سالانہ عالمی اردو مشاعرہ 2016 تبصرے

ناخدایا گوہر مقصود کس ساحل میں ہے؟
جوش زن موج تمنائے معانی دل میں ہے

چشمِ مہر و ماہ مثلِ دیدۂ جوہر بنی
ایک عالم انتظار جوہر قابل میں ہے

مدعا پانے کا دعویٰ کون کر پائے منیب
عزمِ آغازِ سفر مدعو ہر اک منزل میں ہے
---------------------------------------------
گم نہ رہ سوچ میں تو دیکھ کے چل کچھ مت سوچ​
ذہن کی بھول بھلیوں سے نکل کچھ مت سوچ
دل اندھیرے کا تری آگ سے ہو جائے گا موم
موم بتی کی طرح چپکے پگھل کچھ مت سوچ
معرفت ڈھونڈ سرِ راہِ طلب زیرِ شجر
میرے گوتم! پسِ دیوارِ محل کچھ مت سوچ
اژدھا ڈر کا مقابل ہو تو تلوار نکال
وہم کے سانپ کو پتھر سے کچل کچھ مت سوچ
زندگی جنگ ہے لمحات سے لڑنا ہے تجھے
جیتنا چاہے تو دورانِ جدل کچھ مت سوچ
خود کو مصروف رکھ اس آج کے عرصے میں منیب
کل کا سوچیں گے جب آ جائے گا کل کچھ مت سوچ
منیب احمد فاتح بھیا!
سبحان اللہ، بہت خوب۔ طرحی غزل بہت عمدہ کہی آپ نے اور "کچھ مت سوچ" میں جو خیالات آپ نے باندھے ہیں، قابلِ داد و تحسین ہیں۔ بہت ساری داد قبول فرمائیں۔
 

منیر انور

محفلین
یہی ہیں وہ، جنہیں زعمِ شناوری تھا بہت​
کنارِ نیل جو پہنچے تو ناؤ چاہتے ہیں​
محمد بلال اعظم
۔۔۔۔۔۔۔
ہر پریشانی سے ہٹ کر ہے تمہارا انتظار​
ہجر سے تیرے ہماری زندگی مشکل میں ہے​
سیدسجاداطہرموسوی
۔۔۔۔​
اب چراغاں کب کسی بھی آرزوئے دل میں ہے
زندگانی مسترد کردہ کسی فائل میں ہے

کسی کے رنگ میں ڈھلتے نہیں ہیں

ہم اپنی کیمیا رکھے ہوئے ہیں

دلیلِ خامشی کام آ رہی ہے
کسی کو بے نوا رکھے ہوئے ہیں

نوید ظفر کیانی
۔۔۔۔
مَیں تیری زندگی میں, اخبار گُزرے دِن کا​
یُونہی پڑا یہاں تھا, یُونہی پڑا وہاں تھا​

مریم افتخار
۔۔
اس لیے پھرتا ہوں میں رستے میں مانندِ غبار​
جو مسافت میں مزہ ہے وہ کہاں منزل میں ہے

صفی حیدر
۔۔۔
ڈھلی ہے جب سے قالب میں
ہوئی ہے در بدر مٹی

المیٰ
۔۔۔

میں بھی ہوں فائق ذرا شعر و سخن سے آشنا​
بے سبب موجودگی میری کہاں محفل میں ہے​

محمد فائق
۔۔۔
مری دنیا خوشی کے پنچھیوں کا آشیانہ تھی​
یہ تب کی بات ہے جب آدمی انسان ہوتا تھا​

یہ پختون اور سندھی یہ بلوچی اور پنجابی​
سبھی اک تھے سبھی کی شان پاکستان ہوتا تھا​

مانی عباسی
۔۔۔​
نگاہِ ناز نے بھٹکا دیا تھا تقریباََ
تُو ریگزارِ محبّت سے بال بال بچا !

کاشف اسرار احمد
۔۔۔

معرفت ڈھونڈ سرِ راہِ طلب زیرِ شجر​
میرے گوتم! پسِ دیوارِ محل کچھ مت سوچ​

منیب احمد فاتح
۔۔۔
مداوا غمِ دل کا ہوگا بھی کیسے​
کہ زخموں سے ہونے لگی ہے محبت​

نور سعدیہ شیخ
۔۔۔​
بس ایک گھر ہو خدائی میں کائنات مری ،​
مرے خدا ! مجھے اتنی بڑی خدائی دے ۔​

آنکھ کی رتھ پر بیٹھا سپنا ، اس کا نام ہی جپتا ہے​
جس غزنی کے ہاتھ سے میرا دل مندر تسخیر ہوا ہے​

ایمان قیصرانی
۔۔۔
ﺳﻨﺎ ﮨﮯ ﺷﻮﻕ ﮨﮯ ﺍﺳﮑﻮ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﻗﺼﻮﮞ ﮐﺎ​
ﺍﺳﮯ ﺳﻨﺎﻧﺎ ﮐﺴﯽ ﺩﻥ ﻣﺮﯼ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺑﻬﯽ

واسطی خٹک
۔۔۔
تمام احباب نے عمدہ اشعار سنائے ۔ تبصرے کی گنجائش میرے خیال سے مشاعرے کے دوران نکلتی نہیں اس لئے گریز کی راہ اختیار کی۔​
 
خواب دیکھوں میں بہارِ شوق کا
مت مچا تو شور اب زنجیر سے
سب تمنائیں ہوئیں اب نور ختم
مت ڈرا ہمدم مجھے تقدیر سے
--------------------------------
فراق یارکا ہر لمحہ بے قرار ہوا
سرابِ دشت مرے عشق کا گماں ٹھہرا
حریمِ دل کے بیابان میں ڈھونڈتے پھرتے
غزالِ دشت نے پھر نغمہء فغاں چھیڑا
--------------------------------​
محترمہ نور سعدیہ شیخ بہت خوب
قطعات بہت اعلیٰ اور نظم دلکش۔ بہت ساری داد
 
لیجئے ہم بھی حاضر ،تاخیر کی معذرت

غزل
تو اپنی زات کے زنداں سے گر رہائی دے۔
تو مجھ کو پھر میرے ہمزاد کچھ دکھائی دے ۔
بس ایک گھر ہو خدائی میں کائنات مری ،
مرے خدا ! مجھے اتنی بڑی خدائی دے ۔
میں اُسکو بھولنا چاہوں تو گونج کی صورت ،
وہ مجھ کو روح کی پاتال میں دکھائی دے ۔
بجھا چکا ھے زمانہ چراغ سب لیکن !
یہ میرا عشق کہ ہر راستہ دکھائی دے ۔
ہمارے شہر کے سوداگروں کی محفل میں،
وہ ایک شخص کہ سب سے الگ دکھائی دے ۔
اُسے غرور ِ عطا ہے ،کوئی تو اب آ ئے ،
جو اُس کے دست میں بھی کاسہِ گدائی دے۔
پلٹ بھی سکتی ہوں ایماں فنا کی راہوں سے،
اگر کوئی مجھے اُس نام کی دُھائی دے ۔

------

غزل
ایک ادھورے خواب کا منظر آنکھوں میں تحریر ہوا ہے ۔
راتوں کا وہ چاند بنا ہے ، صبحوں کی تعبیر ہوا ہے ۔
درد سے جس کی خوب بنی ہو،جس نے دل پہ چوٹ سہی ہو،
وہ ہی شیلے ،کیٹس بنا ہے ، وہ ہی غالب ،میر ہوا ہے۔
ہجر کی اندھی شش جہتوں میں،ذات کی سجدہ گاہوں میں
عشق ہمارا مرشد ِ اولیٰ ،عشق ہی قبلہ پیر ہوا ہے ۔
کیا کیا منظر دکھلائے ہیں ،وقت کے رستے زخموں نے
دکھ کا گہرا سناٹا اب آنکھوں میں تحریر ہوا ہے ۔
آنکھ کی رتھ پر بیٹھا سپنا ، اس کا نام ہی جپتا ہے ۔
جس غزنی کے ہاتھ سے میرا دل مندر تسخیر ہوا ہے ۔
صرف ِ نظر سے کیسے کیسے کم ظرفوں کو ظرف ملا ہے
اور ہماری آنکھ کا تنکا ہر اِک کو شہتیر ہوا ہے ۔
آج بھی میرے سر کی چادر ،تیرے عشق کا حجرہ ہے ۔
آج بھی تیرا نقش ِ کف ِ پا ، قدموں کی زنجیر ہوا ہے ۔
لفظ بنے ہیں میری شہرت ،عشق ہوا ہے وجہ ِ شہرت
ایک کئیے ہے ہر سو رسوا،ایک مری تشہیر ہوا ہے ۔
عشق دھمالیں ڈالتی آئی رانجھا رانجھا کرتے ہیر
لیکن کیا کوئی رانجھا اب تک ،عشق میں مثل ِ ہیر ہوا ہے۔
ایماں ایک زمیں زادے کے عشق کا ہے اعجاز فقط
یہ جو ایک سخن دیوی سے شعر نگر تعمیر ہوا ہے ۔

---​
محترمہ ایمان قیصرانی صاحبہ
بہت اعلیٰ، بہت ہی اعلیٰ۔ لطف آگیا۔ دونوں کلام ہی کمال تخلیقات ہیں۔
میری طرف سے زبردست کی ریٹنگ 3 بار بمع بہت ساری داد قبول فرمائیں۔​
 
آخری تدوین:
ﺷﺮﺍﺭﺗﯿﮟ ﺑﻬﯽ ، ﻣﺤﺒﺖ ﺑﻬﯽ ، ﺑﺪﮔﻤﺎﻧﯽ ﺑﻬﯽ
ﻋﺠﯿﺐ ﺳﯽ ﮨﮯ ﺻﻨﻢ ! ﺁﭖ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺑﻬﯽ
ﻭﮨﯽ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺣﺴﯿﻨﮧ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﺎﺅﮞ ﮐﯽ
ﻣﻠﯽ ﮨﮯ ﻣﻮﺕ ﺑﻬﯽ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻭ ﺯﻧﺪﮔﺎﻧﯽ ﺑﻬﯽ
ﻭﮦ ﺑﺎﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﺮﺟﻨﮯ ﺳﮯ ﮈﺭ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ خٹکؔ
ﻣﺠﮭﮯ ﻗﺒﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺏ ﺑﺮﺳﺘﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﺑﻬﯽ
----------------------------------
ﺟﺐ ﭘﮍﯼ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻣجھ ﮐﻮ
ﺗﺐ ﻣﻠﯽ ﺧﻮﺏ ﻋﺪﺍﻭﺕ ﻣجھ ﮐﻮ
ﺟﺐ ﮐﺒﮭﯽ ﭘﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﺗﻨﮩﺎ ﺍﺱ ﮐﻮ
ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﮨﻤﺖ ﻣجھ ﮐﻮ
ﻭﮦ ﺟﻔﺎ ﮐﺎﺭ ﺟﻔﺎ ﮐﺮ ﮔﺰﺭﺍ
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺨﺸﯽ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺩﻭﻟﺖ ﻣجھ ﮐﻮ
ﭘﻬﺮ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﻬﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﮞ ﭘﺎﯾﺎ
ﺟﺐ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﮯ ﭼﺎﮨﺖ ﻣجھ ﮐﻮ​

شکریه[/QUOTE]

واسطی خٹک بھیا بہت خوب۔ دونوں غزلیں بہت اچھی ہیں۔
اور یہ مصرعہ تو اپنے آپ میں ہی بہت عمدہ ہے
"ﻭﮦ ﺟﻔﺎ ﮐﺎﺭ ﺟﻔﺎ ﮐﺮ ﮔﺰﺭﺍ"
اس مصرعہ پر تو بےاختیار منہ سے واہ واہ نکل گئی
 
آخری تدوین:
ناخدایا گوہر مقصود کس ساحل میں ہے؟
جوش زن موج تمنائے معانی دل میں ہے

چشمِ مہر و ماہ مثلِ دیدۂ جوہر بنی
ایک عالم انتظار جوہر قابل میں ہے

مدعا پانے کا دعویٰ کون کر پائے منیب
عزمِ آغازِ سفر مدعو ہر اک منزل میں ہے
---------------------------------------------
گم نہ رہ سوچ میں تو دیکھ کے چل کچھ مت سوچ​
ذہن کی بھول بھلیوں سے نکل کچھ مت سوچ
دل اندھیرے کا تری آگ سے ہو جائے گا موم
موم بتی کی طرح چپکے پگھل کچھ مت سوچ
معرفت ڈھونڈ سرِ راہِ طلب زیرِ شجر
میرے گوتم! پسِ دیوارِ محل کچھ مت سوچ
اژدھا ڈر کا مقابل ہو تو تلوار نکال
وہم کے سانپ کو پتھر سے کچل کچھ مت سوچ
زندگی جنگ ہے لمحات سے لڑنا ہے تجھے
جیتنا چاہے تو دورانِ جدل کچھ مت سوچ
خود کو مصروف رکھ اس آج کے عرصے میں منیب
کل کا سوچیں گے جب آ جائے گا کل کچھ مت سوچ
منیب احمد فاتح بھیا!
سبحان اللہ، بہت خوب۔ طرحی غزل بہت عمدہ کہی آپ نے اور "کچھ مت سوچ" میں جو خیالات آپ نے باندھے ہیں، قابلِ داد و تحسین ہیں۔ بہت ساری داد قبول فرمائیں۔
بہت نوازش ہے، امجد علی راجا صاحب۔ عاجزانہ کوشش تھی۔ پسند کرنے کا بہت شکریہ :)
 
سوچتا ہے ہر کوئی محفل میں بیٹھا ہے عبث
میں ہوں بہتر مجھ سے بہتر کون اس منزل میں ہے

محفلیں چاہت سے پر ہوں اور باتیں پیار کی
کون جانے کس قدر نفرت تمہارے دل میں ہے

تم لوٹ کے آ جاؤ
ہم انتظار میں ہیں
اب بات کرو ہم سے
ہم انتظار میں ہیں
جب عمر ختم ہوگی
ہم موت سے کہ دیں گے
مت جان ہماری لو
ہم انتظارمیں ہیں
پھر بہہ نکلیں آنسو
سب لوگ کہیں گے یوں
تم لوٹ کے آجاؤ
ہم انتظار میں ہیں

بہت خوب فیصل بھائی۔ کیا کہنے۔ خاص طور پر نظم دل کو چھو لینے والی ہے۔ بہت سی داد
 
پھر بہہ نکلیں آنسو
سب لوگ کہیں گے یوں
تم لوٹ کے آجاؤ
ہم انتظار میں ہیں
:applause:
زبردست!!!! فیصل عظیم فیصل بھائی!!!!
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شکریہ محمود چاہت کا محبت کا کہ اب
مجھ کو شاعر کہ رہے ہو گو کہ ذرہ ہوں یہاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوب صورت موسموں میں بارشیں نفاق کی
محو حیرت ہوں کہ پانی کس قدر بادل میں ہے

سوچتا ہے ہر کوئی محفل میں بیٹھا ہے عبث
میں ہوں بہتر مجھ سے بہتر کون اس منزل میں ہے

محفلیں چاہت سے پر ہوں اور باتیں پیار کی
کون جانے کس قدر نفرت تمہارے دل میں ہے

یہ تو ممکن ہی نہیں ہے غیب ہم بھی جان لیں
آج دعوے علم کے، سب قبضہ جاہل میں ہے

گفتگو ہے گفتگو ہے خامشی ہر دل میں ہے
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے

بدظنی سے بچ کے رہنا رحمتوں کی آس پر
راہ چلنا ان(ص) کی جن ہر ادا کامل میں ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک پرانا کلام جو مجھے بہت عزیز ہے ایک بار پھر سے حاضر خدمت ہے

تم لوٹ کے آ جاؤ
ہم انتظار میں ہیں
اب بات کرو ہم سے
ہم انتظار میں ہیں
جب عمر ختم ہوگی
ہم موت سے کہ دیں گے
مت جان ہماری لو
ہم انتظارمیں ہیں
پھر بہہ نکلیں آنسو
سب لوگ کہیں گے یوں
تم لوٹ کے آجاؤ
ہم انتظار میں ہیں​

بهت خوب ، سلامت رهیں، داد قبول فرمائیں
 
زلفِ دراز شان ہے حسن و جمال کی
نسوانیت ادھوری ہے اس کو نکال کر

بیگم! اسی کی چھاؤں میں رہتے ہیں عاشقین
رسوا کرو نہ زلف کو سالن میں ڈال کر

بہت بہت زبردست امجد علی راجا بھائی!!!
پہلے تو خوب ہنسی آئی اور بعد میں آپ کے انداز و تخیل پہ رشک!!!!

دوسرا قطعہ بھی خوب حقیقت سموئے ہوئے ہے.
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ذرا سا بیٹھ کے پھر سوچ لے محبّت پر
یہ چند لمحے خرچ کر کے ماہ و سال بچا !

شکار گھات لگائے تھا خود شکاری پر
وہی ہوا کہ شکاری بچا ، نہ جال بچا !
واہ
کیا ہی خوبصورت زمین ہے
کمال
بہت ہی سست ہے منظر کلی سے پھول بننے کا
نہاں ہوتا ہے آخر خود، عیاں آہستہ آہستہ!
عمدہ
عالمِ امکاں میں سب نقشِ قدم ہیں معتبر !
اور اسبابِ سفر کاشف رہِ منزل میں ہے
اچھا شعر ہے

بہت سی داد کاشف بھائی
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
شنی بانٹ اگر سینہ ترا روشن ہے
کیوں ہیں اوروں کے بجھے دل کے کنول کچھ مت سوچ

معرفت ڈھونڈ سرِ راہِ طلب زیرِ شجر
میرے گوتم! پسِ دیوارِ محل کچھ مت سوچ

اژدھا ڈر کا مقابل ہو تو تلوار نکال
وہم کے سانپ کو پتھر سے کچل کچھ مت سوچ

کیا ہی کمال غزل ہے
بالا اشعار بہت پسند آئے
بہت سی داد منیب بھائی
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
تو نورِ سماوی ، تو نور ِ زمانی
نبی سارے تیری ہیں نوری نشانی

محمد ﷺ میں تیری ہے حکمت مکمل
بشر کی وہ صورت میں تیرا تجمل
سبحان اللہ
نعتیہ اشعار
مقامِ حرا ، معرفت سے ضُو پائی
نبوت سے ظلمت جہاں کی مٹائی

خشیت سے جسمِ مطہر تھا کانپا
خدیجہ نے کملی سے انہیں تھا ڈھانپا


منور ،منقی تجلی سے سینہ
پیامِ خدا سے ملا پھر سفینہ

چراغِ الوہی جلا مثلِ خورشید
تجلی میں جس کی، خدا کی ملےدید
سبحان اللہ
ماشاءاللہ
کیا ہی پیارا کلام ہے
بہت لطف آیا
حریمِ دل کے بیابان میں ڈھونڈتے پھرتے
غزالِ دشت نے پھر نغمہء فغاں چھیڑا
عمدہ
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بس ایک گھر ہو خدائی میں کائنات مری ،
مرے خدا ! مجھے اتنی بڑی خدائی دے ۔
واہ
اچھا خیال ہے
میں اُسکو بھولنا چاہوں تو گونج کی صورت ،
وہ مجھ کو روح کی پاتال میں دکھائی دے ۔

ہمارے شہر کے سوداگروں کی محفل میں،
وہ ایک شخص کہ سب سے الگ دکھائی دے ۔
اُسے غرور ِ عطا ہے ،کوئی تو اب آ ئے ،
جو اُس کے دست میں بھی کاسہِ گدائی دے۔
عمدہ اشعار
وہ ایک شخص کہ سب سے الگ دکھائی دے
درد سے جس کی خوب بنی ہو،جس نے دل پہ چوٹ سہی ہو،
وہ ہی شیلے ،کیٹس بنا ہے ، وہ ہی غالب ،میر ہوا ہے۔
ہجر کی اندھی شش جہتوں میں،ذات کی سجدہ گاہوں میں
عشق ہمارا مرشد ِ اولیٰ ،عشق ہی قبلہ پیر ہوا ہے ۔

آنکھ کی رتھ پر بیٹھا سپنا ، اس کا نام ہی جپتا ہے ۔
جس غزنی کے ہاتھ سے میرا دل مندر تسخیر ہوا ہے ۔

عشق دھمالیں ڈالتی آئی رانجھا رانجھا کرتے ہیر
لیکن کیا کوئی رانجھا اب تک ،عشق میں مثل ِ ہیر ہوا ہے۔

واہ واہ واہ
کیا کہنے
کیا کہنے
کیا ہی عمدہ اشعار کہے ہیں اس زمین میں
لاجواب
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ﻭﮦ ﺑﺎﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﺮﺟﻨﮯ ﺳﮯ ﮈﺭ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ خٹکؔ
ﻣﺠﮭﮯ ﻗﺒﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺏ ﺑﺮﺳﺘﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﺑﻬﯽ
آہا
ﻭﮦ ﺟﻔﺎ ﮐﺎﺭ ﺟﻔﺎ ﮐﺮ ﮔﺰﺭﺍ
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺨﺸﯽ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺩﻭﻟﺖ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ
عمدہ شعر ہے
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین

محمد فائق

محفلین
امجد علی راجا صاحب واہ واہ محفل لوٹ لی آپ نے اپنے مزاحیہ اشعار سے
خاص کر مصرع طرح پر جو آپ نے اشعار کہے ہیں
مجھے محسوس ہو رہا تھا گویا میں ساغر خیامی صاحب کا کلام پڑھ رہا ہوں
 

محمد وارث

لائبریرین
زلفِ دراز شان ہے حسن و جمال کی
نسوانیت ادھوری ہے اس کو نکال کر

بیگم! اسی کی چھاؤں میں رہتے ہیں عاشقین
رسوا کرو نہ زلف کو سالن میں ڈال کر​
واہ واہ :)

کتابوں میں بہت نقصان اٹھا کر
دکاں پر رکھ لئے جوتے جرابیں

چراغ علم یوں روشن کیا پھر
سر فٹ پاتھ رکھ دیں سب کتابیں​
کیا کہنے، لاجواب۔


چار دفتر میں ہیں، اک گھر میں ہے اور اک دل میں ہے
چھ حسینوں میں گھرا امجد بڑی مشکل میں ہے

ذکر سن کر چھ حسینوں کا نہ گھبرا جانِ من
اک حسینہ کے لئے اب بھی جگہ اس دل میں ہے

ساس کے پہلو میں بیوی کو جو دیکھا، ڈر گیا
یا الہٰی خیر ہو خنجر کفِ قاتل میں ہے

دے رہا تھا لیڈروں کو گالیاں جو جو بھی وہ
"میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے"

میں تو سمجھا تھا کہ جاں لیوا ہے بیماری مری
موت کا سامان لیکن ڈاکٹر کے بل میں ہے

دیکھ کر کل رات فیشن شو میں بوفے حسن کا
آ گئے ہم گھر مگر دل اب بھی اس محفل میں ہے

میری دل جوئی کو آنے لگ پڑیں ہمسائیاں
فائدہ کیا کیا مرا بیگم تری کِلکِل میں ہے

دیکھئے، رشوت نہیں لایا، سفارش بھی نہیں
ایک بھی خوبی بھلا اس کی پروفائل میں ہے؟

آپ جو فائل دبا کر بیٹھے ہیں دو ماہ سے
آپ کا نذرانہ عالی جا! اسی فائل میں ہے

ہے غلط فہمی کہ خوش فہمی مگر لگتا ہے یہ
ذکرِ امجد اب تو اردو کی ہر اک محفل میں ہے​
مشاعرہ لوٹ لیا سرکار، کیا پھڑکتی ہوئی غزل لائے ہیں، پھڑکا کر رکھ دیا۔

چار دفتر میں ہیں، اک گھر میں ہے اور اک دل میں ہے
چھ حسینوں میں گھرا امجد بڑی مشکل میں ہے

ذکر سن کر چھ حسینوں کا نہ گھبرا جانِ من
اک حسینہ کے لئے اب بھی جگہ اس دل میں ہے​
 
Top