سرحد کے اس پار * تبصرہ جات

فلسفی

محفلین
‘‘جس سے انہیں نفع یا نقصان کی امید ہو ان سب کو بڑا سمجھ کر ان کی پوجا کرتے ہیں۔ مثلاً دوکان سے نفع کی امید ہوتی ہے اور سانپ سے نقصان کی۔ اس لیے سانپ کو بھی پوجتے ہیں اور دوکان کو بھی۔‘‘
افسوس اس شرکِ خفی نے ہمیں بھی نہیں بخشا۔

بادشاہی مسجد کے مشرقی دروازے سے اندر داخل ہوگئے کہ بادشاہوں کی گزرگاہ یہی دروازہ تھا۔
واہ، سید بادشاہ

اگلی منزل حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا مزار تھا۔

کیا یاد کروا دیا سید صاحب، اپنے شیخِ اول حضرت نفیس شاہ صاحب رحمہ اللہ (خلیفہ حضرت عبد القادر رائے پوری رحمہ اللہ) سے سنا تھا کہ نظام الدین اولیاء رحمہ اللہ جب بابا فریدالدین گنج شکر رحمہ اللہ کے پاس پہلی مرتبہ تشریف لائے تو بابا جی نے انھیں دیکھتے ہی یہ شعر پڑھا

اے آتش فراقت! دل ہا کباب کردہ
سیلاب اشتیاقت! جان ہا خراب کردہ
 

م حمزہ

محفلین
چوں کہ لاہور کی مسجد دیکھی ہوئی تھی اس لیے تقابل کرنا آسان تھا۔ لاہور کی مسجد میں سرخ رنگ غالب تھا اور دہلی کی مسجد میں سفید۔ دیکھنے میں لاہور کی مسجد زیادہ پُرشکوہ ہے، صفائی ستھرائی اور مینٹننس کا خیال بھی لاہور کی مسجد میں بہت زیادہ رکھا گیا ہے۔ لاہور کی مسجد سے دور دور تک آبادی نہیں ہے، خوب کھلا کھلا وسیع علاقہ ہے اس لیے باہر بھی وسعت کا احساس ہوتا ہے۔ جبکہ دلی کی مسجد کے چاروں طرف انتہائی گنجان آباد بازار ہے، بے انتہاٗ رش ہے، کھوے سے کھوا چھلتا ہے، حکومت کی عدم توجہی سے صفائی ستھرائی اور مینٹننس کا وہ معیار نہیں ہے جو لاہور کی مسجد کو حاصل ہے۔ دور رفتہ کی یاس زدہ عظمتوں کو سلام کر کے نیچے اتر آئے۔
سڑکوں پہ لڑکیوں کو سائیکلوں پہ سواری کرتے آپ کو عجیب لگا!!!
کیا جامع مسجد میں فرہنگی میموں کو فوٹو گرافی کرتے کچھ بھی محسوس نہیں ہوا۔ ان کا رنگ ڈھنگ اور لباس دیکھ کر؟
 

سید عمران

محفلین
سڑکوں پہ لڑکیوں کو سائیکلوں پہ سواری کرتے آپ کو عجیب لگا!!!
کیا جامع مسجد میں فرہنگی میموں کو فوٹو گرافی کرتے کچھ بھی محسوس نہیں ہوا۔ ان کا رنگ ڈھنگ اور لباس دیکھ کر؟
جب ہم گئے تو ظہر کی نماز کا وقت تھا۔۔۔
شاید اس لیے وہاں ایسا کچھ نہ تھا یا ہم نے نہیں دیکھا تھا!!!
 
Top