سازش کا جھوٹا بیانیہ، پھر راہ فرار، سول ملٹری قیادت کو نامناسب القاب دیئے، ہم نے ملکی مفاد میں حوصلے کا مظاہرہ کیا، صبر کی بھی حد ہے، آرمی چیف

جاسم محمد

محفلین
پچھلے ستر سال میں کتنے غیرسیاسی دیکھے؟
بڑے وثوق سے دنیا فریب دیتی رہی
بڑے خلوص سے ہم اعتبار کرتے رہے
ریاست پاکستان کا یہ مسئلہ بہت سنگین ہوچکا ہے۔ وہاں جرنیل تو جرنیل، پولیس، بیروکریٹس، ججز کوئی بھی غیر سیاسی نہیں رہا۔ اسے ٹھیک کرنے کیلئے پورے ملک کو ایک شدید قسم کے سسٹم ری سیٹ کی ضرورت ہے۔ ڈان کے اس مضمون میں تفصیل کیساتھ اس مسئلہ کی سنگینی کو بیان کیا گیا ہے
محمد وارث عبدالقیوم چوہدری محمد عبدالرؤوف نوید احمَد سید عاطف علی سید عمران
 

علی وقار

محفلین
ریاست پاکستان کا یہ مسئلہ بہت سنگین ہوچکا ہے۔ وہاں جرنیل تو جرنیل، پولیس، بیروکریٹس، ججز کوئی بھی غیر سیاسی نہیں رہا۔ اسے ٹھیک کرنے کیلئے پورے ملک کو ایک شدید قسم کے سسٹم ری سیٹ کی ضرورت ہے۔ ڈان کے اس مضمون میں تفصیل کیساتھ اس مسئلہ کی سنگینی کو بیان کیا گیا ہے
محمد وارث عبدالقیوم چوہدری محمد عبدالرؤوف نوید احمَد سید عاطف علی سید عمران
پاکستان قائم ہوا تو فوج واحد منظم ادارہ تھا۔ مزید یہ کہ دنیا بھر میں فوجی حکومتوں کا ٰرواج ٰ بھی تھا۔ پچاس کی دہائی سے یہ ہم پر مسلط ہیں، ان کے علاوہ کسی کو دیکھا ہی نہیں گیا کہ یہی پس منظر میں رہ کر بھی حکومت کرتے رہے اور کبھی سامنے آ کر۔ نت نئے تجربات کیے گئے۔ اب بھی عامۃ الناس کی مجموعی سوچ یہی ہے کہ جس کے سر پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہو گا، وہ اقتدار میں آ جائے گا۔ اس مائنڈ سیٹ سے چھٹکارا آسان نہیں۔ اب تو معاملات یہاں تک آن پہنچے ہیں کہ وہ غیر سیاسی ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم انہیں گھسیٹ کر پھر میدان میں لے آتے ہیں۔ ایک فریق فرمائش کرتا ہے کہ غیر سیاسی نہ رہیں، ہمارا ساتھ دیں۔ دوسرا فریق تب تک ان کے غیر سیاسی ہونے کی تعریف کرتا ہے جب تک کہ صورت حال ان کے حق میں سازگار ہو۔ سول بالادستی ایک کھوکھلا نعرہ ہے کیونکہ بڑی سیاسی جماعتوں میں اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے اور ہم نوا موجود ہیں جو اقتدار میں آ کر ان کی چاپلوسی شروع کر دیتے ہیں یا اقتدار سے باہر ہونے پر انہیں پکارنے لگ جاتے ہیں۔ فوجیوں کو بھی سیاست میں حصہ لینے کا شوق ہے اور اگر کہیں وہ الگ ہو کر بیٹھیں بھی تو یہ انہیں گھسیٹ لاتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ عالمی دباؤ، سوشل میڈیا پریشر اور دیگر عوامل کے باعث وہ بے چارے خود ہی سیاست سے کنارہ کشی پر مجبور ہو جائیں گے مگر کیا سیاست دانوں کو کھلی پرواز کی عادت ہے؟ ان کی صفوں میں سول بالادستی کے حامیوں کی اکثریت ہے یا بوٹ پالشیوں کی فوج ظفر موج بھرتی ہوئی پڑی ہے، ہمیں ان سوالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور صرف سیاسی جماعتوں کی کیا بات کی جائے، میڈیا اور عدلیہ کا بھی حال پتلا ہے۔ معاملہ کچھ ایسا ہے کہ پنجرے کا دروازہ کھول دیا گیا ہے، مگر انجانے خوف کے باعث پرندے پنجرے سے باہر آنے پر آمادہ نہیں اور مجھے تو یہ خدشہ ہے کہ ان پرندوں کو پنجرے سے باہر بھی رکھ دیا جائے تو شاید یہ ٰہمارا پنجرہ واپس کرو ٰ تحریک چلا دیں گے۔ جہاں تک آپ نے سسٹم ری سیٹ کی بات کی ہے تو یہ کام شاید فطری انداز میں ہی ہو جائے گا۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ مرئی اور غیر مرئی دباؤ کے پیش نظر خود کو سیاست سے الگ رکھنا چاہے گی یا کم از کم یہ تاثر تو دیا ہی جائے گا تو اس بہانے شاید دیگر ریاستی ادارے بھی بہتری کی طرف بڑھیں۔ ایسا ہونا بھی چاہیے اور مجھے امید ہے کہ ایسا ہو بھی جائے گا۔ شاید کچھ وقت لگ جائے۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو ان معاملات سے باہر رکھنا تو شاید ممکن ہی نہیں تاہم اگر ادارہ خود اپنی اصلاح کرنے پر آمادہ ہے تو امید رکھی جا سکتی ہے کہ شاید ایسا ہو ہی جائے، کم از کم مجھے ان سیاست دانوں سے کوئی خاص توقع نہیں رہی کہ جو انہیں خود آوازے دے کر بلا رہے ہیں۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
پاکستان قائم ہوا تو فوج واحد منظم ادارہ تھا۔
میں اس مفروضے سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ جو برطانوی راج ہندوستان میں ایک منظم فوجی محکمہ چھوڑ کر گیا وہ دیگر محکمہ و ادارے کیسے غیر منظم چھوڑ سکتا تھا؟ یاد رکھئے کہ برطانوی راج نے ۱۸۵۷ سے لیکر ۱۹۴۷ تک اس خطے میں انہی منظم محکموں اور اداروں کیساتھ حکومت کی تھی۔ اور وہی کچھ پاکستان میں چھوڑ کر گئے جو آجکل بھارت و بنگلہ دیش کے پاس ہے۔ پھر پاکستان ہی کیوں خطے میں سب سے پیچھے رہ گیا؟ وچلی گل کچھ ہور اے!
 

علی وقار

محفلین
میں اس مفروضے سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ جو برطانوی راج ہندوستان میں ایک منظم فوجی محکمہ چھوڑ کر گیا وہ دیگر محکمہ و ادارے کیسے غیر منظم چھوڑ سکتا تھا؟ یاد رکھئے کہ برطانوی راج نے ۱۸۵۷ سے لیکر ۱۹۴۷ تک اس خطے میں انہی منظم محکموں اور اداروں کیساتھ حکومت کی تھی۔ اور وہی کچھ پاکستان میں چھوڑ کر گئے جو آجکل بھارت و بنگلہ دیش کے پاس ہے۔ پھر پاکستان ہی کیوں خطے میں سب سے پیچھے رہ گیا؟ وچلی گل کچھ ہور اے!

مجھے تو یہی لگتا ہے کہ یہ واحد منظم ادارہ تھا۔ آزادی کی تحریک بنگال میں تو چلی، ان خطوں میں زیادہ چلی جہاں آج انڈیا قائم ہے، مگر یہاں تو شاید لاہور کے علاوہ کہیں پر خال خال ہی سیاسی سرگرمی دکھائی دی۔ یہاں تو وڈیروں سرداروں کا راج تھا۔ اس لیے بڑے سیاسی رہنما ۔(عوامی رہنما) سرے سے موجود نہ تھے۔ فوجی بھی زیادہ تر اس خطے سے بھرتی ہوتے تھے اور جی ایچ کیو بھی یہیں تھا۔ اس لیے میں اس خطے کا تقابل ان خطوں سے نہیں کرتا جہاں آج بنگلہ دیش قائم ہے یا ان علاقوں سے جہاں آج انڈیا قائم ہے، میرے خیال میں ان کا سیاسی شعور یہاں رہنے بسنے والوں سے زیادہ تھا۔ مزید یہ کہ پچاس کی دہائی سے یہ ہم پر مسلط ہو گئے تھے اور آج تک ایسا ہی ہے۔ اب انہیں ادراک ہو رہا ہے کہ جس قدر جلد ہو، بوریا بستر باندھ لینا چاہیے کیونکہ معاشی حالات دگرگوں ہیں اور فوجیوں کو بھی یقین ہو چکا ہے کہ اب معاملات ان کے بس سے باہر ہیں، سب مل جل کر اس کشتی کو بھنور سے نکال سکتے ہیں۔ وہ شوق سے نہیں، مجبوری کے باعث ایسا کرنے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
اب تو معاملات یہاں تک آن پہنچے ہیں کہ وہ غیر سیاسی ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم انہیں گھسیٹ کر پھر میدان میں لے آتے ہیں۔
اگر یہ کوشش سنجیدگی سے کی گئی تو لوگ اس پر نہ صرف یقین کریں گے بلکہ خوب سراہیں گے۔ لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ نیوٹرل نیٹورل کا ڈھونڈورا تو پیٹتے رہیں مگر آپ کے اعمال آپ کی بات کی نفی کر رہے ہوں۔
پی ٹی آئی کیساتھ جو پچھلے ۷ ماہ میں ہوا وہ آپ کو کہاں سے نیوٹرل ہونا لگ رہا ہے؟ اگر پی ٹی آئی والوں کو فوج سے گلے شکوے ہیں تو وہ تو ن لیگ اور دیگر جماعتوں کو بھی تھے۔ کیا ان کے لوگوں کو فوج نے اس طرح پکڑ پکڑ کر ننگا جنسی تشدد کیا؟ کیا ان کے حامی صحافیوں کو جلا وطنی پر مجبور کیا اور پھر بیرون ملک قتل تک کر دیا؟ کیا ان کے لیڈران پر قاتلانہ حملے کروائے؟
یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے خلاف یہ سب کچھ فوج کے نیوٹرل ہو جانے کے بعد ہوا ہے۔ اگر نیوٹریلٹی کے بعد بھی مخصوص سیاسی جماعتوں و دیگر سویلین کیخلاف عسکری ریاستی دہشت گردی نے ختم نہیں ہونا تو اس قسم کے مضحکہ خیز دعوے کرکے اپنا مذاق اڑانے کی کیا ضرورت ہے؟ جب فوج واقعی میں نیوٹرل ہو جائے گی تو وہ اس کے فُعل سے سب کو نظر آجائے گا۔ پھر یوں بار بار جرنیلوں کو اسٹیج پر آکر خود کو نیوٹرل کہنے کی زحمت نہیں کرنی پڑے گی 😉
 

محمد وارث

لائبریرین

علی وقار

محفلین
اگر یہ کوشش سنجیدگی سے کی گئی تو لوگ اس پر نہ صرف یقین کریں گے بلکہ خوب سراہیں گے۔ لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ نیوٹرل نیٹورل کا ڈھونڈورا تو پیٹتے رہیں مگر آپ کے اعمال آپ کی بات کی نفی کر رہے ہوں۔
پی ٹی آئی کیساتھ جو پچھلے ۷ ماہ میں ہوا وہ آپ کو کہاں سے نیوٹرل ہونا لگ رہا ہے؟ اگر پی ٹی آئی والوں کو فوج سے گلے شکوے ہیں تو وہ تو ن لیگ اور دیگر جماعتوں کو بھی تھے۔ کیا ان کے لوگوں کو فوج نے اس طرح پکڑ پکڑ کر ننگا جنسی تشدد کیا؟ ان کے حامی صحافیوں کو جلا وطنی پر مجبور کیا اور پھر بیرون ملک قتل تک کر دیا؟ ان کے لیڈران پر قاتلانہ حملے کروائے؟ یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے خلاف یہ سب کچھ فوج کے نیوٹرل ہو جانے کے بعد ہوا ہے۔ اگر نیوٹریلٹی کے بعد بھی سیاسی جماعتوں و دیگر سویلین کیخلاف عسکری ریاستی دہشت گردی نے ختم نہیں ہونا تو اس قسم کے مضحکہ خیز دعوے کرکے اپنا مذاق اڑانے کی کیا ضرورت ہے؟ جب فوج واقعی میں نیوٹرل ہو جائے گی تو وہ اس کے فُعل سے سب کو نظر آجائے گا۔ پھر یوں بار بار جرنیلوں کو اسٹیج پر آکر خود کو نیوٹرل کہنے کی زحمت نہیں کرنی پڑے گی 😉
میں عرض کر چکا ہوں کہ یہ سب سیاست دان نہیں ہیں، ان کا ایک ہی مقصد ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے بل بوتے پر سیاست۔ نون لیگ تو خیر ہے ہی اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار، اور تحریک انصاف کا بھی کم و بیش یہی حال ہے۔ پیپلز پارٹی کو بھی اسی ذیل میں رکھوں گا۔ یہاں تک کہ وہ جماعتیں بھی جو ابھی مین اسٹریم میں نہیں ہیں۔ انہیں اپنے زور بازو سے اقتدار میں آنے سے زیادہ دلچسپی اس میں ہے کہ جہاں پھنس جائیں تو فوج کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیا جائے۔ اگر ملٹری اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ برا سلوک روا رکھے ہوئے ہے تو گزشتہ حکومت کے دوران بھی یہی گماشتے مخالفین کے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھتے تھے۔ ہم آج بھی اس عمل کی مذمت کرتے ہیں، کل بھی کرتے تھے۔ اس کا حل رُول آف لاء میں مضمر ہے مگر اس کے قائم ہونے میں وقت لگے گا جس کا اشارہ میں پہلے ہی کر چکا ہوں۔ ایسے لگتا ہے کہ فوجی اب یہ چاہتے ہی نہیں ہیں کہ کوئی انہیں زیر بحث بھی لائے۔ اعظم سواتی اور شہباز گل کے معاملے پر ایسا ہی ہوا ہے کہ انہوں نے فوج کے اندر تقسیم کا واضح اشارہ دیا تو ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تاکہ بقیہ عبرت پکڑیں۔ ہے تو یہ سب غلط کہ انہیں عدالت میں لے کر جانا چاہیے تھا مگر پہلے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس کے بعد ان پر مقدمات قائم کیے گئے۔
 

جاسم محمد

محفلین
میں عرض کر چکا ہوں کہ یہ سب سیاست دان نہیں ہیں، ان کا ایک ہی مقصد ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے بل بوتے پر سیاست۔ نون لیگ تو خیر ہے ہی اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار، اور تحریک انصاف کا بھی کم و بیش یہی حال ہے۔ پیپلز پارٹی کو بھی اسی ذیل میں رکھوں گا۔ یہاں تک کہ وہ جماعتیں بھی جو ابھی مین اسٹریم میں نہیں ہیں
میں اس سے اتفاق نہیں کرتا کہ ان جماعتوں میں سب سیاست دان نہیں ہیں۔ ہاں چند لوگ جو ہر بار بک جاتے ہیں (لوٹے) وہ یقینا فصلی بٹیرے ہیں۔ لیکن زیادہ تر لوگ جو ان جماعتوں سے تا حیات جڑے ہیں وہ سیاست دان ہی ہیں۔
پاکستان کی سیاسی جماعتیں و سیاست دان اسٹیبلشمنٹ سے مدد نہیں مانگتے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ سیاست کا شعبہ ان کیلئے آزاد چھوڑ دیا جائے۔ یہ نہ ہو کہ ادھر سیاست دان کوئی بیان دے جو کسی جرنیل کو برا لگے اور ادھر وہ ویگو ڈالا میں ڈال کر ننگے تشدد کا نشانہ بن جائے۔ یہ نہ ہو کہ اپنی آزادی سے پارٹی وابستگی رکھنے پر یا ووٹ ڈالنے پر اسے آئی ایس آئی کے دھمکی آمیز فون آئیں۔ یہ نہ ہو کہ سیاست دانوں کی وفاداریاں تبدیل کروانے کیلئے ان کو جھوٹے کیسز و دیگر طریقوں سے خرید کر بلیک میل کیا جائے۔ سیاست دانوں کو سیاست کرنے کی آزادی اسٹیبلشمنٹ نے ہی دینی ہے اپنی ہر طرح کی مداخلت و بدمعاشی بند کر کے۔ کوئی باہر سے آکر یہ کام نہیں کر سکتا۔
8bv9g5m5f2x81.png
 

علی وقار

محفلین
میں اس سے اتفاق نہیں کرتا کہ ان جماعتوں میں سب سیاست دان نہیں ہیں۔ ہاں چند لوگ جو ہر بار بک جاتے ہیں (لوٹے) وہ یقینا فصلی بٹیرے ہیں۔ لیکن زیادہ تر لوگ جو ان جماعتوں سے تا حیات جڑے ہیں وہ سیاست دان ہی ہیں۔
پاکستان کی سیاسی جماعتیں و سیاست دان اسٹیبلشمنٹ سے مدد نہیں مانگتے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ سیاست کا شعبہ ان کیلئے آزاد چھوڑ دیا جائے۔ یہ نہ ہو کہ ادھر سیاست دان کوئی بیان دے جو کسی جرنیل کو برا لگے اور ادھر وہ ویگو ڈالا میں ڈال کر ننگے تشدد کا نشانہ بن جائے۔ یہ نہ ہو کہ اپنی آزادی سے پارٹی وابستگی رکھنے پر یا ووٹ ڈالنے پر اسے آئی ایس آئی کے دھمکی آمیز فون آئیں۔ یہ نہ ہو کہ سیاست دانوں کی وفاداریاں تبدیل کروانے کیلئے ان کو جھوٹے کیسز و دیگر طریقوں سے خرید کر بلیک میل کیا جائے۔ سیاست دانوں کو سیاست کرنے کی آزادی اسٹیبلشمنٹ نے ہی دینی ہے اپنی ہر طرح کی مداخلت و بدمعاشی بند کر کے۔ کوئی باہر سے آکر یہ کام نہیں کر سکتا۔
آپ اپنی رائے رکھنے میں آزاد ہیں۔ :) صرف اتنی سی گزارش ہے کہ جینوئن سیاست دانوں کو بڑی پارٹیاں زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتیں۔ اور بالآخر پارٹی میں وہی افراد نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں جو ابن الوقت ہوتے ہیں اور ہوا کے رُخ پر چلتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اب انہیں ادراک ہو رہا ہے کہ جس قدر جلد ہو، بوریا بستر باندھ لینا چاہیے کیونکہ معاشی حالات دگرگوں ہیں اور فوجیوں کو بھی یقین ہو چکا ہے کہ اب معاملات ان کے بس سے باہر ہیں، سب مل جل کر اس کشتی کو بھنور سے نکال سکتے ہیں۔
پچھلے ۷ ماہ سے پی ٹی آئی و ق لیگ کے علاوہ باقی تمام ۱۴ چھوٹی بڑی جماعتیں قومی حکومت بنا کر اسٹیبلشمنٹ سمیت اقتدار میں بیٹھی ہیں۔ اگر اتنا مل جل کر بھی ان سے ملک نہیں چل رہا تو پیچھے جو دو جماعتیں رہ گئی ہیں وہ حکومت میں آکر کیا تیر مار لیں گی؟
میں نے اسی لئے ہارڈ سسٹم ری سیٹ کی بات کی تھی کہ ملک کو جس طرح ۷۵ سال سے چلایا گیا ہے اب مزید ویسا نہیں چل سکتا۔ ملک کے اخراجات و آمدن میں ہم آہنگی لانی پڑے گی۔ آئین و قانون کی حکمرانی لاگو کرنی پڑے گی۔ بڑے بڑے مگرمچھوں کا کڑا احتساب کرنا پڑے گا۔ تب ہی کہیں جا کر ملک کے پاس اتنے وسائل اکٹھے ہوں گے کہ وہ نہ صرف ماضی کا لیا ہوا قرضہ اتار سکے۔ بلکہ آئندہ خود بھی بغیر قرضے لئے اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایسے لگتا ہے کہ فوجی اب یہ چاہتے ہی نہیں ہیں کہ کوئی انہیں زیر بحث بھی لائے۔ اعظم سواتی اور شہباز گل کے معاملے پر ایسا ہی ہوا ہے کہ انہوں نے فوج کے اندر تقسیم کا واضح اشارہ دیا تو ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تاکہ بقیہ عبرت پکڑیں۔
یہ تو پھر کوئی نیوٹریلٹی نہ ہوئی کہ اب سے جو کوئی بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے متعلق زبان کھولے گا اس کو نشان عبرت بنا دیں گے۔ یہ تو وہی جانبدارانہ رویہ ہے کہ ماضی میں ن لیگ و دیگر جماعتیں فوجی اسٹیبلشمنٹ کو کیا کیا نہیں کہتے رہے مگر وہاں سب کڑواں گھونٹ پی کر برداشت کر گئے۔ اور اب جب پی ٹی آئی نے وہی کچھ شروع کیا تو ان کے خلاف فرعون بن گئے۔


اسٹیبلشمنٹ کے پی ٹی آئی کیساتھ اس امتیازی سلوک پر وہ بالکل حق بجانب ہیں کہ ان کو بتایا جائے کہ ان کیساتھ سوتیلی ماں جیسا رویہ کیوں اختیار کیا گیا؟ پی ٹی آئی والے بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنا کہ دیگر جماعتیں۔
 

علی وقار

محفلین
یہ تو پھر کوئی نیوٹریلٹی نہ ہوئی کہ اب سے جو کوئی بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے متعلق زبان کھولے گا اس کو نشان عبرت بنا دیں گے۔ یہ تو وہی جانبدارانہ رویہ ہے کہ ماضی میں ن لیگ و دیگر جماعتیں فوجی اسٹیبلشمنٹ کو کیا کیا نہیں کہتے رہے مگر وہاں سب کڑواں گھونٹ پی کر برداشت کر گئے۔ اور اب جب پی ٹی آئی نے وہی کچھ شروع کیا تو ان کے خلاف فرعون بن گئے۔


اسٹیبلشمنٹ کے پی ٹی آئی کیساتھ اس امتیازی سلوک پر وہ بالکل حق بجانب ہیں کہ ان کو بتایا جائے کہ ان کیساتھ سوتیلی ماں جیسا رویہ کیوں اختیار کیا گیا؟ پی ٹی آئی والے بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنا کہ دیگر جماعتیں۔
کیا آپ نے تاریخ سن دو ہزار گیارہ کے بعد سے پڑھنی شروع کی ہے؟ آپ کا کیا خیال ہے کہ تحریک انصاف کے علاوہ ملٹری نے کبھی کسی پارٹی کے رہنماؤں کو تشدد کا نشانہ نہیں بنایا؟ یہ تو ایک طویل کہانی ہے۔
 

علی وقار

محفلین
ے پی ٹی آئی و ق لیگ کے علاوہ باقی تمام ۱۴ چھوٹی بڑی جماعتیں قومی حکومت بنا کر اسٹیبلشمنٹ سمیت اقتدار میں بیٹھی ہیں۔
پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس میں پی ٹی آئی و ق لیگ حکمران جماعتیں ہیں۔ آپ تبدیلی لا کر دکھا دیں۔
 
Top