سائنس کا ایک اور ڈبل شاہ - آغا وقار نسخہ دوئم۔ حضرت پروفیسر اورنگزیب الحافی الباکستانی

کیا آپ اگر یہ خبر انگریزی میں پڑھتے تو جذبۂ حب الوطنی سے سرشار ہو کر یقین کر لیتے؟

  • جی، فورا۔ ایسی خبریں تاریکی میں روشنی کی کرن کی مانند لگتی ہیں۔

    Votes: 2 14.3%
  • جی نہیں، میں کاٹھ کا/کی الو نہیں ہوں۔

    Votes: 6 42.9%
  • تشکیک کے ساتھ قبول کرتا/کرتی، لیکن تحقیق کے بعد فراڈ کا یقین ہوجاتا۔

    Votes: 5 35.7%
  • لعنت بھیج کر اگنور کر دیتا/دیتی۔

    Votes: 1 7.1%

  • Total voters
    14

squarened

معطل

numan

محفلین
میں نے بھی یہی عرض کیا ھے کے ریسرچ صحیح غلط ہو سکتی ھے۔۔۔پر آپ لوگ ہاتھ دھو کے پیچھے پڑ گئے ہیں ڈسکورر کے۔۔جو کے بےبنیاد ہے اور غلط ھے۔
 

numan

محفلین
I am truly distressed by the ridiculous behavior of few thoughtless guys on different forums, instead of appreciating , what he has done, a revolting campaign has been designed and launched to insult and degrade the man, in an obnoxious way.
It’s amazing the clarity that comes with psychotic jealousy.
In point of fact ,those who enjoy their own emotionally bad health and who habitually fill their own minds with the rank poisons of suspicion, jealousy and hatred, as a rule take umbrage at those who refuse to do likewise, and they find a perverted relief in trying to denigrate them
 

numan

محفلین
اور اگر ریسرچ ہے تو اس ریسرچ کا آبجیکٹو کیا ہے.. ؟
کیا جب نیوٹن نے دیکھا تھا کے سیب درخت سے گر کے نیچے کیوں آتا ھے اوپر کیوں نہیں جاتا تو یہ بات اسی وقت ثابت ہو گئ تھی؟؟؟۔۔8۔9 میٹر پر سیکینڈ سپیڈ کا تعین اسی وقت ہو گیا تھا؟؟؟ لوگوں نے تو اس وقت اسے بھی پاگل کہا تھا۔۔۔
 

numan

محفلین
آبجیکٹیو....
تھیوری....
تجربہ....
نتائج...
کن کلوژن...

مختصر بتا دیں تو عنایت ہوگی
آپ کیا اس کو پکی پکائی کھیر سھمجتے ھیں۔۔کسی بھی ریسرچ کو ان مراحل سے گزرنے میں کئ کئ سال لگ جاتے ہیں۔۔پھر جا کے غلط یا صحیح کی تصدیق ہوتی یے۔۔۔
 

محمد امین

لائبریرین
کیا جب نیوٹن نے دیکھا تھا کے سیب درخت سے گر کے نیچے کیوں آتا ھے اوپر کیوں نہیں جاتا تو یہ بات اسی وقت ثابت ہو گئ تھی؟؟؟۔۔8۔9 میٹر پر سیکینڈ سپیڈ کا تعین اسی وقت ہو گیا تھا؟؟؟ لوگوں نے تو اس وقت اسے بھی پاگل کہا تھا۔۔۔

8۔9 میٹرز پر سیکنڈ اسکویر۔۔۔ اسپیڈ نہیں ایکسیلیریشن۔۔۔۔
 
کیا جب نیوٹن نے دیکھا تھا کے سیب درخت سے گر کے نیچے کیوں آتا ھے اوپر کیوں نہیں جاتا تو یہ بات اسی وقت ثابت ہو گئ تھی؟؟؟۔۔8۔9 میٹر پر سیکینڈ سپیڈ کا تعین اسی وقت ہو گیا تھا؟؟؟ لوگوں نے تو اس وقت اسے بھی پاگل کہا تھا۔۔۔
تو کیا نیوٹن نے سیب گرتے ہی پریس کانفرنس کی تھی یا اس کو نتیجے پر پہنچا کر عام فہم بنا کر پیش کیا تھا... ؟؟؟
تھیوریاں درست بھی ہو سکتی ہیں اور غلط بھی جب کوئی تھیوری تجربے سے ثابت ہو تو قانون بنتا ہے. ... اب تجربہ ہوگیا نا.. ؟ اور کچھ ثابت بھی ہوا ہوگا تو اسے عام فہم انداز میں بیان کرنے میں مسئلہ کیا ہے... سوائے نمبر بنا کر لوگوں کی توجہ حاصل کرنا.. ؟؟؟
 
آپ کیا اس کو پکی پکائی کھیر سھمجتے ھیں۔۔کسی بھی ریسرچ کو ان مراحل سے گزرنے میں کئ کئ سال لگ جاتے ہیں۔۔پھر جا کے غلط یا صحیح کی تصدیق ہوتی یے۔۔۔
یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت کو فل سائنسدان کا پروٹو کول بھی ملتا رہے اور بات چاہے کسی کو سمجھ آئے نہ آئے اور کئی سال بعد کون جانے کون کس پر کیا کر رہا تھا.... سیدھا کہیں نا کہ سائنس دان کہہ کر بلائیں کس بات کا پوچھنا بکواس ہے
 

آوازِ دوست

محفلین
احباب خاطر جمع رکھیں!!! مجھے کُچھ کُچھ اندازہ ہو رہا ہے کہ یہ ریسرچ کیا ہے۔ معزز سائنسدان نے حاملہ خرگوشنی کو طیارے میں بتائی گئی بلندی پر لے جا کر اپنی بیان کردہ تحقیق سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کی خرگوش کی طرح آبادی بڑھاتی بدمست عوام کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی کوئی خبر بھی ہے یا یہ فقط سائنس فکشن فلمیں دیکھ کر اور خوابِ خرگوش کے مزے لے کر ہی زندگی کے مقصد تک پہنچ چُکی ہے۔ جن لوگوں کو پیش کردہ سائنسی اصطلاحات کے اجنبی پن کی شکایت ہے وہ خواہ مخواہ لوگوں کو گمراہ نہ کریں جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ یہ بہت جدید تحقیق ہے سو اِ س میں صدیوں سے مستعمل فرسودہ اصطلاحات کی گنجائش کہاں ممکن ہے۔ ایسے تو نہیں کہا گیا کہ "اے لٹل نالج اِز اے ڈینجرس تھِنگ" سو ہٹو بچو!!! مارکیٹ میں نئی ریسرچ آ گئی ہے جو صرف اعلٰی اخلاقی اقدار کے حامل شریف النفس لوگوں کی ہی سمجھ میں آ سکتی ہے۔ سائنس اور اخلاقیات کا یہ حسین مرکب عالمِ تحقیقات کی سابقہ زبوں حالی اور بربادی کو جس طرح اُجاگر کر رہا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ خرگوشنی پر تجربات سے بعد کے مراحل کافی آسان ہوئے اور زچہ و بچگان بخیر و عافیت ہیں مزید تفصیلات کے لیے ویب سائٹ ملاحظہ کیجئے :)
 

طالب سحر

محفلین
یہی تو پوچھ رہا ہوں کہ کیا ریسرچ اور آئیڈیا ہے۔
میں بھی آپ دونوں احباب سے ایک مرتبہ پھر یہی درخواست کرتا ہوں کہ ہمیں بتا دیں کہ یہ کیا ریسرچ ہے؟
http://pu.edu.pk/home/section/allpress/6147
The University regrets publication of a story on its website with the headline “Pakistan Makes Gigantic Breakthrough in Applied Sciences, A Ground-breaking Discovery that sets to Mark Paradigm Shifts in Global Scientific Frameworks” issued on July 05, 2016. This story was not in the notice of the higher authorities of the University before its publication.
جس پریس ریلیز کو پنجاب یونیورسٹی نے اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیا تھا، اُس میں فاضل پروفیسرصاحب کی تحقیق کے بارے میں محیرالعقول معلومات تھیں۔ گوگل کیش کی مدد سے مذکورہ پریس ریلیز کا وہ حصہ جس میں تجربے کے نتائج بیان کیے گئے تھے، محفلین کی تفریحِ طبع کے لئے پیشِ خدمت ہے:

The following scientific propositions have been endorsed by the experiment
Almost all of the living organisms, the fluids or semi fluids containing hydrogen along with three iron, manganese and cobalt, can have remarkable variations influence till 2090--- the ending corner's period of the (80 years cycles)quasi periodic cycles maxima, that has been started from 2010.
In south areas, the plants, if irrigated with magnetically dynamized water can grow 40 to 60 % better in both perspectives i.e. qualitatively and quantitatively.
v The 22-years Magnetic cycle is characterized by a change in sign of the overall magnetic Field. The 22-years cycle begins with an even 11-years cycle. Apparently, the 22-years cycles also governs the index of frequency of flares . The 80-years cycle is a quasi-periodic change in maxima of 11-years cycles. The maxima of 80-years cycles have fallen approximately in 1775-1855 and 1930-2010.
v The larmor radius of electrons in geomagnetic fields does not exceed a few kilometers, whereas for protons it may reach several hundreds of kilometers.
v The longitude drift around the earth is opposite for particles with opposing charges ,electrons move towards the east, protons towards the west.
v Observation of high-energy electrons in the plasma layer near the morning side is more probable than near the evening side.
The area of the plasma layer is located along the magnetic lines of force (latitude of polar drop on the day side of the earth). On the night side, this area is projected along the magnetic lines of force at latitude (latitude of polar drop on the night side of the earth). The source of the plasma of this area is the solar wind, penetrating in to the magnetosphere of the earth. The mean energy of particles in this area fluctuates from a few hundred Ev to KeV.
 

squarened

معطل
میں نے بھی یہی عرض کیا ھے کے ریسرچ صحیح غلط ہو سکتی ھے۔۔۔پر آپ لوگ ہاتھ دھو کے پیچھے پڑ گئے ہیں ڈسکورر کے۔۔جو کے بےبنیاد ہے اور غلط ھے۔
"سر!"،آپ نے جس طرح تشہیر کی ہے اپنی ڈسکوری کی،اس کا یہ نتیجہ تو نکلنا ہی ہے ۔کچھ مزید

ڈگری اور علم کی انتہا

(ابوبکر ریاض)
عام سا مشاہدہ ہے کہ جب ایک طالب علم میٹرک میں زیرِ تعلیم ہوتا ہے تو علمی دنیا گویا اس کی نظروں کے سامنے بکھر سی جاتی ہے، اسے جلتے ہوئے انگاروں کا ہر ذرہ دکھائی دیتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو اس قابل سمجھتا ہے کہ اس کائنات کی ہر جہت سمجھ سکے۔ مگر میٹرک کا وہی طالب علم جب پی ایچ ڈی کرلے تو حقیقت محض ایک حل شدہ پہیلی کی مانند اس کی ہتھیلی پہ پڑی ہوتی ہے۔ یوں سب کچھ جاننے کا زعم سبوتاژ ہوتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ وہ اپنی جہالت کے مزے لے رہا ہے۔ مگر ہمارا ملک بدقسمتی سے بہت زیادہ جاننے والوں سے بھر گیا ہے۔
یہاں کبھی کوئی ایک ہی جھٹکے میں پانی سے گاڑی چلانے کا دعوی کر دیتا ہے تو کبھی کوئی کششی امواج (GRAVITATIONAL WAVES) کو خلط ملط کہہ کر وجہ شہرت بن جاتا ہے۔ آخر ایسا کیا ہے کہ ہم فارغ اوقات کو استعمال میں لاتے ہوئے اپنے وجدان سے یہی ابہام گوئی کرتے پائے جاتے ہیں کہ ’ہم سب جانتے ہیں‘؟
اسلام آباد ہائی کورٹ میں چند ہفتے پہلے کچھ معلومات سامنے آئیں کہ کامسیٹس (COMSATS) یونیورسٹی کے پروفیسر اور ادارے کے محافظ ہارون رشید صاحب کی پی ایچ ڈی ڈگری چوری شدہ مواد کی بنا پر پریسٹن یونیورسٹی نے واپس لے لی۔ یاد رہے کہ ہارون رشید صاحب نیشنل ٹیسٹنگ سروس (NTS) کے چیف ایگزیکٹو بھی ہیں یا رہ چکے ہیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پی ایچ ڈی کا یہ مقالہ رفیق الزمان خاں کے مقالے سے چرایا گیا جسے ہمدرد یونیورسٹی نئی دہلی میں پیش کیا گیا تھا۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے قوانین کے مطابق ایسا شخص جس کا تحقیقی مقالہ یا ڈگری جعلی یا چوری شدہ مواد پر مشتمل ہو نہ صرف واپس لی جاتی ہے بلکہ وہ شخص اپنے حالیہ مقام پر بھی فائز نہیں رہ پاتا چاہے وہ محنت کے بل پر ہی کیوں نہ کمایا ہو۔ ڈاکٹر صاحب ان دنوں اپنے خاندان کے ہمراہ امریکہ نکل گئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ خالصتاً ایک تفریحی دورہ ہے، وہ جلد واپس آکر اپنی بےگناہی کا ثبوت دیں گے۔
یہ تو ہے ہمارے اساتذہ کا حال مگر جس واقعہ کی جانب میں توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ واقعی لائق ماتم ہے۔ کچھ دنوں پہلے ایک اور سائنسدان آئے، ڈاکٹر اورنگ زیب الحافی صاحب۔ ان موصوف نے شاید تحقیقی مقالہ مکمل کرکے کسی تحقیقی ادارے یا مجلے میں شامل کروانے کو نرا جھنجھٹ جانا اور اپنی دریافت کا محافظ میڈیا کو مانا۔ ڈاکٹر صاحب اطلاقی (APPLIED) سائینسز میں غیر معمولی مہارت کا دعوی رکھتے ہیں اور اگر ان کے کام کو دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ یہ آئن سٹائن کی کچھ چھوڑی ہوئی کوانٹم فزکس کو بھی آگے لے کر بڑھ رہے ہیں۔ حال ہی میں ڈاکٹر صاحب ایک سائنسی دریافت میں کامیاب ہوئے ہیں جسے انہوں نے میگنیٹو ہائیڈرو ٹراپزم (MHT) کا نام دیا ہے۔ احقر اپنی محدود ترین علمی استعداد کو ایک طرف رکھ کر جب گوگل پر ایم ایچ ٹی کی ایک آسان سی اصطلاح ڈھونڈنے نکلا تو دس پندرہ منٹ خجل خوار ہوکر اس بات کو مان بیٹھا کہ شاید فطرت ہی اس بات پر مُصر ہے کہ اس عظیم کائناتی دریافت کو اسی نام سے پکارا جائے جس نام سے ڈاکٹر صاحب نواز بیٹھے ہیں۔
مگر ایک جامد ذہن بھی ساری کی ساری باتیں مان کر ایک فلسفیانہ شک رکھتے ہوئے کچھ سوال داغ سکتا ہے کہ
1: چار ہزار فٹ سے بھی زیادہ بلندی پہ ایک حاملہ خرگوشنی کو لیجا کر کونسا میگنیٹو ہائیڈرو ٹراپزم دریافت کیا گیا؟
2: وہ کونسے آلات تھے جو میگنیٹو ہائیڈرو ٹراپزم دریافت کرنے میں معاون ثابت ہوئے؟
3: کیا اونچائی کا اس میگنٹو ہائیڈرو ٹراپزم نامی شے سے کوئی تعلق ہے؟
4: میرے منہ میں خاک! مگر آپ نے اپنی پریس ریلیز میں اس سارے تجربے کا محرک ایک موج نما ذرے ’میگنیٹرون‘ کو کہا، یہ میگنیٹرون تو ایک آلہ ہے یا پھر ایک فکشن فلم میں پریوں کا دیس ہے، یہ ’ذرہ‘ کب سے بن گیا؟
اور تو اور گوگل آپ کے پھینکے ہوئے تسخیری لنکس سے بھرا پڑا ہے مگر کہیں بھی اس عظیم دریافت کی فزکس میں افادیت نہیں بیان کی گئی سوائے اس کے کہ یہ ایک ایسی گنجلک اصطلاح ہے جس کی آسان تشریح انشااللہ دو ہزار نوے تک ہمارے سامنے ہو گی اور ہم اس کے بے بہا فوائد سے مستفید ہو سکیں گے۔
عرض ہے کہ ہمارا ملک پہلے ہی ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے جو آج بھی کہتے ہیں کہ اگر ہماری محنتیں نہ ہوتیں تو سائینس ابھی پتھر کے زمانوں میں رہ رہی ہوتی، ایسے میں آپ علم کو اپنی نری ذاتی سی وسعت دے کر ان کے مفروضوں کو طاقت نہ بخشیں۔
ہمیں اپنے علم سے آگاہ کریں، متاثر نہ کریں کیونکہ ہماری غیر معمولی علمیت کے دعوے بے سود ہیں جب کہ اکیسویں صدی کا انسان آج بھی اس سوال کے جواب کا متلاشی ہے کہ
‘انسان کیا جانتا ہے؟‘

ربط
 
Top