حسبِ وعدہ مگر تاخیر سے حلقہ اربابِ ذوق کے اجلاس کی تمام تر کاروائی شامل کیے دیتا ہوں۔
مہدی نقوی حجاز کا مقروض ہوں انشا اللہ ملاقات کا خاکہ پیش کرتا ہوں۔۔
فاتح ،
محمد وارث ، اور
محمد بلال اعظم کو منسلک کیا جاتا ہے۔
کاروائی حلقہ ارباب ِذوق (کراچی)
۶ جنوری ۲۱۰۲ بمقام آرٹس کونسل (کراچی)
(رپورتاژ: محمد ظہیر عباس)
حلقہء ارباب ِذوق کی ہفتہ وار تنقیدی نشست ۶جنوری ۲۱۰۲ کو آرٹس کونسل کراچی میں عظیم حیدر سید کی زیرِ صدارت منعقد ہوئی ۔اس نشست میں ظہیر عباس نے اپنا مضمون اور م م مغل نے اپنی نظم تنقید کے لیے پیش کی۔ ابتدا میں ظہیر عباس نے اپنا مضمون بعنوان حفیظ ہوشیارپوری :ایک اجمالی جائزہ پیش کیا۔ مضمون پر گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے۔۔
م م مغل نے کہا کہ نقوش نے حفیظ ہوشیارپوری پر ایک ضخیم نمبر شائع کیا تھا ،ایک اجمالی جائزے میں اس کا بھی ذکر آجانا چاہیے تھا ۔تصوف کو تانیث میں برتا گیا ہے جو کہ درست نہیں ہے ۔مگر اس تحریر سے حفیظ کے بارے میں مزید پڑھنے کی تحریک ملتی ہے ۔ حفیظ جیسی شخصیت پر ایک طویل مضمون کی ضرورت ہے ۔
شبیر نازش نے کہا کہ یہ بات ہے خوش آئند ہے کہ حفیظ ہوشیارپوری کی برسی کے موقع پر ان کے حوالے سے حلقے میں مضمون پیش کیا گیا۔میرے علم میں یہ بات نہیں تھی کے ان کا تعلق جھنگ سے تھا ۔مضمون میں اشعار کا انتخاب بہت اچھا تھا ۔
م م مغل نے اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ اس مضمون کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ اپنے فطری بہاؤ میں لکھا گیا ہے ۔ حفیظ کی شا عری کے لیے کلاسیکی جدیدیت کی ترکیب استعمال کی گئی ہے جو کہ مستحسن ہے ۔
محمد امجد نے کہا کہ ایک مختصر مضمون میں ظاہر ہے اتنی بھر پور شخصیت کا مکمل احاطہ نہیں کیا جا سکتا تھا ۔حفیظ کے بارے میں جب ہم یہ پڑھتے ہیں کہ وہ دیوان پور ضلع جھنگ میں پیداہوئے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے ان کے نام کے ساتھ ہوشیارپور کا لاحقہ کیوں تھا ۔
توقیر تقی نے کہا کہ اس مضمون میں تمہید کو زیا دہ جگہ دی گئی ہے ان کی غزل گوئی جو کہ اصل موضوع تھا اس کے حوالے سے تشنگی محسوس ہوتی ہے ۔کلاسیکی جدیدیت کی ترکیب منا سب نہیں ہے چوں کہ جدیدیت کا لفظ خود ایک اصطلاح ہے ۔
م م مغل نے کہا کہ جدیدیت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ مخصوص تراش خراش کے مصرعے لکھے جائیں ۔لفظ کے تمام امکانی پہلو مدِنظر ہونے چاہیں ۔ایک تخلیق کار کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ لفظ کے مروجہ مفہوم کو توڑ کر ان میں نئے معنی پیدا کرے ۔
توقیر تقی نے کہا کہ میں نے اس ترکیب کوغلط نہیں کہا بلکہ جدیدیت کے اصطلاحی مفہوم کے پیشِ نظر ترمیم کی سفارش کی ہے ۔
عظیم حیدر سید نے گفتگو کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ مضمون اچھا ہے مگر صاحب مضمون نے کوٹ اور ان کوٹ کا لحاظ نہیں رکھا ۔
اس کے بعد م م مغل نے اپنی نظم بعنوان سال کی آخری نظم پیش کی ۔
گفتگو کا آغاز کرتے ہوے شبیر نازش نے کہا کہ اس نظم میں پوری زندگی نظر آتی ہے ۔زندگی کی بے بسی کا اظہار ہے ۔وسیع تناظر میں دیکھیں تو دنیا کی نظریں ہمیں مٹانے پر لگی ہوئی ہیں اور ہمیں کہیں چین نہیں ملتا ۔پوری نظم میں ایک اداسی کی فضا ء نظر آتی ہے ۔
علی زبیر نے کہا کہ شاعری احساس کے لیے استعارے استعمال کرتی ہے ماں کے بچہ جننے کے عمل کو خارجی صورتِ حال سے منسلک کیا گیا ہے ۔سال کی کوکھ میں پلتے ہوے دن بہت اچھی لائن ہے ۔اس نظم کے ساتھ دیر تک رہا جاے تو یہ مزید اپنے آپ کو کھولتی ہے ۔
توقیر تقی نے کہا کہ یہ نظم بحر رمل محذوف میں لکھی گئی ہے جو کہ مرکب بحر ہے ۔نظم پوری دائرہ بناتی ہے ،جہاں سے آغاز ہوتا ہے وہیں اختتام ہوتا ہے ۔آشوب ذات و آشوبِ شہر جس کی طرف اشارہ کیا گیا بیشک موجود ہے مگر بباطن اس نظم میں ایک پورے تخلیقی عمل کو پیش کیا گیا ہے ۔تخلیقی عمل بھی ماں کے بچہ جننے کے عمل سے مشابہہ ہوتا ہے ۔اس حوالے سے وزیر آغانے ایک کتا ب تخلیقی عمل کے نام سے لکھی ہے ۔یہ نظم تخلیق کا ر کے اسی تخلیقی عمل کو پیش کرتی ہے ۔
محمد امجد نے کہا کہ اس نظم کی امیجری بہت شاندار ہے ۔لیکن ایک لائن جو کہ قوسین میں لکھی گئی ہے ،(اے مری مانگ کا سندور مٹانے والو)میں سندور اور اس لائن کو قوسین میں لکھنے کا جواز سمجھ میں نہیں آتا ۔
کاشف رضا نے کہا کہ نظم اچھی ہے مگر کہیں کہیں Logical Cohesionکے مسا ئل نظر آتے ہیں ۔اس نظم میں یہ طے نہیں ہے کہ یہ ایک دن کی بات ہے یا بہت سارے دنوں کی ۔یہ بھی طے نہیں ہے کہ یہ کن دنوں کی بات ہے وہ دن کہ جو پیدا ہوچکے یاوہ جنہیں پیدا ہوناہی۔ نقطوں کی جگہ ڈیش لگائے گئے ہیں جو کہ منا سب نہیں ہے ۔آخر میں ابتدائی لائنوں کی تکرار کا جواز نظر نہیں آتا۔ نظم (اور اک سانس مرے سینے میں گھٹ جاتی ہی) پر ختم ہو جاتی ہے ۔ایک اورلائن( سینہ کوبی سے کلیجہ کہ پھٹا پڑتا ہے) میں کہ اضافی ہے ۔مگر بحثیت مجموعی نظم میں ایک لطف موجود ہے ۔
علی زبیر نے کہا کہ اس نظم میں خوف کے کھردرے ہاتھوں والی لائن بہت اہم ہے ۔اگر ماں کے بچہ جننے سے پہلے کے مراحل کو پیشِ نظر رکھا جائے تو اس کی معنویت مزید اجاگر ہوتی ہے ۔
شبیر نازش نے کہا کہ دن سارے گزر چکے ہیں یہ سال کی آخری نظم ہے ۔سیندور مانگ اجڑنے کی کیفیت کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے ۔
عظیم حیدر سید نے گفتگو کو سمیٹتے ہوے کہا کہ کاشف رضا نے اس نظم پر بڑے درست اعتراضات اٹھاے ہیں ،جن کی روشنی میں نظم کو مزید بہتر بنایاجا سکتا ہے ۔اے مری مانگ کا سیندور مٹانے والوں!والی لائن چوں کہ مکالمہ ہے اس لیے قوسین میں لکھی گئی ہے ۔ امید ہے م م مغل اپنے تخلیقی سفر کو جاری رکھیں گے اور مستقبل میں اور اچھی نظمیں پیش کریں گے ۔
عظیم حیدر سید کے صدارتی کلمات کے پر نشست کے خاتمے کا اعلان کیا گیا ۔اس نشست میں دیگر احباب کے ساتھ محسن زیدی اور محمد انیس گزدر بھی شریک تھی۔
اختتامیہ