سرحد کے اس پار * تبصرہ جات

سید عمران

محفلین
اور میں سمجھا تھا کہ قصہ تمام ہوا :p

میرا مطلب یے کہ روداد مکمل ہوئی:D۔ لیکن سید صاحب آپ نے تو بہت شاندار، دھماکے دار قسط شائع کردی۔
شکریہ بھائی۔۔۔
جب تک ہم پاکستان واپس نہیں آجاتے سفر نامہ مکمل کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔
کیا آپ ہمیں ہندوستان میں بھٹکتے چھوڑنا چاہتے ہیں؟؟؟
:):):)
 

بافقیہ

محفلین
وق
سرحد کے اس پار ٭ تبصرہ جات

انٹر کا امتحان اور اس کے بعدطویل تعطیلات۔۔۔
بے کیف اور اکتاہٹ بھرے شب و روز۔۔۔
اکتا اکتا کر تھک جاتے تو کتابیں پڑھتے۔۔۔
کتابیں پڑھ پڑھ کے تھک جاتے تو اکتانے لگتے۔۔۔
تب ہی اچانک زندگی میں ہلچل مچ گئی۔۔۔
ہماری آنٹی نما پھوپھی یا پھوپھی نما آنٹی نے اعلان کیا ۔’’ہم لوگ ہندوستان جارہے ہیں، ویزہ آگیا ہے۔‘‘
ہم ان کے گھر میں داخل ہی ہوئے تھے کہ چہکتی ہوئی آواز آئی۔
’’یہ کیا مذاق ہے؟‘‘ ہم جھنجھلا گئے۔
’’ اتنا بھی خیال نہ آیا کہ چہیتا بھتیجا بور ہو ہو کر بور ہوگیا ہے، اسے بھی ساتھ لے لوں۔‘‘
ہمارا موڈ آف دیکھا تو تھوڑے رسان بھرے لہجے میں کہا ۔’’ابھی ہمارے جانے میں پندرہ دن ہیں تم ویزہ لگوا لو ساتھ چلتے ہیں۔‘‘
’’کیا؟؟؟ ‘‘ہم نے حسب ضرورت آنکھیں پھاڑیں۔
’’ویزہ کیا ہمارا تو شناختی کارڈ بھی نہیں بنا۔‘‘
’’اُف!!! ‘‘انہوں نے سر پکڑ لیا۔ ہم سے پیچھا چھڑانا آسان نہ تھا۔
’’اب کیا کریں؟؟؟ چلو سب ادھر آؤ۔ ‘‘انہوں نے آواز دے کر سارا گھر جمع کرلیا۔
’’کوئی ترکیب سوچو کہ یہ ہمارے ساتھ جاسکے۔ ‘‘
فوراً بھانت بھانت کی بولیاں شروع ہوگئیں۔ مگر کیا مجال کسی نے سنجیدہ مشورہ دیا ہو۔ ایک گھنٹے بعد ہم نے اعلان کردیا۔’’بس، بہت سن لیا۔ اب ہمیں سمجھ میں آگیا۔‘‘
’’کیا؟؟؟‘‘ سب نے پُرشوق لہجہ میں پوچھا۔ شاید یہی سمجھا کہ ان کے منہ سے بے دھیانی میں دھیان گیان کی کوئی بات نکل گئی ہے۔
’’یہی کہ یہ کام آپ لوگوں کے بس کا نہیں، ہمیں خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔‘‘
سب کے منہ لٹک گئے۔
انہیں لٹکے ہوئے مونہوں کے ساتھ چھوڑ کر ہم گھر لوٹ آئے۔
دل میں ارادہ رچ بس گیا تھا کہ انڈیا جانا ہے، ضرور جانا ہے۔ یہ تو معلوم کرلیا تھا کہ ویزہ لگنے کے کیا مراحل ہیں۔ سب سے پہلے شناختی کارڈ بنوانا تھا۔ چناں چہ اسی رات شناختی کارڈ سے متعلق ضروری اور غیر ضروری دستاویزات کی فوٹو کاپیاں کروائیں، اماں سے پیسے اینٹھے اور صبح ہونے کے انتظار میں رات بھر میٹھے سپنے دیکھتے رہے۔
صبح اٹھے تو دیکھا گھپ اندھیرا ہے اور موسلا دھار بارش ۔۔۔
ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اماں سارے گھر میں خوشی چھپائے پھر رہی تھیں۔ ویسے بھی انہیں امید تھی کہ ہوگا کچھ نہیں، بچے کو شوق پورا کرنے دو، نہ شناختی کارڈ ہے نہ پاسپورٹ۔ ایسے میں کون جائے گا دلّی۔ یعنی دلّی کافی سے بھی زیادہ دور است!!!
’’او بھائی کدھر؟؟؟‘‘ ہم دروازہ کھول کر باہر نکل رہے تھے تبھی اماں پیچھے سے دھاڑیں ۔
’’شناختی کارڈ کے دفتر۔‘‘ ہم نے اپنے پیچھے دروازہ بند کرتے ہوئے جواب دیا۔
کسی ڈرامے کا سین ہوتا تو یقیناً اماں کو بے ہوش ہوکر گرتے ہوئے دکھایا جاتا یا گر کر بے ہوش ہوتے۔ ویسے بھی نہ یہ ڈرامہ تھا نہ اماں ایکٹنگ کررہی تھیں۔ خیر اماں ڈرامے تو خوب کرتی ہیں مگر افسوس وہ نشر نہیں ہوپاتے۔
باہر موسلادھار بارش، تند و تیز ہوائیں اور بجلیاں تڑپاتے گرج دار بادل تھے۔ادھر ہمارے دل کی تڑپ کہ ایک ایک دن قیمتی ہے، ہمارے پاس ضائع کرنے کے لیے کوئی وقت نہیں۔
گلیاں ویران تھیں اور سڑکیں سنسان۔ دوکانیں کھلی تھیں مگر گاہک اکا دُکا۔ نہ جانے کون لوگ ہوتے ہیں جو ہر صورت حال میں نظر آتے ہیں۔ کیا مجال کبھی سڑکوں پر کوئی بھی نظر نہ آئے، ہر وقت کوئی نہ کوئی موجود رہتا ہے۔ اور جسے موجود ہونا چاہیے وہ غیر حاضر یعنی رکشا ٹیکسی۔
کافی انتظار کے بعد ایک کھٹارہ ٹیکسی ہارن بجاتی، چولیں ہلاتی، وائپر چلاتی نظر آئی۔ اس وقت وہ ہمیں ہزار مرسڈیز سے زیادہ قیمتی لگی۔ ہم نے فوراً ہاتھ دے کر روکا، اور وہ رک بھی گئی، جھٹ دروازہ کھولا اور اندر گھس کر بیٹھ گئے۔
’’او بھئی کدر جائے گا؟؟؟‘‘ ٹیکسی ڈرائیور نے بے زاری سے پوچھا۔
’’شناختی کارڈ کے دفتر جائے گا۔‘‘
’’اتنا برسات میں ہم صرف اپنے گھر جائے گا۔‘‘ ٹیکسی والے بابا نے صاف انکار کردیا۔
’’دیکھو بابا ام کو بہت جلدی انڈیا جانا ہے، اس کے لیے جلدی میں بوت جلدی شناختی کارڈ بنوانا ہے ورنہ امارا آنٹی ام کو چوڑ کے چلاجائے گا۔‘‘ بس ہمارے رونے کی کسر رہ گئی تھی کہ ٹیکسی والے بابا کا دل پسیج گیا اور وہ ہمارے لارے لپے میں آگیا۔ ٹیکسی خراماں خراماں، گاہ گڑھوں سے بچتی گاہ پھنستی کھڑکھڑاتی ہوئی جانب منزل چلی، یہاں تک کہ شناختی کارڈ کے دفتر جا اتارا۔وہاں لوگ اپنا کام چھوڑ کے ہمیں دیکھنے لگے، کون اس برسات میں آسمان سے برس گیا۔ خیر برستی برسات میں وہی لوگ تھے جو بارش سے پہلے آگئے تھے۔ اب ہمارا کام آسان ہوگیا تھا۔ دفتری بابوؤں کے اللے تللے برداشت کیے، کئی فارموں کی خانہ پری کی، ان کے کہے پر جگہ جگہ قیمتی آٹو گراف دئیے اور ارجنٹ کا آرڈر دے کر فاتحانہ انداز میں باہر نکل آئے۔ گویا لال قلعے پر ہرا جھنڈا لہرا ہی دیا ہو!!!
اس سارے ہنگامے میں صبح سے دوپہر ہوچکی تھی، فضاؤں میں ظہر کی اذان کی آواز تھی اور ہمارے دل میں خوشیوں کا طوفان۔ خدا خدا کرکے ایک مرحلہ طے ہوا۔ اب ہفتہ دس دن کے لیے راوی آرام ہی آرام لکھ رہا ہے۔۔۔
آپ بھی کل تک کے لیے تھوڑا آرام کرلیں، کیوں کہ آگے بہت کام کرنا ہے۔۔۔
ہمارا سفرنامہ پڑھنے کا!!!

سرحد کے اس پار ٭ تبصرہ جات
وقت نکال کر خوب مزے لے کر پڑھیں گے آپ کا سفر نامہ،،، کافی دلچسپ معلوم ہوتا ہے۔ سید عمران
 

عرفان سعید

محفلین

سید عمران

محفلین
میرے اس مراسلے تک سید عمران صاحب نے اپنے سفر نامے کی جتنی بھی اقساط پیش کی ہیں فرداََ فرداََ سب کو پڑھا ہے ۔
ماشاءاللہ روز قلم بے بہا ہو یونہی چھٹکتی چھٹکتی تحریریں آپ اردو محفل کے ساتھ بانٹے رہیں۔اللہ آپ کے قلم،تخیل،عمر ،انداز بیان میں بے شمار ترقیاں عطا فرمائیں۔آپ کو باقاعدہ لکھنا چاہیے امید ہے آپ کا قلم ایک خوبصورت صدا ثابت ہوگا۔
پسند فرمانے پر شکرگزار م۔۔۔
دعا پر آمین!!!
 

فرقان احمد

محفلین
اواخر اکتوبر کی خنک شام، عصر کے بعد سنہری رنگ میں رنگا ماحول اور سامنے کُھلے ہوئے وسیع و عریض زمین اور آسمان۔ کافی دیر یونہی بے مقصد ٹہلتے رہے، فطرت کا حسن اور رنگ و روپ دل و نگاہوں میں سموتے رہے، ان لمحات کے لطف کا قطرہ قطرہ کشید کرتے رہے۔ جانتے تھے چند ہی دنوں میں سب ماضی بننے والا ہے، بس یادوں میں باقی رہنے والا ہے۔ ہم نے کُھلے ماحول میں لمبی سانس بھری اور باہر نکل آئے، حال کو ماضی کا روپ دھارنے کی کھلی چھوٹ دے آئے!!!
کیا خوب صورت اسلوب ہے! دل میں موجزن جذبات و احساسات کو آپ نے کمال مہارت سے لفظوں کا روپ دیا ہے۔ بہت اعلیٰ! :)
 

فلسفی

محفلین
تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ معین نے ہوا میں لہراتی بیل کی پونچھ ایک ہاتھ میں پکڑی اور دوسرے ہاتھ میں آنٹی کا ہاتھ پکڑ کر بولا:
’’آنٹی یہ لیں، ذرا دھیان سے پکڑئیے گا۔‘‘
آنٹی جو گردن موڑے اپنے برابر والی سے باتوں میں مصروف تھیں بے دھیانی میں بیل کی دم پکڑ لی۔ لیکن جیسے ہی انتہائی ناگوار للبلی سی دُم اور پونچھ کے بالوں کا احساس ہوا تو گردن موڑ کر دیکھا کہ کیا چیز پکڑ لی۔ جیسے ہی منظر پر نظر پڑی انتہائی لرزہ خیز چیخ ماری،جھٹکے سے دُم چھوڑی، ایک زوردار دھپ معین کے لگائی اور انتہائی کراہت آمیز لہجے میں کہا:
’’اییییہہ۔ کم بخت یہ کیا چیز تھی۔‘‘
’’بیل کی دم تھی۔‘‘ انتہائی اطمینان سے جواب دیا گیا۔
’’میرے ہاتھ میں کیوں دی؟‘‘ لہجہ ایسا تھا جیسے ابھی قے ہوجائے گی۔ بار بار ہاتھ بیل گاڑی سے رگڑتی جاتیں جیسے ان دیکھی گندگی اور جراثیم صاف کر رہی ہوں۔
’’بیل کے پاس بیٹھیں گی تو دم ہی ملے گی، سونے چاندی کے پہاڑ نہیں ۔‘‘ بدلہ لے کر معین کی طبیعت ہلکی ہوچکی تھی اور آنٹی کی بھاری۔
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
:laughing::laughing::laughing:
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 

سید عمران

محفلین
حالاں کہ تابش بھائی نے لڑی کو اوپر لانے کی ذمہ داری عدنان بھائی کو سونپی تھی۔۔۔
اور انہوں نے ہامی بھی بھر لی تھی!!!
 

فہد اشرف

محفلین
بس نے آگرہ فورٹ کے سامنے اتار دیا۔
ابھی تاج محل دور ہے۔۔۔
تاج محل اتنی آسانی سے جھلک نہیں دِکھاتا
آگرہ قلعے سے تاج محل کی جھلکیاں
20190618-111018.jpg


20190618-113042.jpg


20190618-113925.jpg
 
Top