سرحد کے اس پار * تبصرہ جات

سید عمران

محفلین
بات تو سچ ہے آپ کی لیکن حضرت یہ تو لفاظی ہے۔ جب تک ہم اپنی آنکھوں سے آپ دونوں کو دست و گریباں نہیں دیکھتے، مشاہدہ ادھورا رہے گا۔
:eek:
ارے آپ تو ہمیں پگا گڑھے میں دھکا دے کر مٹی ڈالنے کا انتظام کرنا چاہ رہے ہیں ۔
 
آپ کی غلط فہمی ہے۔۔۔
آپ کی ہم خیال نہیں ہیں۔۔۔
آپ مذمت جبکہ یہ مدحت کررہی ہیں۔۔۔
چشمہ لگاکر پڑھیں۔۔۔
اور اگر لگا ہوا ہے تو اتار کر!!!
ارے بھیا کوئی بات نہیں ،
آپ اپنے آپ کو تسلی دیں لیں ہم کچھ بھی نہیں بولے گے ۔
 
آخری تدوین:

فلسفی

محفلین
ارے آپ تو اس وقت بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانے کی مثال پیش کر رہے ہیں ۔
عدنان بھائی آس پاس بیٹھے لوگوں کا ڈر نہ ہوتا تو بےاختیار قہقہہ نکل جانا تھا۔ جس انداز سے سید صاحب نے آپ کے کلام کو سرقہ کی زینت بخشی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
 
عدنان بھائی آس پاس بیٹھے لوگوں کا ڈر نہ ہوتا تو بےاختیار قہقہہ نکل جانا تھا۔ جس انداز سے سید صاحب نے آپ کے کلام کو سرقہ کی زینت بخشی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
یہ تو بھیا کی محبت ہے جو انھوں نے ہماری کاوشوں کو اس قابل جانا ۔
ورنہ کہاں ہمارا منہ اور یہ مسور کی دال ۔
 
یہ یہاں کی بھنگن تھی۔ باتھ روم صاف کرنے آتی تھی۔انہیں یہاں بہو کہاجاتا تھا اور ان کے کام کو ’’کمانا۔‘‘ جب وہ اندر داخل ہوتی تو آواز لگاتی:’’ بہو آئی ہے کمانے۔‘‘ان کا تعلق ہندو برادری کی ایک قوم سے تھا۔
گئے زمانوں کے شہروں (میں نے کافی عرصہ قبل اندرون لاہور میں دیکھ رکھا) میں واش روم وغیرہ چھت پر بنے ہوتے تھے جن کی نکاسی کو کوئی بندوبست نہیں ہوتا تھا۔ بھنگن اس کی روزانہ صفائی کرنے آتی تھی اور اس کام کو ’کوٹھا اتارنا‘ کہا جاتا تھا۔ :)
 
Top