مغزل
محفلین
’’ سال کی کوکھ میں پلتے ہوئے دن ‘‘
( سال 2010 کی پہلی نظم)
سال کی کوکھ میں پلتے ہوئے دن
سال کی آخری رات - - -
خوف کے کھردرے ہاتھوں سے تولُّد ہوکر
ایک کہرام مچا دیتے ہیں تا شرق و شمال
تا غرب و جنوب - -- -
چاند گہنایا ہوا دیکھ کے خوش ہوتے ہیں
رقص ابلیس کے چیلوں کا دکھاتے ہیںمدام
صبح آتی ہے - - - -
تو آنگن میں پڑی لاشوں پر
بین کرتی ہوئی ، شام سے جاملتی ہے
اور اس گھر کے مکینوں کو ندا دیتی ہے
(اے مری مانگ کا سیندور مٹانے والے)
چوڑیا ںٹوٹتی ہیں - - -
فرشِ عزاء بچھتا ہے - - - -
سینہ کوبی سے کلیجہ ، کہ پھٹا پڑتا ہے
ہائے ماں ، ہائے پدر، ہائے مرے لختِ جگر
کوئی لوبان جلاتا ہے - - -
تو مرحوم سرا - - -
شیون و ماتم و گریہ سے لرز اٹھتی ہے
ہائے سرتاج - - -
خدا واسطے لوٹ آؤ تم !
دن کسی بات کے سننے کے روادار نہیں
شام اب رات کے آنچل میں سمٹ جاتی ہے
اور اک سانس - - -
مرے سینے میں گُھٹ جاتی ہے !!
سال کی کوکھ میں پلتے ہوئے دن
سال کی آخری رات
خوف کے کھردرے ہاتھوںسے تولُّد ہو کر !!!
(م۔م۔مغل)
( سال 2010 کی پہلی نظم)
سال کی کوکھ میں پلتے ہوئے دن
سال کی آخری رات - - -
خوف کے کھردرے ہاتھوں سے تولُّد ہوکر
ایک کہرام مچا دیتے ہیں تا شرق و شمال
تا غرب و جنوب - -- -
چاند گہنایا ہوا دیکھ کے خوش ہوتے ہیں
رقص ابلیس کے چیلوں کا دکھاتے ہیںمدام
صبح آتی ہے - - - -
تو آنگن میں پڑی لاشوں پر
بین کرتی ہوئی ، شام سے جاملتی ہے
اور اس گھر کے مکینوں کو ندا دیتی ہے
(اے مری مانگ کا سیندور مٹانے والے)
چوڑیا ںٹوٹتی ہیں - - -
فرشِ عزاء بچھتا ہے - - - -
سینہ کوبی سے کلیجہ ، کہ پھٹا پڑتا ہے
ہائے ماں ، ہائے پدر، ہائے مرے لختِ جگر
کوئی لوبان جلاتا ہے - - -
تو مرحوم سرا - - -
شیون و ماتم و گریہ سے لرز اٹھتی ہے
ہائے سرتاج - - -
خدا واسطے لوٹ آؤ تم !
دن کسی بات کے سننے کے روادار نہیں
شام اب رات کے آنچل میں سمٹ جاتی ہے
اور اک سانس - - -
مرے سینے میں گُھٹ جاتی ہے !!
سال کی کوکھ میں پلتے ہوئے دن
سال کی آخری رات
خوف کے کھردرے ہاتھوںسے تولُّد ہو کر !!!
(م۔م۔مغل)