مہوش علی
لائبریرین
محترم فاروق صاحب! آپ بحث کو سمجھئے۔ یہ خدا کے وجود پر بحث نہیں ہو رہی ہے، اور نہ ہی جذبات پر۔
ایک بار پھر، یہ بحث "لا شے" پر نہیں ہے۔ بلکہ مذہب نے جو کائنات کے نظام کے متعلق دعوے کیے ہیں، اسکے متعلق بحث ہے کیونکہ سائنس ان مذہب کے بتلائے نظاموں کو ثبوت کے ساتھ چیلنج کرتے ہوئے جھٹلا رہی ہے۔خواتین و حضرات!
سائنس کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ اس شے یا لاشےکے متعلقات پر بحث کرے جس کا اسے کوئی ثبوت ہی فراہم نہیں؟
نہ خدا عقل کی آنکھوں سے دکھتا ہے نہ اعتقاد۔ مذہب کی بنیادیں اگر صریح عقلی ہوتیں تو سائنس بنی آدم کے ساتھ ہی وجود میں آ گئی ہوتی۔
مذہب عقل کا علاقہ نہیں، صاحبو۔
تیسری بار، ۔۔۔ یہ بحث خدا، یا لاشے یا پھر جذبات کی نہیں، بلکہ کائنات کے ان نظاموں کے متعلق ہے جن کے متعلق مذہب نے غلط دعوے کیے ہوئے ہیں۔
مثلاً اللہ قرآن میں کہتا ہے کہ یہ زلزلے اسکی نشانی ہے اور اسکے ذریعے وہ گمراہ قوموں کو تباہ کرتا ہے۔
مگر جدید سائنس نے ثابت کیا کہ زلزلوں کے پیچھے کوئی خدا یا الہامی طاقت نہیں ہوتی بلکہ یہ ان علاقوں میں آتے ہیں جہاں زمین کی "سلیں" حرکت کرتی ہیں۔ اور سائنس ثابت کرتی ہے کہ یہ صرف گمراہ قوموں پر نہیں آتے ہیں، بلکہ یہ ہر اس قوم (گمراہ یا غیر گمراہ) پر آ سکتے ہیں جو کہ زمین کی ان "سلوں" والے علاقوں میں رہتے ہیں۔
پرانے زمانوں میں لوگوں کو زمین اندر موجود ان سلوں کا علم نہیں تھا، اس لیے انہیں خدا کے عذاب کے نام پر ڈرانا آسان کام تھا۔
ہر مذہب کے لوگ ہی ایسے جذبات، اور روحانیت کے دعوے کر رہے ہوتے ہیں۔ پہلے اہل مذہب آپس میں فیصلہ کریں کہ ان میں سے کس کے جذبات اور کس کی روحانیت درست ہے، پھراسکے بعد ہی کہیں جا کر آپ لوگ سائنس کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا دعوی پیش کر سکتے ہیں۔جذبات بھی ایک نوع کا درک رکھتے ہیں۔ بڑا ارفع قسم کا۔ (اتنی گواہی تو سائنس اور فلسفہ بھی دے سکتے ہیں)۔ مذہب جذبات کا، یا اگر ہمارے سائنس دان بھڑک نہ جائیں تو میں کہوں کہ روح کا، معاملہ ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ دنیا کو سمجھ میں کیوں نہیں آتا۔