سورہ نمل کی جس آیت سے میں نے دلیل پکڑی تھی اس کا آپ نے جو ترجمہ پیش کیا ہے اس میں پہاڑوں کے اس بادلوں کی طرح اڑنے کو قیامت پر منطبق کیا ہے۔ اور اس کی دلیل یہ دی ہے کہ مضمون میں قیامت کا ذکر چل رہا ہے۔ میں نے کچھ دوسرے تراجم دیکھے ہیں ان میں بھی یہی ترجمہ کیا گیا ہے۔ اسکی وجہ مجھے تو یہی لگتی ہے کہ شائد ترجمہ کرنے والوں کو پہاڑوں کے اڑنے کی سمجھ نہ آسکی اور قیامت پر منطبق کرکے بات سمجھ آرہی تھی اس لئے قیامت پر منطبق کردیا گیا۔
اب ایک ترجمہ میں پیش کرتا ہوں آپ کو ہمارے اس ترجمے سے اتفاق ظاہر ہے نہیں ہوگا لیکن آپ کو اس ترجمے سے اتفاق نہ بھی ہو تو یہ ذہن میں رہے کہ یہ ترجمہ عربی کے لحاظ سے بالکل درست ہے۔
وَ تَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّ هِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ١ؕ صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِيْۤ اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ١ؕ اِنَّهٗ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَفْعَلُوْنَ۰۰۸۸
’’اور تُو پہاڑوں کو دیکھتا ہے اس حال میں کہ انہیں ساکن و جامد گمان کرتا ہے حالانکہ وہ بادلوں کی طرح چل رہے ہیں۔ (یہ) اللہ کی صنعت ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ یقینا وہ اُس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔‘‘
یہاں جس لفظ کو میں نے سُرخ رنگ دیا ہے۔ اس پر غور کریں۔ میرے نزدیک یہ وہ نکتہ ہے جو اسے قیامت پر چسپاں کرنے سے باز رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پہاڑوں کے متعلق اپنی کاریگری کی تعریف کررہا ہے کہ تمہیں وہ ساکت و جامد نظر آتے ہیں حالانکہ وہ بادلوں کی طرح چل رہے ہیں۔ یہ اللہ کی صنعت ہے۔ اپنی صنعت کی تعریف کیا اس لئے کی جارہی ہے کہ دیکھو میری صنعت جسے میں قیامت کو تباہ کردوں گا؟ کبھی اپنی تخلیق کی اس رنگ میں تعریف کرتے تو نہیں دیکھا کہ اتنی زبردست تخلیق ہے جسے بعد میں تباہ کردونگا ہوں۔ یہاں یہ لفظ ہی بتا رہا ہے کہ اس کاریگری کو دیکھو کہ تمہیں پہاڑ ساکت و جامد نظر آتے ہیں جو اپنی جگہ سے ہلائے بھی نہیں جاسکتے لیکن وہ بادلوں کی طرح چل بھی رہے ہیں تو یہ کیا ہی قابل دید کاریگری ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ساتھ ہی ان کی مضبوطی کا ذکر کررہا ہے۔ جس چیز کو تباہ کرنے کی اللہ بات کررہا ہوں اس کے متعلق یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ یہ میری صنعت ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ جبکہ یہاں اس کے تباہ ہونے کا ذکر کیا جارہا ہے۔ لیکن اگر اس سے دوسری مراد لی جائے تو بات سمجھ بھی آتی ہے اور کوئی جھول باقی نہیں رہتا کہ دیکھو پہاڑ بظاہر ساکن لگتے ہیں لیکن بادلوں کی طرح حرکت میں ہیں یہ خدا کی صنعت ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔
ذاکر نائک صاحب کا ترجمہ تو آپ دیکھ ہی چکی ہوں گی مجھے علم نہیں تھا کہ وہ بھی یہی بات کہتے ہیں۔
یہ شاہ رفیع الدین رحمۃ اللہ علیہ کا ترجمہ ہے۔
’’ اور دیکھے گا تُو پہاڑوں کو، گمان کرتا ہے تُو ان کو جمے ہوئے اور وہ چلے جاتے ہیں مانند گزرنے بادلوں کے۔ کاریگری اللہ کی جس نے محکم کیا ہر چیز کو تحقیق وہ خبردار ہے ساتھ اس چیز کے کہ کرتے ہو۔‘‘
بہت شکریہ رانا بھائی صاحب کہ آپ نے اس آیت کے متعلق اپنا نظریہ بمع دلیل پیش فرمایا۔
میں بھی ذیل میں اپنا نظریہ بمع دلیل پیش کر رہی ہوں۔ پیشگی معذرت، کیونکہ میرا نظریہ اس معاملہ میں ہارڈ باتوں پر مشتمل ہے۔ امید ہے کہ آپ پرسنل نہیں لیں گے۔
پہاڑوں کا بادلوں کی طرح اڑنا اور قرآن کے ترجمہ و تفسیر میں بددیانتی کی مثال
رانا صاحب! پہلا مسئلہ مجھے یہ لگ رہا ہے کہ جسے آپ اپنا "ذاتی ترجمہ و تفسیر" بتلا رہے ہیں، وہ آپکا ذاتی ترجمہ نہیں، بلکہ یہ "آفیشل" ترجمہ و تفسیر ہے۔
احمدی حضرات کی ویب سائیٹ پر اس قرآنی آیت کا ترجمہ و تفسیر یہاں موجود ہے (لنک)۔ وہاں سے سورۃ نمل کی آیت 89 کا ترجمہ و تفسیر پیشِ خدمت ہے۔
ترجمہ
:اور تو پہاڑوں کو اس صورت میں دیکھتا ہے کہ وہ اپنی جگہ ٹہرے ہوئے ہیں حالانکہ وہ بادلوں (تفسیری حاشیہ) کی طرح چل رہے ہیں۔
اور تفسیر حاشیہ میں اسکی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے:
"اس (پہاڑوں کے بادلوں کی طرح چلنے) میں زمین کے چلنے کا ذکر ہے برخلاف پرانے جغرافیہ نویسوں کے جو سورج کو چلتا بتاتے ہیں اور زمین کو ساکن"۔
بددیانتی یہ ہے کہ اس آیت کا من پسندیدہ ترجمہ کرنے کے لیے اسے سیاق و سباق سے نکال لیا گیا ہے۔ جبکہ اس آیت کا سیاق و سباق قیامت کے روز کے متعلق ہے، کہ روزِ قیامت یہ پہاڑ جو جامد و ساکت ہیں، وہ بادلوں کی طرح چلتے ہوں گے۔
ذیل میں اس آیت کے ترجمے کو بمع سیاق و سیاق پیش کیا جا رہا ہے تاکہ سب چیزیں واضح ہو سکیں۔
ترجمہ سورۃ النمل، آیت 87 تا 90 :
۔۔۔اور کیا گزرے گی اس روز جب کہ صُور پھونکا جائے گا اور ہَول کھا جائیں گے وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، سوائے اُن لوگوں کے جنہیں اللہ اس ہَول سے بچانا چاہے گا، اور سب کان دبائے اس کے حضور حاضر ہو جائیں گے۔ آج تو پہاڑوں کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ جامد ہیں (قرآن نے لفظ "جَامِدَةً " استعمال کیا ہے)، مگر اُس وقت یہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے، یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہو گا جس نے ہر چیز کو حکمت کے ساتھ استوار کیا ہے وہ خوب جانتا ہے کہ تم لوگ کیا کرتے ہو۔ جو شخص بھلائی لے کر آئیگا اسے اُس سے زیادہ بہتر صلہ ملے گا اور ایسے لوگ اُس دن کے ہَول سے محفوظ ہوں گے۔ اور جو بُرائی لیے ہوئے آئے گا، ایسے سب لوگ اوندھے منہ آگ میں پھینکے جائیں گے کیا تم لوگ اس کے سوا کوئی اور جزا پا سکتے ہو کہ جیسا کرو ویسا بھرو؟
(نوٹ: آیت 87 سے قبل کی آیات میں بھی قیامت کا ذکر ہے ۔۔۔ اور آیت 90 کے بعد بھی قیامت کا ذکر ہی چل رہا ہے)
اس عجیب دعوے پر ایسلام مخالفین اسلام کا مذاق اڑاتے ہوئے پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ کیا تُک ہوئی کہ صرف پہاڑ بادلوں کی طرح اڑتے ہیں اور زمین نہیں؟ قرآن تو صاف صاف مسلمانوں کو بتلا رہا ہے کہ آج حال میں تم سمجھتے ہو کہ پہاڑ جامد ہیں، تو پھر مسلمانوں نے یکایک اس آیت سے زمین کی حرکت کرنے کا دعوی کہاں سے کر دیا؟
جہاں تک میرا تعلق ہے تو میرے خیال میں سیاق و سباق کے بعد چیز اتنی واضح ہے کہ مجھے نہیں لگتا کہ کسی اور چیز کو بیان کرنے کی ضرورت باقی ہے، اور میری نصیحت تو یہ ہی ہوگی کہ اس قسم کی حرکتوں سے باز رہا جائے جو الٹا نقصان پہنچائیں۔
ماڈرن سائنس کے سوالات کے جوابات دینے میں آجکل اسلام کے جہادی حضرات (ذاکر نائیک جیسے حضرات جو دیگر مذاہب پر طعن کرتے ہیں) اور احمدی حضرات کی کمیونٹی میں خاصا یارانہ نظر آتا ہے۔ماشاء اللہ۔ شاید یہ اچھی بات ہو۔ دونوں ہی آج ایک ہی طرح قرآنی آیات کےمفہوم و مطالب نکال کر دعوے کر رہے ہوتے ہیں کہ قرآن نے سائنسی گتھیاں صدیوں پہلے سلجھا دی تھیں۔ مگر افسوس کہ انکے یہ کھینچ تان کر نکالے گئے مفہوم پچھلے 1400 سال میں آنے والے قرآنی مفسرین کے بالکل خلاف ہے۔ انہیں بھی علم ہے کہ یہ سیاق و سباق سے آیت کو جدا کر کے قرآن کے غلط تراجم کر رہے ہیں، اور پھر غلط تراجم کی بنیاد پر اپنی پسند کے من مانے معنی نکال رہے ہیں اور یہ ایک افسوسناک بات ہے کہ مذہب کے نام پر انسان اتنا اندھا، اور اتنا ہٹ دھرم ہو جائے۔
یہ بددیانتی ہرگز درست طرز عمل نہیں۔اسی وجہ سے قرآن کے ساتھ نازل ہونے والی احادیث انکے آج کے اس کیے جانے والے "نئے ترجمہ" اور نکالے جانے والے نئے "مفہوم و تفسیر" سے دور دور تک نہیں ملتیں۔ چنانچہ قرآن سے ٹکرانے کے نام پر یہ احادیث کو مکمل طور پر ٹھکرا چکے ہیں اور آج باقی حدیث کا نام لینا فقط دکھاوا ہے اور یہ صرف وہی حدیث لیتے ہیں جسے اپنے نکالے گئے مفہوم کے لیے استعمال کر سکیں۔
میں ہر ایک کی رائے کا میں احترام کر سکتی ہوں، مگر جان بوجھ کر کی گئی بددیانتی "ناانصافی" کے زمرے میں آتی ہے۔ افسوس کہ آج مسلمان جہادیوں کی طرف سے ایسی بددیانتی دیکھنے کو عموماً مل رہی ہے۔
میں نے "بددیانتی" جیسا سخت الفاظ استعمال کیا ہے، اس کے لیے پیشگی معذرت، مگر اس صورتحال کو انصاف کے ساتھ بیان کرنے کے لیے میرے پاس اور کوئی لفظ موجود نہیں تھا۔