سائنس کا ایک اور ڈبل شاہ - آغا وقار نسخہ دوئم۔ حضرت پروفیسر اورنگزیب الحافی الباکستانی

کیا آپ اگر یہ خبر انگریزی میں پڑھتے تو جذبۂ حب الوطنی سے سرشار ہو کر یقین کر لیتے؟

  • جی، فورا۔ ایسی خبریں تاریکی میں روشنی کی کرن کی مانند لگتی ہیں۔

    Votes: 2 14.3%
  • جی نہیں، میں کاٹھ کا/کی الو نہیں ہوں۔

    Votes: 6 42.9%
  • تشکیک کے ساتھ قبول کرتا/کرتی، لیکن تحقیق کے بعد فراڈ کا یقین ہوجاتا۔

    Votes: 5 35.7%
  • لعنت بھیج کر اگنور کر دیتا/دیتی۔

    Votes: 1 7.1%

  • Total voters
    14

زیک

مسافر
The naïve critiquing accounts framed as such ‘fraud’ ‘fake experimentation’ by ‘fake scientist’ etc. means what? What type of fraud? What is meant by the fakeness in experimentation? What ‘type’ of fakeness or what kind of ‘fraud’ can be entrenched in conducting an experiment on a rabbit? Some of the critiques have even gone to the extents of criticizing the act of carrying the rabbit to air in the plane….One may scratch his head by enquiring “Is there any ransom involved in carrying a rabbit to air—and consequently the entire species would have to pay it to Prof. Hafi…? What an absurd format of criticism is ؟it
Explain his research instead of complaining about fraud allegations.
 
The naïve critiquing accounts framed as such ‘fraud’ ‘fake experimentation’ by ‘fake scientist’ etc. means what? What type of fraud? What is meant by the fakeness in experimentation? What ‘type’ of fakeness or what kind of ‘fraud’ can be entrenched in conducting an experiment on a rabbit? Some of the critiques have even gone to the extents of criticizing the act of carrying the rabbit to air in the plane….One may scratch his head by enquiring “Is there any ransom involved in carrying a rabbit to air—and consequently the entire species would have to pay it to Prof. Hafi…? What an absurd format of criticism is ؟it
Hydrotropism is the growth of plant roots towards or away from moisture.
?Can you explain the relation between hydrotropism, magnetism and rabbits
 
اردو میں بات کریں تاکہ محفلین کو سمجھ آئے۔
معذرت بھائی۔ یہ پنجابی مقولہ تھا ہم ویسے شغل لگا رہے ہیں آپس میں۔ ورنہ ہم گنوارو کو کیا پتا اوپر کیا بحث چل رہی ہے۔ آپ بے فکر ہو کر اپنا جاری رکھیں۔ اس محض مزاح ہے کسی کو کچھ بھی نہیں کہا ہوا۔
 

numan

محفلین
Hydrotropism (hydro- "water"; tropism "involuntary orientation by an organism, that involves turning or curving as a positive or negative response to a stimulus") is a plant's growth response in which the direction of growth is determined by a stimulus or gradient in water concentration. A common example is a plant root growing in humid air bending toward a higher relative humidity level.

This is of biological significance as it helps to increase efficiency of the plant in its ecosystem.

The process of hydrotropism is started by the root cap sensing water and sending a signal to the elongating part of the root. Hydrotropism is difficult to observe in underground roots, since the roots are not readily observable, and rootgravitropism is usually more influential than root hydrotropism. Water readily moves in soil and soil water content is constantly changing so any gradients in soil moisture are not stable.

This qs, root hydrotropism research has mainly been a laboratory phenomenon for roots grown in humid air rather than soil. Its ecological significance in soil-grown roots is unclear because so little hydrotropism research has examined soil-grown roots. Recent identification of a mutant plant that lacks a hydrotropic response may help to elucidate its role in nature. Hydrotropism may have importance for plants grown in space, where it may allow roots to orient themselves in a microgravity environment.

Mechanism

A class of plant hormones called auxins coordinates this root growth process. Auxins play a key role in bending the plants root towards the water because they cause one side of the root to grow faster than the other and thus the bending of the root.

https://en.wikipedia.org/wiki/Hydrotropismhttps://en.wikipedia.org/wiki/Hydrotropism
https://en.wikipedia.org/wiki/Hydrotropism

Now:
Magnetohydrodynamics

.
Magnetohydrodynamics (MHD) (magneto fluid dynamics or hydromagnetics) is the study of the magnetic properties of electrically conductingfluids. Examples of such magneto-fluids include plasmas, liquid metals, and salt water orelectrolytes. The word magnetohydrodynamics (MHD) is derived from magneto- meaning magnetic field, hydro- meaning water, and -dynamics meaning movement. The field of MHD was initiated by Hannes Alfvén,[1] for which he received the Nobel Prize in Physics in 1970.

The fundamental concept behind MHD is that magnetic fields can induce currents in a moving conductive fluid, which in turn polarizes the fluid and reciprocally changes the magnetic field itself. The set of equations that describe MHD are a combination of the Navier-Stokes equations of fluid dynamics and Maxwell's equations of electromagnetism. These differential equations must be solved simultaneously, either analytically or numerically.

https://en.wikipedia.org/wiki/Magnetohydrodynamics


If one combines the two definitions he might get a clearer Idea about what is MHT
 
آپ ہی سمجھا دیں ان کی رسرچ۔

شعر ہی کی تشریح کر دیں۔
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تحریر کا ۔۔۔۔۔۔
غالب کا شعر ہے۔
آگہی Awareness
دام Trap
شنیدن Faculty of Hearing or listening with attention
عنقا A mythical bird called Phoenix in english and he is not seen by anyone and when he dies, at the time of his death, he turns himself into burning ash and born again from his ashes.
غالب کا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی خواہ کتنی ہی جستجو کیوں نہ رکھتا ہوا، اور حواس اور عقل سے کتنے ہی جال کیوں نہ بچھا لے، میری تحریر کا مفہوم اور مدعا اس عنقا کی طرح ہے جو کسی جال میں نہیں آتا اور لوگوں کے شعور کی سطح سے بالا تر اور فہم و ادراک سے ماوراء ہوتا ہے۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

ربیع م

محفلین
ما شاء اللہ یہ تو ویسی ہی تحقیق ہے کہ

تحقیق کے مطابق دو زردی والے انڈے کو گڑ لگا کر آملیٹ بنا کر کھلانے سے بھینسوں میں پریگننسی کا تناسب زیادہ ہو جاتا ہے.

یہ تحقیق جناب مایہ ناز کیمیا دان فیصل عظیم فیصل القرشی نے ناسا کے انجینئرز کے ساتھ مل کر کی ہے اور میٹا فزیکس کے لا آف انسٹیٹیوشنل گریویٹی کے تحت ایسا ہونا نظریاتی طور پر ممکن ہے اس دریافت سے نائجیریا کے ٹاپ فزیو تھراپسٹ جناب ناگی وشیش ناتھ اور انڈونیشیا کے آنکالوجسٹ جناب ضراروف خوارکوف نے اسے نسل انسانی کی بقاء کے لیے ایک غیر عمل پذیر ناگزیر دلنشین و ایکواٹیسٹیک نظریہ کہتے ہوئے کہا ہے کہ اگر جناب فیصل عظیم فیصل جیسا سائنسدان ہمارے پاس ہوتا تو ناروے جنت بن چکا ہوتا اور چڑیوں کے نیونیٹل مسائل حل ہو چکے ہوتے
 
ما شاء اللہ یہ تو ویسی ہی تحقیق ہے کہ

تحقیق کے مطابق دو زردی والے انڈے کو گڑ لگا کر آملیٹ بنا کر کھلانے سے بھینسوں میں پریگننسی کا تناسب زیادہ ہو جاتا ہے.
وا جی وا۔
کیا پھر بھینسوں نے بیک وقت دو دو کٹے دئیے ؟
 
جی اس تحقیق کے نتیجے میں افغانستان میں لوڈ شیڈنگ کنٹرول کی جا چکی ہے اور ہرن کے انڈوں میں پائی جانے والی سٹیٹک وولٹیج کو بھی اسی تحقیق کے بعد قابو کیا گیا ہے
اچھا۔۔۔۔اے تے بڑی گل اے فیر
وہ نا۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بھائی جی۔۔۔۔۔ پوچھنا یہ تھا، کہ وہ جو انڈے ہیں، او نہیں نہیں وہ جو زردی ہے۔۔۔۔۔۔۔ وہ کچی ہو یا ابلے انڈے والی ؟
 
اچھا۔۔۔۔اے تے بڑی گل اے فیر
وہ نا۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بھائی جی۔۔۔۔۔ پوچھنا یہ تھا، کہ وہ جو انڈے ہیں، او نہیں نہیں وہ جو زردی ہے۔۔۔۔۔۔۔ وہ کچی ہو یا ابلے انڈے والی ؟
اس کے لیے انڈوں کو 0.002589 کلو نیوران یورینیم پروڈیوسڈ الیکٹرک پلیٹ پر اس طرح سے فریز کیا جائے گا کہ سفیدی پر اثر نہ ہو اور زردیاں ہاف فرائی ہو جائیں جس سے انڈے میں موجود آکسیجن بھینس کے خون میں مل کر اسکے ایمبریاٹک گریوی ٹیشنل میکانزم کو متحرک کر دے گی اور نتیجے میں سورج کے مرکز سے 285 گنا زیادہ گرمی پیدا ہوگی اسے کنٹرول کر کے استعمال کرنا چاہیئے
 
http://pu.edu.pk/home/section/allpress/6147

The University regrets publication of a story on its website with the headline “Pakistan Makes Gigantic Breakthrough in Applied Sciences, A Ground-breaking Discovery that sets to Mark Paradigm Shifts in Global Scientific Frameworks” issued on July 05, 2016. This story was not in the notice of the higher authorities of the University before its publication.

اسے رسرچ سمجھنے کے لیے آدمی کا سائنس سے قطعی طور پر نابلد ہونا ضروری ہے۔
جو کہ خوش قسمتی سے پنجاب یونیورسٹی کے اعلیٰ حکام ابھی تک نہیں ہیں۔


y6647h8.jpg
 

squarened

معطل
پروفیسر ڈاکٹر سر قاضی اورنگزیب الحافی – ایک گمنام نابغہ سائنسدان

عثمان قاضی

ہیہات! لوگ کسی دور دراز جگہ پر ہونے والی کسی ناکام فوجی بغاوت کے چکر سے نکلے تو جنوبی پنجاب میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی کاروکاری میں ایک اور کے اضافے میں دلچسپی لینے لگے۔ اس سے پہلے سے بھی اسی قسم کی غیر اہم اور دل شکن خبروں کا ہی دور دورہ تھا۔ اس شور و غل میں کبھی سکون کے کچھ لمحات آتے بھی ہیں تو لوگ وہی پرانا رونا شروع کر دیتے ہیں کہ آخر مسلمان دنیا بھر سے ہر میدان ترقی میں اس قدر پیچھے کیوں ہیں؟ خادم یہ عرض گزارنا چاہے گا کہ اس کی وجہ یہی فروعات میں الجھے رہنا، چنانچہ اپنے جوہر قابل کو مٹی میں مل جانے دینا ہے۔ ایسا سانحہ گزشتہ دنوں پھر سے ہوتے ہوتے رہ گیا اور اگر ہمیں بوجہ عوارض معدہ، غسل خانے میں انگریزی اخبار کے اندرونی صفحات تک پڑھنے کی علت درپیش نہ ہوتی، تو گزشتہ کئی صدیوں سے طاری علمی جمود کو جھنجھوڑ دینے والا ایک عظیم الشان کارنامہ ہماری نگاہ سے بھی اوجھل رہ جاتا۔
ہوا یوں، کہ اخبار میں ایک تصویر نظر آئی، جس میں ایک صاحب ایک ننھے سے خرگوش کو ہتھیلی پر اٹھاے ہوئے ایستادہ ہیں اور ان کے جلو میں کچھ اور حضرات بھی موجود ہیں۔ جنگلی حیات سے دل چسپی کے سبب، ہم نے تصویر کو غور سے دیکھا چونکہ اس وقت عینک ہم دست نہ تھی، تو اول تو یہ گمان گزرا کہ شاید انسداد بے رحمی حیوانات والے کہیں چھاپہ مار کر محبوس جانور کو واگزار کروا رہے ہیں۔ چونکہ قیام غسل خانہ اب تک جاری تھا چنانچہ قیاس آرائی نے یہ بھی سجھایا کہ ممکنہ طور پر ملک میں غذایت، خصوصا لحمیات کی ناگفتہ بہ صورت حال سے نمٹنے کے لئے کوئی مولوی، مفتی صاحب لوگوں کو خرگوش پالنے اور اسے جزو دستر خواں بنانے کی ترغیب دے رہے ہیں اور ان کے آس پاس کھڑے حضرات محکمہ صحت کے اہل کاران۔ یہ تو بعد میں عینک کی دستیابی پر تفصیل دیکھی، اور کئی غلط فہمیاں رفع ہوئیں۔ پہلے تو یہ کہ وہ خرگوش نہیں، بلکہ خرگوشنی تھی اور وہ بھی حاملہ۔ آس پاس کھڑے لوگ، جو ہماری نگاہ کوتاہ بین کو خالص پنجابی نین نقش اور حلیے کے دکھائی دیئے، وہ برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی، امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا اور کسی غالبا خفیہ
امریکی ادارے، “نیشنل پوسٹ سائنٹفک اتھارٹی” کے اہل کار نکلے۔ جو جبہ و دستار پوش، ریش دراز صاحب خرگوشنی کو ہتھیلی پر اٹھاے ہوئے تھے، وہ ہمارے ہم لقب ہونے کے علاوہ پروفیسر ڈاکٹر قاضی اورنگزیب الحافی ثابت ہوئے جو اس خرگوشنی کو ہمراہ لئے ایک چھوٹے طیارے میں اڑنے اور اس پر سائنسی تجربات کر کے دنیاے علم میں انقلاب برپا کرنے کا ڈول ڈال رہے تھے۔ الحافی صاحب کے اس تجربے کے گواہان میں جامعہ پنجاب، کومسیٹس یونیورسٹی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے نمائندے بھی موجود بتاے گئے تھے۔

آپ سے کیا پردہ، یہ خادم ایک سائنسی شعبے میں نام نہاد ڈگری رکھنے اور سائنسی طرز فکر کا داعی ہونے کے باوجود تجربے سے متعلق پریس ریلیز کو، بار بار پڑھنے کے باوجود سمجھنے سے قاصر رہا۔ زیادہ با علم دوستوں خصوصا مخدومی عاصم بخشی صاحب وغیرہ سے استمداد کی خاطر، پریس ریلیز کا اقتباس پیش خدمت ہے۔ ہمارے ممدوح، اور اردو سائنسی جریدے “گلوبل سائنس” کے بانی مدیر محترم علیم احمد پہلے ہی اسے سمجھنے میں اپنی بے بضاعتی کا عاجزانہ اعتراف کر چکے ہیں۔
” میگنیٹو ہائڈرو ٹراپزم ’’ایم ایچ ٹی‘‘ کا سائنسی پس منظر واضح کرتے ہوئے اسے ’’ہر جگہ موجود‘‘ اور ’’ہر صلاحیت کا حامل‘‘ مظہر قرار دیا گیا جس کا تعلق مقناطیسی میدان کی ہائیڈروجن عنصر پر اثر پذیری سے ہے۔ یہ مظہر (یعنی ایم ایچ ٹی) جزوی طور پر موج نما ’’بے وزن‘‘ ذرّے ’’میگنیٹرون‘‘ پر منحصر ہے جو کسی ’’ویکٹر وجود‘‘ کی مانند برتاؤ کرتا ہے یعنی اپنے اسکیلر خطوط سے ویکٹر کے اثرات پیدا کرتا ہے۔”۔
پروفیسر ڈاکٹر اورنگزیب الحافی صاحب ایک عدد ویب سائٹ کی ملکیت کے سزاوار ضرور ہیں، مگر غالبا اغیار کی سازشوں اور اپنوں کی
نظر بد سے محفوظ رہنے کی خاطر، یا پھر “نہ کہ عطار بگوید” کے مصداق، انہوں نے اپنی تحقیق کو معروف سائنسی جرائد اور علمی ویب سائٹس سے دور رکھنا مناسب خیال کیا ہے۔ ان کی اپنی ویب سائٹ اہل وطن میں اردو کے ذوق کی کمیابی کے سبب مجبورا انگریزی میں ہے۔ ان کی سائنسی تحقیق اس خادم کی نالائقی کے سبب سر کے اوپر سے گزر گئی اور انہوں نے اپنے سیاسی نظریات کا بھی کھل کر اظہار نہیں کیا۔ مگر ان کی ویب سائٹ کی زبان ہی پکار پکار کے کہہ رہی ہے کہ وہ غایت درجے کے سامراج دشمن واقع ہوئے ہیں۔ انہوں نے انگریز کی صدیوں کی غلامی کا بدلہ لینے کا، ن م راشد کی ایک نظم میں مذکور ارباب وطن کی بے بسی کا انتقام لینے کا طریقہ تو یقینا طبعی شرماہٹ اور مولویانہ وضع قطع کے سبب اختیار نہیں کیا، مگر اس کی کسر اس کی زبان سے من چاہا سلوک کر کے پوری کی ہے۔ لوگ باگ یونہی شیکسپئیر کو سر پر چڑھاتے ہیں کہ اس نے لگے بندھے انگریزی قواعد کے اصولوں کو توڑ کر زبان، اسماء، اور افعال کا خلاقانہ استعمال کیا ہے۔ شیکسپئیر نے شاید ایک دو جگہ ایسی جسارت کی ہوگی، ہمارے پروفیسر ڈاکٹر اورنگزیب الحافی صاحب نے تو ہر ہر سطر میں بحر ہزج میں بحر رمل ڈالنے کا کمال انگریزی زبان میں دکھایا ہے، اور ایسا کہ بڑے بڑے انگریزی دانوں کو چکرا دے۔ ایک نمونہ ملاحظه ہو:

Hafi holds a remarkably copious and plentiful list of distinct honours and laurels۔ He is an elevatedly giant vanquisher of over 11 regional and 9 international awards including The Century Merit Award۔۔
ہمارے کچھ کوتاہ نظر دوست علامہ اقبال، سر سید احمد خان وغیرہ پر، برطانوی سامراج سے خطابات قبول کرنے کے سبب نکتہ چینی کرتے ہیں۔ غالبا ایسوں کی خردہ گیری اور طبعی سامراج بیزاری کے سبب، ہمارے پروفیسر ڈاکٹر قاضی اورنگزیب الحافی صاحب نے “سر” کا خطاب لینا قبول تو کیا، مگر مالٹا نامی ملک سے۔۔۔ واضح رہے کہ یہ یورپ میں واقع جزیرے کا نام ہے جہاں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن اسیر رہے، مبادا کہ سیدھے سادھے قارئین اسے سرگودھا یا ہری پور کے باغیچوں کی پیداوار سے خلط ملط کردیں۔
الحافی صاحب کی سائنسی خدمات کا، ہمارے “لبرل فاشسٹ” سائنسدانوں کی جانب سے پس پشت ڈالنا تو سمجھ آتا ہے کہ ان پر سدا سے غیروں
سے مرعوبیت کا الزام رہا ہے ۔ تعجب ہوتا ہے تو “اسلامسٹ” دوستوں کی بے حسی پر، جو ایسے شرعی حلیے کے حامل جوہر قابل کو اب تک گوشہ گمنامی سے منظر عام پر لانے میں کوتاہی برتتے رہے ہیں۔ پروفیسر صاحب موصوف، اپنی ویب سائٹ کے مطابق، نرے فزکس کے ماہر نہیں ہیں بلکہ پورے ترانوے علوم کو پانی کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ آفات کے شکار ہونے والے لوگوں کی راحت کاری میں بھی عالمی سطح پر مصروف رہے ہیں۔ خادم ایک بار پھر اعتراف ندامت کرتا ہے کہ اسی شعبے سے مدتوں متعلق ہونے کے باوجود پروفیسر ڈاکٹر الحافی کے نام نامی سے آج تک واقف نہ ہو پایا۔ یقینا اس میں بھی ان کی گوشہ گیری اور نام و نمود سے بیزار طبیعت کو دخل رہا ہوگا۔

آخر میں، اس دور کی بے بضاعتی کا ایک نوحہ۔ آج اردو ادب و صحافت اس قدر کم مایہ ہو چکے ہیں کہ ایسے نابغہ عصر کا انتہائی اجمالی تعارف کروانے کا جوا، اس خادم جیسے کوتاہ قلم کے گلے میں آن پڑا ہے۔ کہیں ابن انشا، ابن صفی یا محمد کاظم کے پاے کے ادیب آج حیات ہوتے، تو استاد الہ دین چراغ چشتی نظامی ریواڑوی، استاد محبوب نرالے عالم اور الف المحرا ث جیسی زندہ جاوید شخصیتوں کے خاکوں میں پروفیسر ڈاکٹر قاضی اورنگزیب الحافی صاحب کے شایان شان مضامین کا اضافہ ہو چکا ہوتا۔ بہر کیف، اس خادم نے آغاز کردیا ہے۔ یاران نکتہ داں اسے صلاے عام سمجھیں۔ عوام و خواص کے مفاد کے پیش نظر، پروفیسر ڈاکٹر صاحب موصوف کی ویب سائٹ کا پتا درج ذیل کیا جاتا ہے۔ میں نہیں، کوئی تو اس پار اتر جائے گا ۔ مورے سیاں جی اتریں گے پار، ندیا دھیرے بہو۔۔۔۔
About Prof. A. Z. Al Hafi

ربط
 

فاتح

لائبریرین
آپ نے آپنے اس مکالمے میں صرف بکواس لکھی ھے بےبنیاد۔۔۔
آپ سے اور حرا فاروق 43 سے بار بار یہ پوچھا جا رہا ہے کہ خدارا ہمیں سمجھا دیں کہ یہ ریسرچ کیا ہے لیکن آپ دونوں اس جانب نہیں آتے اور اس کہانی کے جناتی الفاظ کا مذاق اڑانے والوں کو برا بھلا کہنے پر ہی اکتفا کر رہے ہیں:
چلیں آپ سمجھائیں کہ یہ کیا ریسرچ ہے۔
آپ ہی سمجھا دیں ان کی رسرچ۔
Explain his research instead of complaining about fraud allegations.
?Can you explain the relation between hydrotropism, magnetism and rabbits
یہی تو پوچھ رہا ہوں کہ کیا ریسرچ اور آئیڈیا ہے۔
میں بھی آپ دونوں احباب سے ایک مرتبہ پھر یہی درخواست کرتا ہوں کہ ہمیں بتا دیں کہ یہ کیا ریسرچ ہے؟
 
آخری تدوین:
آپ نے آپنے اس مکالمے میں صرف بکواس لکھی ھے بےبنیاد۔۔۔
اچھا جی نعمان صاحب اب آپ ہمیں بکواس کی بنیاد دے دیجئے. جس سائنسدان کو یہی علم نہیں ہے کہ ....کلمو الناس علی قدر عقولہم... لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق کلام کرو.... تو وہ سائنسدان گھنٹے کا ہے... بڑے ہی اخلاق و اخلاص سے بات کی ہے امید ہے یا تو اپنی بکواس کی بنیاد بتائیے اور ہمیں سمجھائیے یا ہماری بکواس کی بنیاد سمجھئیے ...
 
دوسری بات میڈیا میں علمی حیثیت کے تعین کے بغیر اگر ڈارون بھی اپنی تھیوری پیش کرتا تو لوگ اسے بندر کا بچہ ہی کہتے انسان اور سائنسدان نہیں....
 
Top