بہترین نام کی تو کوئی غزل ہماری بیاض میں ہے نہیں، بہرحال جناب عرفان صدیقی صاحب کی زمین میں ایک جسارت کی تھی جو یہاں عرض کرتا ہوں۔
دیکھ ہم کیسی مسافت کے حوالے ہوئے ہیں
تشنگی لب پہ ہے اور پاؤں میں چھالے ہوئے ہیں
خونِ دل اپنا چراغوں میں جلایا ہم نے
تب کہیں جا کے اندھیروں میں اجالے ہوئے ہیں
بوجھ اٹھتا ہے کہاں اوروں کا طوفانوں میں
یہ بڑی بات ہے ہم خود کو سنبھالے ہوئے ہیں
کر دیا عشق نے کچھ ایسا نکما ہم کو
آج کے کام بھی کل پرسوں پہ ٹالے ہوئے ہیں
ہم ہیں بادل سو برستے ہی رہیں گے راجا
جو تھے دریا وہ سمندر کے نوالے ہوئے ہیں
( ایم اے راجا )