نیرنگ خیال
لائبریرین
بہت شکریہ سر۔۔۔۔ اتنا بھی کافی ہے۔ کہ لکھتے وقت اگر ان پہلوؤں کو ہی سامنے رکھا جائے تو چھانٹی خود بخود ہوجائے گی۔کیا عرض کروں حضرت! مشکل میں ڈال دیا۔ کوشش کرتا ہوں، شاید کوئی کام کی بات کر سکوں۔
یہاں ہم کوئی حدِ فاصل کو نہیں کھینچ سکتے کہ اس لکیر سے دائیں طرف اور اوپر جو کچھ ہے وہ ادب ہے باقی نہیں ہے۔ ہماری معمول کی گفتگو میں جو ہے جیسا ہے، رف ہے صاف ہے، اخلاقی ہے نہیں ہے، بات خوبصورت ہے نہیں ہے؛ بات اپنے اپنے ماحول کی بھی ہوتی ہے۔ تاہم ہوتا یہی ہے کہ ’’کیا کہنا ہے‘‘ یہی مطمع ہوتا ہے۔ ’’کیسے کہنا ہے‘‘ اس پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ ادب میں یہی ’’کیسے کہنا ہے‘‘ بھی ’’کیا کہنا ہے‘‘ کے ساتھ شامل ہو جاتا ہے۔ زبان و بیان ٹھیک ہو، الفاظ کی نشست و برخاست اچھی لگے، تھوڑا بنا سنوار کے نکھار کے بات کی جائے، واقعاتی، فکری، یا جو بھی ہماری ترجیح ہو اس کی مطابقت سے پیراگراف بنائے جائیں۔ یہی ادب کے عام معانی ہیں اور یہی اہتمام کسی تحریر کو ادب پارہ بناتا ہے۔ آگے ادیب کی صلاحیتوں کی بات ہے، صنائع بدائع ہیں، رعایات ہیں، سجع، رجع اور دیگر فنیات ہیں، سلیقہ اور اسلوب ہے، جو کسی ادب پارے کو مزید سنوارتا بناتا ہے۔
ہر تحریر کا کوئی نہ کوئی مقصد ہونا چاہئے، میری خواہش تو یہی ہوتی ہے؛ مرضی اور اختیار اس کے پاس ہے جس کے ہاتھ میں قلم ہے۔ کیا خیال ہے؟
میرا خیال ہے کہ جس صنف میں مصنف لکھتا ہے۔ اس صنف پر اس کا مطالعہ بھی وسیع ہونا چاہیے۔