گزشتہ سے پیوستہ تحریر
-شاعر اپنے ارد گرد کے حالات سے متاثر ہوتا ہے لیکن وہ اپنے خوابوں میں جیتا ہے۔
- آجکل ہر کوئی یہی کچھ دیکھ رہا ہے، کالم نگار یہی کچھ اپنے کالمز میں لکھ رہے ہیں
ہر طرف مایوسی کا دور دورہ ہے، شاعر سے توقع کہ ہمیں کوئی اچھا خواب دکھائے، کوئی امید جگائے۔ کوئی ایسا خواب جس کے سہارے زندگی گذارنا سہل ہوجائے۔
یہ بات تو ماننے کی ہے کہ شاعر
بھی اپنے گردو پیش سے متاثر ہوتا ہے ۔۔ ویسے شاعر ہی کی تخصیص نہیں کوئی بھی عام آدمی ، تخلیق کار ، مصور، ترکھان، موچی ، بزاز، کنجڑا، قصائی ، لوہار، سنار، بان فروش، دوافروش، ڈرائیور، اداکار، نثر نگار، کالم نویس، تھوک پرچون فروش اور جمعدار تک ’’ ارد گرد کے ماحول / حالات سے متاثر ہوتا ہے اور ’’ اپنے خوابوں ‘‘ میں جیتا ہے ۔
نتیجہ فکر ::
’’ شاعر ادیب یا کوئی بھی تخلیق کار ، ۔۔ ’’ ماحول ،معاشرے ‘‘ کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور بطونِ ذہن و قلبی میں کسی ہمواری ونا ہمواری کو آتش فشاں پہاڑ کے لاوے کی طرح پالتا ہے اور قدرت کے تفویض کردہ وقت پر اس کا اظہار ممکن ہوتا ہے ، رہی بات خوابوں میں جینے کی تو ۔ کوئی بھی اصل روح سے جڑا ہوا ادیب شاعر و فنکار دوسروں کے خوابوں میںجیتا ہے اور اپنے خوابوں میںجینا تو کجا اپنے خواب ہی کیا آنکھیں بھی قربان کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے ، شرط ’’ اصل ‘‘ سے ہے ، عمومی معاشرتی رویوں پر کسی تخلیق کار کو نہ پرکھا جاسکتا ہے ، نہ پرکھا جانا چاہیے اور نہ ہی اس سے کوئی اصل نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے ۔مزید عرض اگلے کسی مراسلے میں کہ آیا یہ ( مذکورہ ) عوامل کسی تخلیق کار یا شاعر پر کیسے اثر انداز ہوتے ہیں۔‘‘ --- الخ ------------------- مزید::
شاعر پر بنیادی طور پر تین عوامل اثر انداز ہوتے ہیں جو بالتر تیب یو ں ہیں :-
ماحول :: شاعر اپنے رہن سہن اور ارد گر کے ماحول سے متاثر ہوتا ہے ، ہر خطہ ارضی کا شاعر اپنے خطے کی طبیعت لے کر پیدا ہوتا ہے ،
مزاج :: میسر ماحول کی گود میں پرورش پانے سے شاعر کا مزاج ترتیب پاتا ہے جو ماحول کی دین ہے ( واضح رہے استثنی کی بات اور ہے)۔
مطالعہ:: ماحول اور مزاج کے حوالے سے تربیت پاتا ہے ، اسی سے شاعر کی اٹھان نظر آتی ہے ۔
ماحول مزاج اور مطالعے کے بعد مہمیز کا عمل دخل ہوتا ہے ، جس کے بعد شاعر کا اپنا ذائقہ دریافت ہوتا ہے اس میں مسلسل کام کرتے رہنے کی وجہ سے شاعر اپنے طرزِبیان یا طرزِ نگارش کو پالیتا ہے بعد ازاں یہی طرزِبیان یا نگارش شاعر کو اسلوبیاتی دائرے تک لیجاتی ہے اور شاعر اسلوب کو پاتا ہے ، مگر چند ہی اسلوبیاتی دائروںکے شاعر ’” صاحبِ اسلوب ‘‘ بن پاتے ہیں ، ۔ اس سے قطع نظر ’’ رجحان ساز ‘‘ ہونے کے لیے بنیادی اکائی اہلیت اور عطائے مربی ہے ۔ میر صاحب نے اپنے دور کے ممتاز شعرا میں جوا کائی حاصل کی وہ ان کی شاعری میں فردی ( انفرادی) نفسیاتی پر محمول کرتی نظر آتی ہے جب کہ غالب کے ہاں ’’ اجتماعی نفسیات ‘‘ پر موئے قلم کو اعجاز نظر آتا ہے ۔ دلی و لکھنئو میں گلی میں پھیرے لگانے والا بھی ’’ موزوں طبعی ‘‘ کی اہلیت رکھتا تھا اور آواز بھی ’’ موزوں ‘‘ ہی لگا تا تھا، میر کے عہد سے فراز تک لاکھوں ’’ شعراء عظام‘‘ گزر ے کیا وجہ ہے کہ وہ مر کھپ گئے ، صرف چند نام ہی اپنے وجود میں جہانِ سَخُن کی حشر سامانیاں لیے نظر آتے ہیں ، اورایسے لوگ بجا طور پر انگلیوں پر گنے جاتے ہیں۔
جہاں تک ’’ عام شعراء کرا م بات ہے ‘‘ اشارہ غالبا ً زرائع ابلاغ کی بابت ہے ۔۔ بہر کیف۔ کالم نگاری ، صحیفہ نویسی، اظہاریہ نویسی میں ایک قدرِ مشترک ہے کہ ’’ جو دیکھا وہ لکھ مارا ‘‘ -- اسی کی ایک شاخ ’’ تجزیہ کاری ونویسی ‘‘ بھی ہے نثر میں شاعری کا مقدمہ تجزیہ سے بنتا ہے ، محض خبر کی بنیاد پر ’’منظوم ‘‘ کلام کو شاعر ی نہیں کہا جاتا اور نہ ہی اس کا شاعری سے کوئی لین دین ہے ، ۔ بعض افراد اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیںکہ ’’ بحر وقافیہ ،ردیف و مضمون، صرف ونحو، ایطا شائیگاں، تعلی،مد و شد اور دیگر فنی علوم پر دسترس کا نام شاعری ہے یہ یہی اصل راہ ہے شاعری کی تفہیم کی ۔‘‘ ۔۔ اس نکتہ کی مد میں اوپر بھی عرض کیا ہے ، ارتباطِ فکری سے پورے مراسلے کا متن آپ پر ایک مضمون کی کھل سکتا ہے ، ’’ ادیب کا عشق محض نشاط اور محفل آرائی اور تفریح نہیں‘‘ ---- (منشی پریم چند) ۔۔ اس مقولے کی بنیاد پر تو کالم نگار اور نویس صف سے ہی باہر خارج ہوگئے ، یعنی شعری مقدمے میں ان کا حوالہ دینا بھی غیر ضروری ہے ۔۔ ( واضح رہے کہ موازنہ کیا گیا تھا ) اب ادیب وشاعر کا اصل معاملہ بھی بیان ہوچکا ۔ جن کا مسئلہ شاعری ہے وہ ’’ عروض ‘‘ سے ناواقفیت رکھتے ہوئے بھی شاعر ہوتے ہیں ، اور جو شاعر نہیں ہوتا اسے ’’ شاعر ’’ بنانے کے لیے مشق کے پاپڑ بیلنے کو دیے جاتے ہیں، تاں کہ وہ گا بجا کر ، ڈھول پیٹ کر قدرتی صلاحیت رکھنے والوں کے مقابل آسکیں، ۔۔ رہی بات کہ ہر طرف مایوسی کا دور دورہ ہے اور کوئی خواب دکھانے والا نہیں، اس میں شاعر بچارہ کیا کرے ، ہماری اخلاقی سماجی معاشرتی و تہذیبی اقدار تباہ ہوچکیں ہیں ، اس میں ذرائعِابلاغ کا کردار ہو یا اشرافیہ کا ، طبقاتی کشمکش کا جھگڑا ہوا لسانی بنیادوں پر تقسیم کا ، مسلکی جہنم ہو یا مکتبہ فکر کے لشکر کا، غرض کہ ہر دو طرف سے یہ عوامل کرہ ارض پر انسانی زندگی کے لیے مسلسل خطر ہ ہے اب ایسے میں شاعر
( میری نظم - معافی نامہ ملاحظہ کیجے ) اپنے حصے کی خاک پھانکتا پھرتا ہے ، ۔۔ بالعموم سب ہی شعراء ادباء اس نظم کی ذیل میں آتے ہیں، بالخصوص وہ جو محض’’ شاعر کی دوڑ مسندتک ‘‘ پر عمل پیرا نظر آتے ہیں ، ایسے میں عوام کی خواندگی( مکتبی نہیں ) کی سطح بھی آڑے آتی ہے ۔ایسے میں شاعر کیا خواب دکھائے ، بچارہ خود اپنے آپ کو ’’ ان بکھیڑوں یا آلائشوں ‘‘ سے نہیں بچا پاتا۔ ’’ کارل مارکس جب لکھنے بیٹھا تھا تو خبر ہوئی ، صاحبزادی بیمار ہے اور اب نہ رہی ، کارل مارکس نے ’’لکھا ہے ‘ کہ میںایسے میں ایک اپنی بیٹی کا رونا روتا یا قوم کی بیٹیوں کو، اس نے قوم کی بیٹیوں کو ترجیح دی ‘‘ یہ حوصلہ ہے ہم میں ؟؟۔۔ اب اگر تحریک و تحرک میں بات آتی ہے تو ۔اقبال سامنے کی بڑی مثال ہیں ، لیکن اقبال سے موازنہ کر نے بیٹھیے گا تو مشکل ہوجائے گی کیوں بات وہی ہے ، کہ قوم ’’ شعر ‘‘ سے جاگ گئی تھی ۔ اسی اقبال کو آج کی ’’قوم ‘‘ نما ریوڑ پر آزمائیے گا تو ’’ نہ جاگے گی اور نہ جاگنے دے گی ‘‘ کہ ’’ دنیا میں دو طرح کی قومیں آباد ہیںایک زوال یافتہ اور ایک زوال پزیر ‘‘ مگر میرے نکتہ ِ نظر کے مطابق ہم دنیا کی ایک تیسری قوم ہیں جو زوال ’’ آمادہ ‘‘ ہے ، ہمیں مسلک ومذہب، زبان و قوم ، ایکٹینگ چیلنج، سارے گاما، نچ بلیے ، کُم کُم، کشش، ساس بھی کبھی بہو تھی، آئڈلز ، نشریاتی اداروں پر ’’ اشرافیاتی ‘‘ مرغوں کی لڑائیوں سے حظ اٹھانے کے علاوہ فرصت ہی کہاں ہے ، ۔۔دعا ہے کہ کوئی ’’ شاعر ‘‘ جو نفوس پزیر ہو ( جیسے وصی شاہ اور دیگر شاہ گروپ، ادب کے دیگر غنڈوں، اور بٹیر)۔۔یہ کام کرجائے ۔ خیر ایک شعر پر یہ سلسلہ موقوف کرتا ہوں ۔کہنے کو بہت کچھ ہے مگر ’’ سننے کی تاب کہاں ‘‘۔۔۔ والسلام
ہر طرفِ بانگِ جرس، بانگِ درا ، بانگِ اذاں
سونے والے ہیں کہ لیتے نہیں انگڑائی بھی !!
( نصیر کوٹی)