آپ مذہب کو کس طرح ڈیفائنڈ کریں گی ۔اگر مذہب کو آپ ڈیفائنڈ نہیں کریں گی تو سائنس سے اس کا تقابلہ کیسے ممکن ہوگا ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آپ نے قرآن و حدیث کو جس طرح تختہِ مشق بنایا ہوا ہے ۔ اس پر صرف حجتیں ہی سامنے آرہیں ہیں ۔اس ٹاپک کے اولین صفحہ پر آپ کے پہلے سوال کا جواب
رانا دے چکے ہیں ۔ اور اس کے بعد مذید ۔ مگر آپ لوگوں کو قرآنسٹ ، منکرِ حدیث کہہ کر اورمختلفInterpretationکو آڑے ہاتھ لے لیتیں ہیں ۔ جبکہ اپنیInterpretation کی طرف رجوع نہیں کرتیں ۔ زیادہ تر آپ کا ہدف پرانے اور نئے فہقاءکی آراء ہیں ۔ اس پر آپ بضد ہیں کہ ان کی آراء کو ہر طور مانا جائے اور اس پر بحث کی جائے ۔ جبکہ میں کہہ چکا ہوں کہ آپ ان فہقاء کی آراء کو قرآن و حدیث کا مسلک نہ بنائیں ۔ آپ کے سادے سے مطالبے کو مد نظر رکھتے ہوئے پوائنٹ ٹو پوائنٹ
رانا نے جوابات دیئے ہیں ۔ مگرآپ ایک مخصوص مذہبی فکر ( جن میں فہقا اور امام بہت اہمیت کے حامل ہیں ) کے زیر ِ اثر رہ کر اس کو قبول کرنے سے ہچکچا رہیں ہیں ۔ اور قرآنسٹ لوگوں کا طعنہ دیکر آپ کو ان کے آراء اور تشریحات میں الجھا دیتیں ہیں ۔ بلکل اسی طرح مجھ سمیت کئی لوگوں کو آپ کی بھیInterpretationسے اختلاف ہے ۔ یہ اختلاف ہی اسی ساری سوچ کا محور ہے ۔ جس سے اس بحث کا آغاز ہوا ہے ۔ورنہ صرف قرآن کی طرف رجوع کرنے اور کسی اچھے ترجمے ( چاہے وہ کتنی بھی تعداد میں ہوں ) کو پڑھنے کے بعد یہ بات سمجھ آجاتی ہے ۔ ان آیتوں کی جس طرح Interpretationکی گئی ہے وہ اکثر ویسی نہیں ہے ۔ جیسا کہ وہاں بیان کیا جا رہا ہے ۔
میں مذہب اور سائنس کو جس تناظر سے دیکھتا ہوں ۔ اس پر اپنی رائے دے چکا ہوں ۔ اس کے بعد ان کے درمیان کس تصادم کی گنجائش رہ جاتی ہے۔پرانے فہقا ء کے پاس دورِ حاضر کا علم نہیں تھا ۔ لہذا وہ زمین چپٹی ، مرد و عورت کی جنس اور ایسی بہت سی آیتیوں کے بارے میں جن میں سائنسی توجہہ بیان کی گئی تھی ۔ سمجھنے سے قاصر تھے ۔ آج کے پڑھے لکھے اسلامی سکالرز اس بات سے واقف ہیں کہ وہاں کیا بات بیان ہو رہی ہے ۔ سائنسی تحقیق جیسے آگے بڑھے گی ۔ کئی ایسے معاملات بھی ہونگے تو آج تشنہِ سوال ہیں ۔ کل وہ اس طرح عیاں ہوجائیں گے ۔ جس طر ح ماضی کی کئی غلط Interpretationکے جوابات میسر آچکے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن نے اپنی بات سمجھانے سے قاصر ہے ۔ بلکہ آج کے دورِ حاضر علم کے تحت ہم ایسی چیزوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ جوآج سائنس کی گرفت میں نہیں ۔ اب یہ نہ کہہ دیجیئے گا کہ آج کی سائنس مکمل سائنس ہے ۔
آپ جس نکتہِ نظر سے ان ساری چیزوں کو دیکھتیں ہیں ۔ دوسروں کو مجبور نہ کریں کہ وہ بھی یہی انداز اپنائیں ۔ ابتدائی انسان اور حضرت آدم علیہ السلام کے حوالے سے آپ نے جس بحث کے آغاز کیا ہے ۔ اس کا بھی جواب دیا جاچکا ہے کہ اللہ نے انسان کو مختلف مراحل سے گذار کر انسانی شخصیت سے نوازا ۔ یہ تو کوئی نہیں کہہ رہا ہے کہ آدم پہلے انسان تھے ۔مگر اپ بضد ہیں کہ ہم اس بات کو مانیں ۔
میں نے تو مذہب کی قرآن و حدیث کے حوالے سے وہی تعریف لے کر چلی تھی جس پر مسلمان پچھلے 1400 سالوں سے عمل پیرا ہیں۔
یہ تو فقط 100 سال کی بات ہے کہ جب سرسید احمد خان جیسے حضرات آنا شروع ہوئے جنہوں نے حدیث کا انکار کیا، اور مرزا صاحب بھی پچھلی صدی کے ہیں جنہوں نے معیار بنایا جو حدیث انہیں پسند آئے گی وہ لیں لے گے، اور جو پسند نہیں آئے گی، اسے ٹھکرا دیں گے۔
میں نے رانا صاحب کو بالکل صاف طریقے سے انکے اس سٹینڈرڈ کا بتلا دیا تھا کہ "چت بھی میرا پٹ بھی میرا، اور انٹا میرے باپ کا"۔
رانا صاحب یہ کر رہے تھے جو چت آتا تھا (جو حدیث انہیں پسند آتی تھی) وہ بھی ان کی اور جو پٹ ہوتا تھا (یعنی جو حدیث پسند نہیں آتی تھی) اسے ناپسندیدہ کہہ کر ٹھکرا دیتے تھے۔۔۔ اور انٹا میرے باپ کی مثال بھی انہوں نے قائم کی تھی جب وہ ایک "خواب اور الہام" کی بات کر کے اسے بطور حجت پیش کر رہے تھے۔
رانا صاحب سے ہوتے ہوئے جب بات فاروق صاحب (اور حتیٰ کہ آپ تک) پہنچتی ہے تب بھی میں اپنے بیان کو 100 فیصد درست پاتی ہوں کہ آپ حضرات کا سٹینڈرڈ بھی حدیث کا انکار ہے۔ چنانچہ میں نے تو اپنے پچھلے مراسلوں میں جناب آدم کے قد وغیرہ کے حوالے سے کئی "صحیح" احادیث بیان کر دی تھیں مگر آپ انہیں مکمل طور پر ہضم کر گئے۔ چنانچہ فرمائیے کہ پھر آپکے متعلق میرا بیان کیونکر غلط ہے؟
چنانچہ جب میں آپکے ان سٹینڈرڈز پر تنقید کرتی ہوں تو آپکا مجھ پر برہم ہونا درست نہیں ہے۔
پھر آپکا یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ میں فقط "نئے اور پرانے" فقہا کی "آراء" کو ہدف بنا رہی ہوں۔ آپ پورا تھریڈ پڑھ سکتے ہیں، پہلے تو قرآن و حدیث پر سوال اٹھایا گیا ہے، اور اسکے بعد تیسرے مرحلے میں ان نئے اور پرانے فقہاٰء کی آراء پیش کی گئی ہیں۔
اور ان فقہاء کی آراء (جو کہ غلط بھی ہیں اور آپس میں تضاد بھی رکھتی ہیں، انہیں) پیش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
قرآن دعویٰ کر رہا ہے کہ اس نے ہر ہر چیز کو کھول کر بیان کر دیا ہے۔ مثلاً:
(سورۃ نحل ، آیت 89) وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ
ترجمہ: ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کر دی ہے جو ہر ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی ہے
فقہاء کی آرا (انکا غلط ہونا اور انکا آپس میں تضاد) ثبوت ہے کہ یہ دعویٰ درست نہیں۔
آج کے فقہاء ٰinterpretation نہیں کر رہے ہوتے، بلکہ "بہانے بازیاں" کرتے دکھائی دے رہے ہوتے ہیں تاکہ قرآن کو سائنس کے مطابق بنا سکیں۔
مثلاً قرآن نے زمین کی ساخت کے متعلق کوئی درجن بھر کے قریب آیات بیان کیں۔۔۔ مگر ان درجن بھر آیات میں زمین کو کبھی فرش کہا، کبھی کہا کہ اسے پھیلا دیا گیا ہے، کبھی مھد کہا۔۔۔ لیکن ایک بار بھی بھول کر قرآن نے زمین کو "گول" قرار نہیں دیا۔
کیوں؟
قران (اور حدیث) صرف ایک بار زمین کے لیے "گول" کا لفظ استعمال کر دیتا تو بات ختم ہو جاتی۔
چنانچہ آج کے فقہاء ٰinterpretation کے نام پر بہانے بازیاں کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی لیےآج کے اس فیلڈ کے مشہور ترین سکالرز (ذاکر نائیک وغیرہ) اس حوالے سے "بددیانتی" کے مرتکب ہوئے جب انہوں نے جان بوجھ کر دعویٰ کر دیا کہ قران نے زمین کی ساخت کو شتر مرغ کے انڈے کی ساخت جیسا بیان کر رہا ہے۔ اسکے لیے انہوں نے آیت 79:30 استعمال کیا:
(قرآن 79:30) وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا
ترجمہ (محمد جونا گڑھی) : اور اس کے بعد زمین کو (ہموار) بچھا دیا۔
لفظ "دحاها" کا مطلب 1400 سالوں سے سب فقہاء "پھیلانا یا بچھانا کے کرتے آ رہے ہیں۔
مگر آجکے فقہاء نے اس کا بالکل نیا مطلب بیان کر دیا جو ہے "شتر مرغ کا انڈہ"۔
ذاکر نائیک صاحب لکھتے ہیں:۔
The Qur’an mentions the actual shape of the earth in the following verse:
“And we have made the earth
egg shaped”. [Al-Qur’an 79:30]
The Arabic word
Dahaha means egg shaped. It also means an expanse. Dahaha is derived from Duhiya which specifically refers to the egg of an ostrich which is geospherical in shape, exactly like the shape of the earth.
Thus the Qur’an and modern established science are in perfect harmony.
Reference:
Zakir Naik Q & A
دنیا میں پچھلے 1400 سالوں سے کسی مسلمان فقہیہ یا مفسر نے "دحاھا" کا مطلب انڈہ" بیان نہیں کیا ۔
دنیا کی کسی لغت نے دحاھا کا مطلب اندہ بیان نہیں کیا ہ۔
تو پھر ذاکر نائیکل یہ انڈہ کہاں سے لے کر آ گیا؟
لسان العرب نامی لغت میں یہ ملتا ہے:
الأُدْحِيُّ و الإدْحِيُّ و الأُدْحِيَّة و الإدْحِيَّة و الأُدْحُوّة مَبِيض النعام في الرمل , وزنه أُفْعُول من ذلك , لأَن النعامة تَدْحُوه برِجْلها ثم تَبِيض فيه وليس للنعام عُشٌّ . و مَدْحَى النعام : موضع بيضها , و أُدْحِيُّها موضعها الذي تُفَرِّخ فيه .ِ
ترجمہ (معنی):
یہ لفظ ریت کی اس "
جگہ" کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جہاں شترمرغ اپنا انڈہ دیتا ہے۔ یہ اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ شترمرغ انڈہ دینے کے بعد اس جگہ کو اپنے پاؤں سے "
پھیلا" کر ہموار کر دیتا ہے۔ شتر مرغ انڈہ دینے کے لیے گھونسلے کا استعمال نہیں کرتا۔
چنانچہ لفظ دحاھا کا مطلب کبھی بھی کسی بھی لغت میں "انڈہ" نہیں تھا، بلکہ وہ "جگہ" تھی جسے "پھیلا" کر ہموار کیا گیا ہو۔
چنانچہ جس چیز کو آپ آجکے ماڈرن فقہا کی interpretation کہہ رہے ہیں، وہ میرے نزدیک انکی "بہانے بازیاں" ہیں جوکہ کچھ کیسز میں کھلی "بددیانتی" تک پہنچ چکی ہے۔
اور یہ قرآن ہے جو کہ انسان کو "بنی آدم" کہہ کر آدم کی اولاد بیان کر رہا ہے۔ چنانچہ جب یوریشیا کے انسانوں کے جنوم کا ڈی این اے افریقہ کے انسانوں سے مشابہہ ہونے کی بجائے نیندرتھال کے جنوم کے ڈی این اے سے مشابہ نکلے گا تو پھر سوال تو اٹھے گا کہ نا کہ ہم سب اگر آدم کی اولاد ہین تو پھر یہ نیندرتھال کا ڈی این اے کہاں سے آ گیا؟
اور جو ایمبریالوجی کے حوالے سے آپ نے ایمبریو کے گوشت اور ھڈی بننے کا دعویٰ کیا تھا، اس پر تفصیل سے آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں کہ یہ دعویٰ کیوں غلط ہے۔
لنک۔
اور زمین کی ساخت (فرش کی طرح ہموار) کے متعلق جو درجن بھر کے قریب قرآنی آیات ہیں، وہ آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔
لنک۔